موت کا دوسرا نام ۔ سگریٹ نوشی ہے۔
دنیا بھر میں سگریٹ نوشی کرنے والوں کی تعداد ایک ارب سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق تمباکو نوشی دنیا بھر میں موت کا دوسرا بڑا سبب بن چکی ہے۔ ہر چھ سیکنڈ بعد ایک شخص تمباکو کے زہریلے اثرات کی وجہ سے موت کے منہ میں چلا جا تا ہے۔ ہر دس ہلاکتوں میں سے ایک ہلاکت تمباکو نوشی سے ہوتی ہے۔ ہر سال 50لاکھ کے قریب ا نسانی جانیں تمباکو کی نذر ہو رہی ہیں اور اگر اسی رفتار سے تمباکو نوشی کا رحجان بڑتا رہا تو 2030تک یہ تعداد 80لاکھ سے بھی زیادہ ہونے کا خدشہ ہے۔
پوری دنیامیں یہ صورتحال ہو تو بھلا ہم پاکستانی کیسے کسی سے پیچھے رہ سکتے ہیں ۔ پاکستان کی 54فیصد آبادی تمباکو نوشی کی لت میں پڑی ہوئی ہے۔ جس میں خواتین کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ خواتین میں سگریٹ نوشی کا رحجان 2فیصد سے بڑھ کر 20فیصد تک پہنچ گیا ہے جو کسی بھی معاشرے کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔ حواتین کی بہت بڑی تعداد اس خام خیالی میں سگریٹ نوشی سے ان کا وزن کم ہو جائے گا ۔ بعض نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جن کی عمریں 18سال یا اس سے زائد ہوتی ہیں ۔ شوقیہ طور پر چوری چھپے سگریٹ پینا شروع کرتے ہیں اور جب یہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتے تب سگریٹ نوشی کو فیشن قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق سگریٹ پینے سے انہیں سکون ملتا ہے اور یہ دور حاضر کی ضرورت بھی ہے لہذا اس میں کوئی ہرج نہیں لیکن شاید انھیں اندازہ نہیں کہ اس لت کے مستقل استعمال سے وہ پھیپھڑوں کے سرطان و سوجن ، منہ زبان اور گلے کے سرطان ، حملہ قلب، فالج کا خطرہ معدے کا السر ، مثانے ، سانس پھولنے کا مرض اعضائے تولید کی کمزوری ، جلد کے مختلف امراض (جلد کی خشکی اور رنگت کی خرابی اور جھریاں پڑنا) جیسے موذی امراض میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔
پاکستان میں سگریٹ نوشی کے تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظر حکومت نے پبلک مقامات سرکاری دفاتر ، ریلوے اسٹیشنز ، پارکس ، سکولز و کالجز ، یونیورسٹیزوغیرہ میں سگریٹ نوشی پر پابندی عائد کی ہوئی ہے لیکن اس پر کسی حد تک عمل درآمد ہوا ہے ، یہ حقیقت جاننے کے لیے آپ کسی سرکاری دفاتر میں چلے جائیں ، افسرسے لیکر چپڑاسی تک ہر کوئی سگریٹ سلگائے نظر آئے گا۔ آپ سڑک پر نظر دوڑائیں تو گاڑی چلانا ہوا شخص بھی سگریٹ کے کش لگا رہا ہو گا(جوکہ ڈرائیونگ اصولوں کے بھی منافی ہے )حتیٰ کہ ڈیوٹی پر مامور پولیس ، سیکورٹی اہلکار بھی دھواں ہوا میں چھوڑتے ہوئے اپنے فرائض منصبی ادا کر رہے ہوں گے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان احکامات پر سختی سے عملددرآمد کر دیاجائے ، جو کوئی بھی خلاف ورزی کا مرتکب ہو، ان کے خلاف فوری کاروائی عمل میں لائی جائے تاکہ دوسرے اس سے سبق حاصل کر سکیں۔ سگریٹ نوشی کے رحجان کو کم کر نے کے لیے سگریٹ کے پیکٹ پر ٹیکس کی شرح بڑھا دی جائے کیونکہ یہ جتنا مہنگا ہو گا اتنا ہی کم استعمال ہو گا۔ امریکی صدر براک اوباما بھی سگریٹ نوشین کے رسیا تھے ، لیکن انہوں نے اپنی بیوی کے ڈر سے اس جان لیوا لعنت سے چھٹکارا حاصل کر لیا ہے۔ اگر امریکی صدر اپنی بیوی کے ڈر سے سگریٹ نوشی ترک کر سکتے ہیں تو پاکستانی بیویاں جو مردوں کے مقابلے میں کافی طاقتور سمجھی جاتی ہیں تہہ کر لیں کہ وہ اپنے خاوندوں کی اس بری لت سے آزار کرائیں گی تو کوئی امر مانع نہیں کہ سگریٹ نوشی میں کافی حد تک کمی واقع نہ ہو۔
No comments:
Post a Comment