Monday, 3 March 2014

Lucky Parents of 12 Children


12بچوں کی بہترین پرورش کا کرشمہ 
بچے پالنے والے اور بچوں کی تربیت کرنے والے والدین کیلئے ایک نایاب تحریر 

Francis L. Thompsonاور ان کی بیگم کا شمار خوش قسمت والدین میں ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں بارہ بچوں کی دولت سے نوازا انہوں نے پھر اتنے بہترین انداز میں بچوں کی پرورش کی ، ان کو مثالی تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا کہ آج سبھی بچے مطمئن و خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ 
Thompson صاحب ایک امریکی انجنئیر ہیں ۔ انجنئیروں اور سائنس دانوں کی اس یادگار ٹیم کا حصہ رہے ہیں جس نے شب و روز محنت کے بعد ٹی وی نشریات براہ راست نشر کرنے والے اولین مواصلاتی سیارے (سٹلائیٹ ) ایجاد کئے۔ انہوں نے اپنے وطن کے دفاع کی خاطر میزائلوں کو کنٹرول کرنے والے مواصلاتی سیاروں کی تیاری میں بھی حصہ لیا۔ 
مارچ1974 میں ان کی شادی ہوئی۔ ان کی خوش قسمتی کہ ایک سلجھی ہوئی اورتعاون پسند بیگم ان کو مل گئی۔ اگلے ساڑھے پندرہ برس میں ان کے ہاں بارہ بیٹے بیٹیاں پیدا ہوئے۔ یہ بذات خود حیرت انگیز بات ہے کیونکہ کئی امریکی امریکی جوڑے بچے پیدا کرنا پسند ہی نہیں کرتے بچوں کی ٹیم بنا لینا تو دور کی بات ہے۔ آج ان کا سب سے بڑا بیٹا37سال جبکہ سب سے چھوٹا بیٹا22سال کا ہے۔ 
Thompsonنے جیسے ہی اپنی تعلیم مکمل کی تو انہیں فوری پرکشش ملازمت بھی مل گئی۔ وہ پھر تقی کی منازل طے کرتے رہے۔ اسی باعث اوائل زندگی ہی میں ان کے پاس پیسے کی فراوانی ہو گئی۔ سو Thompson جوڑا چاہتا تو وہ اپنی اولاد کو سونے کے نوالے کھلا سکتا تھا ۔ مگر انھوں نے بچوں کی موزوں تربیت کرنے کے واسطے انھیں آرام و آسائش کی زندگی سے دور رکھنے کا فیصلہ کیا ۔ جوڑے نے پھر ایسا نظام پرورش تشکیل دیا جو بظاہر خاصا سخت اور کڑا لگتا ہے لیکن اس نے نتائج بڑے عمدہ اور اطمینان بخش دیئے۔ 
Thompson کے اسی عمدہ نظام پرورش کے مطابق ان کے بارہ بچوں نے بخوبی اخلاقی و دنیاوی تعلیم و تربیت پائی۔ اب بیٹے عمدہ ملازمتیں کر رہے ہیں تو بیٹیاں بھی اپنے گھروں میں خوش ہیں۔ سب کی شادیا ں ہو چکی ہیں اور اب یہ جوڑا یعنی Thompson اور اس کی بیوی 19پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں سے دل بہلاتے اور ہنستے بولتے وقت کاٹتا ہے۔ جوڑے کی اولاد اپنے بچوں کو بھی وہی اقدار و اصول سکھا رہی ہے جو انہوں نے والدین سے پائے ہیں۔ محنت دیانتداری ، خود اعتمادی ، جذبہ تشکر اور دوسروں سے ہمدردی ۔ پیار و محبت کی اس خوبصورت اور انمول لڑی نے Thompson خاندان کو جوڑ رکھا ہے۔ جوڑے کے نزدیک یہ ان کے منفرد نظام پرورش ہی کا کرشمہ ہے ۔ اس نظام پرورش کو یہاں پیش کیاجاتا ہے جو انہوں نے اپنے 12بچوں کی پرورش کرنے کیلئے اپنایا ہے ۔ اس سے پاکستانی والدین بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ 
ا۔ گھر کے کام 
جو بچہ 3سال کا ہوجاتا اس سے گھر کے غسل خانے صاف کروائے جانے لگتے۔ چاہے وہ غسل خانے صحیح طرح سے صاف نہ کرتا مگر 4برس کا ہونے تک اتنا ماہر ضرور ہو جاتا کہ اپنا کام عمدگی سے کرسکے۔ ہر ہفتے بچہ جتنا زیادہ اور معیاری کام کرتا اسے اسی حساب سے جیب خرچ بھی زیادہ یا کم ملتا۔ جو بچہ 8سال کا ہوجاتا ، اس سے اپنے کپڑے خود دھلائے جانے لگتے۔ ہفتے میں ایک دن کپڑوں کی دھلائی کے لیے مقرر تھا۔ جو بچہ پڑھنے کے قابل ہو جاتا تو والدین اس سے کھانے کی ترکیب پڑھوا کر کھانا تیار کراتے۔ بچے کو یہ بھی سیکھنا پڑتا کہ ایک وقت میں دو کھانے کیسے اور کیوں پکائے جاتے ہیں۔ Thompson اور اس کی بیوی نے اپنے بچوں اور بچیوں کو سینا پرونا بھی اعتماد کیساتھ سکھایا۔ 
۲۔ مطالعہ کا وقت
والدین نے دوران تربیت شروع سے تعلیم کو سب سے مقدم رکھا۔ روزانہ شام 6سے 8 بجے تک کا وقت پڑھائی کے لیے مخصوص تھا۔ تب کسی بچے کو ٹی وی دیکھنے یا کمپیوٹر پہ بیٹھنے کی اجازت نہ تھی۔ وہ کسی قسم کا کھیل بھی نہیں کھیل سکتا تھا۔ اگر بچوں کو ہوم ورک نہ ملتا تو وہ ان دو گھنٹوں میں کتب و رسائل کا مطالعہ کرتے۔ جو چھوٹے بچے پڑھ نہیں سکتے تھے انہیں کوئی بڑا بچہ کتاب پڑھ کر سناتا۔ دوران پڑھائی Thompson جوڑا بچوں کے ساتھ ہی بیٹھتا اور ان کی ہر ممکن مدد کرتا۔ دو گھنٹے بعد بچے کوئی بھی من پسند کھیل کھیلتے یا سرگرمی اپنا لیتے۔ سکول میں پڑھائی سے اگر ایک بچہ یہ شکایت کرتا کہ کوئی استاد اسے تنگ کرتا ہے یا صحیح نہیں پڑھاتا تو اس کو کہا جاتا کہ وہ اپنا مسئلہ خود حل کرے۔ تاکہ وہ اپنے مسائل حود سلجھانا سیکھ جائے۔ ظاہر ہے عملی زندگی میں قدم رکھ کر اسے قدم قدم پہ مسئلوں سے پالا پڑنے والا تھا۔ یوں جوڑا کبھی استاد سے رابطہ نہ کرتابلکہ بچے پر یہ ذمے داری ڈال دیتا کہ وہ معاملہ خود سلجھالے۔ 
۳۔ کھانا پینا 
گھر میں یہ روایت تھی کہ سبھی مل جل کر ناشتہ کرتے اور کھانا کھاتے۔ ناشتہ ٹھیک صبح ساڑھے پانچ بجے کیاجاتا ۔ پھر بچے سکول جانے کی تیاری کرنے لگتے۔ رات کا کھانا شام ساڑھے پانچے شروع ہو جاتا۔ تھامپسن جوڑے کا اصول تھا کہ دوران طعام پہلے وہ ناپسندیدہ غذائی (عموماً سبزیاں )بچوں کے سامنے رکھتے پھر دوسری پسندیدہ غذاؤں کی باری آتی۔ ہر بچہ ناپسند کھانا چھوڑ سکتا تھا مگر جب اسے بھوک تنگ کرتی تو اسے وہی غذا ہی کھانی پڑتی۔ تھامپسن جوڑے نے بچوں کو ہر قسم کے کھانے کھلائے۔ یہی ویہ ہے کہ آج وہ خوشی خوشی ہر غذا کھا لیتے ہیں اور ناک بھنوں نہیں چڑھاتے۔ انہیں کم کھانے کی بھی تربیت دی گئی۔ اسی باعث بارہ کے بارہ بچے تندرست و سمارٹ اور چاق و چوبند ہیں۔ موٹاپا ان سے کوسوں دور ہے۔ 
۴۔ غیر نصابی سرگرمیاں۔ 
ہر بچے کے لیے ضروری تھا کہ وہ کوئی کھیل کھیلے۔ کھیل کوئی بھی سکتا تھا فٹ بال، تیراکی، ٹینس وغیرہ مگر کھیلنا لازمی تھا۔ ہر بچے پر یہ لازم تھا کہ وہ کسی کلب کا رکن ضرور بنے ۔ مثلاً بوائے سکاؤٹس ، گرل اسکاؤٹس، ڈرامٹیک کلب، ادبی کلب وغیرہ۔ یہ بھی ضروری تھا کہ ہر بچہ کوئی نہ کوئی فلاحی کام انجام دے۔ مثلاً چرچ کے کام کرنا اور مصیبت زدہ انسانوں کی مدد وغیرہ۔ 
۵۔ آزادی کی حدود
جو بچہ یا بچی 16سال کا ہوتا ، کار چلانے کے قابل بن جاتا، تب اس کے لیے ایک کار خریدی جاتی۔ کار نئی نہیں بلکہ ٹوٹی پھوٹی ہوتی ، تاکہ لڑکا ہوتا یا لڑکی اسے اپنی ذہانت ، گیراج میں پڑے اوزاروں ، رہنما کتب، بڑے بھائیوں کی مدد اور اپنے جیب خرچ کے ذریعے ہی کار کی مرمت کرنا پڑتی ۔ والدین بس بچے کو نئے پرزہ جات خرید کر دیتے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر بچہ اپنی کار تیار کر کے اسے بڑے سلیقے سے رکھتا اور طریقے سے چلاتا۔ اسے یہ بھی فخھ ہوتا کہ وہ اپنی تیار کردہ گاڑی چلا رہا ہے ۔ آج تک تھامپسن جوڑے کے کسی بچے کا چالان نہیں ہوا۔ جو کہ ایک ورلڈ ریکارڈ ہے۔ اگر کسی وجہ سے کسی بچے یا بچی سے غلطی ہو جاتی تو اسے سزا نہیں ملتی تاہم بچے کو خود خمیازہ بھگتنا پڑتا اور وہی غلطی درست کرتا۔ مثلاً ایک بارہ سالہ ٹونی نے ابو کی کار کے ریڈی ایٹر میں انجن آئل ڈال دیا۔ تب ریڈی ایٹر کی مکمل صفائی کے سارے مراحل اسے ہی انجام دینے پڑے۔ غلطی درست کرتے ہوئے عموماً خاصی رقم لگ جاتی مگر تھامپسن جوڑے نے غلطیاں کرنے پر بچوں کو کبھی نہ ڈانٹا اور نہ پیٹا۔ ان کا نظریہ تھا کہ وہ بچوں کی پرورش کر رہے ہیں رقم کی بچت نہیں۔ بارہ برس کا ہوتے ہی بچے کو کمپیوٹر مل جاتا لیکن یہ بھی انہیں خود تیار کرنا پڑتا۔ والدین بس انہیں پروسیسر ، میموری ، کیس، مدر بورڈ، ہارڈ ڈیس، وغیرہ ساری ضروری اشیا خرید کر دیتے ۔ بچہ خود ہی انہیں جوڑتا اور اپنا کمپیوٹر تخلیق کرتا۔ ہر بچے کو اجازت تھی کہ وہ حدود میں رہتے ہوئے اپنی کوئی بھی خواہش پوری کر سکتا ہے ۔ مثلاً اس سے پوچھا جاتا کہ تم نے بستر پر لیٹنا ہے یا اپنا کمرا صاف کرنا ہے۔ والدین اشد ضرورت کے وقت ہی بچوں کو حکم دیتے ورنہ سبھی لگے بندھے گھریلو اصولوں پہ عمل کرتے ۔ اس طرز حیات سے بچوں کو احساس ہوتا کہ وہ اپنی زندگی پہ بھی کنٹرول رکھتے ہیں۔ 
۶۔مل جل کر رہنے میں برکت
یہ لازم تھا کہ روزمرہ معاملات خصوصاً پڑھائی میں بچے ایک دوسرے کی مدد کریں ۔ سو پانچویں جماعت کا طالب علم بھائی چھوٹے بہن بھائیوں کو کہانی یا معلوماتی تحریر پڑ کر سناتا۔ جبکہ زیادہ بڑے بچے چھوٹوں کو ریاضی، سائنس یا الجبرا پڑھاتے اور یوں ان کے مدد گار بنتے۔ جب بچے زیادہ ہو جاتے تو والدین ہر بڑے بجے کی یہ ڈیوٹی لگا تے کہ وہ فلاں چھوٹے بھائی یا بہن کو پڑھائے ۔ اس کا خیال رکھے اور روزمرہ کاموں میں اس کی مدد کرے۔ تھامپسن جوڑے نے کبھی آمرانہ انداز نہیں اپنایا ، وہ زندگی گزارنے کے اصول بناتے وقت بجوں سے بھی رائے و مشورے لیتے ۔ بچوں کو یہ حق حاصل ترا کہ وہ کسی اصول میں موزوں تبدیلی لا سکتے ہیں۔ ایک بار جو اصول زندگی میں طے ہو جاتا اس پہ ہر حال میں عمل کیاجاتا۔ چنانچہ انتہائی ضروری کام کے علاوہ روزانہ6تا8بجے پڑھائی لازمی تھی۔ رات 10بجتے ہی گھر میں کرفیو لگ جاتا اور کسی بچے کو اپنے کمرے سے نکلنے کی اجازت نہ ہوتی۔ 
۷۔سیر و تفریح
گرمیوں کی چھٹیوں میں والدین بچوں کو سیر کرانے کسی عمدہ تفریح مقام پر لے جاتے۔ تب بھی منفرد انداز اختیار کیاجاتا ۔ وہ ہوٹل میں ٹھہر سکتے تھے مگر کیمپنگ کو ترجیح دیتے۔ یوں خیموں میں دن و راتیں گزارکے بچے سیکھتے کہ بارش، طوفان اور خطر ناک جانوروں جیسی قدرتی آفتوں کا مقابلہ کیسے کیاجاتا ہے؟ تھامپسن اکثر بچوں کو ہائکنگ کرانے لے جاتے اور یوں انہیں سخت جان بننے میں مدد دیتے۔ جو بچہ کچھ بڑاہوتا اسے یورپ یا کسی دوسرے امریکی شہر بذریعہ ہوائی جہاز عزیز و اقارب کے پاس بھجوایاجاتا ۔ یوں تنہا سفر کرنے سے بچے کا خوف ، جھجک ختم ہو جاتی۔ تب وہ یہ بھی جانتا کہ مصیبت کے ہر لمحے والدین اس کی اعانت کرتے ہیں مگر اسے خود بھی پرواز کرنا سیکھنا چاہیے۔ 
۸۔ پیسا اور مادہ پرستی 
تھامپسن جوڑے کے پاس وافر رقم موجود تھی۔ وہ چاہتے تو ہر بچے کی تعلیم و تربیت پہ معقول رقم خرچ کر سکتے تھے مگر ان کا نظریہ تھا کہ یوں بچے بڑی حد تک والدین کے دست نگر بن جاتے ہیں۔ اسی واسطے انہوں نے کسی کے لیے گھر نہیں خریدا نہ ہی اپنی جیب سے پیسا خرچ کر کے ان کی شادیاں کرائیں حتیٰ کہ کالج کی تعلیم پر بھی اخراجات کم از کم رکھے۔ بچے اپنے پیروں پہ کھڑے ہوئے تو خود ہی ملازمتیں کر کے تمام خرچے برداشت کئے۔ والدین البتہ قدم قدم پہ اولاد کو مشورے ضرور دیتے رہے۔ مثلاً یہ کہ کونسی ملازمت بہتر ہے اور یہ کہ رقم کیسے جمع کی جائے ۔ تھامپسن جوڑا فخریہ کہتا ہے ۔ ہم نے اپنے بچوں کو صرف ضروری مادی اشیاء سے ہی روشنا کرایا ان کے بجائے انہیں علم دیا اور یہ سکھایا کہ کام کیسے کئے جاتے ہیں۔ سو انہوں نے خود ہی تعلیم مکمل کی، انٹرویو کی تیاری کر کے اچھی ملازمتیں پانے میں کامیاب رہے۔ والدین اپنی سالگرہ یا کرسمس کے موقع پر اپنے بچوں کو تحائف ضرور دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ تحفے دینے ، لینے سے محبت بڑھتی ہے چاہے تحفہ کوئی معمولی ہی ہو اسی باعث خاندان والے کئی تحائف گھر ہی میں تیار کرتے ہیں۔ 
حقیقی دنیا
تھامپسن جوڑا یہی چاہتا ہے کہ سدا اپنے بچوں سے محبت کرتا رہے اور وہ اچھائی اپنائیں یا برائی ۔ مگر بدی کا راستہ چن لینے پر بچے کو نتائج خود ہی بھگتنے ہوں گے ۔ جوڑا اس قول پر یقین رکھتا ہے ۔ جو بوؤ گے سو کاٹو گے۔ 

Why Mobile Balance Waste?


