Monday, 3 March 2014

Lucky Parents of 12 Children


12بچوں کی بہترین پرورش کا کرشمہ 
بچے پالنے والے اور بچوں کی تربیت کرنے والے والدین کیلئے ایک نایاب تحریر 

Francis L. Thompsonاور ان کی بیگم کا شمار خوش قسمت والدین میں ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں بارہ بچوں کی دولت سے نوازا انہوں نے پھر اتنے بہترین انداز میں بچوں کی پرورش کی ، ان کو مثالی تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا کہ آج سبھی بچے مطمئن و خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ 
Thompson صاحب ایک امریکی انجنئیر ہیں ۔ انجنئیروں اور سائنس دانوں کی اس یادگار ٹیم کا حصہ رہے ہیں جس نے شب و روز محنت کے بعد ٹی وی نشریات براہ راست نشر کرنے والے اولین مواصلاتی سیارے (سٹلائیٹ ) ایجاد کئے۔ انہوں نے اپنے وطن کے دفاع کی خاطر میزائلوں کو کنٹرول کرنے والے مواصلاتی سیاروں کی تیاری میں بھی حصہ لیا۔ 
مارچ1974 میں ان کی شادی ہوئی۔ ان کی خوش قسمتی کہ ایک سلجھی ہوئی اورتعاون پسند بیگم ان کو مل گئی۔ اگلے ساڑھے پندرہ برس میں ان کے ہاں بارہ بیٹے بیٹیاں پیدا ہوئے۔ یہ بذات خود حیرت انگیز بات ہے کیونکہ کئی امریکی امریکی جوڑے بچے پیدا کرنا پسند ہی نہیں کرتے بچوں کی ٹیم بنا لینا تو دور کی بات ہے۔ آج ان کا سب سے بڑا بیٹا37سال جبکہ سب سے چھوٹا بیٹا22سال کا ہے۔ 
Thompsonنے جیسے ہی اپنی تعلیم مکمل کی تو انہیں فوری پرکشش ملازمت بھی مل گئی۔ وہ پھر تقی کی منازل طے کرتے رہے۔ اسی باعث اوائل زندگی ہی میں ان کے پاس پیسے کی فراوانی ہو گئی۔ سو Thompson جوڑا چاہتا تو وہ اپنی اولاد کو سونے کے نوالے کھلا سکتا تھا ۔ مگر انھوں نے بچوں کی موزوں تربیت کرنے کے واسطے انھیں آرام و آسائش کی زندگی سے دور رکھنے کا فیصلہ کیا ۔ جوڑے نے پھر ایسا نظام پرورش تشکیل دیا جو بظاہر خاصا سخت اور کڑا لگتا ہے لیکن اس نے نتائج بڑے عمدہ اور اطمینان بخش دیئے۔ 
Thompson کے اسی عمدہ نظام پرورش کے مطابق ان کے بارہ بچوں نے بخوبی اخلاقی و دنیاوی تعلیم و تربیت پائی۔ اب بیٹے عمدہ ملازمتیں کر رہے ہیں تو بیٹیاں بھی اپنے گھروں میں خوش ہیں۔ سب کی شادیا ں ہو چکی ہیں اور اب یہ جوڑا یعنی Thompson اور اس کی بیوی 19پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں سے دل بہلاتے اور ہنستے بولتے وقت کاٹتا ہے۔ جوڑے کی اولاد اپنے بچوں کو بھی وہی اقدار و اصول سکھا رہی ہے جو انہوں نے والدین سے پائے ہیں۔ محنت دیانتداری ، خود اعتمادی ، جذبہ تشکر اور دوسروں سے ہمدردی ۔ پیار و محبت کی اس خوبصورت اور انمول لڑی نے Thompson خاندان کو جوڑ رکھا ہے۔ جوڑے کے نزدیک یہ ان کے منفرد نظام پرورش ہی کا کرشمہ ہے ۔ اس نظام پرورش کو یہاں پیش کیاجاتا ہے جو انہوں نے اپنے 12بچوں کی پرورش کرنے کیلئے اپنایا ہے ۔ اس سے پاکستانی والدین بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ 
