Monday, 17 February 2014

حضرت سلیمان علیہ السلام


حضرت سلیمان علیہ السلام 
داؤد علیہ السلام کے بیٹوں میں سے ان کے اصل جانشین سلیمان علیہ السلام ہوئے جن کی ذات میں اللہ تعالی نے نبوت اور بادشاہت دونوں جمع کر دیں اور وہ ملک عطا فرمایا جو ان سے قبل یا بعد کسی کو نہ ملا۔ سلیمان علیہ السلام کے لیے اللہ تعالی نے پرندوں کے لشکر بھی جمع کیئے اور ان کی جماعتوں میں خاص نظم قائم رکھا جاتا۔ ایک مرتبہ سلیمان علیہ السلام کا اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ایسے میدان کی طرف گزر ہوا جہاں چیونٹیوں کی بڑی بستی تھی۔ چیونیٹیوں کی ملکہ نے چیونٹیوں سے کہا کہ اپنے گھروں میں گھس جاؤ کہیں سلیمان علیہ السلام اور اس کے لشکر تمہیں پیروں تلے روند نہ ڈالیں جبکہ ان کو روندنے کی خبر بھی نہ ہو۔ اس بات کو سن کر سلیمان علیہ السلام مسکرا کر ہنس پڑے اور اللہ کا شکر بجا لائے جو اللہ نے ان کو چیونٹیوں کی بولی سکھائی اور ا ن پر اور ان کے ماں باپ پر جوبے حد انعام کر کے احسان فرمایاتھا اس پر شکر ادا کرنے کی توفیق مانگی۔ اور یہ بھی دعا کی کہ مجھے نیک عمل کرنے کی بھی توفیق دے اور اپنے نیک بندوں کے ساتھ اپنی رحمت یعنی جنت میں داخل فرما۔ اگر چہ ان کی شان والا بادشاہ نہ کبھی ہوا نہ ہو گا پھر بھی پیغمبر تھے اس قدر عاجزی سے اللہ کے احسانوں کا شکر بھی ادا کیا اور جنّت میں داخلے کے لیے بھی عاجزی سے دعا مانگی۔ 
پھر سلیمان علیہ السلام نے جو لشکروں کا معائنہ کیا تو پرندوں کی رجمنٹ میں سے ھد ھد کو غیر حاضر پایا اور کہا اگر وہ کوئی صریح وجہ غیرحاضری کی پیش نہ کر سکا تو یا تو میں اسے کوئی سخت سزا دو ں گا یا ذبح کرڈالوں گا۔ ابھی زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ ھد ھد پیش ہو گیا۔ اور اس نے یہ بیان دیا کہ میں سبا کے ملک سے آپ کے لیے ایک پکی خبر لایا ہوں۔ وہاں ایک عورت بادشاہت کرتی ہے جس کو ہر چیز ملی ہوئی ہے، از قسم مال و اسباب ، فوج، اسلحہ اور حسن و جمال سب کچھ ، اور اس کا ایک عظیم تخت ہے (یعنی نہایت قیمتی مکلف و مرصع کہ اس جیسا کسی اور بادشاہ کے پاس نہ تھا۔) اور یہ بھی بتایا کہ وہ خود اور اس کی رعایا اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں۔ سلیمان علیہ السلام نے کہا ہم دیکھتے ہیں تو نے سچ کہاہے کہ جھوٹ ۔ پھر اسے ا پنا ایک خط دیا کہ اس کو ملکہ کے سامنے جا کر ڈالے اور ا یک طرف ہو کر دیکھے کہ وہ کیا جواب دیتی ہیں۔ ملکہ نے خط دیکھا تو اپنے دربار والوں کو بتایا کہ یہ ایک عزت والا خط سلیمان علیہ السلام بادشاہ کی طرف سے آیا ہے ۔ انہوں نے اللہ رحمن رحیم کے نام سے شروع کر کے یہ لکھا ہے کہ میرے مقابلے میں زور نہ دکھاؤ اورفرمانبردار ہو کر میرے سامنے چلے آؤ۔ آپ لوگوں کا کیا مشورہ ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہم زور آور بھی ہیں اور سخت لڑائی والے بھی مگر حکم تو آپ کا ہے کیونکہ آپ اختیار والی ہیں۔ ملکہ بلقیس نے کہا کہ بادشاہ جب کسی بستی میں گھستے ہیں تو اس کو خراب کردیتے ہیں اور وہاں کے سرداروں کو بے عزت کر دیتے ہیں اور یہ ایسا ہی کریں گے۔ مگر میں سلیمان علیہ السلام بادشاہ کی طرف کچھ تحائف بھیجتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ میرے قاصد کیا جواب لے کر آتے ہیں۔ سلیمان علیہ السلام نے قاصدوں کو فرمایا کہ تم میری مال سے مدد کرتے ہو۔ مجھے اللہ نے تمہاری نسبت زیادہ بہترمال دیا ہے تم کو تمہارے یہ تحائف مبارک ہوں۔