موبائل بیلنس کیسے غائب ہو جاتا ہے؟اور کیوں؟
جدید ٹیکنا لوجی ے لیس موبائلز کا سستے ہونے کے سبب استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ان جدید سوفٹ ویئر سے مزید موبائلز کا براہ راست فائدہ (ٹی وی ، اخبار کے علاوہ ) موبائل کنکشن فراہم کرنے والی کمپنیوں کو ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج کل ہر کوئی بیلنس غائب ہونے کی شکایت کرتا نظر آتا ہے اور کچھ صارف تو عدم معلومات کے سبب ریچارج کرتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں ۔ یہاں ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ آخر موبائل بیلنس کیسے غائب ہو جاتا ہے؟ بعض کمپنیاں از خود کوئی سروس بنا مانگے آپ کے موبائل پر ایک ماہ یا دو ماہ کے لیے فعال (Active) کر دیتی ہیں۔ جس کا اظہار وہ ڈھکے چھپے انداز میں کر دیتی ہیں مگر صارف کو اس کا پتہ بھی نہیں چلتا۔ مقررہ مدت ختم ہونے کے بعد بیلنس غائب ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ جب شکایت کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ جناب آپ یہ سروس استعمال کر رہے ہیں لہذا یہ اس کے سروس چارجز ہیں۔ 
بعض کمپنیاں پرکشش انعامات کی تشہیر کر کے سوالات کا سلسلہ شروع کر دیتی ہیں اور پھر جب صارف ایک سوال کا جواب دیتا ہے تو پھر سوالات کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور صارف کے ایک سوال کے جواب کے بعد مختلف دلچسپ پیغامات کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔ آپ بہت اچھا کھیل رہے ہیں مزید کھیل کر انعامی رقم کو یقینی بنائیں یا انعام آپ سے چند سوالوں کی دوری پر ہے وغیرہ۔ اور اس طرح اس کھیل کا نتیجہ صارف کے بیلنس کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے۔ 
دوسرا مسئلہ صارفین کے ساتھ یہ پیش آتا ہے کہ جدید آپریٹنگ سسٹم سے لیس موبائلز میں انسٹال کچھ Applicationsصارف کی اجازت کے بغیر از حود انٹر نیٹ سے رابطہ قائم لیتی ہیں اور اس سلسلہ میں آپ کے موبائل میں موجود GPRSکی سہولت کو فعال(Active) کر دیتی ہیں۔ GPRS جوں ہی آن ہوتا ہے تو آپ کے موبائل میں موجود سم سے بیلنس غائب ہونا شروع ہو جاتا ہے جبکہ صارف ا س ساری کاروائی سے بالکل بے خبر ہوتا ہے۔ اور کمپنی جب استعمال شدہ بیلنس کی تفصیل ا گلے روز یا اسی روز بذریعہ SMS روانہ کرتی ہے یا صارف خود مددگار لائن سے معلوم کرتا ہے تو اس وقت تک بیلنس ضائع ہو چکا ہوتا ہے۔ 
یاد رکھیں یہاں ہم آپ کو بیلنس بچانے کی چند تجاویز پیش کرتے ہیں۔ ان پر عمل کر کے آپ کسی حد تک اپنے بیلنس کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔ متعلقہ موبائل فون کمپنی میں فون کر کے اپنا GPRS فوراً بند کروا دیں۔ تاکہ اگر آپ کے سیٹ میں موجود کوئی Applications اپ ڈیٹ ہونے کی کوشش بھی کرے تو وہ GPRS سروس کو آن نہ کر سکے۔ ایسی کوئی سروس ہر گز نہ لیں جس کے بارے میں آپ کو کہا گیا ہو کہ یہ سروس متعلقہ کمپنی کے تمام صارفین کے موبائل پر مفت فراہم کی گئی ہے۔ موبائل میں موجود خاص طور پر Android موبائلز میں آٹو اپ ڈیٹ کا آپشن بند (Disable) کر دیں۔ اگر موبائل میں نیٹ استعمال کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو کوشش کریں کہ وائی فائی نیٹ استعمال کریں۔ کیونکہ جدید موبائلز آپریٹنگ سسٹم پر تمام ویپ سائٹ (HTML5) وغیرہ کھل جاتی ہیں۔ جو کہ Download ہوتے ہی کمپنی کی طرف سے فراہم کی گئی انٹر نیٹ سپیس کا بہت سا حصہ فوراً کھا جاتی ہیں۔ 
نتیجہ چند ویب سائٹس کے وزٹ سے ہی انٹر نیٹ کے لیے فراہم کی گئی سپیس ختم ہو جاتی ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جب انٹر نیٹ استعمال ہو رہا ہو تا ہے تو اس دوران پس منظر میں چلنے والی Applications بھی انٹر نیٹ سے اپنا رابطہ استوار کر لیتی ہیں جس سے کمپنی کی جانب سے فراہم کی گئی سپیس تیزی سے کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اور اضافی انٹر نیٹ کے استعمال پر بیلنس خرچ ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ امید ہے کہ ان تجاویز پر عمل کر کے آپ اپنا بیلنس محفوظ کر بنا لیں گے۔ 

Wednesday, 26 February 2014

Great Chinese Construction Company


15دن میں 30 منزلہ ہوٹل کی تعمیر 
(کنسٹرکشن کی ایک حیران کن کہانی ) 

چین کی تعمیراتی کمپنی کا حیرت انگیز کارنامہ 
کمپنی نے فی مربع میٹر1000ڈالر میں معائدہ کیا۔ شرط یہ تھی کہ کمپنی پندرہ دنوں میں بلڈنگ مکمل کر ے گی۔ یہ ایک حیران کن معاہدہ تھا۔ کام شروع ہوا تو دیکھتے ہی دیکھتے بلڈنگ کھڑی ہونا شروع ہو گئی اور صرف 15دنوں میں کمپنی نے 328فٹ بلند عمارت مکمل کے چابی مالک کے ہاتھ میں رکھ دی۔ 



تاریخ عالم ریکارڈز سے بھڑی پڑی ہے مگر چین کا کارنامہ حیرت انگیز بھی ہے اور فکر انگیز بھی۔ چین کی ایک تعمیراتی کمپنی ہے جس کا نام بورڈ سسٹین ایبل بلڈنگ ہے اور اس کمپنی کے بانی کا نام زانگ یو ہے۔ زانگ یو نے 2009ء میں اس کمپنی کا سنگ بنیاد رکھا اور جدید ٹیکنا لوجی سے تعمیراتی کام شروع کیا ، ٹیکنا لوجی کامیاب ٹھہری اور 2011ء میں کمپنی کو T-30 ہوٹل کی تعمیر کا ٹھیکہ مل گیا ، کمپنی نے فی مربع میٹر 1000ڈالر میں معاہدہ کیا ۔ معاہدے میں یہ طے پایا کہ کمپنی پندرہ دنوں کے اندر اندر بلڈنگ مکمل کرے گی۔ یہ ایک حیران کن معاہدہ تھا لیکن کمپنی نے 30منزلہ عمارت کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔ کام شروع ہوا تو دیکھتے ہی دیکھتے بلڈنگ کھڑی ہونا شروع ہو گئی اور صرف 15دنوں میں کمپنی نے 328فٹ بلند عمارت مکمل کر کے چابی مالک کے ہاتھ میں رکھ دی۔ مالک نے ایک نظر عمارت کو دیکھا، دوسری نظر چابی پر ڈالی اور عش عش کر اٹھا ۔ عمارت کی خاص بات زلزلہ پروف بھی ہے ۔ یہ دنیا کی تاریخ میں پہلی 30منزلہ عمارت ہے جو صرف360گھنٹوں میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ اس سے قبل اس کمپنی نے 2010میں 15منزلہ ہوٹل صرف48گھنٹوں میں تعمیر کیا تھا ، مئی 2012میں12منزلہ 14ہزار مربع میٹر عمارت شان ڈونگ میں تعمیر کی تھی اور اس پر صرف62 گھنٹے صرف ہوئے تھے۔ بورڈ سسٹین ایبل کمپنی اب ایک قدم آگے بڑھ کر دنیا کی سب سے بلند ترین عمارت مختصر ترین وقت میں مکمل کرنا چاہتی ہے، کمپنی 220منزلہ سکائی سٹی کے نام سے جانگشیامیں پلازہ تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور کمپنی اسے صرف210دنوں یعنی 7ماہ میں مکمل کرنا چاہتی ہے، اس پروجیکٹ پر بھی معاہدہ طے پا چکا ، کمپنی نے نومبر 2012میں اس پر کام شروع کرنا تھا۔تاہم چائینز گورنمنٹ کی طرف سے ابھی اس کی منظوری باقی ہے اور جس دن گورنمنٹ نے اس منصوبے کی اجازت دے دی چائنیز کمپنی نے دنیا کی یہ عظیم الشان عمارت بھی مختصر وقت میں مکمل کر کے دنیا کو حیران کر دیا ۔ زانگ یو اور اس کی کمپنی کی اپروچ واقعی حیرت انگیز ہے۔ 2012تک کمپنی کے ملازمین کی تعداد 12ہزار سے زائد تھی ، اس کی چین میں 6اور دنیا میں  150شاخیں ہیں اور تمام دنیا اس کمپنی کی جدید
ٹیکنا لوجی سے مستفید ہو رہی ہے۔ کمپنی کی اس جدید ٹیکنا لوجی کے استعمال سے جہاں وقت بچتا ہے وہیں لاگت بھی کم آتی ہے۔ مثلا ترقی یافتہ ممالک میں کمپنی نے 150ڈاٹر فی مربع میٹر وار ترقی پذیر ممالک میں 20ڈالر فی مربع میٹر ریٹ مقرر کر رکھا ہے۔ یعنی 12ہزار مربع میٹر یعنی 12منزلہ عمارت کی کل لاگت2لاکھ 80ڈالر ہے اور یہ ریٹ دنیا میں کسی بھی ملٹی نیشنل کمپنی کے کم ترین ریٹ ہیں یہ ہے چائنا اور چائنا کے لوگوں کی ول۔ 

Daleep Kumar A Tragedy Actor


دلیپ کمار 
بالی ووڈ کی تاریخ عظیم اداکار دلیپ کمار کے بغیر نامکمل ہے۔ دلیپ کمار کو آج تک کا سب سے بڑا اداکارکہا جاتا ہے۔ Star Of Millenium امیتابھ بچن جیسے اداکار نے انہیں حرف آخر اور سب سے اچھا کہا ہے۔ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں ان کا نام سب سے زیادہ ایوارڈ پانے والے ہندوستانی اداکار کے طور پر درج ہے۔ 2000میں دلیپ کمار کو پارلیمنٹ کا رکن بھی نامزد کیا گیا تھا۔ 
دلیپ کمار کا اصل نام محمد یوسف خان ہے جو کہ اداکاری کی پہچان کہلایا اور بعد میں دلیپ کمارکے نام سے انہیں پکارا جانے لگا۔ وہ 11دسمبر 1922کو محلہ خداداد قصہ خوانی بازار، پشاور مغربی سرحدی صوبہ ، برٹش انڈیا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام لالہ غلام سرور خان تھا۔ دلیپ کمار نے اپنی ابتدائی تعلیم پونہ اور مہارا شٹر میں حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے 1940میں اپنا ابتدائی پیشہ شروع کیا یعنی کینٹین سپلائر کا کام شروع کیاجبکہ ان کے والد کا میوہ جات کا بزنس تھا اور مہارا شٹر میں کئی باغات کے مالک تھے۔ دلیپ کمار نے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز1940میں کیا۔ فلم جواز ان کی سب سے پہلی فلم تھی۔ جس کو کوئی خاص کامیابی نہ مل سکی۔ 1947میں نورجہاں کے ساتھ ان کی پہلی فلم ہٹ رہی۔ اس کے بعد میلہ، انداز، دیدار، داغ، امر، اڑن کھٹولہ، دیوداس، یہودی وغیرہ کی زبردست کامیابی نے انہیں ٹریجڈی کنگ بنا دیا۔ دوسری طرف انہوں نے آن، آزاد، کوہ نور اور لیڈر جیسی ہلکی پھلکی فلموں میں اپنے کھلنڈر پن اور مزاحیہ اداکاری سے بھی لوگوں کا دل جیتا۔ مغل اعظم اور گنگا جمنا ان کی سب سے کامیاب فلمیں ثابت ہوئیں۔ 1962میں انہیں ایک برطانوی ہدایتکار نے اپنی شہرہ آفاق فلم لارنس آف عربیہ میں شریف علی کا کردار نبھانے کی پیشکش کی مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ آخر میں یہ کردار عمر شریف نے ادا کیا۔ 1967میں ڈبل رول والی ان کی پہلی فلم رام اور شیام کو زبردست کامیابی ملی مگر اس کے بعد ڈبل رول والی دوسری فلم داستان، ٹرپل رول والی فلم بیراگ کی زبردست ناکامی ان کا گراف کو نیچے لے آئی۔ 1976ء سے 1981ء تک انہوں نے پانچ سال کا وقفہ لے لیا اور تب ملٹی سٹار فلم کرانتی سے انہوں نے کریکٹر رول شروع کئے جن میں انہیں شاندار کامیابی ملی۔ 1998میں ان کی فلم قلعہ ناکام رہی اور اس کے بعد ان کی صحت خراب رہنے لگی تب سے وہ فلموں میں دکھائی نہیں دیتے۔ دلیپ کمار کا فلمی سفر فلم جوار بھاٹا سے شروع ہوا۔ انہو ں نے 60سے زیادہ فلموں میں کام کیا۔ ان میں ایک طرف مغل اعظم اور گنگا جمنا جیسی بے پناہ بزنس کرنے والی فلمیں تھیں۔ دلیپ کمار کی نقل بعد میں آنے والے تقریبا سبھی سپر سٹارز نے کی لیکن دلیپ کمار نے کئی اداکاروں سے متاثر ہونے کے باوجود ہمیشہ اپنی انفرادیت کا مظاہرہ کیا اپنے سب سے بڑے ناقد بھی وہ خود ہی رہے۔ 1998ء میں بننے والی فلم \"قلعہ\'\" دلیپ کمار کی اب تک کی آخری فلم ہے جس کے بعد کئی مرتبہ انہیں لے کر فلم بنانے کے منصوبے بنے لیکن ان کی صحت نے ساتھ نہیں دیا۔ دلیپ کمار زندگی کی 90بہاریں دیکھ چکے ہیں تاہم جسمانی طور پن ان کی وجاہت ابھی بھی برقرار ہے۔ مگر ان کی ذہنی کیفیت اب پہلے جیسے نہیں رہی۔ مکالموں کی ادائیگی کرنے والے دلیپ کمار اب بے حد کم گو ہو گئے ہیں۔ باتیں عموماً بارابط کرتے ہیں لیکن بیچ میں کوئی اور بات یاد آ جاتی ہے تو اسی طرف مڑ جاتے ہیں۔ 

Tuesday, 25 February 2014

Cigarette are Dangerous


موت کا دوسرا نام ۔ سگریٹ نوشی ہے۔ 
دنیا بھر میں سگریٹ نوشی کرنے والوں کی تعداد ایک ارب سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق تمباکو نوشی دنیا بھر میں موت کا دوسرا بڑا سبب بن چکی ہے۔ ہر چھ سیکنڈ بعد ایک شخص تمباکو کے زہریلے اثرات کی وجہ سے موت کے منہ میں چلا جا تا ہے۔ ہر دس ہلاکتوں میں سے ایک ہلاکت تمباکو نوشی سے ہوتی ہے۔ ہر سال 50لاکھ کے قریب ا نسانی جانیں تمباکو کی نذر ہو رہی ہیں اور اگر اسی رفتار سے تمباکو نوشی کا رحجان بڑتا رہا تو 2030تک یہ تعداد 80لاکھ سے بھی زیادہ ہونے کا خدشہ ہے۔ 
پوری دنیامیں یہ صورتحال ہو تو بھلا ہم پاکستانی کیسے کسی سے پیچھے رہ سکتے ہیں ۔ پاکستان کی 54فیصد آبادی تمباکو نوشی کی لت میں پڑی ہوئی ہے۔ جس میں خواتین کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ خواتین میں سگریٹ نوشی کا رحجان 2فیصد سے بڑھ کر 20فیصد تک پہنچ گیا ہے جو کسی بھی معاشرے کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔ حواتین کی بہت بڑی تعداد اس خام خیالی میں سگریٹ نوشی سے ان کا وزن کم ہو جائے گا ۔ بعض نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جن کی عمریں 18سال یا اس سے زائد ہوتی ہیں ۔ شوقیہ طور پر چوری چھپے سگریٹ پینا شروع کرتے ہیں اور جب یہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتے تب سگریٹ نوشی کو فیشن قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق سگریٹ پینے سے انہیں سکون ملتا ہے اور یہ دور حاضر کی ضرورت بھی ہے لہذا اس میں کوئی ہرج نہیں لیکن شاید انھیں اندازہ نہیں کہ اس لت کے مستقل استعمال سے وہ پھیپھڑوں کے سرطان و سوجن ، منہ زبان اور گلے کے سرطان ، حملہ قلب، فالج کا خطرہ معدے کا السر ، مثانے ، سانس پھولنے کا مرض اعضائے تولید کی کمزوری ، جلد کے مختلف امراض (جلد کی خشکی اور رنگت کی خرابی اور جھریاں پڑنا) جیسے موذی امراض میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ 
پاکستان میں سگریٹ نوشی کے تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظر حکومت نے پبلک مقامات سرکاری دفاتر ، ریلوے اسٹیشنز ، پارکس ، سکولز و کالجز ، یونیورسٹیزوغیرہ میں سگریٹ نوشی پر پابندی عائد کی ہوئی ہے لیکن اس پر کسی حد تک عمل درآمد ہوا ہے ، یہ حقیقت جاننے کے لیے آپ کسی سرکاری دفاتر میں چلے جائیں ، افسرسے لیکر چپڑاسی تک ہر کوئی سگریٹ سلگائے نظر آئے گا۔ آپ سڑک پر نظر دوڑائیں تو گاڑی چلانا ہوا شخص بھی سگریٹ کے کش لگا رہا ہو گا(جوکہ ڈرائیونگ اصولوں کے بھی منافی ہے )حتیٰ کہ ڈیوٹی پر مامور پولیس ، سیکورٹی اہلکار بھی دھواں ہوا میں چھوڑتے ہوئے اپنے فرائض منصبی ادا کر رہے ہوں گے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان احکامات پر سختی سے عملددرآمد کر دیاجائے ، جو کوئی بھی خلاف ورزی کا مرتکب ہو، ان کے خلاف فوری کاروائی عمل میں لائی جائے تاکہ دوسرے اس سے سبق حاصل کر سکیں۔ سگریٹ نوشی کے رحجان کو کم کر نے کے لیے سگریٹ کے پیکٹ پر ٹیکس کی شرح بڑھا دی جائے کیونکہ یہ جتنا مہنگا ہو گا اتنا ہی کم استعمال ہو گا۔ امریکی صدر براک اوباما بھی سگریٹ نوشین کے رسیا تھے ، لیکن انہوں نے اپنی بیوی کے ڈر سے اس جان لیوا لعنت سے چھٹکارا حاصل کر لیا ہے۔ اگر امریکی صدر اپنی بیوی کے ڈر سے سگریٹ نوشی ترک کر سکتے ہیں تو پاکستانی بیویاں جو مردوں کے مقابلے میں کافی طاقتور سمجھی جاتی ہیں تہہ کر لیں کہ وہ اپنے خاوندوں کی اس بری لت سے آزار کرائیں گی تو کوئی امر مانع نہیں کہ سگریٹ نوشی میں کافی حد تک کمی واقع نہ ہو۔

