Monday, 3 March 2014

Lucky Parents of 12 Children


12بچوں کی بہترین پرورش کا کرشمہ 
بچے پالنے والے اور بچوں کی تربیت کرنے والے والدین کیلئے ایک نایاب تحریر 

Francis L. Thompsonاور ان کی بیگم کا شمار خوش قسمت والدین میں ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں بارہ بچوں کی دولت سے نوازا انہوں نے پھر اتنے بہترین انداز میں بچوں کی پرورش کی ، ان کو مثالی تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا کہ آج سبھی بچے مطمئن و خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ 
Thompson صاحب ایک امریکی انجنئیر ہیں ۔ انجنئیروں اور سائنس دانوں کی اس یادگار ٹیم کا حصہ رہے ہیں جس نے شب و روز محنت کے بعد ٹی وی نشریات براہ راست نشر کرنے والے اولین مواصلاتی سیارے (سٹلائیٹ ) ایجاد کئے۔ انہوں نے اپنے وطن کے دفاع کی خاطر میزائلوں کو کنٹرول کرنے والے مواصلاتی سیاروں کی تیاری میں بھی حصہ لیا۔ 
مارچ1974 میں ان کی شادی ہوئی۔ ان کی خوش قسمتی کہ ایک سلجھی ہوئی اورتعاون پسند بیگم ان کو مل گئی۔ اگلے ساڑھے پندرہ برس میں ان کے ہاں بارہ بیٹے بیٹیاں پیدا ہوئے۔ یہ بذات خود حیرت انگیز بات ہے کیونکہ کئی امریکی امریکی جوڑے بچے پیدا کرنا پسند ہی نہیں کرتے بچوں کی ٹیم بنا لینا تو دور کی بات ہے۔ آج ان کا سب سے بڑا بیٹا37سال جبکہ سب سے چھوٹا بیٹا22سال کا ہے۔ 
Thompsonنے جیسے ہی اپنی تعلیم مکمل کی تو انہیں فوری پرکشش ملازمت بھی مل گئی۔ وہ پھر تقی کی منازل طے کرتے رہے۔ اسی باعث اوائل زندگی ہی میں ان کے پاس پیسے کی فراوانی ہو گئی۔ سو Thompson جوڑا چاہتا تو وہ اپنی اولاد کو سونے کے نوالے کھلا سکتا تھا ۔ مگر انھوں نے بچوں کی موزوں تربیت کرنے کے واسطے انھیں آرام و آسائش کی زندگی سے دور رکھنے کا فیصلہ کیا ۔ جوڑے نے پھر ایسا نظام پرورش تشکیل دیا جو بظاہر خاصا سخت اور کڑا لگتا ہے لیکن اس نے نتائج بڑے عمدہ اور اطمینان بخش دیئے۔ 
Thompson کے اسی عمدہ نظام پرورش کے مطابق ان کے بارہ بچوں نے بخوبی اخلاقی و دنیاوی تعلیم و تربیت پائی۔ اب بیٹے عمدہ ملازمتیں کر رہے ہیں تو بیٹیاں بھی اپنے گھروں میں خوش ہیں۔ سب کی شادیا ں ہو چکی ہیں اور اب یہ جوڑا یعنی Thompson اور اس کی بیوی 19پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں سے دل بہلاتے اور ہنستے بولتے وقت کاٹتا ہے۔ جوڑے کی اولاد اپنے بچوں کو بھی وہی اقدار و اصول سکھا رہی ہے جو انہوں نے والدین سے پائے ہیں۔ محنت دیانتداری ، خود اعتمادی ، جذبہ تشکر اور دوسروں سے ہمدردی ۔ پیار و محبت کی اس خوبصورت اور انمول لڑی نے Thompson خاندان کو جوڑ رکھا ہے۔ جوڑے کے نزدیک یہ ان کے منفرد نظام پرورش ہی کا کرشمہ ہے ۔ اس نظام پرورش کو یہاں پیش کیاجاتا ہے جو انہوں نے اپنے 12بچوں کی پرورش کرنے کیلئے اپنایا ہے ۔ اس سے پاکستانی والدین بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ 
ا۔ گھر کے کام 
جو بچہ 3سال کا ہوجاتا اس سے گھر کے غسل خانے صاف کروائے جانے لگتے۔ چاہے وہ غسل خانے صحیح طرح سے صاف نہ کرتا مگر 4برس کا ہونے تک اتنا ماہر ضرور ہو جاتا کہ اپنا کام عمدگی سے کرسکے۔ ہر ہفتے بچہ جتنا زیادہ اور معیاری کام کرتا اسے اسی حساب سے جیب خرچ بھی زیادہ یا کم ملتا۔ جو بچہ 8سال کا ہوجاتا ، اس سے اپنے کپڑے خود دھلائے جانے لگتے۔ ہفتے میں ایک دن کپڑوں کی دھلائی کے لیے مقرر تھا۔ جو بچہ پڑھنے کے قابل ہو جاتا تو والدین اس سے کھانے کی ترکیب پڑھوا کر کھانا تیار کراتے۔ بچے کو یہ بھی سیکھنا پڑتا کہ ایک وقت میں دو کھانے کیسے اور کیوں پکائے جاتے ہیں۔ Thompson اور اس کی بیوی نے اپنے بچوں اور بچیوں کو سینا پرونا بھی اعتماد کیساتھ سکھایا۔ 
۲۔ مطالعہ کا وقت
والدین نے دوران تربیت شروع سے تعلیم کو سب سے مقدم رکھا۔ روزانہ شام 6سے 8 بجے تک کا وقت پڑھائی کے لیے مخصوص تھا۔ تب کسی بچے کو ٹی وی دیکھنے یا کمپیوٹر پہ بیٹھنے کی اجازت نہ تھی۔ وہ کسی قسم کا کھیل بھی نہیں کھیل سکتا تھا۔ اگر بچوں کو ہوم ورک نہ ملتا تو وہ ان دو گھنٹوں میں کتب و رسائل کا مطالعہ کرتے۔ جو چھوٹے بچے پڑھ نہیں سکتے تھے انہیں کوئی بڑا بچہ کتاب پڑھ کر سناتا۔ دوران پڑھائی Thompson جوڑا بچوں کے ساتھ ہی بیٹھتا اور ان کی ہر ممکن مدد کرتا۔ دو گھنٹے بعد بچے کوئی بھی من پسند کھیل کھیلتے یا سرگرمی اپنا لیتے۔ سکول میں پڑھائی سے اگر ایک بچہ یہ شکایت کرتا کہ کوئی استاد اسے تنگ کرتا ہے یا صحیح نہیں پڑھاتا تو اس کو کہا جاتا کہ وہ اپنا مسئلہ خود حل کرے۔ تاکہ وہ اپنے مسائل حود سلجھانا سیکھ جائے۔ ظاہر ہے عملی زندگی میں قدم رکھ کر اسے قدم قدم پہ مسئلوں سے پالا پڑنے والا تھا۔ یوں جوڑا کبھی استاد سے رابطہ نہ کرتابلکہ بچے پر یہ ذمے داری ڈال دیتا کہ وہ معاملہ خود سلجھالے۔ 
۳۔ کھانا پینا 
گھر میں یہ روایت تھی کہ سبھی مل جل کر ناشتہ کرتے اور کھانا کھاتے۔ ناشتہ ٹھیک صبح ساڑھے پانچ بجے کیاجاتا ۔ پھر بچے سکول جانے کی تیاری کرنے لگتے۔ رات کا کھانا شام ساڑھے پانچے شروع ہو جاتا۔ تھامپسن جوڑے کا اصول تھا کہ دوران طعام پہلے وہ ناپسندیدہ غذائی (عموماً سبزیاں )بچوں کے سامنے رکھتے پھر دوسری پسندیدہ غذاؤں کی باری آتی۔ ہر بچہ ناپسند کھانا چھوڑ سکتا تھا مگر جب اسے بھوک تنگ کرتی تو اسے وہی غذا ہی کھانی پڑتی۔ تھامپسن جوڑے نے بچوں کو ہر قسم کے کھانے کھلائے۔ یہی ویہ ہے کہ آج وہ خوشی خوشی ہر غذا کھا لیتے ہیں اور ناک بھنوں نہیں چڑھاتے۔ انہیں کم کھانے کی بھی تربیت دی گئی۔ اسی باعث بارہ کے بارہ بچے تندرست و سمارٹ اور چاق و چوبند ہیں۔ موٹاپا ان سے کوسوں دور ہے۔ 
۴۔ غیر نصابی سرگرمیاں۔ 