کیا تم نے ہمیں محض ایک دینوی بادشاہ سمجھا ہے اورہمیں مال متاع کا لالچ دیتے ہو۔ واپس چلے جاؤ، ہم تو ایسے لشکر لے کر چڑھائی کریں گے جن کا کوئی مقابلہ نہ کر سکے گا اور ہم سب کو ان کے ملک سے بے عزت کر کے نکال دیں گے۔ اوروہ خوار ہوں گے۔ یعنی یا تووہ جلاوطن ہوں گے۔ یا قیدی بنیں گے، اور ذلّت کے ساتھ ان کو دولت و سلطنت سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ یہ اللہ تعالی کا بخشا ہوازور تھا جو سلیمان علیہ السلام نے اس طرح کی بات کی ورنہ پیغمبروں میں سے کسی نے اس طرح کی اونچی بات نہیں کی۔ 
پھر سلیمان علیہ السلام نے دربا والوں کو حکم دے کر ملکہ بلقیس کا تخت اٹھوا کر اپنے ہاں منگوایا جو آپ کے ایک صحابی نے چشم زدن میں کرامت کے طور پر لا حاضر کیا۔ اسے دیکھ کر سلیمان علیہ السلام نے فورا اقرار کیا کہ یہ اللہ کا فضل ہے اور وہ آزماتا ہے کہ آیا میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری۔ اور جو شکر کرتا ہے وہ ا پنے لیے ہی کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو اللہ بے پروا ہے ،کرم والا ہے۔ یعنی ناشکروں کو فوراََسزا نہیں دیتا ۔ایسے کریم کی ناشکری کرنے والا خود بے حیا ہے، احمق ہے۔ پھر سلیمان علیہ السلام نے حکم دیا کہ ملکہ کے تخت کا روپ بدل دو، ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ سمجھ پاتی ہے کہ نہیں۔ جب وہ ملکہ آئی تو اس سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کا تخت بھی ایسا ہی ہے۔ اس نے کہا کہ یہ تو گویا وہی ہے اور ہم کو تو پہلے سے معلوم ہو چکا تھا ،سو ہم تو حکم بردار ہو چکے ہیں۔ پہلے اس کوایمان لانے سے ان چیزوں نے روک رکھا تھا جو اللہ کے سوا تھیں اور وہ پہلے منکر قوم کی فرد تھی۔ پھر اس سے کہا گیا کہ محل کے اندر چلیں ۔ اس نے جو راستہ دیکھا تو خیال کیا پانی ہے گہرا، سو اس نے اپنی پوشاک سمیٹ کراوپر کر لی۔ سلیمان علیہ السلام نے کہا یہ تو محل کا راستہ ہے جس میں شیشے جڑے ہوئے ہیں۔ اس نے کہا میں نے اپنی جان کا اب تک برا ہی کیاہے، پس اب میں سلیمان علیہ السلام کے ساتھ اس اللہ کے آگے حکم بردار ہوتی ہوں جو سارے جہاں کا رب ہے پالنے والا کارساز۔
سلیمان علیہ السلام کو جہاد کے لیے نہایت تیز و سبک رفتا ر گھوڑے پالنے کا شوق تھا اور ایک دفعہ ان گھوڑوں کا معائنہ کر تے ہوئے دیر ہو گئی حتیٰ کہ آفتاب غروب ہو گیا۔ اس شغل میں عصر کے وقت کا وظیفہ بھی نہ پڑھ سکے۔ اس پر کہنے لگے کہ کچھ مضائقہ نہیں اگر ایک طرف ذکر اللہ سے غفلت ہوئی ہے تو دوسری طرف جہاد کے گھوڑوں کی محبت اور دیکھ بھال بھی اللہ کی یاد سے وابستہ ہے کیونکہ جہاد کا مقصد بھی اللہ کا کلمہ بلند کرنا ہے۔ اس لیے حکم دیا کہ گھوڑوں کو پھر واپس لاؤ اور جب وہ واپس آئے تو غایت محبت اور اکرام سے ان کی گردنیں اور پنڈلیاں پونچھنے لگے۔ تاہم ذکر قضا ہونے کی خطا اپنی جگہ پر خلش پیدا کرتی رہی ، سو سلیمان علیہ السلام نے دعا مانگی کہ اے میرے رب! میری خطاء بخش دے اور مجھے ایسی عظیم الشان بادشاہی نصیب فرما کہ میرے بعد کسی اور کو نہ ملے۔ بے شک آپ سب کچھ بخشنے والے ہیں۔ پھر اللہ نے ہوا بھی ان کے تابع کر دی۔ جو اللہ کے حکم سے نرم نرم چل کر جہاں وہ چاہتے وہاں پہنچا دیتی اور ایسی سست بھی نہ ہوتی ، اس کی صبح کی منزل مہینے کی مسافت کے برابر ہوتی اور شام کی بھی ایک مہینے کی مسافت کے برابر ہوتی۔ اور جن بھی ان کے تابع کردیئے جو عمارتیں بنانے والے تھے اور سمندر میں غوطے لگا کر موتی نکالنے والے تھے۔ اور کچھ اور تھے سرکش قسم کے، جن کو سلیمان علیہ السلام بیڑیوں میں باہم جکڑ کر قید کرنے کی قدرت رکھتے تھے۔ اتنے وسیع اختیارات دینے کے ساتھ ساتھ اللہ نے ان کو یہ بھی اختیار دیا کہ تم جس کو چاہو بخش دو یا نہ بخشو، جس کو چاہو کچھ دو یا نہ دو۔ تم پر کوئی حساب نہیں ہو گا۔ یہ اللہ کا بہت بڑا احسان تھا۔ اور با دشاہت کے باوجود جو روحانی تقرب اور مرتبہ اللہ کے ہاں ان کا ہو گا،جو اعلی ٹھکانہ ان کا جنت الفردوس میں ہو گا وہ بجائے خود رہا ۔