Monday, 24 February 2014

Mother gave her Liver to Child


ماں نے اپنا جگر دے کر بیٹے کو بچا لیا۔ 
مادرانہ محبت کی بے مثال قوت نے موت کو بھی شکست دے ڈالی۔ ایک حیران کن خبر
آسکر ایوارڈ یافتہ امریکی اداکارہ جیسکا لینگ کا قول ہے۔ \"ایک عورت ماں بن کر بے غرض ہو جاتی ہے۔ تب عورت کی ذات کائنات کا مرکز نہیں رہتی، بلکہ یہ حیثیت اس کے بچے حاصل کر لیتے ہیں\"۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک ماں اپنے بچوں کی خاطر جان تک داؤپہ لگا دیتی ہے ۔ اس عجوبے کا عملی مظاہرہ پچھلے دنوں امریکہ میں مقیم ایک دلیر نوجوان پاکستانی ماں نے دکھایا اور اپنے پراؤں کا دل جیت لیا۔ 
چند سال قبل نیو یارک میں رہنے والے زوہیب اور ربیعہ کی ملاقات ہوئی۔ دونوں نوجوانوں کا تعلق پاکستانی خاندانوں سے ہے، لیکن وہ ملازمت کی غرض سے امریکہ آئے ہوئے ہیں۔ پہلی ملاقات ہی انہیں قریب لے آئی اور وہ ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے۔ محبت کا خوشگوار انجام ہوا اور وہ رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔
گیارہ ماہ قبل ان کے ہاں ایک گول مٹول بیٹے نے جنم لیا۔ والدین کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا اور وہ اپنے راج دلارے پہ جان چھڑ کنے لگے۔ افسوس کہ چھ ماہ کا ہوتے ہی بیٹا بیمار رہنے لگا ۔ اس نے دودھ پینا کم کر دیا جس کی وجہ سے بچہ روز بروز لاغر اور کمزور ہوتا گیا۔ پریشان والدین بیٹے کو لے کر قریبی واقع ہسپتال Montefiore Medical Centre پہنچے ۔ ٹیسٹوں کے بعد زوہیب اور ربیعہ کو یہ دل خراش خبر ملی کہ ان کا بیٹا ایک خطر ناک مرض Progressive Familial Intrahepatic Cholestatis میں مبتلا ہے۔ یہ ایسی غیر معمولی بیماری ہے کہ ہر ایک لاکھ بچوں میں صرف ایک کو نشانہ بناتی ہے ۔ اس مرض میں جگر سکڑتے سکڑتے آخر کار ناکارہ ہو جاتا ہے۔ تب انسان کی موت یقینی ہوتی ہے۔ جبکہ یہ بچہ Didus Diversis میں بھی مبتلا تھا اس پیدائشی بیماری کے باعث جسم میں جگر الٹی سمت نشو و نما پاتا ہے۔ 
نوزائیدہ بچے کی جان سخت خطرے میں تھی ۔ڈاکٹروں نے اسے ان بچوں کی فہرست میں شامل کر دیا جو اس انتظار میں موت کی راہ تکتے رہتے ہیں کہ شاید کوئی اللہ کا بندہ انہیں اپنا جگر، گردے یا دل عطیہ کر دے۔ 
بیٹے کا دکھ و کرب دیکھ کر قدرتاً ماں باپ پہ غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ ان کی جان کا ٹکڑا گور کنارے جا پہنچا تھا ۔ تاہم انہوں نے ہمت نہ ہاری اور رب العالمین کے حضور سربسجود ہو گئے کہ وہی دکھیاروں کی مانگیں پوری کرنے والا ہے۔ 
کئی دن گزر گئے ، عطیہ شدہ جگر کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔ ادھر بیٹے کی حالت بگڑتی چلی گئی۔ جگر کی خرابی کی وجہ سے بچے کے جسم میں زہریلا مواد بننے لگا۔ حتیٰ کہ آنکھوں سے زرد رنگ کے آنسو نکلنے لگے۔ ننھے بچے کو تکلیف میں دیکھ کر خصوصاً ماں کے دل پہ آ رے چلتے اور وہ اندر سے نڈھال ہو جاتی ۔ آخر ربیعہ اپنے بچے کو مزید کرب میں مبتلا نہ دیکھ سکی اور اس نے اپنی زندگی داؤ پر لگانے کا فیصلہ کر لیا۔ ماں نے طے کیا کہ اس کے جگر کا حصہ کاٹ کربچے کو لگا دیاجائے۔ 
ربیعہ کایہ عزم مصم دیکھ کر شوہر اور ڈاکٹروں اور سبھی کو ایک ماں کا انتہائی مشکل فیصلہ تسلیم کرنا پڑا۔ بیٹے کے مختلف ٹیسٹ ہوئے کہ کیا بچے کا جسمانی نظام ربیعہ کا جگر قبول کر لے گا۔ ٹیسٹوں سے جواب اثبات میں ملا۔ 
تاہم دنیا ئے طب میں ماں اور بچے کے درمیان منتقلی جگر کا آپریشن (Transplantation) بہت پیچیدہ سمجھا جاتا ہے۔ وجہ یہ کہ دوران آپریشن معمولی سی بھی کوتاہی ہو جائے تو خطرہ ہو تا ہے کہ ماں بیٹے میں سے کوئی ایک چل بسے گا۔ موت سامنے کھڑی تھی مگر مادرانہ محبت نے دلیرانہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ سچ ہے ایک جگر دار ماں ہی بچوں کے لیے اپنی جان تک قربان کر سکتی ہے۔ ماں تجھے سلام!
ڈھائی ماہ قبل ربیعہ اور اس کے بچے کا بیک وقت آپریشن ہوا ۔ Montefiore Medical Centre سے تعلق رکھنے والے بہترین ڈاکٹروں نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔ ایک ماں نے اپنی سب سے بڑی متاع کی قربانی دی تو رحمت الہی بھی جوش میں آ گئی۔ آپریشن کا میاب رہا اور ماں کے جگر کا 15فیصد ٹکڑا بیٹے کے جسم میں نصب ہو گیا۔ اس کامیابی میں امریکی جراہوں کی مہارت اور جدید ترین ادویہ نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ 
آپریشن کے بعد کچھ نازک موڑ آئے ۔ کبھی آرام کرتی ماں نے اپنے شکم میں ناقابل برداشت درد محسوس کیا تو کبھی بیٹا تکلیف سے بستر میں کروٹیں بدلتا رہا۔ لیکن آخر کار خدا کا کرم ہوا اور دونوں تندرست ہونے میں کامیاب رہے۔ آج ننھے بچے کی معصوم مسکراہٹ اور آنکھوں کی چمک لوٹ آئی ہے۔ ماں کے عطیہ کردہ جگر کا حصہ نشو و نما پا کے مکمل عضو میں ڈھل چکا ۔ وہ اپنی ذمہ داری انجام دیتے ہوئے زہریلے مادوں کی تہطیر کر رہا ہے۔ 
اب ایک بھر پور خوشگوار زندگی اور روشن مستقبل بچے کا منتظر ہے۔ ماں کی بروقت مدد نے اس کی جان ہی نہیں بچائی بلکہ ربیعہ کے بے غرض اقدام نے مادرانہ محبت کی تاریخ میں ایثار و قربانی کا نیا شاندار باپ بھی رقم کر دیا ہے۔ 

Saturday, 22 February 2014

Japanese Foods & Japanese Civilization


جاپانی کھانے اور آداب دستر خوان 
ابھرتے سورج کی سرزمین کے کھانے اس کی شاندار تہذیب کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔ 
گوشت کے استعمال پر ممانعت کے زمانے میں جاپانیوں نے اپنی ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مٹھاس، کھٹاس، نمکینی اور کڑواہٹ سے ہٹ کر ایک پانچواں ذائقہ تخلیق کر ڈالا۔ 

دنیا مختلف تہذیبوں کا مجموعہ ہے دنیا میں غالباً مغربی تہذیب کے علاوہ اور بھی کئی تہذیبیں ہیں جن میں کچھ تو ختم ہو چکی ہیں اور کچھ تاحال موجود ہیں۔ مثال کے طور پر مٹ جانے والی تہذیبوں میں ایزٹک اور مایا اور قدیم مصری تہذیبیں سرفہرست ہیں ، ایسی تہذیبیں بھی ہیں جنہوں نے خود کو بھر پور طریقے سے برقرار رکھا ہے جیسے چینی، جاپانی تہذیب ، ہندوستانی تہذیب اور عرب اسلامی تہذیب وغیرہ ۔ 
ترقی یافتہ تہذیبوں کے کئی مظاہر ہوتے ہیں جیسے ان کا رہن سہن، زبان، ثقافت اور کھانا پینا وغیرہ اور اسی سے دنیا میں ان کی پہچان ہوتی ہے۔ کھانا پینا اور اس کے آداب کسی بھی تہذیب کا اہم ترین مظہر سمجھے جاتے ہیں۔ جاپان بھی ایک ایسی ہی شاندار تہذیب ہے جس کے کھانے اس کی تہذیب کی بہتر عکاسی کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں یہاں جاپانی کھانوں اور ان کے آداب و دسترخوانی کا مختصر سا جائزہ پیش کرتا ہوں ، امید ہے سب کو پسند آئے گا۔ 
جاپانی کھانوں اور ان کے آداب دستر خوانی سے مراد ان کے اجزائے ترکیبی ، تیاری کے مراحل اور ان کو خور د نوش کا طریقہ ہے۔ جاپان چونکہ ایک مشرقی ملک ہے اس لیے ان کے کھانوں میں مشرق کی طرح شوربہ بہت استعمال کیا جاتا ہے جاپان کی روایتی خوراک چاول اور ایک شوربہ ہوتا ہے جیسے Miso soupکہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ چند اور ڈشیں بھی ہوتی ہیں جنہیں ان کے مخصوص برتنوں میں پیش کیا جاتا ہے ۔ جاپانی کھانوں کی ایک اور دلچسپ خصوصیت یہ ہے کہ ان میں موسم کے مطابق اجزاء استعمال کئے جاتے ہیں جاپانیوں کی روایتی خوراک میں شامل دیگر غذاؤں میں مچھلی ، سبزیوں کا اچار ، مچھلی یا گوشت کے پتلے شوربے میں پکی ہوئی سبزیاں سر فہرست ہیں ۔ مچھلی بھی جاپانیوں کی خوراک میں عام ہوتی ہے۔ یہ عام طور پر گرلڈ یعنی جالی پر بھنی ہوئی ہوتی ہے۔ تاہم اس کو کچا بھی کھایا جاتا ہے جسے Sashimiیا sushiکہا جاتا ہے ۔ سمندری غذاؤں یا سی فوڈز اور سبزیوں کو ڈیپ فرائی کرنے کے بعد ہلکا ہلکا کوٹا جاتا ہے۔ 
چاولوں کے علاوہ جاپانیوں کی پسندیدہ غذاؤں میں نمکین سویاں بھی شامل ہیں جنہیں نوڈلز کہا جاتا ہے جیسے سوبا اور اڈون وغیرہ۔ جاپانی غذاؤں میں ابلتے ہوئے شوربے سے بنے کھانے بھی بہت مقبول ہیں ۔ مثال کے طور پر مچھلی کی مصنوعات سے بنا شوربہ جیسے odenیا بڑے گوشت سے بنا شوربہ جیسے sukiyaki اور nikujaga کہا جاتا ہے۔تاریخی طور دیکھا جائے تو جاپانی گوشت کھانا پسند نہیں کرتے تھے، لیکن 1860کی دہائی میں جب جاپان کی ماڈرنائزیشن شروع ہوئی تو گوشت سے بنے کھانے بھی عام ہونے لگے۔ اس طرح جاپان کی مٹھائیاں بھی اپنی مقامی ہیں جسے wagashiکہا جاتا ہے اس کے اجزاء میں سرخ دال کا پیسٹ اور مقامی چاول کی شراب نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ چینی اور دیگر خشک میوے ڈالے جاتے ہیں ۔ جاپان کی روایتی خوراکیں خاص طور پر کچی مچھلی ، سوشی، اب پوری دنیا میں مشہور ہو رہی ہے۔ 
جاپانی سفید چاول کو بھاپ کے ذریعے پکاتے ہیں جبکہ اس کے ساتھ کئی اور مرکزی اور ثانوی ڈشیں بھی ہوتی ہیں اس کے ساتھ شفاف یخنی یعنی miso soupاور اچار ہوتا ہے جسے جاپانی میں isukemonoکہتے ہیں۔ 
جاپانی کھانے کس طرح پیش کئے جاتے ہیں؟
چاول اور مچھلی جاپانیوں کی بنیادی غذا ہے ۔ چاول ایک چھوٹے پیالے میں پیش کئے جاتے ہیں جبکہ ہر کھانا جھوٹی پلیٹوں یا bowl میں دیاجاتا ہے۔ گھر میں بھی ایسے ہی کھانا کھایا جاتا ہے یہ طریقہ مغربی انداز کے کھانے سے مختلف ہے۔ مغربی آداب دستر خوانی میں کھانے کی میز کے درمیان بڑے برتنوں یا بڑے ڈونگوں میں مرکزی کھانے رکھ دئے جاتے ہیں اور سب مہمان چھوٹی پلیٹوں میں کھانا لے کر کھاتے ہیں جبکہ جاپانی طریقے میں مختلف رنگ اور ذائقے کے کھانوں کو ایک پلیٹ میں رکھا جاتا ہے ۔ چنانچہ مختلف ذائقوں کے کھانوں کے لیے مختلف ڈشز ہوتی ہیں یا ان کے درمیان پتوں کے ذریعے تقسیم کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیک آؤٹ سوشی یعنی گھر لے جانے والی سوشی جو کہ tamagoyakiکہلاتی ہے اور انڈوں اور مچھلی سے بنتی ہے یا Blue backedمچھلی اور سفید گوشت دار مچھلی کو احتیاط سے الگ الگ رکھا جاتا ہے ۔ چاولوں کے اوپر اکاوز یعنی مختلف کھانے کی چیزوں کو رکھنا جاپانیوں کی نظر میں ا چھا نہیں اور پرانے مہذب جاپانی اس پر ناک بھوں چڑھا لیتے ہیں۔ یہ چینی کھانے کے بالکل برعکس ہے جس میں کھانے پینے کی چیزوں کو چاولوں کے اوپر رکھ دیاجاتا ہے۔ 
آداب دسترخوانی 
جاپان کے زیادہ تر ریسٹورنٹس اور گھروں میں مغربی طرز کے کھانے کی میز استعمال کی جاتی ہے تاہم روایتی انداز کی نیچی میز اور کشن والا طریقہ آج بھی بہت عام ہے۔ اس میں فرش پر ایک چٹائی نما چادر بچھائی جاتی ہے اور اس کے اوپر نیچی میزیں رکھ دی جاتی ہیں ۔ جاپانی چٹائی کو Tatamiکہا جاتا ہے اور یہ تنکوں سے بنی ہوتی ہے۔ چونکہ یہ بہت جلد ٹوٹ جاتی ہے یا گندی ہوجاتی ہے۔ اس لیے اس پر جانے کے لیے ہمیشہ جوتے اتارے جاتے ہیں۔ ٹاٹامی پر کھانے کے لیے نیچی میزوں کے ساتھ فرش پر سیدھا بیٹھا جاتا ہے اس میں مرد حضرات تو ٹانگیں موڑ کر بیٹھتے ہیں جبکہ خواتین کو مخصوص طریقے سے بیٹھنا ہوتا ہے جس میں ٹانگوں کو ایک سائیڈ پر کرنا ہوتا ہے۔ اگرآپ کسی جاپانی ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے لگیں تو میزبان نشست کی جانب آپ کی رہنمائی کرے گا اور مہذب طریقہ یہ ہے کہ اس کی جانب سے بیٹھنے کا اشارہ ملنے کے بعد بیٹھا جائے۔ جبکہ میزبان اس کے ساتھ یا داخلی دروازے کے قریب ترین نشست پر بیٹھتا ہے۔ 
حکمت اور ثقافت کا حسین ا متزاج 
جاپان میں غذائیت کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ یہ ملک ہے۔ ماضی کے اوراک کا جائزہ لیاجائے تو پتہ چلتا ہے کہ جاپانیوں نے مختلف پیشے اپنائے ۔ پہاڑوں اور سمندروں سے غذائی فوائد حاصل کئے ۔ انہوں نے اناج کی کاشت پہلی مرتبہ جومون عہد میں کی ۔ یہ زمانہ دس ہزار سے تین سو قبل مسیح کا ہے۔ خاص طور پر چاول کی کاشت کا آغاز اسی دور کے اختتام پر ہوا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس دور سے پہلے جاپانی کھانے نہیں پکایا کرتے تھے اس زمانے سے بہت پہلے جب جاپانی فصل کاشت کیا کرتے تھے تو وہ ان کو پکایا بھی کرتے تھے ۔ اس کو پکانے کے لیے پانی اور آگ سے پیدا ہونے والی بھاپ کو استعمال کیا جاتا تھا۔ جاپانی خوراک میں سب سے خاص چیز چاول کا استعمال ہوتا ہے۔ 
جاپان کے موجودہ دور میں جاپانی کھانوں میں نظر آنے والی جدت کا فروغ کاما کورا عہد کے کئی سال بعد شروع ہوا۔ جاپان میں روایتی کھانے بھی دھیرے دھیرے ثقافت کا حصہ بن گئے ، جیسے چائے نوشی کی روایت ہے حتمی طور پر جاپانی کھانے اید و عہد میں سترھویں سے انیسویں صدی تک اپنی بناوٹی تکمیل تک پہنچ گئے۔ گزشتہ دو سو برس سے موجودہ عہد تک جاپانیون نے خوردنی نباتات جیسا کہ mirinمیٹھی پکوان وائن ، سرکہ، سویا ساس کا بھی استعمال شروع کر دیا ۔ اس طرح جاپانی کھانوں کی اقسام ڈرامائی طور پر بڑھ گئیں ۔ پہلے صرف گھر میں کھانا کھانے کی روایت تھی لیکن اب گھر سے باہر کھانا کھانا بھی ایک معمول بن گیا ہے۔ باہر کھانا کھانے میں سوبا نوڈولز ، سوشی اور تیمپور افرائڈ کھانے بہت مقبو ل ہو گئے ہیں۔ 
مچھلی بھی جاپانی خوراک کا اہم حصہ ہے۔ جاپانیوں کی نفاست کا اندازہ ان کے مچھلی کے استعمال سے لگایا جاسکتا ہے ۔ وہ کس طرح مچھلی کو صاف کرتے ہیں اور کس طرح اس کی کٹائی کرتے ہیں اس مشق میں جب ذائقہ استعمال ہو جائے تو مزید لطف آتا ہے۔ مختلف مصالحہ جات اور جڑی بوٹیوں کا استعمال ان ذائقوں کو محفوظ کر لیتا ہے۔ اس کھانے کو سجانے کے لیے میز ، کچھ پھول اور پودے چاہیے ہوتے ہیں کیونکہ جاپانیوں کے نزدیک یہ بھی سجاوٹ کا ایک فطری اظہار ہے۔