ہر بچے کے لیے ضروری تھا کہ وہ کوئی کھیل کھیلے۔ کھیل کوئی بھی سکتا تھا فٹ بال، تیراکی، ٹینس وغیرہ مگر کھیلنا لازمی تھا۔ ہر بچے پر یہ لازم تھا کہ وہ کسی کلب کا رکن ضرور بنے ۔ مثلاً بوائے سکاؤٹس ، گرل اسکاؤٹس، ڈرامٹیک کلب، ادبی کلب وغیرہ۔ یہ بھی ضروری تھا کہ ہر بچہ کوئی نہ کوئی فلاحی کام انجام دے۔ مثلاً چرچ کے کام کرنا اور مصیبت زدہ انسانوں کی مدد وغیرہ۔ 
۵۔ آزادی کی حدود
جو بچہ یا بچی 16سال کا ہوتا ، کار چلانے کے قابل بن جاتا، تب اس کے لیے ایک کار خریدی جاتی۔ کار نئی نہیں بلکہ ٹوٹی پھوٹی ہوتی ، تاکہ لڑکا ہوتا یا لڑکی اسے اپنی ذہانت ، گیراج میں پڑے اوزاروں ، رہنما کتب، بڑے بھائیوں کی مدد اور اپنے جیب خرچ کے ذریعے ہی کار کی مرمت کرنا پڑتی ۔ والدین بس بچے کو نئے پرزہ جات خرید کر دیتے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر بچہ اپنی کار تیار کر کے اسے بڑے سلیقے سے رکھتا اور طریقے سے چلاتا۔ اسے یہ بھی فخھ ہوتا کہ وہ اپنی تیار کردہ گاڑی چلا رہا ہے ۔ آج تک تھامپسن جوڑے کے کسی بچے کا چالان نہیں ہوا۔ جو کہ ایک ورلڈ ریکارڈ ہے۔ اگر کسی وجہ سے کسی بچے یا بچی سے غلطی ہو جاتی تو اسے سزا نہیں ملتی تاہم بچے کو خود خمیازہ بھگتنا پڑتا اور وہی غلطی درست کرتا۔ مثلاً ایک بارہ سالہ ٹونی نے ابو کی کار کے ریڈی ایٹر میں انجن آئل ڈال دیا۔ تب ریڈی ایٹر کی مکمل صفائی کے سارے مراحل اسے ہی انجام دینے پڑے۔ غلطی درست کرتے ہوئے عموماً خاصی رقم لگ جاتی مگر تھامپسن جوڑے نے غلطیاں کرنے پر بچوں کو کبھی نہ ڈانٹا اور نہ پیٹا۔ ان کا نظریہ تھا کہ وہ بچوں کی پرورش کر رہے ہیں رقم کی بچت نہیں۔ بارہ برس کا ہوتے ہی بچے کو کمپیوٹر مل جاتا لیکن یہ بھی انہیں خود تیار کرنا پڑتا۔ والدین بس انہیں پروسیسر ، میموری ، کیس، مدر بورڈ، ہارڈ ڈیس، وغیرہ ساری ضروری اشیا خرید کر دیتے ۔ بچہ خود ہی انہیں جوڑتا اور اپنا کمپیوٹر تخلیق کرتا۔ ہر بچے کو اجازت تھی کہ وہ حدود میں رہتے ہوئے اپنی کوئی بھی خواہش پوری کر سکتا ہے ۔ مثلاً اس سے پوچھا جاتا کہ تم نے بستر پر لیٹنا ہے یا اپنا کمرا صاف کرنا ہے۔ والدین اشد ضرورت کے وقت ہی بچوں کو حکم دیتے ورنہ سبھی لگے بندھے گھریلو اصولوں پہ عمل کرتے ۔ اس طرز حیات سے بچوں کو احساس ہوتا کہ وہ اپنی زندگی پہ بھی کنٹرول رکھتے ہیں۔ 
۶۔مل جل کر رہنے میں برکت
یہ لازم تھا کہ روزمرہ معاملات خصوصاً پڑھائی میں بچے ایک دوسرے کی مدد کریں ۔ سو پانچویں جماعت کا طالب علم بھائی چھوٹے بہن بھائیوں کو کہانی یا معلوماتی تحریر پڑ کر سناتا۔ جبکہ زیادہ بڑے بچے چھوٹوں کو ریاضی، سائنس یا الجبرا پڑھاتے اور یوں ان کے مدد گار بنتے۔ جب بچے زیادہ ہو جاتے تو والدین ہر بڑے بجے کی یہ ڈیوٹی لگا تے کہ وہ فلاں چھوٹے بھائی یا بہن کو پڑھائے ۔ اس کا خیال رکھے اور روزمرہ کاموں میں اس کی مدد کرے۔ تھامپسن جوڑے نے کبھی آمرانہ انداز نہیں اپنایا ، وہ زندگی گزارنے کے اصول بناتے وقت بجوں سے بھی رائے و مشورے لیتے ۔ بچوں کو یہ حق حاصل ترا کہ وہ کسی اصول میں موزوں تبدیلی لا سکتے ہیں۔ ایک بار جو اصول زندگی میں طے ہو جاتا اس پہ ہر حال میں عمل کیاجاتا۔ چنانچہ انتہائی ضروری کام کے علاوہ روزانہ6تا8بجے پڑھائی لازمی تھی۔ رات 10بجتے ہی گھر میں کرفیو لگ جاتا اور کسی بچے کو اپنے کمرے سے نکلنے کی اجازت نہ ہوتی۔ 
۷۔سیر و تفریح
گرمیوں کی چھٹیوں میں والدین بچوں کو سیر کرانے کسی عمدہ تفریح مقام پر لے جاتے۔ تب بھی منفرد انداز اختیار کیاجاتا ۔ وہ ہوٹل میں ٹھہر سکتے تھے مگر کیمپنگ کو ترجیح دیتے۔ یوں خیموں میں دن و راتیں گزارکے بچے سیکھتے کہ بارش، طوفان اور خطر ناک جانوروں جیسی قدرتی آفتوں کا مقابلہ کیسے کیاجاتا ہے؟ تھامپسن اکثر بچوں کو ہائکنگ کرانے لے جاتے اور یوں انہیں سخت جان بننے میں مدد دیتے۔ جو بچہ کچھ بڑاہوتا اسے یورپ یا کسی دوسرے امریکی شہر بذریعہ ہوائی جہاز عزیز و اقارب کے پاس بھجوایاجاتا ۔ یوں تنہا سفر کرنے سے بچے کا خوف ، جھجک ختم ہو جاتی۔ تب وہ یہ بھی جانتا کہ مصیبت کے ہر لمحے والدین اس کی اعانت کرتے ہیں مگر اسے خود بھی پرواز کرنا سیکھنا چاہیے۔ 
۸۔ پیسا اور مادہ پرستی 
تھامپسن جوڑے کے پاس وافر رقم موجود تھی۔ وہ چاہتے تو ہر بچے کی تعلیم و تربیت پہ معقول رقم خرچ کر سکتے تھے مگر ان کا نظریہ تھا کہ یوں بچے بڑی حد تک والدین کے دست نگر بن جاتے ہیں۔ اسی واسطے انہوں نے کسی کے لیے گھر نہیں خریدا نہ ہی اپنی جیب سے پیسا خرچ کر کے ان کی شادیاں کرائیں حتیٰ کہ کالج کی تعلیم پر بھی اخراجات کم از کم رکھے۔ بچے اپنے پیروں پہ کھڑے ہوئے تو خود ہی ملازمتیں کر کے تمام خرچے برداشت کئے۔ والدین البتہ قدم قدم پہ اولاد کو مشورے ضرور دیتے رہے۔ مثلاً یہ کہ کونسی ملازمت بہتر ہے اور یہ کہ رقم کیسے جمع کی جائے ۔ تھامپسن جوڑا فخریہ کہتا ہے ۔ ہم نے اپنے بچوں کو صرف ضروری مادی اشیاء سے ہی روشنا کرایا ان کے بجائے انہیں علم دیا اور یہ سکھایا کہ کام کیسے کئے جاتے ہیں۔ سو انہوں نے خود ہی تعلیم مکمل کی، انٹرویو کی تیاری کر کے اچھی ملازمتیں پانے میں کامیاب رہے۔ والدین اپنی سالگرہ یا کرسمس کے موقع پر اپنے بچوں کو تحائف ضرور دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ تحفے دینے ، لینے سے محبت بڑھتی ہے چاہے تحفہ کوئی معمولی ہی ہو اسی باعث خاندان والے کئی تحائف گھر ہی میں تیار کرتے ہیں۔ 
حقیقی دنیا
تھامپسن جوڑا یہی چاہتا ہے کہ سدا اپنے بچوں سے محبت کرتا رہے اور وہ اچھائی اپنائیں یا برائی ۔ مگر بدی کا راستہ چن لینے پر بچے کو نتائج خود ہی بھگتنے ہوں گے ۔ جوڑا اس قول پر یقین رکھتا ہے ۔ جو بوؤ گے سو کاٹو گے۔ 

