Friday, 7 February 2014

حضرت داؤد علیہ السلام کی دیگر خصوصیات


حضرت داؤد علیہ السلام کی دیگر خصوصیات
آپ پر آسمانی کتاب زبو ر اتری جس میں زیادہ تر حمدیہ کلام تھا ۔آپ وجد میں آ کر اپنی سریلی آواز مین کلام پڑھتے ،اللہ کی حمد بیان کرتے پرندے ، درخت اور پہاڑ بھی وجد میں آ کر آپ کی آواز کے ساتھ آواز ملا کر اللہ کی حمد بیان کرتے۔ ۲۔آپ پر نازل ہوئی کتاب زبور میں اللہ نے اپنی سنت بیان فرمائی کہ ہم زمین کا وارث صالح بندوں کو بناتے ہیں۔۳۔ اللہ پاک نے داؤد علیہ السلام کے ہاتھ پر لوہے کو اس حد تک نرم کر دیا کہ آگ اور صنعتی اوزار کے بغیر جس طرح چاہتے ہاتھ سے لوہے کو توڑ مروڑ لیتے تھے اور اس کی زر ہیں تیار کر کے فروخت کرتے اور یوں ہاتھ سے حلال روزی کما کر کھاتے ۔ بہت بڑی سلطنت کے بادشاہ تھے مگر بیت المال سے کچھ نہ لیتے تھے۔ (ہماری اس امت میں بھی کئی ایسے بادشاہ گزرے ہیں جو ہاتھ کی کمائی سے حلال کی روزی کھاتے تھے ۔ عمر بن عبدالعزیز ناصر الدین بلبن ، اور نگ زیب عالمگیر اور ہمارے قائداعظم محمد علی جناح مرحوم جو پاکستان کے پہلے گورنر جنرل تھے ۔رَحِمَھُمُ اللّٰہ، ۴۔ اللہ تعالی نے داؤ د علیہ السلام اور ان کے بیٹے سلیمان علیہ السلام کو ان کی شان کے لائق علم کا خاص حصہ عطا فرمایا۔ علم سے مراد شریعت کے احکام اور سیاست اور حکمرانی کے اصول وغیرہ ہیں۔ نیز داؤد علیہ السلام کے بارے میں خاص طور پر بتایا کہ وہ اللہ کی طرف ہر دم رجوع کرنے والے تھے۔ اللہ نے ان کی سلطنت کوقوت دی تھی۔ ان کی سلطنت کی اپنی نصرت سے دھاک بٹھائی ہوئی تھی۔ وہ بڑے مدّبر اور دانا تھے اور فیصلہ بڑی خوبی سے کرتے تھے۔ اور تقریر بھی ان کی نہایت عمدہ اور فیصلہ کن ہوتی تھی۔ باوجود طرح طرح کے علمی کمالات کے جو ان کو اللہ کی طرف سے عطا ء ہوئے تھے امتحان ان کا بھی اللہ نے لیا۔ انہوں نے مختلف فرائض کے لیے تین دن مقرر کیئے ہوئے تھے ۔ ایک دن درباری معاملات کے لیے ، ایک دن اپنے اہل و عیال کے پاس رہنے کے لیے اور ایک دن خالص اللہ کی عبادت کے لیے اور اس روز وہ خلوت میں رہتے تھے اور کسی کو دربان ان کے پاس جانے نہیں دیتے تھے۔ مگر ایک دن جب وہ عبادت میں مشغول تھے کہ اچانک چند اشخاص دیوار پھاند کر ان کے پاس آ کھڑے ہوئے ۔ان کی توجہ ہٹ گئی اور ہ گھبرا گئے کہ محکم انتظام کے باوجود یہ کون لوگ ہیں اور کیسے میرے سامنے آ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا گھبرائیں مت ہم ایک فیصلہ کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ آپ انصاف سے فیصلہ فرما دیں۔ ایک نے بیان کیا کہ یہ میرا بھائی ہے اور اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میر ے پاس ایک دنبی ہے یہ چاہتا ہے کہ وہ ایک بھی کسی طرح مجھ سے چھین کر اپنی سو پوری کرے۔ وہ مال میں جیسے مجھ سے بڑھا ہوا ہے ،بات کرنے میں بھی مجھ سے تیز ہے یعنی مجھے بول کر بھی دبا لیتا ہے۔ داؤد علیہ السلام نے کہا وہ بے انصافی کر رہا ہے اور شریک تو اکثر زیادتی کرتے ہیں ایک دوسرے پر، مگر ایمان اور عمل صالح والے نیک لوگ نہیں کرتے پروہ ہوتے بہت تھوڑے ہیں۔ اس قصہ کے بعد داؤد علیہ السلام کو آگاہی ہوئی اور انہوں نے اپنی خطا معاف کرانے کے لیے نہایت عاجزی سے معافی مانگی ،سجدہ کیا اور اللہ نے ان کی خطا معاف فرما دی۔ وہ خطا کیا تھی اس کے متعلق روایت ہے کہ داؤد علیہ السلام نے اپنی طرف سے عبادت کا جو وقت مقرر کر رکھا تھا اس پر ان کو اطمینان تھا کہ اس میں خلل پیدا نہیں ہو گا۔ مگر ا للہ نے ان پر ظاہر کیا کہ میری توفیق کے بغیر کوئی تدبیر تمہاری شکست سے محفوظ نہیں۔ اس پر ان کو جب تنبہ ہوا تو انہوں نے اپنی خطاء کی معافی چاہی اور اللہ نے معاف فرما دیا۔ 
پھر اللہ پاک نے ان کو ملک میں خلیفہ مقرر کیا اور حکم دیا کہ لوگوں میں انصاف سے حکومت کرنا اور اپنی خواہش پر نہ چلنا ۔ چنانچہ وہ اللہ کے حکم کی تعمیل میں نہایت عدل کے ساتھ حکومت کرتے رہے اور ملک میں ان کے زمانے میں امن و امان کا دور دورہ تھا جس کی تاریخ گواہ ہے۔

No comments:

Post a Comment