حضرت موسیؑ اور گڈریا


حضرت موسیؑ اور گڈریا
حضرت موسیؑ ایک دن جنگل میں جا رہے تھے آپ نے دیکھا کہ ایک بھیڑ بکریاں چرانے والا (گڈریا) دست بستہ کھڑا ہے اور بڑے شوق سے کہہ رہا ہے کہ اے خدا میرے پاس آ کر بیٹھ تاکہ میں تیری جوتی سیوں، تیرے سر میں کنگھی کروں ، تیری جوئیں ماروں، میں تیرے ہاتھ پاؤ دھوؤں، تجھے نہلاؤں ، صاف ستھرے کپڑے پہناؤں اور تجھ پر قربان ہو جاؤں، اگر تو میرے پاس آئے تو میں اپنا کمبل بچھا کر تجھے اس پر بٹھاؤں اور بکریوں کا تازہ تازہ گرم گرم دودھ تجھے پلاؤں۔ اگر تو بیمار ہو جائے تو میں اپنوں کی طرح تیری خدمت کروں ، تیرے ہاتھ چوموں ، تیرے پاؤں دبا کر تجھے میٹھی نیند سلاؤں ۔ جب صبح خواب استراحت سے بیدار ہو تو تیرا منہ دھلاؤں ۔ تیرے کھانے کیلئے قورمہ ، قلیا، پلاؤ، پنیر کوفتے، مکھن ملائی اور کھیر تیار کراؤں ، تجھے اپنے ہاتھ سے کھلاؤں، اگر تو مجھے اپنا گھر دکھا دے تو میں تازندگی صبح و شام تیرے ہاں دودھ اور مکھن پہنچادیا کروں۔ میری تمام بکریاں اور بھیڑیں تجھ پر قربان ہوں۔ 
حضرت موسیؑ نے اس کی یہ مستانہ باتیں سنیں اور قریب جا کر پوچھا کہ تو کس سے یہ باتیں کر رہا ہے، تو کس کا میزبان بننا چاہتا ہے ، تجھے کس کو اپنے ہاں دعوت پر بلانے کی اس قدر آرزو ہے؟ گڈریا بولا۔ میں اس سے ہمکلام ہو رہاہوں جو میرا پیدا کرنے والا ہے جس نے مجھے بولنے کے لیے زبان دی ہے۔ مجھے یہ بھیڑ بکریاں عطا کیں۔ جن کے دودھ کو میں اپنی غذا اور جن کی پشم سے میں اپنا لباس بناتا ہوں اور جس نے مجھے یہ چیزیں دی ہیں میں اسی کے دیئے ہوئے سے اس کی دعوت کرنا چاہتا ہوں۔ اگر وہ مجھ غریب کے گھر تشریف لے آئے تو میں خوشی سے پھولے نہ سماؤں۔ میری آبرو بڑھ جائے گی اور اس کی شان میں کچھ فرق نہ آئے گا۔ 
حضرت موسیؑ نے کہا۔ گڈریے! تیرا کلام بڑا گستاخانہ ہے تو خدا سے ایسی باتیں کر رہا ہے۔ وہ تو سب کا رازق ہے اسے کسی کھانے کی محتاجی نہیں ہے۔ نہ وہ تھکتا ہے اور نہ اسے نیند آتی ہے۔ تو اس کے پاؤں کیا دبائے گا تو کیا سمجھا کہ اس کا تیرے جیسا جسم ہے؟ جان لے اور یقین کر لے کہ اس کا کوئی جسم نہیں ہے۔ اس کے تیرے جیسے ہاتھ پاؤں نہیں ہیں وہ سب چیزوں سے بے نیاز ہے وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وہی سب کا حاجت روا ہے۔ وہ تیرے پاس کمبل پر بیٹھ کر تیری بکریوں کا دودھ نہیں پی سکتا۔ بس ا یسے بے ادبانہ کلام سے توبہ کر ۔ حضرت موسیؑ نے اس غریب گڈریے کو اس قدر دبایا کہ وہ بالکل سہم گیا اور کہنے لگا اے موسیؑ تو نے تو میری زبان بند کر دی ہے ۔ میرا منہ سی دیا ہے اور پشمانی پیدا کر کے میرا دل جلا دیا۔ پس وہ چیخ مار کر اوراپنے کپڑے پھاڑ کر ایک طرف جنگل کو نکل گیا اور نبی وقت کا حکم سن کر اس نے اللہ سے اپنی شوق بھری ہمکلامی چھوڑ دی اور اپنا ارمان دل ہی دل میں دبا کر بیٹھ گیا۔ وہ گڈریا پڑھا لکھا آدمی تو نہ تھا کہ سوچ سمجھ کر شائستہ بات کرتا ہاں اس کے دل میں خدا کی محبت ضرور تھی اور وہ کمال شوق سے اسی کا اظہار کر رہا تھا خدا کو اس کی یہ ذوق و شوق کی باتیں پیاری لگتی تھیں۔ جب وہ ان سے رک گیا تو اللہ تعالی کو ناگوار معلوم ہوا ۔ فوراً اللہ تعالیٰ نے اپنے کلیم (حضرت موسیؑ ) کی طرف وحی بھیجی کہ تو نے میرے ایک محب کو مجھ سے جدا کر دیا ہے۔ اے موسیؑ ہم نے تجھے اس لیے نبی بنایا تھا کہ تو بندوں کو ہم سے ملائے مگر تو نے تو اپنے فرض منصبی کو چھوڑ کر اور راہ اختیار کر لی ۔ اے موسی ؑ ہم نیتوں کو دیکھتے ہیں عملوں کو نہیں دیکھتے۔ ہماری نظر حال پر ہے قال پر نہیں۔ ہمیں دلی سوز کی قدر ہے لفظوں کا خیال نہیں ۔ جا اور ہم سے جدا کردہ بندے کو پھر اپنے شغل میں لگا کہ ہم کو وہی محبوب ہے۔ 
حضرت موسیؑ یہ حکم الہیٰ سن کر فوراً واپس جنگل میں آئے اور بعد از تلاش بسیار کے بعد اس گڈریے کو ڈھونڈ ا اور کہا بھائی اپنی مناجات میں لگے رہو اور جو میں نے تمہیں روکا تھا اس کا کچھ خیال نہ کرو۔ تمہاری محبت اور سوز میں ڈوبی ہوئی باتیں اللہ تعالیٰ پیاری لگتی ہیں۔ اپنے شغل میں مصروف رہو اور مجھے معاف کر دو۔ میں تمہارے وظیفہ میں خلل انداز ہوا۔ اللہ تعالی نیتوں کو دیکھتا ہے ظاہری اعمال پر اس کی نظر نہیں۔ 

Tuesday, 18 February 2014

Cancer is High in Pakistan


کینسر آج بھی سب سے زیادہ خطر ناک مرض ہے 
سالانہ تقریبا 80لاکھ افراد کینسر کی وجہ سے موت کے منہ میں جلے جاتے ہیں۔ 
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر پانچ منٹ میں ایک ، گھنٹے میں بارہ جبکہ چوبیس گھنٹوں میں 288افراد کینسر میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں سالانہ تقریبا ڈیڑھ لاکھ افراد کینسر کے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہر سال 85ہزار افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جن میں 40ہوار حواتین بریسٹ کینسر اور 8ہزار بچے بھی کینسر کے مرض سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ جبکہ دنیا بھر میں ہر سال ایک کروڑ 20لاکھ سے زائد افراد اس مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ جن میں سے تقریبا 80لاکھ مریض بروقت تشخیص نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ کینسرکے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں میں 70% کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے۔ اسی تناسب سے پوری دنیا میں ہونے والی اموات میں کینسر سے ہونے والی اموات23%ہیں۔ 
کینسر کیوں ہوتا ہے؟
کینسر کیوں ہوتا ہے ؟ اس کا حقیقی جواب تو شاید کسی کے پاس نہیں ہے لیکن ماہرین صحت اس بات پر متفق ہیں کہ اس کی بنیادی وجہ Genesمیں رونما ہونے والے تغیرات ہیں ۔ غذا میں پائے جانے والے چند عناصر مثلاً ذخیرہ شدہ اجناس میں پائے جانے والے افلاٹوکسن Aflatoxins، تاب کاری اثرات، الیکٹرو میگنیٹک ویوز، وائرل، انفیکشنز ، فضائی و آبی اور غذائی آلودگی ، فوڈ کیمیکلز مثلاً کھانے کے رنگ، جینیاتی طور پر تبدیل کی جانے والی غذائی، سگریٹ نوشی، شیشہ کا نشہ، زہریلا دھواں، اور زرعی ادویات وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کچھ وجوہات ہیں جو کینسر کی وجہ بنتی ہیں۔ مثلاً سیمنٹ انڈسٹری سے متعلق لوگوں کو Asbestosنامی کیمیکل سے کینسر ہو سکتا ہے۔ خواتین میں سن پاس روکنے کے لیے ہارمون تھراپی سے بھی کینسر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سورج کی تاب کار شعاعیں ہیں جن سے وہ لوگ جو دھوپ میں زیادہ بیٹھتے ہوں خصوصا سفید جلد والوں کو جلد کے کینسر کا خدمہ لاحق رہتا ہے۔
پاکستان میں سب سے زیادہ پائے جانے والے کینسرز
ا۔ چھاتی کا کینسر۔ ۲۔ منہ اور ہونٹ کے کینسر۔ ۳۔ جگر اور پتے کی نالیوں کا کینسر۔ ۴۔ بڑی آنت کا کینسر۔ ۵۔ پروسٹیٹ کینسر۔ ۶۔ برین کینسر۔ ۷۔ مثانہ ۔۸۔ ہوچکنزکینسر۔۹۔ نان ہوچکنز کینسر۔ ۰ا۔ جلد کا کینسر۔ اا۔ اووری کا کینسر۔ ۲ا۔ پھیپھڑوں کا کینسر ۔ ۳ا۔ کولون کینسر ۔ وغیرہ 
بریسٹ کینسر
کینسر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ دوسری بیماریوں کی نسبت اس میں مردوں کے مقابلے میں عورتیں نہ صرف زیادہ مبتلا ہوتی ہیں بلکہ مردوں کی بانسبت کم عمری میں ہی اس کا شکار بھی ہو جاتی ہیں۔ اس کا اندازہ پاکستان میں سب سے زیادہ پائے جانے والے کینسرز میں پہلے نمبر پر چھاتی کینسر ہے اور خاص ہمارے ملک میں تو یہ کینسر اور بھی زیادہ ہلاکت خیزی کا موجب ہے کہ یہاں دنیا کے دوسرے ممالک کی نسبت خواتین بریسٹ اور اووری کینسر ز مین نسبتاً زدس سال پہلے ہی مبتلا ہو جاتی ہیں۔ یعنی عام طور پر حواتین اس مرض میں پچپن سال کی عمر میں مبتلا ہوتی ہیں لیکن پاکستان میں عام طور پر خواتین دس سال پہلے یعنی پنتالیس سال کی عمر میں ہی بریسٹ کینسر اور اوری کینسر کا شکار ہو جاتی ہیں۔ 
بریسٹ کینسر کے پاکستان میں آبادی کے تناسب سے دنیا میں سب سے زیادہ کیسز پائے جاتے ہیں۔ ایک تخمینہ کے مطابق تقریبا 50ہزار سالانہ اموات اس کی وجہ سے ہوتی ہین۔ ان خواتین میں نسبتاً اس کا تناسب کم پایا جاتا ہے جو بچوں کو دو سال کی عمر ت ک اپنا دودھ پلاتی ہیں۔ چھاتی کے کینسر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ جس خاندان میں اس کے دو تین کیسز ہوں اس خاندان کی دوسری خواتین میں اس کینسر میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ بہر حال اگر اس کی تشخیص ابتداء میں ہی ہو جائے تو یہ مکمل طور پر قابل علاج ہوتا ہے اس کے لیے خواتین کا خود تشخیصی عمل بہت ضروری ہے۔ یعنی خواتین ہر ماہ خود اپنی چھاتیوں کا ہاتھوں سے ٹٹول کر معائنہ کریں کہ کوئی گلٹی تو نمودار نہیں ہو رہی ۔ اگر کوئی گلٹی محسوس ہو تو فوراً اپنی لیڈی ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے ضروری نہیں کہ ہر گلٹی سرطان کا پیش خیمہ ہو بعض اوقات بے ضرر گلٹیاں اور غدود بھی ہو جاتے ہیں لیکن اس کی تشخیص ماہر ڈاکٹر سے کروانا بہت ضروری ہے۔ 
پھیپھڑوں کا کینسر
سگریٹ نوشی کرنے والوں میں پھیپھڑوں کے کینسر کا تناسب بہت زیادہ ہوتا ہے۔ سگریٹ نوشی سے نہ صرف سگرٹ نوش کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ اس کے آس پاس کے لوگ بھی بالواسطہ طور پر اس سے متاثرہ ہوتے ہیں۔ اسموکنگ کے علاوہ سیمنٹ کے ذرات سے اور کان کنی کے کام سے متعلق افراد کو بھی کئی سالوں کے بعد پھیپھڑون کے کینسر میں مبتلا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ 
جگر کا کینسر
ہیپاٹائٹس بی اور سی سے متاثرہ لوگوں میں یہ کینسرزیادہ پایا جاتا ہے چوں کہ پاکستان میں ایک کروڑ سے زیادہ لوگ ہیپاٹائٹس بی یا سی کا شکار ہیں اس لیے یہ کیسز بھی ہمارے ملک میں بہت عام ہیں اس سے بچاؤ کے لیے ہیپاٹائٹس بی کے حفاظتی ٹیکے نہایت موثر ہیں ۔ ہیپاٹائٹس بی یا سی سے متاثرہ لوگ اگر ابتداء میں ہی اپنا علاج کروا لیں تو اس کینسر سے بچاؤ ممکن ہے۔ 
کولون کینسر
اس کا تناسب بھی ہمارے ملک میں بڑھتا جا رہا ہے اس کی علامت کے طور پر مقعد خون آنا، وزن میں کمی، تھکان وغیرہ ہیں۔ متناسب غذا جس میں خوب ریشہ ہواور قبض س بچنا جیسی عادات اس کینسر سے بچنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ 
کینسر سے بچاؤ
کینسر سے بچاؤ کے لیے سب سے اہم اصول فطری ، متوازن اور سادہ زندگی گزارنا ہے۔ اور غیر فطری طرز زندگی سے بچنا ہے۔ طرز زندگی میں سادگی،مرغن غذاؤں کے زیادہ استعمال سے بچنا، ورزش ، ہر طرح کا نشہ خصوصاً پان ، چھالیہ ، تمباکو اور گٹکے وغیرہ سے بچنا اور خصوصاً جگر کے کینسر سے بچاؤ کے لیے ہیپاٹائٹس بی کے حفاظتی ٹیکے وغیرہ ہین۔ خواتین کا خود تشخیصی عمل بھی بریسٹ کینسر کے مکمل علاج میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ 

Why Depression?