Why Mobile Balance Waste?


موبائل بیلنس کیسے غائب ہو جاتا ہے؟اور کیوں؟
جدید ٹیکنا لوجی ے لیس موبائلز کا سستے ہونے کے سبب استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ان جدید سوفٹ ویئر سے مزید موبائلز کا براہ راست فائدہ (ٹی وی ، اخبار کے علاوہ ) موبائل کنکشن فراہم کرنے والی کمپنیوں کو ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج کل ہر کوئی بیلنس غائب ہونے کی شکایت کرتا نظر آتا ہے اور کچھ صارف تو عدم معلومات کے سبب ریچارج کرتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں ۔ یہاں ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ آخر موبائل بیلنس کیسے غائب ہو جاتا ہے؟ بعض کمپنیاں از خود کوئی سروس بنا مانگے آپ کے موبائل پر ایک ماہ یا دو ماہ کے لیے فعال (Active) کر دیتی ہیں۔ جس کا اظہار وہ ڈھکے چھپے انداز میں کر دیتی ہیں مگر صارف کو اس کا پتہ بھی نہیں چلتا۔ مقررہ مدت ختم ہونے کے بعد بیلنس غائب ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ جب شکایت کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ جناب آپ یہ سروس استعمال کر رہے ہیں لہذا یہ اس کے سروس چارجز ہیں۔ 
بعض کمپنیاں پرکشش انعامات کی تشہیر کر کے سوالات کا سلسلہ شروع کر دیتی ہیں اور پھر جب صارف ایک سوال کا جواب دیتا ہے تو پھر سوالات کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور صارف کے ایک سوال کے جواب کے بعد مختلف دلچسپ پیغامات کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔ آپ بہت اچھا کھیل رہے ہیں مزید کھیل کر انعامی رقم کو یقینی بنائیں یا انعام آپ سے چند سوالوں کی دوری پر ہے وغیرہ۔ اور اس طرح اس کھیل کا نتیجہ صارف کے بیلنس کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے۔ 
دوسرا مسئلہ صارفین کے ساتھ یہ پیش آتا ہے کہ جدید آپریٹنگ سسٹم سے لیس موبائلز میں انسٹال کچھ Applicationsصارف کی اجازت کے بغیر از حود انٹر نیٹ سے رابطہ قائم لیتی ہیں اور اس سلسلہ میں آپ کے موبائل میں موجود GPRSکی سہولت کو فعال(Active) کر دیتی ہیں۔ GPRS جوں ہی آن ہوتا ہے تو آپ کے موبائل میں موجود سم سے بیلنس غائب ہونا شروع ہو جاتا ہے جبکہ صارف ا س ساری کاروائی سے بالکل بے خبر ہوتا ہے۔ اور کمپنی جب استعمال شدہ بیلنس کی تفصیل ا گلے روز یا اسی روز بذریعہ SMS روانہ کرتی ہے یا صارف خود مددگار لائن سے معلوم کرتا ہے تو اس وقت تک بیلنس ضائع ہو چکا ہوتا ہے۔ 
یاد رکھیں یہاں ہم آپ کو بیلنس بچانے کی چند تجاویز پیش کرتے ہیں۔ ان پر عمل کر کے آپ کسی حد تک اپنے بیلنس کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔ متعلقہ موبائل فون کمپنی میں فون کر کے اپنا GPRS فوراً بند کروا دیں۔ تاکہ اگر آپ کے سیٹ میں موجود کوئی Applications اپ ڈیٹ ہونے کی کوشش بھی کرے تو وہ GPRS سروس کو آن نہ کر سکے۔ ایسی کوئی سروس ہر گز نہ لیں جس کے بارے میں آپ کو کہا گیا ہو کہ یہ سروس متعلقہ کمپنی کے تمام صارفین کے موبائل پر مفت فراہم کی گئی ہے۔ موبائل میں موجود خاص طور پر Android موبائلز میں آٹو اپ ڈیٹ کا آپشن بند (Disable) کر دیں۔ اگر موبائل میں نیٹ استعمال کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو کوشش کریں کہ وائی فائی نیٹ استعمال کریں۔ کیونکہ جدید موبائلز آپریٹنگ سسٹم پر تمام ویپ سائٹ (HTML5) وغیرہ کھل جاتی ہیں۔ جو کہ Download ہوتے ہی کمپنی کی طرف سے فراہم کی گئی انٹر نیٹ سپیس کا بہت سا حصہ فوراً کھا جاتی ہیں۔ 
نتیجہ چند ویب سائٹس کے وزٹ سے ہی انٹر نیٹ کے لیے فراہم کی گئی سپیس ختم ہو جاتی ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جب انٹر نیٹ استعمال ہو رہا ہو تا ہے تو اس دوران پس منظر میں چلنے والی Applications بھی انٹر نیٹ سے اپنا رابطہ استوار کر لیتی ہیں جس سے کمپنی کی جانب سے فراہم کی گئی سپیس تیزی سے کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اور اضافی انٹر نیٹ کے استعمال پر بیلنس خرچ ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ امید ہے کہ ان تجاویز پر عمل کر کے آپ اپنا بیلنس محفوظ کر بنا لیں گے۔ 