ا۔ گھر کے کام 
جو بچہ 3سال کا ہوجاتا اس سے گھر کے غسل خانے صاف کروائے جانے لگتے۔ چاہے وہ غسل خانے صحیح طرح سے صاف نہ کرتا مگر 4برس کا ہونے تک اتنا ماہر ضرور ہو جاتا کہ اپنا کام عمدگی سے کرسکے۔ ہر ہفتے بچہ جتنا زیادہ اور معیاری کام کرتا اسے اسی حساب سے جیب خرچ بھی زیادہ یا کم ملتا۔ جو بچہ 8سال کا ہوجاتا ، اس سے اپنے کپڑے خود دھلائے جانے لگتے۔ ہفتے میں ایک دن کپڑوں کی دھلائی کے لیے مقرر تھا۔ جو بچہ پڑھنے کے قابل ہو جاتا تو والدین اس سے کھانے کی ترکیب پڑھوا کر کھانا تیار کراتے۔ بچے کو یہ بھی سیکھنا پڑتا کہ ایک وقت میں دو کھانے کیسے اور کیوں پکائے جاتے ہیں۔ Thompson اور اس کی بیوی نے اپنے بچوں اور بچیوں کو سینا پرونا بھی اعتماد کیساتھ سکھایا۔ 
۲۔ مطالعہ کا وقت
والدین نے دوران تربیت شروع سے تعلیم کو سب سے مقدم رکھا۔ روزانہ شام 6سے 8 بجے تک کا وقت پڑھائی کے لیے مخصوص تھا۔ تب کسی بچے کو ٹی وی دیکھنے یا کمپیوٹر پہ بیٹھنے کی اجازت نہ تھی۔ وہ کسی قسم کا کھیل بھی نہیں کھیل سکتا تھا۔ اگر بچوں کو ہوم ورک نہ ملتا تو وہ ان دو گھنٹوں میں کتب و رسائل کا مطالعہ کرتے۔ جو چھوٹے بچے پڑھ نہیں سکتے تھے انہیں کوئی بڑا بچہ کتاب پڑھ کر سناتا۔ دوران پڑھائی Thompson جوڑا بچوں کے ساتھ ہی بیٹھتا اور ان کی ہر ممکن مدد کرتا۔ دو گھنٹے بعد بچے کوئی بھی من پسند کھیل کھیلتے یا سرگرمی اپنا لیتے۔ سکول میں پڑھائی سے اگر ایک بچہ یہ شکایت کرتا کہ کوئی استاد اسے تنگ کرتا ہے یا صحیح نہیں پڑھاتا تو اس کو کہا جاتا کہ وہ اپنا مسئلہ خود حل کرے۔ تاکہ وہ اپنے مسائل حود سلجھانا سیکھ جائے۔ ظاہر ہے عملی زندگی میں قدم رکھ کر اسے قدم قدم پہ مسئلوں سے پالا پڑنے والا تھا۔ یوں جوڑا کبھی استاد سے رابطہ نہ کرتابلکہ بچے پر یہ ذمے داری ڈال دیتا کہ وہ معاملہ خود سلجھالے۔ 
۳۔ کھانا پینا 
گھر میں یہ روایت تھی کہ سبھی مل جل کر ناشتہ کرتے اور کھانا کھاتے۔ ناشتہ ٹھیک صبح ساڑھے پانچ بجے کیاجاتا ۔ پھر بچے سکول جانے کی تیاری کرنے لگتے۔ رات کا کھانا شام ساڑھے پانچے شروع ہو جاتا۔ تھامپسن جوڑے کا اصول تھا کہ دوران طعام پہلے وہ ناپسندیدہ غذائی (عموماً سبزیاں )بچوں کے سامنے رکھتے پھر دوسری پسندیدہ غذاؤں کی باری آتی۔ ہر بچہ ناپسند کھانا چھوڑ سکتا تھا مگر جب اسے بھوک تنگ کرتی تو اسے وہی غذا ہی کھانی پڑتی۔ تھامپسن جوڑے نے بچوں کو ہر قسم کے کھانے کھلائے۔ یہی ویہ ہے کہ آج وہ خوشی خوشی ہر غذا کھا لیتے ہیں اور ناک بھنوں نہیں چڑھاتے۔ انہیں کم کھانے کی بھی تربیت دی گئی۔ اسی باعث بارہ کے بارہ بچے تندرست و سمارٹ اور چاق و چوبند ہیں۔ موٹاپا ان سے کوسوں دور ہے۔ 
۴۔ غیر نصابی سرگرمیاں۔ 