ڈیپریشن کے خاتمے کے لیے چند تجاویز
ڈپریشن ایک ایسا دماغی مرض ہے جو دماغ میں کئی طرح کے کیمیکل مادوں کی مقدارمیں تبدیلی آنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ڈپریشن نرم، درمیانہ اور شدید ہو سکتا ہے۔ یہ ذہنی اور جسمانی دونوں طرح سے ہوتا ہے۔ڈیپریشن کا مریض ہر وقت کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا ہے اور اس سے کئی طرح کی جسمانی علامات بھی پیدا ہوتی ہیں ، جیسا کہ سر میں درد ، تھکاوٹ ، بھوک ختم ہو جانا اور جسم کے اعضاء میں درد ہونا وغیرہ۔ 
ڈیپریشن کے مریض کے خیالات بدل جاتے ہیں جسمانی اور ذہنی تھکاوٹ رہتی ہے اور سر میں شدید قسم کا درد اٹھتا ہے ۔ مریض کو شروع شروع میں یہی تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ڈیپریشن کے مریض اپنی زندگی کو جہنم سمجھنے لگتے ہیں ان کو زندگی سے پیار نہیں رہتا۔ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو بھی کچھ نہیں سمجھتے۔ کچھ لوگ تو حود کشی کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
ڈیپریشن کی وجوہات
ایسے لوگ ہر وقت خوف اور فکر کے شکار رہتے ہیں۔ ڈیپریشن خاندانی طور بھی ہوتا ہے اور پیدائش کے بعد اچھی پرورش نہ ہونے پر بھی یہ مرض ہو جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کو بچپن میں پیار نہ ملنے پر غربت کی وجہ سے کوئی ایسی لڑائی یا واقعہ، جس کو وہ برداشت نہ کر سکتا ہو، اپنے کسی رشتہ دار یا دوست کے مرنے پر، امتحان میں ناکامی یانوکری نہ ملنے پر اور آج کل تو بریک اپ پر بھی لڑکے لڑکیان ڈیپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔پسند کے رشتہ نہ ہونے پر بھی یہ بیماری پروان چڑھتی ہے ۔ اس کے علاوہ موبائل فون بھی ڈیپریشن کی بڑی وجہ ہے ۔ موبائل کا بے جا استعمال انسان کو ڈیپریشن کا شکار کر دیتا ہے نوجوان نسل کی لڑائیاں ڈیپریشن کا مریض ہر وقت اپنی غلطیاں اور گناہوں کو یاد کر کے پچھتاتا ہے ۔ اس کو عجیب و غریب قسم کے خیالات آنے لگتے ہیں۔ ایسے انسان کو اپنے مستقبل کی بھی کوئی پرواہ نہیں رہتی۔ آہستہ آہستہ اس کی صحت گرنے لگتی ہے مریض کو بھوک نہیں لگتی۔وزن کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ رات کو نیند نہیں آتی، پیٹ خراب ہو جاتا ہے ، بلڈ پریشر گرنے لگتا ہے مریض پوری طرح سے اپنے آپ کو خراب کر لیتا ہے اس کی صحت بری طرح سے خراب ہو جاتی ہے۔ لیکن کچھ ہفتوں کے بعد ہی مریض کی حالت ٹھیک ہونا شروع ہو جاتی ہے۔وہ نارمل انسانوں کی طرح زندگی گزارنے لگتا ہے ۔ کچھ لوگ تو دواؤں کے ذریعے خود کو متحر ک کرتے ہیں۔ 
ڈیپریشن میں کچھ لوگ الٹا الٹا بھی سوچنے لگتے ہیں، جیسا کہ وہ خود کو بہت امیر شخصیت ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ مریض ایک دم سے زیادہ خوشی محسوس کرتا ہے وہ خود کو سب سے بہتر شخصیت محسوس کرتا ہے۔ وہ بہت زیادہ خرید و فروخت شروع کر دیتا ہے۔ اس کو خود بھی سمجھ نہیں آتی کہ وہ کب کیا کر رہا ہے ۔ مریض بہت زیادہ بولتا ہے اس کے بولنے سے زیادہ لوگ بھی تنگ آ جاتا ہے۔ وہ لوگوں سے ناشائستہ باتیں کرتا ہے۔ اس کو ڈیپریشن کا اٹیک کچھ ہفتے رہتا ہے اور بعد میں نارمل ہو جاتا ہے۔ 
ڈیپریشن کا علاج کیسے کیا جاتا ہے؟
ڈیپریشن کا علاج اینٹی ڈیپریسنٹ ادویہ کے ذریعہ بھی کیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ سائیکو تھراپی کے ذریعہ بھی۔ سائیکو تھراپی اور ادویہ کا مشورہ ڈاکٹر آپ کے ڈیپریشن کی علامات کو دیکھتے ہوئے دیتا ہے کہ آپ کو کیا چیز بہتر طور پر استعمال کرنی چاہیے۔ اگر ڈیپریشن شدید قسم کا ہو اور ڈاکٹر مریض کو دوا کے ذریعے ٹھیک کرنا بہتر سمجھتے ہیں اور اگر درمیانی درجے کاڈیپریشن ہے تو ڈاکٹر مریض کا سائیکو تھراپی کے ذریعے علاج کرتا ہے۔ 
سائیکو تھراپی کے ذریعے علاج کیسے کیا جاتا ہے۔ 
سائیکو تھراپی کا مطلب ہے کہ باتوں کے ذریعے مریض کا علاج کرنا۔ اس میں ماہر نفسیات سائیکو لوجسٹ مریض سے باتیں کرتا ہے اس سے ڈیپریشن کی وجوہات معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مریض کے ساتھ ہونے والے ناگوار اور خوشگوار واقعات کا پوچھتا ہے اور ان واقعات سے اندازہ لگاتا ہے کہ مریض کے ساتھ کیا کیا مسائل درپیش ہیں۔ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ آپ کسی کو بھی اپنا دکھ درد شیئر نہیں کر سکتے۔ تو ماہر نفسیات کو سب بتا دیتے ہیں۔ کیونکہ ان سے بات کرنا کافی آسان ہوتا ہے تو اس طرح سے مریض کا علاج آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ اس علاج کے لیے مریض کو روزانہ کچھ گھنٹے کے لیے ڈاکٹر سے ملنا پڑتا ہے اور اس کا دورانیہ 5ہفتے سے 40ہفتے تک ہو سکتا ہے اور مریض آہستہ آہستہ خود پرسکون اور پریشانیوں سے دور محسوس کرتا ہے اور پہلے جیسے زندگی گزارتا ہے۔ 
ڈیپریشن ختم کرنے کے لیے کیا ، کیا جا سکتا ہے؟ 
ان لوگوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں جو آپ کو ہنسائیں اور آپ کو خوش رکھیں۔ دوسرے لوگوں کے ساتھ دوستانہ ماحول بنائیں کیونکہ اگر آپ ان سے تلخ رویہ رکھیں گے تو وہ آپ کے ساتھ نفرت کرنے لگ جائیں گے۔خوفناک قسم کی فلموں کو دیکھنا اور اس قسم کی کہانیاں پڑھنے سے گریز کریں کیونکہ یہ دماغ پر بہت برا اثر چھوڑتی ہیں۔ دوسروں کے بارے میں ہمیشہ مثبت سوچ رکھیں کیونکہ جب آپ دوسروں کے لیے منفی سوچ رکھیں گے تو اس سے صرف اور صرف آپ کا اپنا نقصان ہو گا۔ خود کو ہمیشہ مصروف رکھیں۔ ڈیپریشن ختم کرنے کا سب سے اچھا اور آسان حل یہ کہ خود کو اللہ تعالی کے ساتھ جوڑ لیں ۔ اپنی ہر خوشی اور غمی کو صرف اور صرف اللہ تعالی کے ساتھ شیئر کریں ۔ پھر دیکھیں کیسے آپ کی زندگی ایک نیا رخ بدلتی ہے۔ اپنے روز مرہ کے کام کو خود سرانجام دیں تاکہ ذہنی سکون ملے۔ روزمرہ کے معمول کو باقاعدہ طور پر ترتیب دیں اور اس معمول کے مطابق اپنا دن گزاریں۔ ان سے آپ کو مسائل حل کرنے میں دشواری نہ ہو گی اور جب دشواری نہ ہو گی تو ڈیپریشن خود بخود خاتمہ ہو جائے گا۔ ڈیپریشن کے خاتمے کے لیے خود کو تخلیقی صلاحیتوں سے اجاگر کریں ، جیسا کہ ڈرائنگ ، پینٹنگ اور تحریری سرگرمیاں شامل ہیں۔ کتابیں پڑھیں۔ دوسروں کی مدد کریں دوسروں کے کام آنے سے انسان کو دلی خوشی ملتی ہے۔ خود کو قدرتی مناظر اور فطرت سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کریں۔ جس سے انسان کو مسرت حاصل ہوتی ہے۔ اچھے اور ہمدرد دوستوں کی محفل میں وقت گزاریں ۔ بزرگوں کی زندگی کے تجربات کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے اپنے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر کوئی ایسی بات جو آپ کو ڈیپریشن کا شکار کر رہی ہے تو آپ کسی بااعتماد شخص کو وہ بات بتائیں اور اس کو یہ بھی بتائیں کہ آپ کیا محسوس کر رہے ہیں۔ اس طرح سے آپ کی ٹینشن نہ صرف کم ہو گی بلکہ آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ رونے سے بھی دل کا بوجھ ہلکا ہو جا تا ہے۔ روزانہ صبح کی سیر کو معمول بنا لیں اور اس کے ساتھ ساتھ ورزش بھی کریں۔ اس کو کرنے سے انسان حود کو تازہ دم محسوس کرتا ہے۔ خود کو ایسے کاموں میں مشغول رکھیں جس سے آپ کا دھیان ادھر ادھر کی باتوں سے نکل جائے جیسا کہ ٹی وی پروگرامز کو دیکھیں ، ریڈیوں سنیں، موسیقی کو سنیں وغیرہ۔ 