Wednesday, 26 February 2014

Great Chinese Construction Company


15دن میں 30 منزلہ ہوٹل کی تعمیر 
(کنسٹرکشن کی ایک حیران کن کہانی ) 

چین کی تعمیراتی کمپنی کا حیرت انگیز کارنامہ 
کمپنی نے فی مربع میٹر1000ڈالر میں معائدہ کیا۔ شرط یہ تھی کہ کمپنی پندرہ دنوں میں بلڈنگ مکمل کر ے گی۔ یہ ایک حیران کن معاہدہ تھا۔ کام شروع ہوا تو دیکھتے ہی دیکھتے بلڈنگ کھڑی ہونا شروع ہو گئی اور صرف 15دنوں میں کمپنی نے 328فٹ بلند عمارت مکمل کے چابی مالک کے ہاتھ میں رکھ دی۔ 



تاریخ عالم ریکارڈز سے بھڑی پڑی ہے مگر چین کا کارنامہ حیرت انگیز بھی ہے اور فکر انگیز بھی۔ چین کی ایک تعمیراتی کمپنی ہے جس کا نام بورڈ سسٹین ایبل بلڈنگ ہے اور اس کمپنی کے بانی کا نام زانگ یو ہے۔ زانگ یو نے 2009ء میں اس کمپنی کا سنگ بنیاد رکھا اور جدید ٹیکنا لوجی سے تعمیراتی کام شروع کیا ، ٹیکنا لوجی کامیاب ٹھہری اور 2011ء میں کمپنی کو T-30 ہوٹل کی تعمیر کا ٹھیکہ مل گیا ، کمپنی نے فی مربع میٹر 1000ڈالر میں معاہدہ کیا ۔ معاہدے میں یہ طے پایا کہ کمپنی پندرہ دنوں کے اندر اندر بلڈنگ مکمل کرے گی۔ یہ ایک حیران کن معاہدہ تھا لیکن کمپنی نے 30منزلہ عمارت کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔ کام شروع ہوا تو دیکھتے ہی دیکھتے بلڈنگ کھڑی ہونا شروع ہو گئی اور صرف 15دنوں میں کمپنی نے 328فٹ بلند عمارت مکمل کر کے چابی مالک کے ہاتھ میں رکھ دی۔ مالک نے ایک نظر عمارت کو دیکھا، دوسری نظر چابی پر ڈالی اور عش عش کر اٹھا ۔ عمارت کی خاص بات زلزلہ پروف بھی ہے ۔ یہ دنیا کی تاریخ میں پہلی 30منزلہ عمارت ہے جو صرف360گھنٹوں میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ اس سے قبل اس کمپنی نے 2010میں 15منزلہ ہوٹل صرف48گھنٹوں میں تعمیر کیا تھا ، مئی 2012میں12منزلہ 14ہزار مربع میٹر عمارت شان ڈونگ میں تعمیر کی تھی اور اس پر صرف62 گھنٹے صرف ہوئے تھے۔ بورڈ سسٹین ایبل کمپنی اب ایک قدم آگے بڑھ کر دنیا کی سب سے بلند ترین عمارت مختصر ترین وقت میں مکمل کرنا چاہتی ہے، کمپنی 220منزلہ سکائی سٹی کے نام سے جانگشیامیں پلازہ تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور کمپنی اسے صرف210دنوں یعنی 7ماہ میں مکمل کرنا چاہتی ہے، اس پروجیکٹ پر بھی معاہدہ طے پا چکا ، کمپنی نے نومبر 2012میں اس پر کام شروع کرنا تھا۔تاہم چائینز گورنمنٹ کی طرف سے ابھی اس کی منظوری باقی ہے اور جس دن گورنمنٹ نے اس منصوبے کی اجازت دے دی چائنیز کمپنی نے دنیا کی یہ عظیم الشان عمارت بھی مختصر وقت میں مکمل کر کے دنیا کو حیران کر دیا ۔ زانگ یو اور اس کی کمپنی کی اپروچ واقعی حیرت انگیز ہے۔ 2012تک کمپنی کے ملازمین کی تعداد 12ہزار سے زائد تھی ، اس کی چین میں 6اور دنیا میں  150شاخیں ہیں اور تمام دنیا اس کمپنی کی جدید
ٹیکنا لوجی سے مستفید ہو رہی ہے۔ کمپنی کی اس جدید ٹیکنا لوجی کے استعمال سے جہاں وقت بچتا ہے وہیں لاگت بھی کم آتی ہے۔ مثلا ترقی یافتہ ممالک میں کمپنی نے 150ڈاٹر فی مربع میٹر وار ترقی پذیر ممالک میں 20ڈالر فی مربع میٹر ریٹ مقرر کر رکھا ہے۔ یعنی 12ہزار مربع میٹر یعنی 12منزلہ عمارت کی کل لاگت2لاکھ 80ڈالر ہے اور یہ ریٹ دنیا میں کسی بھی ملٹی نیشنل کمپنی کے کم ترین ریٹ ہیں یہ ہے چائنا اور چائنا کے لوگوں کی ول۔ 