ہر بچے کے لیے ضروری تھا کہ وہ کوئی کھیل کھیلے۔ کھیل کوئی بھی سکتا تھا فٹ بال، تیراکی، ٹینس وغیرہ مگر کھیلنا لازمی تھا۔ ہر بچے پر یہ لازم تھا کہ وہ کسی کلب کا رکن ضرور بنے ۔ مثلاً بوائے سکاؤٹس ، گرل اسکاؤٹس، ڈرامٹیک کلب، ادبی کلب وغیرہ۔ یہ بھی ضروری تھا کہ ہر بچہ کوئی نہ کوئی فلاحی کام انجام دے۔ مثلاً چرچ کے کام کرنا اور مصیبت زدہ انسانوں کی مدد وغیرہ۔ 
۵۔ آزادی کی حدود
جو بچہ یا بچی 16سال کا ہوتا ، کار چلانے کے قابل بن جاتا، تب اس کے لیے ایک کار خریدی جاتی۔ کار نئی نہیں بلکہ ٹوٹی پھوٹی ہوتی ، تاکہ لڑکا ہوتا یا لڑکی اسے اپنی ذہانت ، گیراج میں پڑے اوزاروں ، رہنما کتب، بڑے بھائیوں کی مدد اور اپنے جیب خرچ کے ذریعے ہی کار کی مرمت کرنا پڑتی ۔ والدین بس بچے کو نئے پرزہ جات خرید کر دیتے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر بچہ اپنی کار تیار کر کے اسے بڑے سلیقے سے رکھتا اور طریقے سے چلاتا۔ اسے یہ بھی فخھ ہوتا کہ وہ اپنی تیار کردہ گاڑی چلا رہا ہے ۔ آج تک تھامپسن جوڑے کے کسی بچے کا چالان نہیں ہوا۔ جو کہ ایک ورلڈ ریکارڈ ہے۔ اگر کسی وجہ سے کسی بچے یا بچی سے غلطی ہو جاتی تو اسے سزا نہیں ملتی تاہم بچے کو خود خمیازہ بھگتنا پڑتا اور وہی غلطی درست کرتا۔ مثلاً ایک بارہ سالہ ٹونی نے ابو کی کار کے ریڈی ایٹر میں انجن آئل ڈال دیا۔ تب ریڈی ایٹر کی مکمل صفائی کے سارے مراحل اسے ہی انجام دینے پڑے۔ غلطی درست کرتے ہوئے عموماً خاصی رقم لگ جاتی مگر تھامپسن جوڑے نے غلطیاں کرنے پر بچوں کو کبھی نہ ڈانٹا اور نہ پیٹا۔ ان کا نظریہ تھا کہ وہ بچوں کی پرورش کر رہے ہیں رقم کی بچت نہیں۔ بارہ برس کا ہوتے ہی بچے کو کمپیوٹر مل جاتا لیکن یہ بھی انہیں خود تیار کرنا پڑتا۔ والدین بس انہیں پروسیسر ، میموری ، کیس، مدر بورڈ، ہارڈ ڈیس، وغیرہ ساری ضروری اشیا خرید کر دیتے ۔ بچہ خود ہی انہیں جوڑتا اور اپنا کمپیوٹر تخلیق کرتا۔ ہر بچے کو اجازت تھی کہ وہ حدود میں رہتے ہوئے اپنی کوئی بھی خواہش پوری کر سکتا ہے ۔ مثلاً اس سے پوچھا جاتا کہ تم نے بستر پر لیٹنا ہے یا اپنا کمرا صاف کرنا ہے۔ والدین اشد ضرورت کے وقت ہی بچوں کو حکم دیتے ورنہ سبھی لگے بندھے گھریلو اصولوں پہ عمل کرتے ۔ اس طرز حیات سے بچوں کو احساس ہوتا کہ وہ اپنی زندگی پہ بھی کنٹرول رکھتے ہیں۔ 
۶۔مل جل کر رہنے میں برکت
یہ لازم تھا کہ روزمرہ معاملات خصوصاً پڑھائی میں بچے ایک دوسرے کی مدد کریں ۔ سو پانچویں جماعت کا طالب علم بھائی چھوٹے بہن بھائیوں کو کہانی یا معلوماتی تحریر پڑ کر سناتا۔ جبکہ زیادہ بڑے بچے چھوٹوں کو ریاضی، سائنس یا الجبرا پڑھاتے اور یوں ان کے مدد گار بنتے۔ جب بچے زیادہ ہو جاتے تو والدین ہر بڑے بجے کی یہ ڈیوٹی لگا تے کہ وہ فلاں چھوٹے بھائی یا بہن کو پڑھائے ۔ اس کا خیال رکھے اور روزمرہ کاموں میں اس کی مدد کرے۔ تھامپسن جوڑے نے کبھی آمرانہ انداز نہیں اپنایا ، وہ زندگی گزارنے کے اصول بناتے وقت بجوں سے بھی رائے و مشورے لیتے ۔ بچوں کو یہ حق حاصل ترا کہ وہ کسی اصول میں موزوں تبدیلی لا سکتے ہیں۔ ایک بار جو اصول زندگی میں طے ہو جاتا اس پہ ہر حال میں عمل کیاجاتا۔ چنانچہ انتہائی ضروری کام کے علاوہ روزانہ6تا8بجے پڑھائی لازمی تھی۔ رات 10بجتے ہی گھر میں کرفیو لگ جاتا اور کسی بچے کو اپنے کمرے سے نکلنے کی اجازت نہ ہوتی۔ 
۷۔سیر و تفریح
گرمیوں کی چھٹیوں میں والدین بچوں کو سیر کرانے کسی عمدہ تفریح مقام پر لے جاتے۔ تب بھی منفرد انداز اختیار کیاجاتا ۔ وہ ہوٹل میں ٹھہر سکتے تھے مگر کیمپنگ کو ترجیح دیتے۔ یوں خیموں میں دن و راتیں گزارکے بچے سیکھتے کہ بارش، طوفان اور خطر ناک جانوروں جیسی قدرتی آفتوں کا مقابلہ کیسے کیاجاتا ہے؟ تھامپسن اکثر بچوں کو ہائکنگ کرانے لے جاتے اور یوں انہیں سخت جان بننے میں مدد دیتے۔ جو بچہ کچھ بڑاہوتا اسے یورپ یا کسی دوسرے امریکی شہر بذریعہ ہوائی جہاز عزیز و اقارب کے پاس بھجوایاجاتا ۔ یوں تنہا سفر کرنے سے بچے کا خوف ، جھجک ختم ہو جاتی۔ تب وہ یہ بھی جانتا کہ مصیبت کے ہر لمحے والدین اس کی اعانت کرتے ہیں مگر اسے خود بھی پرواز کرنا سیکھنا چاہیے۔ 
۸۔ پیسا اور مادہ پرستی 
تھامپسن جوڑے کے پاس وافر رقم موجود تھی۔ وہ چاہتے تو ہر بچے کی تعلیم و تربیت پہ معقول رقم خرچ کر سکتے تھے مگر ان کا نظریہ تھا کہ یوں بچے بڑی حد تک والدین کے دست نگر بن جاتے ہیں۔ اسی واسطے انہوں نے کسی کے لیے گھر نہیں خریدا نہ ہی اپنی جیب سے پیسا خرچ کر کے ان کی شادیاں کرائیں حتیٰ کہ کالج کی تعلیم پر بھی اخراجات کم از کم رکھے۔ بچے اپنے پیروں پہ کھڑے ہوئے تو خود ہی ملازمتیں کر کے تمام خرچے برداشت کئے۔ والدین البتہ قدم قدم پہ اولاد کو مشورے ضرور دیتے رہے۔ مثلاً یہ کہ کونسی ملازمت بہتر ہے اور یہ کہ رقم کیسے جمع کی جائے ۔ تھامپسن جوڑا فخریہ کہتا ہے ۔ ہم نے اپنے بچوں کو صرف ضروری مادی اشیاء سے ہی روشنا کرایا ان کے بجائے انہیں علم دیا اور یہ سکھایا کہ کام کیسے کئے جاتے ہیں۔ سو انہوں نے خود ہی تعلیم مکمل کی، انٹرویو کی تیاری کر کے اچھی ملازمتیں پانے میں کامیاب رہے۔ والدین اپنی سالگرہ یا کرسمس کے موقع پر اپنے بچوں کو تحائف ضرور دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ تحفے دینے ، لینے سے محبت بڑھتی ہے چاہے تحفہ کوئی معمولی ہی ہو اسی باعث خاندان والے کئی تحائف گھر ہی میں تیار کرتے ہیں۔ 
حقیقی دنیا
تھامپسن جوڑا یہی چاہتا ہے کہ سدا اپنے بچوں سے محبت کرتا رہے اور وہ اچھائی اپنائیں یا برائی ۔ مگر بدی کا راستہ چن لینے پر بچے کو نتائج خود ہی بھگتنے ہوں گے ۔ جوڑا اس قول پر یقین رکھتا ہے ۔ جو بوؤ گے سو کاٹو گے۔ 

Why Mobile Balance Waste?