Monday, 17 February 2014

سب سچ


سوانح حیات۔ سید معراج علی 
سب سچ
یہ کہانی سید معراج علی 75سے یا اس سے زائد سالہ زندگی اور چند سچے واقعات کا احاطہ کرتی ہے۔ 
فراغت کی موجودہ زندگی میں چند دوستوں نے مجبور کر دیا کہ میں ان75سالوں کے تجربات قلمبند کر دوں۔ 
میرے آباؤ اجداد:۔ 
سید فدا علی اپنے تینوں شادی شدہ بیٹوں سید شوکت علی، سید شرافت علی اور سید محمد علی کو کاروبار کی غرض سے رجب پور سے لے کر مراد آباد آ گئے۔یہ وہی شہر ہے جس کی شہرت جگرمراد آبادی، سجاد حیدر یلدرم اور قرۃ العین وغیرہ کے دم سے ہے۔اگر عبیداللہ بیگ (کسوٹی فیم) کا نام بھی شامل کر لیں تو بے جا نہ ہو گا۔ مراد آبادکے نقش و نگار والے تانبے اور پیتل کے برتن بھی مشہور ہیں۔ اس کاروبار پر مسلمانوں کی اجارہ داری عرصہ دراز سے چلی آ رہی ہے۔ یہ کوئی 1925کے قریب کی بات ہے کہ یہاں آ کرفدا علی نے ریلوے روڈ پر ایک قطعہ اراضی خریدا جو 5کنال تھا اس کے آدھے حصے میں تین مکان آگے پیچھے تھے۔ شوکت علی کو کاروباری لحاظ سے سوجھ بوجھ اور عمر میں سب سے بڑا ہونے کی وجہ سے لب سڑک والا مکان دے دیاگیا، اس کی نچلی منزل پر تین دکانیں تھیں اور اوپر کی منزل میں رہائش۔ مکان کے پچھلی طرف کے دو مکانوں میں محمد علی اور شرافت علی مع اہل و عیال رہنے لگے، دکانوں میں سے ایک میں ہندو قصائی کی دکان تھی جو بکرے کا گوشت کھلے عام اور کبھی کبھار مسلمانوں کے لیے چوری چھپے گائے بھی ذبح کر لیتا تھا۔ کیونکہ ہندوؤں کے لیے یہ ایک مقدس جانور تھااور ہے اس لیے اس کے ذبح کرنے پرہندو بہت ناراض ہوتے تھے اور کبھی کبھار ایسے قصائی کے چھرا بھی گھونپ دیتے تھے۔ ایک دکان میں دو تین چمار جوتوں کی مرمت کرتے تھے ۔ تیسری دکان میں ایک برہمن بکری کے گردے کلیجی بھونتا تھا جس کی فروخت مغرب کے بعد شروع ہوتی تھی ہر شرابی یہاں سے خریداری کر کے شراب کی ہٹی پر پہنچتا تھا۔ 
سید فدا علی نے قطعہ اراضی کے نصف حصہ میں لکڑی کا کاروبار کر لیا جسے عرف عام میں ٹال کہتے ہیں۔ چار ملازموں میں سے کلو پدھان اور گچھن تھے جو انتہائی محنت سے لکڑیاں پھاڑ پھاڑ کر ڈھیر لگاتے، ایک مزدور آنے والے گاہکوں کی لکڑیاں تول کر اسے پیسے بتاتا جو رام لال کے حوالے کرتا اور وہ فدا علی کو دے دیتا۔ رام لال کی ایمانداری کی وجہ سے اسے رقم وصولی کا کام سونپا گیا تھا۔ خود فدا علی کی نظر کمزور تھی لہذا نوٹ شناخت کرنے میں انہیں مشکل پیش آتی تھی۔ ان کے سب سے چھوٹے بیٹے محمد علی کا کام رات کے اندھیرے میں ٹال کی نگرانی کرنا تھا جو کبھی کبھار آنکھ بچا کر چار پائی پر آرام بھی کرلیتے تھے۔ بھاگ دوڑ کے بعد ریلوے اسٹیشن پر شرافت علی کو تانگہ اسٹینڈ کا ٹھیکہ مل گیا ۔ ٹال چونکہ گنجان آباد علاقے میں تھی اس لیے لکڑی کا کاروبار تیز ی سے چمک اٹھا ۔ اس ٹال کے برابر میں ایک اور ٹال تھی۔ اس کے بعد سڑک کے دونوں طرف کمہار، کنجڑے روئی دھننے والے اور مزدوروں کے چھوٹے چھوٹے لاتعداد گھر تھے۔ اس کے بعد ایک دو سینما اور اس کے بعد مراد آباد کا ریلوے اسٹیشن تھا جس پر پلیٹ فارم کے علاوہ کم و بیش دس بارہ اور ریلوے لائنیں تھیں۔ ریلوے اسٹیشن سے کچھ پہلے سڑک کے دونوں طرف آموں کے درخت تھے۔ ٹال کے عقب میں مراد آباد کی جیل تھی جس کی چار دیواری کے ساتھ ساتھ دس بارہ فٹ چوڑا اور انتہائی گہرا نالہ گزر رہا تھا جس کے پانی کی رفتا ردیکھ کر خوف آتا تھا مگر جب بھی اس طرف قیدیوں کی گھاس کاٹنے کی ڈیوٹی لگتی تھی تو اکا دکا نامی گرامی بدمعاش ، لٹیرے، نڈر اچکے آٹھ فٹ اونچی دیوار پھاند کر نالے میں غوطہ لگا کر بھاگ جاتے تھے۔ ڈیوٹی کے بعد نگران کو معلوم ہوتا کہ چند ایک قیدی بھاگ گئے ہیں لہذا ساری فضا سائرن اور سیٹیوں کی آواز سے گونج اٹھتی ۔ جیل میں کبھی کبھارکسی لاش کا پوسٹ مارٹم کیاجاتا تو ہوا کے ساتھ ساتھ ٹال میں ایک ناگوار بو پھیل جاتی اور فدا علی چائے بنوا کر اپنے مگ میں دیسی گھی کے دو چمچ ڈال کر اس چکنے ،دائروں والی چائے سے لطف اندوز ہوتے اور اپنی آرام دہ کرسی پر لیٹ جاتے تھے۔ ٹال کے ایک طرف شراب کی ہٹی تھی ۔ رات ہوتے ہی یہاں شرابی جمع ہو جاتے ۔ برہمن کی دکان سے خریدی ہوئی چٹ پٹی روکھی کلیجی اور گردے کھاتے اور ہٹی سے ٹھرا خرید کر ایک دو گھونٹ بھرتے اور گالیاں بکتے ہوئے کنجری سرائے میں کسی کوٹھڑی کا رخ کرتے جہاں ایک سے ایک بڑھ کر کنجری کچے گھروں کے درمیان رات کے وقت بناؤ سنگھار کر کے کھڑی ہو جاتی ۔جن میں بمبئی سے بھاگ کر آنے والی چھمیابھی تھی جوسب کے مقابلے میں زیادہ جوان، زیادہ پرکشش اور گوری بھی تھی۔ ان سب کا کاروبار خوب چمک رہا تھا۔ گاہکوں میں زیادہ تر شرابی ہوتے۔ ٹال کے سامنے پیارے لال کی پنساری کی دکان تھی جس پر روزمرہ کی چیزیں مثلاً چاول، دال، آٹا، گڑ اور مصالحہ جات وغیرہ جیسی بہت سی چیزیں ملتی تھیں۔ اس دکان کے برابر سڑک کا ڈھال کچھ فاصلے پر ایک مسجد کے پاس سے گزر کر کہیں شہر کے بازاروں میں جا ملتا تھا۔ اس مسجد میں زیادہ رونق رمضان میں ہوتی جب مسلمانوں کے بچے خوانچے والوں سے دال ئسیو خرید کر اذان کے انتظار میں رہتے جس کی آواز کے ساتھ ہی ان میں دوڑ لگ جاتی کہ کون اپنے گھر پہلے پہنچ کر روزہ کھلنے کی خوشخبری سنائے گا۔ غلامی کے اس دور میں کچھ نڈر مسلمان مسجدوں کو آباد کئے ہوئے تھے تاہم قرآن کی تلاوت گھروں میں کرتے۔ مسلمانوں کے ہر گھر میں قرآن موجود تھا جن کا یہ ایمان تھا کہ وہ انہیں ہندو اور انگریز دونوں کے ظلم سے بچائے گا۔ وقت تیزی سے گزرتا رہا اور 1940ء جب آیا تو سڑکوں پرمسلمانوں کے یہ نعرے بھی سننے میں آنے لگے ۔
سینے پہ گولی کھائیں گے پاکستان بنائیں گے 
مسلمانوں کے جلوس ہندوؤں کو ایک آنکھ نہ بھاتے تھے لہذا وہ چوری چھپے رات کے اندھیرے میں مسلمانوں کو قتل کرنے لگے۔ 1936میں فدا علی نے کاروباری منافع سے شوکت علی کی دوسری شادی جمیلہ نامی خاتون سے کر دی۔ جس کے لیے انہوں نے گاؤں کی بیوی سے اجازت بھی لی جو غالباً بانجھ تھیں اور ان کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی۔ یوں جمیلہ خاتون نے تین دکانوں کے اوپر کی منزل کو آباد کر دیا جو برسوں سے عورت کے بغیر کاٹ کھانے کو دوڑتی تھی۔ شادی کے اگلے دن دھوم دھام سے ولیمہ ہوا جس میں شوکت علی کے چند ہندو دوستوں نے بھی شرکت کی۔ ارد گرد کمیونٹی میں فدا علی بڑے میر صاحب اور شوکت علی چھوٹے میر صاحب کہلانے لگے۔ شام کو بڑے میر صاحب اپنی بہو جمیلہ خاتون کو نیچے کے دو مکانوں میں لائے اور سب کا تعارف کروایا۔ جن میں ان کی ساس بھی شامل تھیں جو قد آور، طاقت ور اور گوری چٹی خاتون تھیں۔ ان کے سرخ سپید رخساروں پر ایک مسا بھی تھا۔
یہ1938تھا جب شوکت علی کے ہاں ایک سانوالہ سا بیٹا پیدا ہوا۔(یعنی میں) وارث کے پیدا ہونے کی وجہ سے جمیلہ خاتون کی مناسب دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ غذا اور دواؤں کا بھی خیال رکھا گیا ۔ محمد علی اور شرافت علی کی پہلے ہی دو دو تین تین اولادیں تھیں مگر اس خوشی میں سب برابر کے شریک تھے اور باری باری سب نئی نویلی سانولی دلہن کی خدمت کرتے رہے۔ 
دو سال بعد اس سانولے بچے کی ختنہ( سنتیں )کرا دی گئیں ۔ اس بچے کے گاؤں والے ماموں سید اشتیاق علی آفریدی جو مراد آباد میں ایک راشن ڈپو کے انچارج تھے اور بیکری والوں کو چینی کبھی کبھار کوٹے سے زیادہ بھی دے دیتے تھے ان میں سے ایک بیکری کے مالک نے پانچ پونڈ کا انتہائی لذیذ کیک آفریدی صاحب کو بنا کردے دیا جووہ میرے لیے لے کر آئے تو میں نے کئی دن تک مزے لے لے کر کھایا کیونکہ نمک مرچ کے کھانے پر پابندی تھی۔ شوکت علی نے اپنے بیٹے کا نام معراج علی رکھا مگر گاؤں والی سوتیلی ماں اسے پیار سے ابن کہنے لگیں اس زمانے میں مسلمان بچوں کے نام اس وزن پر رکھنے کا عام رواج تھا مثلاً جمن ، کلن، چھکن ، امن ، نبن ، چھدن اور ببن وغیرہ۔فدا علی جب اس فرض سے فارغ ہوئے تو شوکت علی عمارتی لکڑی کے کاروبار میں کثیر منافع کما چکے تھے چنانچے باپ کے مشورے سے انہوں نے ایک نیا ٹرک خرید لیا۔جسے شہر کے ہندو بھی یک نظر ضرور دیکھتے تھے۔ یہ شیور لیٹ یا بیڈ فورڈ تھا۔ آہستہ آہستہ اس ٹرک کی باڈی انتہائی قیمتی لکڑی سے تیار ہوتی رہی ۔ جب یہ کام مکمل ہوا تو معرا ج علی بھی اپنی ماں کے ساتھ ٹال میں اس پر سلیٹی رنگ ہوتا ہوا دیکھنے زینے سے ٹال میں آگیا ۔اس دوران ایک بڑی سی کالے اور سفید رنگ کی پتنگ جسے چپَ کہتے تھے کہیں سے کٹی ہوئی آئی تو ٹال کے مزدور کام چھوڑ کر اس کی طرف لپکے ۔ ایک دو مزدور وں نے سڑک کی طرف سے آنے والے لونڈوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر بھگا دیا۔ لوٹی ہوئی یہ پتنگ جب میرے حوالے کی گئی تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ میں اسے حفاظت سے لے کر کوٹھے پر آ گیا اور پلنگ کے سرہانے کھڑا کر دیا۔ اس کے ساتھ جو چند گز ڈور تھی اس کی ایک مزدور نے اٹیا بنا دی جو شاید بچپن میں پتنگ بازی کرتا رہاتھااور پتنگوں کے کئی نام اسے زبانی یاد تھے۔ ان میں سے کچھ مجھے بھی رٹوا دیئے۔ مثلاً چوباق، لنگوٹ، ادھا ،ڈھپال اورکنکوا وغیرہ۔اٹیا دراصل انگریزی کے ہندسے 8کی طرح بنائی جاتی ہے جسے پتنگ لوٹنے والا دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور چنگلیا کی مدد سے ڈور سمیٹنے کیلئے بناتا ہے۔ میرے والد نے جب اکثر مجھے آسمان پر اڑ تی پتنگوں کو تکتے دیکھاتو میرے نیچے اترنے اور پتنگ اڑانے پر پابندی لگا دی اور اپنی بیوی کو بھی سختی سے تاکید کر دی۔ میں سہم کر رہ گیا کیونکہ میرے والد میری کڑی نگرانی کرتے اور ذرا ذرا سی غلطی پر میری پٹائی کرتے۔ یوں مجھے وہ برے لگنے لگے۔ جب وہ گھر پر نہ ہوتے تو میں اکثر شام کو صحن میں کھڑے ہو کر آسمان پر اڑتی ہوئی رنگ برنگی پتنگوں کو حسرت بھری نگاہوں سے گھنٹوں تکتا رہتا۔ ایک دن میرے والد کاروبار کے سلسلے میں عمارتی لکڑی لینے دارجلنگ چلے گئے تو ماں کے لاکھ منع کرنے کے باوجود جب وہ غسل خانے میں گئیں تو میں پتنگ لے کر دبے پاؤں نیچے آیا اور مزدور سے اٹیا کھولنے کے لیے کہا تو میری پتنگ کے ساتھ مجھے دس بارہ گز ڈور مل گئی اور میں اسے اڑانے لگا مگر ابھی سیکھنے کا عمل تھا لہذا میری پتنگ اوپر اٹھتے ہی نیچے آ جاتی۔ کافی دیر کے بعد جب میں کوٹھے پر آیا تو میری خوب درگت بنی ۔ اب مجھے ماں بھی بری لگنے لگی۔وہ سمجھتی تھیں کہ میں جوان ہو کر پتنگ اور ڈور کا کاروبار کروں گا اور ان پڑھ ہی رہوں گا۔ جب میں نے پانچویں برس میں قدم رکھا تو میرے والدین میں میری تعلیم پر طویل بحث ہونے لگی والد کہتے تھے کہ یہ کاروبار سنبھالے گا لہذا سے پڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں جبکہ میری والدہ کی رٹ تھی کہ وہ اسکول میں داخل کروائیں گی۔ اس دوران میری بہن پیدا ہوئی مگر زندگی نے چند ماہ سے زیادہ وفا نہ کی ایک بار پھر سب کی توجہ میری طرف ہو گئی۔ سب سے زیادہ مجھے اپنی پتنگ پیاری لگنے لگی۔ والد کی غیرحاضری میں اسے صحن میں اڑاتا۔ ایک دن ہوا تیز تھی تو میری پتنگ اوپر اٹھی تو مجھے بہت مزہ آیا میں نے اسے ڈھیل دی تو وہ اوراونچی ہونے لگی مگر جب اس نے غوطہ لگایا تو وہ سامنے کے بجلی کے تاروں میں الجھ کر رہ گئی اور کئی بل کھانے کے بعد تاروں میں ہی جھولنے لگی۔ میں نے بہت زور لگایا مگر وہ تاروں کی گرفت سے نہ نکل سکی اسی کوشش میں ڈور ٹوٹ گئی اور صرف دو تین گز کا ٹکڑا میرے ہاتھ میں رہ گیا۔ جسے میں نے صحن میں ہی پھینک دیا۔ والدہ نے جب صحن میں جھاڑو دی تو یہ ڈور کا ٹکڑا ان کی جھاڑو سے بار بار لپٹ کر انہیں تنگ کرنے لگا جب انہوں نے غصے میں جھاڑو میری ٹانگوں پر دو تین بار لگائی تو میں بھاگ کر نیچے آیا اور دادی کے پاس رونے لگا تو انہوں نے مجھے گود میں اٹھا لیا اور میری تسلی کے لیے میری والدہ کو گھور کر دیکھا۔ اسی طرح جب والد مجھے مارنے کو دوڑتے تو میں بھاگ کر دادی کی گود میں آ جاتا جو مجھے اپنے دوپٹے کے نیچے چھپا لیتیں۔ وہ ڈانٹ کر کہتیں شوکت! ۔ خبر دار جوتو نے میرے معصوم بچے کو ہاتھ بھی لگایا۔ میں تیرے ہاتھ توڑ دوں گی۔ میرے والد یہ کہہ کر واپس چلے جاتے کہ اماں آپ اسے بگاڑ دیں گی تو وہ جواب دیتیں ۔ بچہ ہے خود سمجھ جائے گا۔پھر ایک دن میری ماں کو میری پٹائی کا ایک اورموقع ہاتھ آ گیا۔ ہوا یوں کہ مجھے بہت بھوک لگی تو میں نے والدہ سے میٹھا پراٹھا پکانے کی فرمائش کر دی ،نہ جانے کون سی نیک گھڑی تھی کہ انہوں نے بخوشی میٹھا پراٹھا بنا دیا۔ میں گرم گرم پراٹھا پلیٹ میں لے کر کمرے میں آ گیا۔ اس کمرے کا ایک دروازہ پچھلی طرف کھلتا تھا یہاں سے زینہ نیچے اتر کر دونوں مکانوں میں جاتا تھا جن میں میرے چچا رہتے تھے۔ یہ زینہ ہنگامی صورت میں بڑوں کے استعمال کے لیے تھا اورمجھ جیسے بچوں کے لیے انتہائی خطر ناک تھا کیونکہ سیڑھیوں کے دونوں طرف سہارے کے لیے کوئی دیوار یاریلنگ نہ تھی۔ ابھی پراٹھا ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ مجھے سخت پیاس لگی اور میں پانی لینے کے لیے صحن میں آیا۔ واپس جا کر تخت پر دیکھا تو خالی پلیٹ میرا منہ چڑا رہی تھی۔ میں رونہار ہو گیا اور بھوک نے مجھے ڈرتے ڈرتے باورچی خانے میں پھر پہنچا دیا۔ میں نے روتے ہوئے کہا میرا پراٹھا کسی نے کھا لیا ہے تو جواب میں انہوں نے کہا کہ اتنی جلدی تم نے پراٹھا کیسے کھا لیا اس کے علاوہ کہنے لگیں تو پیٹو کب سے ہو گیا میں نے بڑا یقین دلایا مگر انہوں نے میری ایک نہ سنی اور پھنکنی ہاتھ میں لے کر گھسیٹتی ہوئی مجھے کمرے میں لے آئیں وہ سمجھیں کہ میں بھوک کی شدت سے لاچار ہو کر بڑے بڑے نوالے لے کرٹھونستا آناً فاناً حبشیوں کی طرح پراٹھا کھا گیا ہوں، یا میں نے پراٹھا کہیں چھپا دیا ہے یا زیادہ بھوک نے مجھے دوسرا پراٹھا مانگنے پر مجبور کیا ہے۔ مگر ہر گز ایسا کچھ نہ تھا۔ انہوں نے دروازے سے گردن باہر نکال کر جب اپنے بائیں جانب دیکھا تو ایک بندر چچا کے مکان کی چھت پر بیٹھا گرم گرم پراٹھا بڑے شوق سے کھا رہا تھا۔ چنانچہ بے بس ہو کر انہوں نے میرے لیے دوسرا پراٹھا پکانے کی حامی بھر لی۔ ان کے جاتے ہی میں نے ایک کواڑ کا سہارا لے کر باہر جھانکا تو بندر کو پراٹھا کھاتے پایاتو دل ہی دل میں اسے کوسنے لگا۔ دراصل دونوں مکانوں کے پیچھے جو ایک بڑی ٹال تھی اس میں املی کا درخت تھا جس کی چند شاخیں پھیل کر چھت سے منڈیرکی طرف آ نکلی تھیں۔ جب بندروں کو بھوک لگتی تو وہ اس درخت پر املی کھانے کے لیے آ جاتے۔ بندر میرا پراٹھا ختم کر کے فوراً چھت سے منڈیر کے سہارے دبے قدموں دروازے کی طرف آتا دکھائی دیا تو ڈر کے مارے میں نے دروازہ بند کر دیا۔ 