Daleep Kumar A Tragedy Actor


دلیپ کمار 
بالی ووڈ کی تاریخ عظیم اداکار دلیپ کمار کے بغیر نامکمل ہے۔ دلیپ کمار کو آج تک کا سب سے بڑا اداکارکہا جاتا ہے۔ Star Of Millenium امیتابھ بچن جیسے اداکار نے انہیں حرف آخر اور سب سے اچھا کہا ہے۔ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں ان کا نام سب سے زیادہ ایوارڈ پانے والے ہندوستانی اداکار کے طور پر درج ہے۔ 2000میں دلیپ کمار کو پارلیمنٹ کا رکن بھی نامزد کیا گیا تھا۔ 
دلیپ کمار کا اصل نام محمد یوسف خان ہے جو کہ اداکاری کی پہچان کہلایا اور بعد میں دلیپ کمارکے نام سے انہیں پکارا جانے لگا۔ وہ 11دسمبر 1922کو محلہ خداداد قصہ خوانی بازار، پشاور مغربی سرحدی صوبہ ، برٹش انڈیا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام لالہ غلام سرور خان تھا۔ دلیپ کمار نے اپنی ابتدائی تعلیم پونہ اور مہارا شٹر میں حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے 1940میں اپنا ابتدائی پیشہ شروع کیا یعنی کینٹین سپلائر کا کام شروع کیاجبکہ ان کے والد کا میوہ جات کا بزنس تھا اور مہارا شٹر میں کئی باغات کے مالک تھے۔ دلیپ کمار نے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز1940میں کیا۔ فلم جواز ان کی سب سے پہلی فلم تھی۔ جس کو کوئی خاص کامیابی نہ مل سکی۔ 1947میں نورجہاں کے ساتھ ان کی پہلی فلم ہٹ رہی۔ اس کے بعد میلہ، انداز، دیدار، داغ، امر، اڑن کھٹولہ، دیوداس، یہودی وغیرہ کی زبردست کامیابی نے انہیں ٹریجڈی کنگ بنا دیا۔ دوسری طرف انہوں نے آن، آزاد، کوہ نور اور لیڈر جیسی ہلکی پھلکی فلموں میں اپنے کھلنڈر پن اور مزاحیہ اداکاری سے بھی لوگوں کا دل جیتا۔ مغل اعظم اور گنگا جمنا ان کی سب سے کامیاب فلمیں ثابت ہوئیں۔ 1962میں انہیں ایک برطانوی ہدایتکار نے اپنی شہرہ آفاق فلم لارنس آف عربیہ میں شریف علی کا کردار نبھانے کی پیشکش کی مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ آخر میں یہ کردار عمر شریف نے ادا کیا۔ 1967میں ڈبل رول والی ان کی پہلی فلم رام اور شیام کو زبردست کامیابی ملی مگر اس کے بعد ڈبل رول والی دوسری فلم داستان، ٹرپل رول والی فلم بیراگ کی زبردست ناکامی ان کا گراف کو نیچے لے آئی۔ 1976ء سے 1981ء تک انہوں نے پانچ سال کا وقفہ لے لیا اور تب ملٹی سٹار فلم کرانتی سے انہوں نے کریکٹر رول شروع کئے جن میں انہیں شاندار کامیابی ملی۔ 1998میں ان کی فلم قلعہ ناکام رہی اور اس کے بعد ان کی صحت خراب رہنے لگی تب سے وہ فلموں میں دکھائی نہیں دیتے۔ دلیپ کمار کا فلمی سفر فلم جوار بھاٹا سے شروع ہوا۔ انہو ں نے 60سے زیادہ فلموں میں کام کیا۔ ان میں ایک طرف مغل اعظم اور گنگا جمنا جیسی بے پناہ بزنس کرنے والی فلمیں تھیں۔ دلیپ کمار کی نقل بعد میں آنے والے تقریبا سبھی سپر سٹارز نے کی لیکن دلیپ کمار نے کئی اداکاروں سے متاثر ہونے کے باوجود ہمیشہ اپنی انفرادیت کا مظاہرہ کیا اپنے سب سے بڑے ناقد بھی وہ خود ہی رہے۔ 1998ء میں بننے والی فلم \"قلعہ\'\" دلیپ کمار کی اب تک کی آخری فلم ہے جس کے بعد کئی مرتبہ انہیں لے کر فلم بنانے کے منصوبے بنے لیکن ان کی صحت نے ساتھ نہیں دیا۔ دلیپ کمار زندگی کی 90بہاریں دیکھ چکے ہیں تاہم جسمانی طور پن ان کی وجاہت ابھی بھی برقرار ہے۔ مگر ان کی ذہنی کیفیت اب پہلے جیسے نہیں رہی۔ مکالموں کی ادائیگی کرنے والے دلیپ کمار اب بے حد کم گو ہو گئے ہیں۔ باتیں عموماً بارابط کرتے ہیں لیکن بیچ میں کوئی اور بات یاد آ جاتی ہے تو اسی طرف مڑ جاتے ہیں۔ 

Tuesday, 25 February 2014

Cigarette are Dangerous


موت کا دوسرا نام ۔ سگریٹ نوشی ہے۔ 
دنیا بھر میں سگریٹ نوشی کرنے والوں کی تعداد ایک ارب سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق تمباکو نوشی دنیا بھر میں موت کا دوسرا بڑا سبب بن چکی ہے۔ ہر چھ سیکنڈ بعد ایک شخص تمباکو کے زہریلے اثرات کی وجہ سے موت کے منہ میں چلا جا تا ہے۔ ہر دس ہلاکتوں میں سے ایک ہلاکت تمباکو نوشی سے ہوتی ہے۔ ہر سال 50لاکھ کے قریب ا نسانی جانیں تمباکو کی نذر ہو رہی ہیں اور اگر اسی رفتار سے تمباکو نوشی کا رحجان بڑتا رہا تو 2030تک یہ تعداد 80لاکھ سے بھی زیادہ ہونے کا خدشہ ہے۔ 
پوری دنیامیں یہ صورتحال ہو تو بھلا ہم پاکستانی کیسے کسی سے پیچھے رہ سکتے ہیں ۔ پاکستان کی 54فیصد آبادی تمباکو نوشی کی لت میں پڑی ہوئی ہے۔ جس میں خواتین کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ خواتین میں سگریٹ نوشی کا رحجان 2فیصد سے بڑھ کر 20فیصد تک پہنچ گیا ہے جو کسی بھی معاشرے کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔ حواتین کی بہت بڑی تعداد اس خام خیالی میں سگریٹ نوشی سے ان کا وزن کم ہو جائے گا ۔ بعض نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جن کی عمریں 18سال یا اس سے زائد ہوتی ہیں ۔ شوقیہ طور پر چوری چھپے سگریٹ پینا شروع کرتے ہیں اور جب یہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتے تب سگریٹ نوشی کو فیشن قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق سگریٹ پینے سے انہیں سکون ملتا ہے اور یہ دور حاضر کی ضرورت بھی ہے لہذا اس میں کوئی ہرج نہیں لیکن شاید انھیں اندازہ نہیں کہ اس لت کے مستقل استعمال سے وہ پھیپھڑوں کے سرطان و سوجن ، منہ زبان اور گلے کے سرطان ، حملہ قلب، فالج کا خطرہ معدے کا السر ، مثانے ، سانس پھولنے کا مرض اعضائے تولید کی کمزوری ، جلد کے مختلف امراض (جلد کی خشکی اور رنگت کی خرابی اور جھریاں پڑنا) جیسے موذی امراض میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ 
پاکستان میں سگریٹ نوشی کے تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظر حکومت نے پبلک مقامات سرکاری دفاتر ، ریلوے اسٹیشنز ، پارکس ، سکولز و کالجز ، یونیورسٹیزوغیرہ میں سگریٹ نوشی پر پابندی عائد کی ہوئی ہے لیکن اس پر کسی حد تک عمل درآمد ہوا ہے ، یہ حقیقت جاننے کے لیے آپ کسی سرکاری دفاتر میں چلے جائیں ، افسرسے لیکر چپڑاسی تک ہر کوئی سگریٹ سلگائے نظر آئے گا۔ آپ سڑک پر نظر دوڑائیں تو گاڑی چلانا ہوا شخص بھی سگریٹ کے کش لگا رہا ہو گا(جوکہ ڈرائیونگ اصولوں کے بھی منافی ہے )حتیٰ کہ ڈیوٹی پر مامور پولیس ، سیکورٹی اہلکار بھی دھواں ہوا میں چھوڑتے ہوئے اپنے فرائض منصبی ادا کر رہے ہوں گے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان احکامات پر سختی سے عملددرآمد کر دیاجائے ، جو کوئی بھی خلاف ورزی کا مرتکب ہو، ان کے خلاف فوری کاروائی عمل میں لائی جائے تاکہ دوسرے اس سے سبق حاصل کر سکیں۔ سگریٹ نوشی کے رحجان کو کم کر نے کے لیے سگریٹ کے پیکٹ پر ٹیکس کی شرح بڑھا دی جائے کیونکہ یہ جتنا مہنگا ہو گا اتنا ہی کم استعمال ہو گا۔ امریکی صدر براک اوباما بھی سگریٹ نوشین کے رسیا تھے ، لیکن انہوں نے اپنی بیوی کے ڈر سے اس جان لیوا لعنت سے چھٹکارا حاصل کر لیا ہے۔ اگر امریکی صدر اپنی بیوی کے ڈر سے سگریٹ نوشی ترک کر سکتے ہیں تو پاکستانی بیویاں جو مردوں کے مقابلے میں کافی طاقتور سمجھی جاتی ہیں تہہ کر لیں کہ وہ اپنے خاوندوں کی اس بری لت سے آزار کرائیں گی تو کوئی امر مانع نہیں کہ سگریٹ نوشی میں کافی حد تک کمی واقع نہ ہو۔