اللہ پاک نے سلیمان علیہ السلام کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بھی بہا دیا۔جو یمن کی طرف تھا۔ اس کو سانچوں میں ڈال کر جناّت بڑے بڑے برتن دیگیں وغیرہ تیار کرتے۔ بعض اتنے بڑے لگن بناتے جیسے حوض یا تالاب ہوں۔ اور بڑی بڑی ایسی دیگیں تیار کرتے جو ا یک ہی جگہ رکھی رہتیں جن کے نیچے گڑھے کھود کر کھانا پکانے کے لیے آگ جلائی جاتی ۔یہ سارے کام جنوں سے لیے جاتے ۔ اللہ کا حکم تھا کہ سلیمان علیہ السلام کی سب اطاعت کریں۔ ان میں سے کسی نے ذرا سرکشی کی تو اس کو آگ میں پھونک دیاجا ئے گا۔ ایسے بھاری انعامات کے بعد ا للہ نے آل داؤد کواحسان مان کر اچھے کام کرنے کا حکم دیا اگر چہ اللہ کے بندوں میں سے احسان ماننے والے کم ہی ہوتے ہیں مگر اللہ نے آل داؤد یعنی سلیمان علیہ السلام اور ان کی اولاد سے جن پر بے انتہا انعام ہوئے تھے، شکر گزاری کی خاص امید رکھی۔ اور بیشک سلیمان علیہ السلام نے شکر گزاری کا حق اد ا کر دیا اور اللہ پاک نے ان کو نعم العبد یعنی ’’بہت خوب بندہ ‘‘کا خطاب دیا۔ 
سلیمان علیہ السلام کی زندگی کی کہانی کا آخری واقعہ یوں ہے کہ آپ مسجد بیت المقدس کی تجدید کرا رہے تھے ۔جب آپ کو موت قریب معلوم ہوئی تو آپ نے شیشے کا ایک حجرہ بنوایا اور اس میں عبادت الٰہی میں مشغول ہو گئے۔ یہ حجرہ زیر تعمیر مسجد کے بالکل سامنے تھا اور جن جو تعمیر کررہے تھے وہ یہی سمجھتے رہے کہ سلیمان علیہ السلام سر پر کھڑے نگرانی کر رہے ہیں۔ پھر سلیمان علیہ السلام اسی حالت میں فوت ہو گئے مگر ان کی نعش لکڑی کے عصا کے سہارے کھڑی رہی ۔ کسی کو آپ کی وفات کا احساس نہ ہو سکا۔ چنانچہ وفات کے بعد بھی جن مدت تک بدستور تعمیر کرتے رہے۔جب تعمیر پوری ہو گئی اور وہ عصا جس پر سلیمان علیہ السلام ٹیک لگائے کھڑے تھے دیمک کے کھانے سے گرا تب سب کو وفات کا حال معلوم ہوا۔ اس سے جنوں پر خود اپنی غیب دانی کی حقیقت کھل گئی اور انہوں نے نہایت افسوس سے کہا اے کاش ان کو غیب کا علم ہوتا تو وہ ذلّت آمیز تعمیر کی مشقت میں نہ بندھے رہتے۔ آخر میں یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ قصہ محض قصہ نہیں بلکہ اس میں کچھ نصیحت آموز سبق ہیں۔ اول یہ کہ اللہ جس کو چاہیے نہایت پست مقام سے اٹھا کر بادشاہت عطا کر نے کی قدرت رکھتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ جنوں کی طاقتور مخفی مخلوق کو کسی آدم زاد کی حکمرانی کے تحت باندھ دینے کی قدرت رکھتا ہے۔ اور سلیمان علیہ ا لسلام کو جو بادشاہت کا اختیار ملا تھا وہ بھی اللہ کی مہربانی سے تھا اور وہ اس کی قدرت کا بھی مظہر تھا۔ تیسرے یہ کہ ا للہ کے علاوہ کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا۔ یہ حقیقت جنوں پر بھی کھل گئی ور جو انسان جنوں کے علم غیب جاننے کا عقیدہ رکھتے تھے ان پر بھی عیاں ہو گئی۔ نیز اللہ نے بیت المقدّس کی تعمیر جنّوں سے سلیمان علیہ السلام کی موت کے بعد بھی محض لکڑی کے عصا پر آپ کے مردہ جسم کو سہارا دے کر مکمل کرا دی۔

No comments:

Post a Comment