رات کے وقت جب میں ماں کے پاس لیٹتا تو بہت سے سوال کرنے کو جی چاہتا مگر ماں کا خوف آڑے آ جاتا۔ ایک دن والد گھر پر نہ تھے تو میں نے والدہ سے پوچھا کہ میری بہن کہاں چلی گئی۔تو وہ کہنے لگی کہ اللہ کے پاس چلی گئی۔ جب میں نے یہ کہا کہ وہ آئی کہاں سے تھی تو جواب ملا کہ روشندان میں سے اللہ میاں نے مجھے آواز دے کر تمہاری بہن دے دی۔ میرا حوصلہ بڑھا تو ایک اور سوال کر دیا اور میں کہاں سے آیا ہوں؟ تو ان کا جواب تھا کہ بہت بولنے لگے ہو خاموش ہو کر سوجاؤ رات بہت ہو گئی ہے۔ 
میں اب انگلی پکڑ کر والدہ کے ساتھ ساتھ تیز قدموں سے چلنے لگا تھا۔مگر گھر کے سامنے بڑی سڑک پا ر کر کے پیارے لال کی دکان سے روزمرہ کی چیزیں لانے کی اجازت نہ تھی۔ اتفاق سے انہیں دنوں ایک فوجی سکھ دوست بڑے میر صاحب سے ملنے آیا اسے کتے پالنے کا بہت شوق تھا شاید اس پر انگریزوں کے طرز زندگی کا گہرا اثر تھا ، میر صاحب نے اپنی بہو کا مسئلہ اس کے سامنے رکھ دیا تو اس نے چند دن بعد ایک نسلی کتا مع ٹرینر کے بھیج دیا جس نے میر صاحب کے مشور سے اس کا نام موتی رکھ دیا اور دو تین دن میں اسے سدھا کر تیا رکر دیا جو زینے کے دروازے کے پاس بیٹھا رہتا ۔ اماں جی جب اسے زینے کے قریب سے موتی کہہ کر پکارتیں تو وہ فوراً لپک کر سڑھیاں پھلانگتا ہوا اوپر آجاتا اور سیڑھیوں سے نیچے اترنے اور چڑھنے کے لیے اوپر آنے والے راستہ میں چھوٹے سے دروازے کے کواڑ پر اگلی دونوں ٹانگیں رکھ کر ہلکا سا بھونکتا جس کی آواز پر اماں جی اس کے گلے میں ایک تھیلا اور سودے کا پرچہ باندھ دیتیں ۔ موتی دوڑتا ہوا بڑی ہوشیاری سے سڑک کی ٹریفک سے نکل کر پیارے لال کی دکان کے تھڑے پر ایک بار پھر اپنی اگلی ٹانگوں پر کھڑا ہو جاتا۔ پیارے لال سودا تھیلے میں ڈال کر موتی کی گردن کے ارد گرد لپیٹ دیتا جو سیدھا گھر کا زینہ چڑھ کر بھونک لگاتا۔ اما ں جی اس کی گردن سے تھیلا کھول لیتیں اور موتی نیچے اتر کر پھر اپنی جگہ پر آ بیٹھتا ۔ ابا جی کا آمنا سامنا جب پہلی مرتبہ موتی سے ہوا تو وہ بھونکنے لگا مگر بڑے میر صاحب نے نہ جانے اس پر کیا جادو کیا کہ میرے والد نے جب اسے دودھ پلایا تو وہ دم ہلانے لگا اور جلد ہی گھر والوں اور مہمانوں میں تمیز کرنے لگا۔ میرے والد نے سکھ کا سانس لیا کہ ان کے والد نے نوکر رکھنے کے مسئلہ کو موتی کے ذریعہ حل کر دیا تھا۔ 
کاروباری دوروں کے سلسلے میں والد صاحب اکثر گھر سے باہر رہتے تھے چنانچہ ان کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے والدہ مجھے عزیز واقارب کے ہاں لے جانے لگیں ان کی بڑی بہن صداقت انسا عرف صدو گلاب رائے کے باغ والے محلہ میں ایک منزلہ مکان میں اپنے شوہر اور پانچ بیٹیوں کے ساتھ رہتی تھیں۔ ان کے شوہر سید مقبول حسین برتنوں پر نقش و نگار بنانے کا کام کرتے تھے جن کا سارا دن محنت اور مشقت میں گزر جاتا شام کو برتن تیار کر کے دکان دار کو دے آتے اپنی مزدوری لیتے اور اگلے دن کے لیے برتن لے آتے۔ ان پڑھ ہونے کی وجہ سے وہ رات دن مشقت کی چکی میں پس رہے تھے مگر بلا کے ذہن عقل مند اور چالاک ہونے کی وجہ سے اپنے کمزوری کو بڑی خوبی سے نبھارہے تھے۔ ان کی بیٹی افسر جہاں نہ صرف اپنے والد کا ہاتھ بٹاتی بلکہ مجھے بھی یہ ہنر سکھانے کی سرتوڑ کوشش کرتی مگر بے سود کیونکہ والدہ کی گھورتی نگاہیں، مجھےکچا چبانے کی فکر میں رہتیں۔ میں ان کے خوف، رعب اور دبدبے کے سامنے دونوں باپ بیٹی کی صحبت میں بت بنا بیٹھا رہتا ۔ اکتاہٹ سے چور ہو کر میں واپس جانے کا تقاضہ کرتا تو خالہ جان میری والدہ کو جمیلہ کہہ کر دو تین دن گزارنے کے لیے روکتیں ۔ اگلے دن خالہ کی پانچ بیٹیاں میری والدہ کو پڑوس میں لے گئیں۔ میں موقع غنیمت جان کر رونی شکل بنا کر خالہ سے کہنے لگا ہمیں جانے دیں تو انہوں نے میرا دھیان پلٹنے کے لیے میری پسندکے بارے میں پوچھا تو میں نے کہا مجھے پتنگ اڑانا بہت اچھا لگتا ہے۔ آپ کے گھر تو دو دو کو ٹھے ہیں تو وہ کہنے لگیں تو فکر نہ کر اگلی مرتبہ جب آئے گا تو میں تیرے لیے پتنگ اور ڈور منگا کر رکھوں گی ۔ میں تیری ماں کو کمرے میں لے جا کر باتوں میں لگا لوں گی اور تو زینہ سے چڑھ کر کوٹھے پر پتنگ اڑانا۔ میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا ۔گھر واپس آتے ہی میں بے چین رہنے لگا خدا خدا کر کے تین دن گزرے تو میں نے خالہ کے ہاں جانے کے لیے کہا تو کہنے لگیں پاگل ہو گیا ہے روز روز کسی کے گھر نہیں جاتے۔ کل ہم دونوں سول لائین چلیں گے پرسوں تیرا باپ آ جائے گا۔ وہاں ایک بڑی کوٹھی ہے۔ جس میں ایک بہت قابل عزیز سید ظفر حسین واسطی بار ایٹ لا رہتے ہیں۔ جو سڑک کے پارکچہری میں کام کرتے ہیں۔ خدا خدا کر کے رات گزری تو ناشتہ کے بعد والدہ نے تانگہ منگوایا اور برقع اوڑھ کر میرا ہاتھ پکڑکے نیچے آ گئیں ہم دونوں تانگے میں پچھلی نشست پر آرام سے بیٹھ گئے کوچوان نے تانگے کے پچھلی طرف چھت کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک صاف ستھری چادر تان دی ، ہم دونوں سب کی نگاہوں سے محفوظ ہو گئے۔ پندرہ بیس منٹ بعد تانگہ نے ایک وسیع و عریض کوٹھی کے ارد گرد میدان میں ہمیں اتار دیا۔ تانگہ بان نے کہا کہ وہ کرایہ بڑے میر صاحب سے لے لے گا۔ میری والدہ کے اندر داخل ہوتے ہی ایک شور مچا جمیلہ پھپھو آ گئیں۔ واسطی صاحب اپنی اہلیہ، چار بیٹیوں اور دو بیٹوں کے ہمراہ یہاں مقیم تھے۔ کوٹھی کے کمرے اس قدر بڑے تھے کہ بعض کمروں سے دوسرے کمروں میں اکیلے جانے سے ڈر لگتا تھا۔ ہر کمرے میں دیواروں پر ہلکے سبز رنگ کا روغن بڑی مہارت سے کیا گیا تھا۔ ہال کمرہ جسے مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اس میں ایک بیضوی شکل کی میز کے گرد دس بارہ کرسیاں لگی تھیں کوٹھی کا حصہ چار پانچ فٹ اونچے چبوترے پر تعمیر کیا گیا تھا جس کی وسیع چھت کے لیے یہ مشہور تھا کہ یہاں سانپ رہتے ہیں لہذا کوئی نہ جاتا تھا۔ کمروں سے ملحقہ ایک بہت لمبا برآمدہ تھا۔ یہاں سے چار پانچ سیڑھیاں اتر کر کوٹھی کے دالان میں آ جاتے تھے۔ دائیں طرف کی دیوار کا دروازہ باہر کھلتا تھا جس کے پاس ہینڈ پمپ لگا تھا اس کے قریب ہی امرود کا درخت تھا جسے سب سفری کہتے تھے۔ اس میں سفید اور سرخ دونوں رنگ کے بہت لذیذ اور میٹھے امروڈ کثرت سے آتے تھے۔ سامنے کی طرف ایک کوٹھڑی تھی جہاں ان گنت ہر عمر کی مرغیاں رہتی تھیں۔ ایک کونے میں کوئلہ کا ڈھیر تھا جو ضرورت کے وقت کام آتا تھا۔ برابر میں لمبا چوڑا باورچی خانہ تھا جہاں کم و بیش چار پانچ قسم کے کھانے پکتے تھے۔ اس سے ذرا فاصلے پر ایک بہت لمبا بیت الخلاء تھا جس میں افراد کی تعداد سے دوگنے قدمچے تھے ہر فرد کا قدمچہ الگ الگ تھا جس کے غلط استعمال پر باز پرس ہوتی۔ واسطی صاحب کی پسندیدہ ڈش ایک ڈیڑھ کلو کی مرغی یا مرغا تھا۔ گرم گرم پھلکوں کے ساتھ اس کا مزہ دوبالا ہو جاتا تھا۔ 
بازار کی خرید و فروخت اور اوپر کے کام کاج کے لیے دو بڑے وفادار ملازم تھے جن میں سے ایک کو ملا جی اور دوسرے کو اللہ دیا پکارتے تھے۔ یہ ملازم جب واسطی صاحب سے تنخواہ مانگتے تو وہ کہتے جلدی کیا ہے۔ جو چیز ضرورت ہے وہ بتا دے۔ غرض ان کی ہر ضرورت پوری ہوتی تھی اور وہ دونوں گھر کے افراد میں شامل کئے جاتے تھے۔ وہ یہاں بہت خوش تھے کیونکہ ہر طرح کا آرام میسر تھا۔ یہاں بھینس کا خالص دودھ پیالوں میں ملتا تھا۔ جن کے کناروں پر مختلف رنگ کی دھاریاں تھیں۔ دالان کے ایک کمرے میں بھینس بھی پل رہی تھی مگر اس کا دروازہ کوٹھی سے باہر کھلتا تھا۔ اور اس کی دیکھ بھال کے لیے بھی ایک نوکر رکھ لیا گیا تھا۔ 
واسطی صاحب کثرتی جسم کے مالک تھے۔کلف لگا ہوا سفید کرتا۔ چوڑی دار پاجامہ ، پاؤں میں سیاہ گابی اور سرپر کالی ٹوپی ( جو جناح کیپ سے قدرے مختلف تھی) پہن کر کوٹھی سے باہر نکلتے تو ہر شخص کی نگاہ ان کی طرف اٹھ جاتی ۔ میری والدہ کے ہاتھ میں بلا کا ذائقہ تھا کڑھی اور چنے کی دال کریلے، اس قدر لذیذ پکاتی تھیں کہ سب کوٹھی والوں کی فرمائش ہوتی چنانچہ اکثر یہ ڈش بنا کر میں اور میری والدہ کوٹھی پر آنے جانے لگے۔ ہمارے اور واسطی طاحب کے خاندان کے تعلقات استوار ہوتے گئے۔ 
محلہ کسرول۔ 
اس محلے میں میرے خالو (سید عتیق حسین واسطی ) ریلوے گارڈ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ واسطی صاحب علی گڑھ کے گریجویٹ تھے۔ سفید لمبی داڑھی ، ان کی لچسم شیم شخصیت میں شان دار اضافہ کئے ہوئے تھی۔ ان کی بیگم کو سب اولاد یں \"باجی\" کہتی تھیں لہذا مں بھی انہیں باجی کہنے لگا۔ وہ ہماری بہت خاطر تواضع کرتی تھیں۔ واسطی صاحب کی سب سے بڑی اولاد سید محمد علی اور ان سے چھوٹے صاحبزادے سید علی سعید واسطی تھے۔ میرے ان کے درمیان چھ سات ماہ کا فرق تھا۔ ان سے چھوٹے بھائی سید کبیر واسطی (مسلم لیگ ہم خیال گروپ) کے حوالے سے مشہور ہو گئے۔ سید عتیق حسین واسطی دراصل سید ظفر حسین واسطی کے حقیقی بھائی تھے جو بار ایٹ لا تھے۔ اس محلے سے ذرا آگے چوڑی سڑک ایک گھر میں سڑک کے رخ پر بہت بڑا گھڑیال آویزاں تھا جس میں محلے کے اکثر لوگ آتے جاتے وقت دیکھتے تھے ۔ اس گھڑیال کو لوئے کی گرل سے محفوظ کر دیا گیا تھا تاکہ چوری سے بچا رہے۔ 
میرٹھ کی سیر۔
والد کاروبار کی غرض سے اکثر دہلی، دارجلنگ، شملہ اور نینی تال عمارتی لکڑی خریدنے کی غرض سے جاتے رہتے تھے۔ چنانچہ ہم دونوں مان بیٹے کو سیر سپاٹے کا موقع مل جاتا۔ اس بہانے سے عزیزوں سے بھی ملاقات ہوجاتی۔ میرے پھپھا مختار صاحب اس شہر کے کوتوال تھے۔ اس عہد ے کی وجہ سے انہیں ایک کشادہ کوٹھی ملی تھی مگر یہ چاروں طرف سے نچلے درجے کے ہندوں سے گھری ہوئی تھی۔ کوتوال صاحب بڑی نہس مکھ اور شاندار شخصیت کے مالک تھے عمر 60سال سے کم تھی۔ بیگم کا انتقال ہو چکا تھا۔ اولاد کی نعمت سے محروم تھے۔ بس ایک وفادار ملازم دین ممحد ان کا سب کام کر دیتا تھا جسے وہ اکثر پیار سے دینو کہہ کر بلاتے تھے۔ جب ہم دونوں ان کی کوٹھی میں داخل ہوئے تو صحن میں حقہ رکھا تھا جس کے نزدیک دو چار مونڈھے اور ا یک میز تھی ۔ کوتوال صاحب خود امرود کے درختوں پر پانی چھڑک رہے تھے کیونکہ کئی دن سے بارش نہ ہوئی تھی اور درخت گرد و غبار سے اٹ گئے تھے۔ جیسے ہی ان کی نظر ہم پرپڑی انہوں نے بے ساختہ کہا آؤ جمیلہ آؤ۔ یہ تمہارا بیٹا ہے۔ تعارف کے بعد ہم مونڈھوں پر بیٹھ گئے۔ کوتوال صاحب حقہ کے کش لینے لگے۔ اور ادھر ادھر کی باتیں میری والدہ سے کرنے لگے۔ کوٹھی کا گیٹ تھوڑا سا کھلا تھا چنانچہ اس میں سے ایک مرغی داخل ہوئی اور صحن میں ادھر ادھر چکر لگانے لگی۔ ایک جوان عاق مزاج مرغ اس کا پیچھا کر رہا تھا کوتوال صاحب نے للچائی ہوئی نظروں سے دونوں کو دیکھا اس دوران میری والدہ باتھ روم میں چلی گئیں۔ کوتوال صاحب بڑی پھرتی سے گیٹ کے پاس پہنچے تو مرغی بھاگ کر باہر نکل گئی مگر مرغا نکلنے سے پہلے کوتوال صاحب نے گیٹ بند کر دیا۔ جب انہوں نے اس کا تعاقب کیا تو قریبی جھاڑیوں میں پھنس کر رہ گیا۔ مرغا بہت تڑپا ، چیخا چلایا بھی مگر کوتوال صاحب مونڈھے کے نیچے ڈال کر خود اس پر بیٹھ کر آواز لگائی دینو ارے دینو ذرا تیز والی چھری لانا میں جمیلہ کے بیٹے کو امرود کاٹ کر کھلاؤں گا۔ ملازم چھری دے کر چلا گیا تو انہوں نے مجھ سے کہا تم صحن کا چکر لگاکر دیکھو کون سے درخت کے امرود پسند ہیں۔ جو ہی میں ذرا آگے گیاانہوں نے پھری سے مرغ نکال کر چھری پھیر دی۔ اسے مونڈھے کے نیچے ڈالا اور خود اس پر اطمینان سے بیٹھ کر تازہ اخبار پڑھنے لگے۔ اتنے میں گیٹ پر شور ہوا تو کوتوال صاحب نے دینو کو زور سے آواز دے کر پلیٹ اور کالی مرچ نمک منگوایا اور کہا ذرا گیٹ پر دیکھو کیسا شور ہے ۔ ملازم نے بتایا کچھ ہندو اندر آنا چاہتے ہیں کوتوال صاحب نے لاپرواہی سے کہا انہیں اندر بلا لاؤ۔ سب نے سہمے انداز سے کہا راج کمار کا مرغا یہاں آیا ہے۔ انہوں نے اخبار سے نظر ہٹا ئے بغیر کہا بھائی کوٹھی حاضر ہے تلاش کر لو۔ 