Monday, 24 February 2014

Mother gave her Liver to Child


ماں نے اپنا جگر دے کر بیٹے کو بچا لیا۔ 
مادرانہ محبت کی بے مثال قوت نے موت کو بھی شکست دے ڈالی۔ ایک حیران کن خبر
آسکر ایوارڈ یافتہ امریکی اداکارہ جیسکا لینگ کا قول ہے۔ \"ایک عورت ماں بن کر بے غرض ہو جاتی ہے۔ تب عورت کی ذات کائنات کا مرکز نہیں رہتی، بلکہ یہ حیثیت اس کے بچے حاصل کر لیتے ہیں\"۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک ماں اپنے بچوں کی خاطر جان تک داؤپہ لگا دیتی ہے ۔ اس عجوبے کا عملی مظاہرہ پچھلے دنوں امریکہ میں مقیم ایک دلیر نوجوان پاکستانی ماں نے دکھایا اور اپنے پراؤں کا دل جیت لیا۔ 
چند سال قبل نیو یارک میں رہنے والے زوہیب اور ربیعہ کی ملاقات ہوئی۔ دونوں نوجوانوں کا تعلق پاکستانی خاندانوں سے ہے، لیکن وہ ملازمت کی غرض سے امریکہ آئے ہوئے ہیں۔ پہلی ملاقات ہی انہیں قریب لے آئی اور وہ ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے۔ محبت کا خوشگوار انجام ہوا اور وہ رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔
گیارہ ماہ قبل ان کے ہاں ایک گول مٹول بیٹے نے جنم لیا۔ والدین کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا اور وہ اپنے راج دلارے پہ جان چھڑ کنے لگے۔ افسوس کہ چھ ماہ کا ہوتے ہی بیٹا بیمار رہنے لگا ۔ اس نے دودھ پینا کم کر دیا جس کی وجہ سے بچہ روز بروز لاغر اور کمزور ہوتا گیا۔ پریشان والدین بیٹے کو لے کر قریبی واقع ہسپتال Montefiore Medical Centre پہنچے ۔ ٹیسٹوں کے بعد زوہیب اور ربیعہ کو یہ دل خراش خبر ملی کہ ان کا بیٹا ایک خطر ناک مرض Progressive Familial Intrahepatic Cholestatis میں مبتلا ہے۔ یہ ایسی غیر معمولی بیماری ہے کہ ہر ایک لاکھ بچوں میں صرف ایک کو نشانہ بناتی ہے ۔ اس مرض میں جگر سکڑتے سکڑتے آخر کار ناکارہ ہو جاتا ہے۔ تب انسان کی موت یقینی ہوتی ہے۔ جبکہ یہ بچہ Didus Diversis میں بھی مبتلا تھا اس پیدائشی بیماری کے باعث جسم میں جگر الٹی سمت نشو و نما پاتا ہے۔ 
نوزائیدہ بچے کی جان سخت خطرے میں تھی ۔ڈاکٹروں نے اسے ان بچوں کی فہرست میں شامل کر دیا جو اس انتظار میں موت کی راہ تکتے رہتے ہیں کہ شاید کوئی اللہ کا بندہ انہیں اپنا جگر، گردے یا دل عطیہ کر دے۔ 
بیٹے کا دکھ و کرب دیکھ کر قدرتاً ماں باپ پہ غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ ان کی جان کا ٹکڑا گور کنارے جا پہنچا تھا ۔ تاہم انہوں نے ہمت نہ ہاری اور رب العالمین کے حضور سربسجود ہو گئے کہ وہی دکھیاروں کی مانگیں پوری کرنے والا ہے۔ 
کئی دن گزر گئے ، عطیہ شدہ جگر کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔ ادھر بیٹے کی حالت بگڑتی چلی گئی۔ جگر کی خرابی کی وجہ سے بچے کے جسم میں زہریلا مواد بننے لگا۔ حتیٰ کہ آنکھوں سے زرد رنگ کے آنسو نکلنے لگے۔ ننھے بچے کو تکلیف میں دیکھ کر خصوصاً ماں کے دل پہ آ رے چلتے اور وہ اندر سے نڈھال ہو جاتی ۔ آخر ربیعہ اپنے بچے کو مزید کرب میں مبتلا نہ دیکھ سکی اور اس نے اپنی زندگی داؤ پر لگانے کا فیصلہ کر لیا۔ ماں نے طے کیا کہ اس کے جگر کا حصہ کاٹ کربچے کو لگا دیاجائے۔ 
ربیعہ کایہ عزم مصم دیکھ کر شوہر اور ڈاکٹروں اور سبھی کو ایک ماں کا انتہائی مشکل فیصلہ تسلیم کرنا پڑا۔ بیٹے کے مختلف ٹیسٹ ہوئے کہ کیا بچے کا جسمانی نظام ربیعہ کا جگر قبول کر لے گا۔ ٹیسٹوں سے جواب اثبات میں ملا۔ 
تاہم دنیا ئے طب میں ماں اور بچے کے درمیان منتقلی جگر کا آپریشن (Transplantation) بہت پیچیدہ سمجھا جاتا ہے۔ وجہ یہ کہ دوران آپریشن معمولی سی بھی کوتاہی ہو جائے تو خطرہ ہو تا ہے کہ ماں بیٹے میں سے کوئی ایک چل بسے گا۔ موت سامنے کھڑی تھی مگر مادرانہ محبت نے دلیرانہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ سچ ہے ایک جگر دار ماں ہی بچوں کے لیے اپنی جان تک قربان کر سکتی ہے۔ ماں تجھے سلام!
ڈھائی ماہ قبل ربیعہ اور اس کے بچے کا بیک وقت آپریشن ہوا ۔ Montefiore Medical Centre سے تعلق رکھنے والے بہترین ڈاکٹروں نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔ ایک ماں نے اپنی سب سے بڑی متاع کی قربانی دی تو رحمت الہی بھی جوش میں آ گئی۔ آپریشن کا میاب رہا اور ماں کے جگر کا 15فیصد ٹکڑا بیٹے کے جسم میں نصب ہو گیا۔ اس کامیابی میں امریکی جراہوں کی مہارت اور جدید ترین ادویہ نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ 
آپریشن کے بعد کچھ نازک موڑ آئے ۔ کبھی آرام کرتی ماں نے اپنے شکم میں ناقابل برداشت درد محسوس کیا تو کبھی بیٹا تکلیف سے بستر میں کروٹیں بدلتا رہا۔ لیکن آخر کار خدا کا کرم ہوا اور دونوں تندرست ہونے میں کامیاب رہے۔ آج ننھے بچے کی معصوم مسکراہٹ اور آنکھوں کی چمک لوٹ آئی ہے۔ ماں کے عطیہ کردہ جگر کا حصہ نشو و نما پا کے مکمل عضو میں ڈھل چکا ۔ وہ اپنی ذمہ داری انجام دیتے ہوئے زہریلے مادوں کی تہطیر کر رہا ہے۔ 
اب ایک بھر پور خوشگوار زندگی اور روشن مستقبل بچے کا منتظر ہے۔ ماں کی بروقت مدد نے اس کی جان ہی نہیں بچائی بلکہ ربیعہ کے بے غرض اقدام نے مادرانہ محبت کی تاریخ میں ایثار و قربانی کا نیا شاندار باپ بھی رقم کر دیا ہے۔ 