موبائل بیلنس کیسے غائب ہو جاتا ہے؟اور کیوں؟
جدید ٹیکنا لوجی ے لیس موبائلز کا سستے ہونے کے سبب استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ان جدید سوفٹ ویئر سے مزید موبائلز کا براہ راست فائدہ (ٹی وی ، اخبار کے علاوہ ) موبائل کنکشن فراہم کرنے والی کمپنیوں کو ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج کل ہر کوئی بیلنس غائب ہونے کی شکایت کرتا نظر آتا ہے اور کچھ صارف تو عدم معلومات کے سبب ریچارج کرتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں ۔ یہاں ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ آخر موبائل بیلنس کیسے غائب ہو جاتا ہے؟ بعض کمپنیاں از خود کوئی سروس بنا مانگے آپ کے موبائل پر ایک ماہ یا دو ماہ کے لیے فعال (Active) کر دیتی ہیں۔ جس کا اظہار وہ ڈھکے چھپے انداز میں کر دیتی ہیں مگر صارف کو اس کا پتہ بھی نہیں چلتا۔ مقررہ مدت ختم ہونے کے بعد بیلنس غائب ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ جب شکایت کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ جناب آپ یہ سروس استعمال کر رہے ہیں لہذا یہ اس کے سروس چارجز ہیں۔ 
بعض کمپنیاں پرکشش انعامات کی تشہیر کر کے سوالات کا سلسلہ شروع کر دیتی ہیں اور پھر جب صارف ایک سوال کا جواب دیتا ہے تو پھر سوالات کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور صارف کے ایک سوال کے جواب کے بعد مختلف دلچسپ پیغامات کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔ آپ بہت اچھا کھیل رہے ہیں مزید کھیل کر انعامی رقم کو یقینی بنائیں یا انعام آپ سے چند سوالوں کی دوری پر ہے وغیرہ۔ اور اس طرح اس کھیل کا نتیجہ صارف کے بیلنس کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے۔ 
دوسرا مسئلہ صارفین کے ساتھ یہ پیش آتا ہے کہ جدید آپریٹنگ سسٹم سے لیس موبائلز میں انسٹال کچھ Applicationsصارف کی اجازت کے بغیر از حود انٹر نیٹ سے رابطہ قائم لیتی ہیں اور اس سلسلہ میں آپ کے موبائل میں موجود GPRSکی سہولت کو فعال(Active) کر دیتی ہیں۔ GPRS جوں ہی آن ہوتا ہے تو آپ کے موبائل میں موجود سم سے بیلنس غائب ہونا شروع ہو جاتا ہے جبکہ صارف ا س ساری کاروائی سے بالکل بے خبر ہوتا ہے۔ اور کمپنی جب استعمال شدہ بیلنس کی تفصیل ا گلے روز یا اسی روز بذریعہ SMS روانہ کرتی ہے یا صارف خود مددگار لائن سے معلوم کرتا ہے تو اس وقت تک بیلنس ضائع ہو چکا ہوتا ہے۔ 
یاد رکھیں یہاں ہم آپ کو بیلنس بچانے کی چند تجاویز پیش کرتے ہیں۔ ان پر عمل کر کے آپ کسی حد تک اپنے بیلنس کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔ متعلقہ موبائل فون کمپنی میں فون کر کے اپنا GPRS فوراً بند کروا دیں۔ تاکہ اگر آپ کے سیٹ میں موجود کوئی Applications اپ ڈیٹ ہونے کی کوشش بھی کرے تو وہ GPRS سروس کو آن نہ کر سکے۔ ایسی کوئی سروس ہر گز نہ لیں جس کے بارے میں آپ کو کہا گیا ہو کہ یہ سروس متعلقہ کمپنی کے تمام صارفین کے موبائل پر مفت فراہم کی گئی ہے۔ موبائل میں موجود خاص طور پر Android موبائلز میں آٹو اپ ڈیٹ کا آپشن بند (Disable) کر دیں۔ اگر موبائل میں نیٹ استعمال کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو کوشش کریں کہ وائی فائی نیٹ استعمال کریں۔ کیونکہ جدید موبائلز آپریٹنگ سسٹم پر تمام ویپ سائٹ (HTML5) وغیرہ کھل جاتی ہیں۔ جو کہ Download ہوتے ہی کمپنی کی طرف سے فراہم کی گئی انٹر نیٹ سپیس کا بہت سا حصہ فوراً کھا جاتی ہیں۔ 
نتیجہ چند ویب سائٹس کے وزٹ سے ہی انٹر نیٹ کے لیے فراہم کی گئی سپیس ختم ہو جاتی ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جب انٹر نیٹ استعمال ہو رہا ہو تا ہے تو اس دوران پس منظر میں چلنے والی Applications بھی انٹر نیٹ سے اپنا رابطہ استوار کر لیتی ہیں جس سے کمپنی کی جانب سے فراہم کی گئی سپیس تیزی سے کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اور اضافی انٹر نیٹ کے استعمال پر بیلنس خرچ ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ امید ہے کہ ان تجاویز پر عمل کر کے آپ اپنا بیلنس محفوظ کر بنا لیں گے۔