حضرت سلیمان علیہ السلام


حضرت سلیمان علیہ السلام 
داؤد علیہ السلام کے بیٹوں میں سے ان کے اصل جانشین سلیمان علیہ السلام ہوئے جن کی ذات میں اللہ تعالی نے نبوت اور بادشاہت دونوں جمع کر دیں اور وہ ملک عطا فرمایا جو ان سے قبل یا بعد کسی کو نہ ملا۔ سلیمان علیہ السلام کے لیے اللہ تعالی نے پرندوں کے لشکر بھی جمع کیئے اور ان کی جماعتوں میں خاص نظم قائم رکھا جاتا۔ ایک مرتبہ سلیمان علیہ السلام کا اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ایسے میدان کی طرف گزر ہوا جہاں چیونٹیوں کی بڑی بستی تھی۔ چیونیٹیوں کی ملکہ نے چیونٹیوں سے کہا کہ اپنے گھروں میں گھس جاؤ کہیں سلیمان علیہ السلام اور اس کے لشکر تمہیں پیروں تلے روند نہ ڈالیں جبکہ ان کو روندنے کی خبر بھی نہ ہو۔ اس بات کو سن کر سلیمان علیہ السلام مسکرا کر ہنس پڑے اور اللہ کا شکر بجا لائے جو اللہ نے ان کو چیونٹیوں کی بولی سکھائی اور ا ن پر اور ان کے ماں باپ پر جوبے حد انعام کر کے احسان فرمایاتھا اس پر شکر ادا کرنے کی توفیق مانگی۔ اور یہ بھی دعا کی کہ مجھے نیک عمل کرنے کی بھی توفیق دے اور اپنے نیک بندوں کے ساتھ اپنی رحمت یعنی جنت میں داخل فرما۔ اگر چہ ان کی شان والا بادشاہ نہ کبھی ہوا نہ ہو گا پھر بھی پیغمبر تھے اس قدر عاجزی سے اللہ کے احسانوں کا شکر بھی ادا کیا اور جنّت میں داخلے کے لیے بھی عاجزی سے دعا مانگی۔ 
پھر سلیمان علیہ السلام نے جو لشکروں کا معائنہ کیا تو پرندوں کی رجمنٹ میں سے ھد ھد کو غیر حاضر پایا اور کہا اگر وہ کوئی صریح وجہ غیرحاضری کی پیش نہ کر سکا تو یا تو میں اسے کوئی سخت سزا دو ں گا یا ذبح کرڈالوں گا۔ ابھی زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ ھد ھد پیش ہو گیا۔ اور اس نے یہ بیان دیا کہ میں سبا کے ملک سے آپ کے لیے ایک پکی خبر لایا ہوں۔ وہاں ایک عورت بادشاہت کرتی ہے جس کو ہر چیز ملی ہوئی ہے، از قسم مال و اسباب ، فوج، اسلحہ اور حسن و جمال سب کچھ ، اور اس کا ایک عظیم تخت ہے (یعنی نہایت قیمتی مکلف و مرصع کہ اس جیسا کسی اور بادشاہ کے پاس نہ تھا۔) اور یہ بھی بتایا کہ وہ خود اور اس کی رعایا اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں۔ سلیمان علیہ السلام نے کہا ہم دیکھتے ہیں تو نے سچ کہاہے کہ جھوٹ ۔ پھر اسے ا پنا ایک خط دیا کہ اس کو ملکہ کے سامنے جا کر ڈالے اور ا یک طرف ہو کر دیکھے کہ وہ کیا جواب دیتی ہیں۔ ملکہ نے خط دیکھا تو اپنے دربار والوں کو بتایا کہ یہ ایک عزت والا خط سلیمان علیہ السلام بادشاہ کی طرف سے آیا ہے ۔ انہوں نے اللہ رحمن رحیم کے نام سے شروع کر کے یہ لکھا ہے کہ میرے مقابلے میں زور نہ دکھاؤ اورفرمانبردار ہو کر میرے سامنے چلے آؤ۔ آپ لوگوں کا کیا مشورہ ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہم زور آور بھی ہیں اور سخت لڑائی والے بھی مگر حکم تو آپ کا ہے کیونکہ آپ اختیار والی ہیں۔ ملکہ بلقیس نے کہا کہ بادشاہ جب کسی بستی میں گھستے ہیں تو اس کو خراب کردیتے ہیں اور وہاں کے سرداروں کو بے عزت کر دیتے ہیں اور یہ ایسا ہی کریں گے۔ مگر میں سلیمان علیہ السلام بادشاہ کی طرف کچھ تحائف بھیجتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ میرے قاصد کیا جواب لے کر آتے ہیں۔ سلیمان علیہ السلام نے قاصدوں کو فرمایا کہ تم میری مال سے مدد کرتے ہو۔ مجھے اللہ نے تمہاری نسبت زیادہ بہترمال دیا ہے تم کو تمہارے یہ تحائف مبارک ہوں۔کیا تم نے ہمیں محض ایک دینوی بادشاہ سمجھا ہے اورہمیں مال متاع کا لالچ دیتے ہو۔ واپس چلے جاؤ، ہم تو ایسے لشکر لے کر چڑھائی کریں گے جن کا کوئی مقابلہ نہ کر سکے گا اور ہم سب کو ان کے ملک سے بے عزت کر کے نکال دیں گے۔ اوروہ خوار ہوں گے۔ یعنی یا تووہ جلاوطن ہوں گے۔ یا قیدی بنیں گے، اور ذلّت کے ساتھ ان کو دولت و سلطنت سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ یہ اللہ تعالی کا بخشا ہوازور تھا جو سلیمان علیہ السلام نے اس طرح کی بات کی ورنہ پیغمبروں میں سے کسی نے اس طرح کی اونچی بات نہیں کی۔ 
پھر سلیمان علیہ السلام نے دربا والوں کو حکم دے کر ملکہ بلقیس کا تخت اٹھوا کر اپنے ہاں منگوایا جو آپ کے ایک صحابی نے چشم زدن میں کرامت کے طور پر لا حاضر کیا۔ اسے دیکھ کر سلیمان علیہ السلام نے فورا اقرار کیا کہ یہ اللہ کا فضل ہے اور وہ آزماتا ہے کہ آیا میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری۔ اور جو شکر کرتا ہے وہ ا پنے لیے ہی کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو اللہ بے پروا ہے ،کرم والا ہے۔ یعنی ناشکروں کو فوراََسزا نہیں دیتا ۔ایسے کریم کی ناشکری کرنے والا خود بے حیا ہے، احمق ہے۔ پھر سلیمان علیہ السلام نے حکم دیا کہ ملکہ کے تخت کا روپ بدل دو، ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ سمجھ پاتی ہے کہ نہیں۔ جب وہ ملکہ آئی تو اس سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کا تخت بھی ایسا ہی ہے۔ اس نے کہا کہ یہ تو گویا وہی ہے اور ہم کو تو پہلے سے معلوم ہو چکا تھا ،سو ہم تو حکم بردار ہو چکے ہیں۔ پہلے اس کوایمان لانے سے ان چیزوں نے روک رکھا تھا جو اللہ کے سوا تھیں اور وہ پہلے منکر قوم کی فرد تھی۔ پھر اس سے کہا گیا کہ محل کے اندر چلیں ۔ اس نے جو راستہ دیکھا تو خیال کیا پانی ہے گہرا، سو اس نے اپنی پوشاک سمیٹ کراوپر کر لی۔ سلیمان علیہ السلام نے کہا یہ تو محل کا راستہ ہے جس میں شیشے جڑے ہوئے ہیں۔ اس نے کہا میں نے اپنی جان کا اب تک برا ہی کیاہے، پس اب میں سلیمان علیہ السلام کے ساتھ اس اللہ کے آگے حکم بردار ہوتی ہوں جو سارے جہاں کا رب ہے پالنے والا کارساز۔
سلیمان علیہ السلام کو جہاد کے لیے نہایت تیز و سبک رفتا ر گھوڑے پالنے کا شوق تھا اور ایک دفعہ ان گھوڑوں کا معائنہ کر تے ہوئے دیر ہو گئی حتیٰ کہ آفتاب غروب ہو گیا۔ اس شغل میں عصر کے وقت کا وظیفہ بھی نہ پڑھ سکے۔ اس پر کہنے لگے کہ کچھ مضائقہ نہیں اگر ایک طرف ذکر اللہ سے غفلت ہوئی ہے تو دوسری طرف جہاد کے گھوڑوں کی محبت اور دیکھ بھال بھی اللہ کی یاد سے وابستہ ہے کیونکہ جہاد کا مقصد بھی اللہ کا کلمہ بلند کرنا ہے۔ اس لیے حکم دیا کہ گھوڑوں کو پھر واپس لاؤ اور جب وہ واپس آئے تو غایت محبت اور اکرام سے ان کی گردنیں اور پنڈلیاں پونچھنے لگے۔ تاہم ذکر قضا ہونے کی خطا اپنی جگہ پر خلش پیدا کرتی رہی ، سو سلیمان علیہ السلام نے دعا مانگی کہ اے میرے رب! میری خطاء بخش دے اور مجھے ایسی عظیم الشان بادشاہی نصیب فرما کہ میرے بعد کسی اور کو نہ ملے۔ بے شک آپ سب کچھ بخشنے والے ہیں۔ پھر اللہ نے ہوا بھی ان کے تابع کر دی۔ جو اللہ کے حکم سے نرم نرم چل کر جہاں وہ چاہتے وہاں پہنچا دیتی اور ایسی سست بھی نہ ہوتی ، اس کی صبح کی منزل مہینے کی مسافت کے برابر ہوتی اور شام کی بھی ایک مہینے کی مسافت کے برابر ہوتی۔ اور جن بھی ان کے تابع کردیئے جو عمارتیں بنانے والے تھے اور سمندر میں غوطے لگا کر موتی نکالنے والے تھے۔ اور کچھ اور تھے سرکش قسم کے، جن کو سلیمان علیہ السلام بیڑیوں میں باہم جکڑ کر قید کرنے کی قدرت رکھتے تھے۔ اتنے وسیع اختیارات دینے کے ساتھ ساتھ اللہ نے ان کو یہ بھی اختیار دیا کہ تم جس کو چاہو بخش دو یا نہ بخشو، جس کو چاہو کچھ دو یا نہ دو۔ تم پر کوئی حساب نہیں ہو گا۔ یہ اللہ کا بہت بڑا احسان تھا۔ اور با دشاہت کے باوجود جو روحانی تقرب اور مرتبہ اللہ کے ہاں ان کا ہو گا،جو اعلی ٹھکانہ ان کا جنت الفردوس میں ہو گا وہ بجائے خود رہا ۔
اللہ پاک نے سلیمان علیہ السلام کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بھی بہا دیا۔جو یمن کی طرف تھا۔ اس کو سانچوں میں ڈال کر جناّت بڑے بڑے برتن دیگیں وغیرہ تیار کرتے۔ بعض اتنے بڑے لگن بناتے جیسے حوض یا تالاب ہوں۔ اور بڑی بڑی ایسی دیگیں تیار کرتے جو ا یک ہی جگہ رکھی رہتیں جن کے نیچے گڑھے کھود کر کھانا پکانے کے لیے آگ جلائی جاتی ۔یہ سارے کام جنوں سے لیے جاتے ۔ اللہ کا حکم تھا کہ سلیمان علیہ السلام کی سب اطاعت کریں۔ ان میں سے کسی نے ذرا سرکشی کی تو اس کو آگ میں پھونک دیاجا ئے گا۔ ایسے بھاری انعامات کے بعد ا للہ نے آل داؤد کواحسان مان کر اچھے کام کرنے کا حکم دیا اگر چہ اللہ کے بندوں میں سے احسان ماننے والے کم ہی ہوتے ہیں مگر اللہ نے آل داؤد یعنی سلیمان علیہ السلام اور ان کی اولاد سے جن پر بے انتہا انعام ہوئے تھے، شکر گزاری کی خاص امید رکھی۔ اور بیشک سلیمان علیہ السلام نے شکر گزاری کا حق اد ا کر دیا اور اللہ پاک نے ان کو نعم العبد یعنی ’’بہت خوب بندہ ‘‘کا خطاب دیا۔ 
سلیمان علیہ السلام کی زندگی کی کہانی کا آخری واقعہ یوں ہے کہ آپ مسجد بیت المقدس کی تجدید کرا رہے تھے ۔جب آپ کو موت قریب معلوم ہوئی تو آپ نے شیشے کا ایک حجرہ بنوایا اور اس میں عبادت الٰہی میں مشغول ہو گئے۔ یہ حجرہ زیر تعمیر مسجد کے بالکل سامنے تھا اور جن جو تعمیر کررہے تھے وہ یہی سمجھتے رہے کہ سلیمان علیہ السلام سر پر کھڑے نگرانی کر رہے ہیں۔ پھر سلیمان علیہ السلام اسی حالت میں فوت ہو گئے مگر ان کی نعش لکڑی کے عصا کے سہارے کھڑی رہی ۔ کسی کو آپ کی وفات کا احساس نہ ہو سکا۔ چنانچہ وفات کے بعد بھی جن مدت تک بدستور تعمیر کرتے رہے۔جب تعمیر پوری ہو گئی اور وہ عصا جس پر سلیمان علیہ السلام ٹیک لگائے کھڑے تھے دیمک کے کھانے سے گرا تب سب کو وفات کا حال معلوم ہوا۔ اس سے جنوں پر خود اپنی غیب دانی کی حقیقت کھل گئی اور انہوں نے نہایت افسوس سے کہا اے کاش ان کو غیب کا علم ہوتا تو وہ ذلّت آمیز تعمیر کی مشقت میں نہ بندھے رہتے۔ آخر میں یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ قصہ محض قصہ نہیں بلکہ اس میں کچھ نصیحت آموز سبق ہیں۔ اول یہ کہ اللہ جس کو چاہیے نہایت پست مقام سے اٹھا کر بادشاہت عطا کر نے کی قدرت رکھتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ جنوں کی طاقتور مخفی مخلوق کو کسی آدم زاد کی حکمرانی کے تحت باندھ دینے کی قدرت رکھتا ہے۔ اور سلیمان علیہ ا لسلام کو جو بادشاہت کا اختیار ملا تھا وہ بھی اللہ کی مہربانی سے تھا اور وہ اس کی قدرت کا بھی مظہر تھا۔ تیسرے یہ کہ ا للہ کے علاوہ کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا۔ یہ حقیقت جنوں پر بھی کھل گئی ور جو انسان جنوں کے علم غیب جاننے کا عقیدہ رکھتے تھے ان پر بھی عیاں ہو گئی۔ نیز اللہ نے بیت المقدّس کی تعمیر جنّوں سے سلیمان علیہ السلام کی موت کے بعد بھی محض لکڑی کے عصا پر آپ کے مردہ جسم کو سہارا دے کر مکمل کرا دی۔

Friday, 7 February 2014

حضرت داؤد علیہ السلام کی دیگر خصوصیات


حضرت داؤد علیہ السلام کی دیگر خصوصیات
آپ پر آسمانی کتاب زبو ر اتری جس میں زیادہ تر حمدیہ کلام تھا ۔آپ وجد میں آ کر اپنی سریلی آواز مین کلام پڑھتے ،اللہ کی حمد بیان کرتے پرندے ، درخت اور پہاڑ بھی وجد میں آ کر آپ کی آواز کے ساتھ آواز ملا کر اللہ کی حمد بیان کرتے۔ ۲۔آپ پر نازل ہوئی کتاب زبور میں اللہ نے اپنی سنت بیان فرمائی کہ ہم زمین کا وارث صالح بندوں کو بناتے ہیں۔۳۔ اللہ پاک نے داؤد علیہ السلام کے ہاتھ پر لوہے کو اس حد تک نرم کر دیا کہ آگ اور صنعتی اوزار کے بغیر جس طرح چاہتے ہاتھ سے لوہے کو توڑ مروڑ لیتے تھے اور اس کی زر ہیں تیار کر کے فروخت کرتے اور یوں ہاتھ سے حلال روزی کما کر کھاتے ۔ بہت بڑی سلطنت کے بادشاہ تھے مگر بیت المال سے کچھ نہ لیتے تھے۔ (ہماری اس امت میں بھی کئی ایسے بادشاہ گزرے ہیں جو ہاتھ کی کمائی سے حلال کی روزی کھاتے تھے ۔ عمر بن عبدالعزیز ناصر الدین بلبن ، اور نگ زیب عالمگیر اور ہمارے قائداعظم محمد علی جناح مرحوم جو پاکستان کے پہلے گورنر جنرل تھے ۔رَحِمَھُمُ اللّٰہ، ۴۔ اللہ تعالی نے داؤ د علیہ السلام اور ان کے بیٹے سلیمان علیہ السلام کو ان کی شان کے لائق علم کا خاص حصہ عطا فرمایا۔ علم سے مراد شریعت کے احکام اور سیاست اور حکمرانی کے اصول وغیرہ ہیں۔ نیز داؤد علیہ السلام کے بارے میں خاص طور پر بتایا کہ وہ اللہ کی طرف ہر دم رجوع کرنے والے تھے۔ اللہ نے ان کی سلطنت کوقوت دی تھی۔ ان کی سلطنت کی اپنی نصرت سے دھاک بٹھائی ہوئی تھی۔ وہ بڑے مدّبر اور دانا تھے اور فیصلہ بڑی خوبی سے کرتے تھے۔ اور تقریر بھی ان کی نہایت عمدہ اور فیصلہ کن ہوتی تھی۔ باوجود طرح طرح کے علمی کمالات کے جو ان کو اللہ کی طرف سے عطا ء ہوئے تھے امتحان ان کا بھی اللہ نے لیا۔ انہوں نے مختلف فرائض کے لیے تین دن مقرر کیئے ہوئے تھے ۔ ایک دن درباری معاملات کے لیے ، ایک دن اپنے اہل و عیال کے پاس رہنے کے لیے اور ایک دن خالص اللہ کی عبادت کے لیے اور اس روز وہ خلوت میں رہتے تھے اور کسی کو دربان ان کے پاس جانے نہیں دیتے تھے۔ مگر ایک دن جب وہ عبادت میں مشغول تھے کہ اچانک چند اشخاص دیوار پھاند کر ان کے پاس آ کھڑے ہوئے ۔ان کی توجہ ہٹ گئی اور ہ گھبرا گئے کہ محکم انتظام کے باوجود یہ کون لوگ ہیں اور کیسے میرے سامنے آ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا گھبرائیں مت ہم ایک فیصلہ کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ آپ انصاف سے فیصلہ فرما دیں۔ ایک نے بیان کیا کہ یہ میرا بھائی ہے اور اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میر ے پاس ایک دنبی ہے یہ چاہتا ہے کہ وہ ایک بھی کسی طرح مجھ سے چھین کر اپنی سو پوری کرے۔ وہ مال میں جیسے مجھ سے بڑھا ہوا ہے ،بات کرنے میں بھی مجھ سے تیز ہے یعنی مجھے بول کر بھی دبا لیتا ہے۔ داؤد علیہ السلام نے کہا وہ بے انصافی کر رہا ہے اور شریک تو اکثر زیادتی کرتے ہیں ایک دوسرے پر، مگر ایمان اور عمل صالح والے نیک لوگ نہیں کرتے پروہ ہوتے بہت تھوڑے ہیں۔ اس قصہ کے بعد داؤد علیہ السلام کو آگاہی ہوئی اور انہوں نے اپنی خطا معاف کرانے کے لیے نہایت عاجزی سے معافی مانگی ،سجدہ کیا اور اللہ نے ان کی خطا معاف فرما دی۔ وہ خطا کیا تھی اس کے متعلق روایت ہے کہ داؤد علیہ السلام نے اپنی طرف سے عبادت کا جو وقت مقرر کر رکھا تھا اس پر ان کو اطمینان تھا کہ اس میں خلل پیدا نہیں ہو گا۔ مگر ا للہ نے ان پر ظاہر کیا کہ میری توفیق کے بغیر کوئی تدبیر تمہاری شکست سے محفوظ نہیں۔ اس پر ان کو جب تنبہ ہوا تو انہوں نے اپنی خطاء کی معافی چاہی اور اللہ نے معاف فرما دیا۔ 
پھر اللہ پاک نے ان کو ملک میں خلیفہ مقرر کیا اور حکم دیا کہ لوگوں میں انصاف سے حکومت کرنا اور اپنی خواہش پر نہ چلنا ۔ چنانچہ وہ اللہ کے حکم کی تعمیل میں نہایت عدل کے ساتھ حکومت کرتے رہے اور ملک میں ان کے زمانے میں امن و امان کا دور دورہ تھا جس کی تاریخ گواہ ہے۔