Saturday, 22 February 2014

Japanese Foods & Japanese Civilization


جاپانی کھانے اور آداب دستر خوان 
ابھرتے سورج کی سرزمین کے کھانے اس کی شاندار تہذیب کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔ 
گوشت کے استعمال پر ممانعت کے زمانے میں جاپانیوں نے اپنی ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مٹھاس، کھٹاس، نمکینی اور کڑواہٹ سے ہٹ کر ایک پانچواں ذائقہ تخلیق کر ڈالا۔ 

دنیا مختلف تہذیبوں کا مجموعہ ہے دنیا میں غالباً مغربی تہذیب کے علاوہ اور بھی کئی تہذیبیں ہیں جن میں کچھ تو ختم ہو چکی ہیں اور کچھ تاحال موجود ہیں۔ مثال کے طور پر مٹ جانے والی تہذیبوں میں ایزٹک اور مایا اور قدیم مصری تہذیبیں سرفہرست ہیں ، ایسی تہذیبیں بھی ہیں جنہوں نے خود کو بھر پور طریقے سے برقرار رکھا ہے جیسے چینی، جاپانی تہذیب ، ہندوستانی تہذیب اور عرب اسلامی تہذیب وغیرہ ۔ 
ترقی یافتہ تہذیبوں کے کئی مظاہر ہوتے ہیں جیسے ان کا رہن سہن، زبان، ثقافت اور کھانا پینا وغیرہ اور اسی سے دنیا میں ان کی پہچان ہوتی ہے۔ کھانا پینا اور اس کے آداب کسی بھی تہذیب کا اہم ترین مظہر سمجھے جاتے ہیں۔ جاپان بھی ایک ایسی ہی شاندار تہذیب ہے جس کے کھانے اس کی تہذیب کی بہتر عکاسی کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں یہاں جاپانی کھانوں اور ان کے آداب و دسترخوانی کا مختصر سا جائزہ پیش کرتا ہوں ، امید ہے سب کو پسند آئے گا۔ 
جاپانی کھانوں اور ان کے آداب دستر خوانی سے مراد ان کے اجزائے ترکیبی ، تیاری کے مراحل اور ان کو خور د نوش کا طریقہ ہے۔ جاپان چونکہ ایک مشرقی ملک ہے اس لیے ان کے کھانوں میں مشرق کی طرح شوربہ بہت استعمال کیا جاتا ہے جاپان کی روایتی خوراک چاول اور ایک شوربہ ہوتا ہے جیسے Miso soupکہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ چند اور ڈشیں بھی ہوتی ہیں جنہیں ان کے مخصوص برتنوں میں پیش کیا جاتا ہے ۔ جاپانی کھانوں کی ایک اور دلچسپ خصوصیت یہ ہے کہ ان میں موسم کے مطابق اجزاء استعمال کئے جاتے ہیں جاپانیوں کی روایتی خوراک میں شامل دیگر غذاؤں میں مچھلی ، سبزیوں کا اچار ، مچھلی یا گوشت کے پتلے شوربے میں پکی ہوئی سبزیاں سر فہرست ہیں ۔ مچھلی بھی جاپانیوں کی خوراک میں عام ہوتی ہے۔ یہ عام طور پر گرلڈ یعنی جالی پر بھنی ہوئی ہوتی ہے۔ تاہم اس کو کچا بھی کھایا جاتا ہے جسے Sashimiیا sushiکہا جاتا ہے ۔ سمندری غذاؤں یا سی فوڈز اور سبزیوں کو ڈیپ فرائی کرنے کے بعد ہلکا ہلکا کوٹا جاتا ہے۔ 
چاولوں کے علاوہ جاپانیوں کی پسندیدہ غذاؤں میں نمکین سویاں بھی شامل ہیں جنہیں نوڈلز کہا جاتا ہے جیسے سوبا اور اڈون وغیرہ۔ جاپانی غذاؤں میں ابلتے ہوئے شوربے سے بنے کھانے بھی بہت مقبول ہیں ۔ مثال کے طور پر مچھلی کی مصنوعات سے بنا شوربہ جیسے odenیا بڑے گوشت سے بنا شوربہ جیسے sukiyaki اور nikujaga کہا جاتا ہے۔تاریخی طور دیکھا جائے تو جاپانی گوشت کھانا پسند نہیں کرتے تھے، لیکن 1860کی دہائی میں جب جاپان کی ماڈرنائزیشن شروع ہوئی تو گوشت سے بنے کھانے بھی عام ہونے لگے۔ اس طرح جاپان کی مٹھائیاں بھی اپنی مقامی ہیں جسے wagashiکہا جاتا ہے اس کے اجزاء میں سرخ دال کا پیسٹ اور مقامی چاول کی شراب نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ چینی اور دیگر خشک میوے ڈالے جاتے ہیں ۔ جاپان کی روایتی خوراکیں خاص طور پر کچی مچھلی ، سوشی، اب پوری دنیا میں مشہور ہو رہی ہے۔ 
جاپانی سفید چاول کو بھاپ کے ذریعے پکاتے ہیں جبکہ اس کے ساتھ کئی اور مرکزی اور ثانوی ڈشیں بھی ہوتی ہیں اس کے ساتھ شفاف یخنی یعنی miso soupاور اچار ہوتا ہے جسے جاپانی میں isukemonoکہتے ہیں۔ 
جاپانی کھانے کس طرح پیش کئے جاتے ہیں؟
چاول اور مچھلی جاپانیوں کی بنیادی غذا ہے ۔ چاول ایک چھوٹے پیالے میں پیش کئے جاتے ہیں جبکہ ہر کھانا جھوٹی پلیٹوں یا bowl میں دیاجاتا ہے۔ گھر میں بھی ایسے ہی کھانا کھایا جاتا ہے یہ طریقہ مغربی انداز کے کھانے سے مختلف ہے۔ مغربی آداب دستر خوانی میں کھانے کی میز کے درمیان بڑے برتنوں یا بڑے ڈونگوں میں مرکزی کھانے رکھ دئے جاتے ہیں اور سب مہمان چھوٹی پلیٹوں میں کھانا لے کر کھاتے ہیں جبکہ جاپانی طریقے میں مختلف رنگ اور ذائقے کے کھانوں کو ایک پلیٹ میں رکھا جاتا ہے ۔ چنانچہ مختلف ذائقوں کے کھانوں کے لیے مختلف ڈشز ہوتی ہیں یا ان کے درمیان پتوں کے ذریعے تقسیم کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیک آؤٹ سوشی یعنی گھر لے جانے والی سوشی جو کہ tamagoyakiکہلاتی ہے اور انڈوں اور مچھلی سے بنتی ہے یا Blue backedمچھلی اور سفید گوشت دار مچھلی کو احتیاط سے الگ الگ رکھا جاتا ہے ۔ چاولوں کے اوپر اکاوز یعنی مختلف کھانے کی چیزوں کو رکھنا جاپانیوں کی نظر میں ا چھا نہیں اور پرانے مہذب جاپانی اس پر ناک بھوں چڑھا لیتے ہیں۔ یہ چینی کھانے کے بالکل برعکس ہے جس میں کھانے پینے کی چیزوں کو چاولوں کے اوپر رکھ دیاجاتا ہے۔ 
آداب دسترخوانی 
جاپان کے زیادہ تر ریسٹورنٹس اور گھروں میں مغربی طرز کے کھانے کی میز استعمال کی جاتی ہے تاہم روایتی انداز کی نیچی میز اور کشن والا طریقہ آج بھی بہت عام ہے۔ اس میں فرش پر ایک چٹائی نما چادر بچھائی جاتی ہے اور اس کے اوپر نیچی میزیں رکھ دی جاتی ہیں ۔ جاپانی چٹائی کو Tatamiکہا جاتا ہے اور یہ تنکوں سے بنی ہوتی ہے۔ چونکہ یہ بہت جلد ٹوٹ جاتی ہے یا گندی ہوجاتی ہے۔ اس لیے اس پر جانے کے لیے ہمیشہ جوتے اتارے جاتے ہیں۔ ٹاٹامی پر کھانے کے لیے نیچی میزوں کے ساتھ فرش پر سیدھا بیٹھا جاتا ہے اس میں مرد حضرات تو ٹانگیں موڑ کر بیٹھتے ہیں جبکہ خواتین کو مخصوص طریقے سے بیٹھنا ہوتا ہے جس میں ٹانگوں کو ایک سائیڈ پر کرنا ہوتا ہے۔ اگرآپ کسی جاپانی ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے لگیں تو میزبان نشست کی جانب آپ کی رہنمائی کرے گا اور مہذب طریقہ یہ ہے کہ اس کی جانب سے بیٹھنے کا اشارہ ملنے کے بعد بیٹھا جائے۔ جبکہ میزبان اس کے ساتھ یا داخلی دروازے کے قریب ترین نشست پر بیٹھتا ہے۔ 
حکمت اور ثقافت کا حسین ا متزاج 
جاپان میں غذائیت کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ یہ ملک ہے۔ ماضی کے اوراک کا جائزہ لیاجائے تو پتہ چلتا ہے کہ جاپانیوں نے مختلف پیشے اپنائے ۔ پہاڑوں اور سمندروں سے غذائی فوائد حاصل کئے ۔ انہوں نے اناج کی کاشت پہلی مرتبہ جومون عہد میں کی ۔ یہ زمانہ دس ہزار سے تین سو قبل مسیح کا ہے۔ خاص طور پر چاول کی کاشت کا آغاز اسی دور کے اختتام پر ہوا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس دور سے پہلے جاپانی کھانے نہیں پکایا کرتے تھے اس زمانے سے بہت پہلے جب جاپانی فصل کاشت کیا کرتے تھے تو وہ ان کو پکایا بھی کرتے تھے ۔ اس کو پکانے کے لیے پانی اور آگ سے پیدا ہونے والی بھاپ کو استعمال کیا جاتا تھا۔ جاپانی خوراک میں سب سے خاص چیز چاول کا استعمال ہوتا ہے۔ 
جاپان کے موجودہ دور میں جاپانی کھانوں میں نظر آنے والی جدت کا فروغ کاما کورا عہد کے کئی سال بعد شروع ہوا۔ جاپان میں روایتی کھانے بھی دھیرے دھیرے ثقافت کا حصہ بن گئے ، جیسے چائے نوشی کی روایت ہے حتمی طور پر جاپانی کھانے اید و عہد میں سترھویں سے انیسویں صدی تک اپنی بناوٹی تکمیل تک پہنچ گئے۔ گزشتہ دو سو برس سے موجودہ عہد تک جاپانیون نے خوردنی نباتات جیسا کہ mirinمیٹھی پکوان وائن ، سرکہ، سویا ساس کا بھی استعمال شروع کر دیا ۔ اس طرح جاپانی کھانوں کی اقسام ڈرامائی طور پر بڑھ گئیں ۔ پہلے صرف گھر میں کھانا کھانے کی روایت تھی لیکن اب گھر سے باہر کھانا کھانا بھی ایک معمول بن گیا ہے۔ باہر کھانا کھانے میں سوبا نوڈولز ، سوشی اور تیمپور افرائڈ کھانے بہت مقبو ل ہو گئے ہیں۔ 
مچھلی بھی جاپانی خوراک کا اہم حصہ ہے۔ جاپانیوں کی نفاست کا اندازہ ان کے مچھلی کے استعمال سے لگایا جاسکتا ہے ۔ وہ کس طرح مچھلی کو صاف کرتے ہیں اور کس طرح اس کی کٹائی کرتے ہیں اس مشق میں جب ذائقہ استعمال ہو جائے تو مزید لطف آتا ہے۔ مختلف مصالحہ جات اور جڑی بوٹیوں کا استعمال ان ذائقوں کو محفوظ کر لیتا ہے۔ اس کھانے کو سجانے کے لیے میز ، کچھ پھول اور پودے چاہیے ہوتے ہیں کیونکہ جاپانیوں کے نزدیک یہ بھی سجاوٹ کا ایک فطری اظہار ہے۔