Saturday, 22 February 2014

حضرت موسیؑ اور گڈریا


حضرت موسیؑ اور گڈریا
حضرت موسیؑ ایک دن جنگل میں جا رہے تھے آپ نے دیکھا کہ ایک بھیڑ بکریاں چرانے والا (گڈریا) دست بستہ کھڑا ہے اور بڑے شوق سے کہہ رہا ہے کہ اے خدا میرے پاس آ کر بیٹھ تاکہ میں تیری جوتی سیوں، تیرے سر میں کنگھی کروں ، تیری جوئیں ماروں، میں تیرے ہاتھ پاؤ دھوؤں، تجھے نہلاؤں ، صاف ستھرے کپڑے پہناؤں اور تجھ پر قربان ہو جاؤں، اگر تو میرے پاس آئے تو میں اپنا کمبل بچھا کر تجھے اس پر بٹھاؤں اور بکریوں کا تازہ تازہ گرم گرم دودھ تجھے پلاؤں۔ اگر تو بیمار ہو جائے تو میں اپنوں کی طرح تیری خدمت کروں ، تیرے ہاتھ چوموں ، تیرے پاؤں دبا کر تجھے میٹھی نیند سلاؤں ۔ جب صبح خواب استراحت سے بیدار ہو تو تیرا منہ دھلاؤں ۔ تیرے کھانے کیلئے قورمہ ، قلیا، پلاؤ، پنیر کوفتے، مکھن ملائی اور کھیر تیار کراؤں ، تجھے اپنے ہاتھ سے کھلاؤں، اگر تو مجھے اپنا گھر دکھا دے تو میں تازندگی صبح و شام تیرے ہاں دودھ اور مکھن پہنچادیا کروں۔ میری تمام بکریاں اور بھیڑیں تجھ پر قربان ہوں۔ 
حضرت موسیؑ نے اس کی یہ مستانہ باتیں سنیں اور قریب جا کر پوچھا کہ تو کس سے یہ باتیں کر رہا ہے، تو کس کا میزبان بننا چاہتا ہے ، تجھے کس کو اپنے ہاں دعوت پر بلانے کی اس قدر آرزو ہے؟ گڈریا بولا۔ میں اس سے ہمکلام ہو رہاہوں جو میرا پیدا کرنے والا ہے جس نے مجھے بولنے کے لیے زبان دی ہے۔ مجھے یہ بھیڑ بکریاں عطا کیں۔ جن کے دودھ کو میں اپنی غذا اور جن کی پشم سے میں اپنا لباس بناتا ہوں اور جس نے مجھے یہ چیزیں دی ہیں میں اسی کے دیئے ہوئے سے اس کی دعوت کرنا چاہتا ہوں۔ اگر وہ مجھ غریب کے گھر تشریف لے آئے تو میں خوشی سے پھولے نہ سماؤں۔ میری آبرو بڑھ جائے گی اور اس کی شان میں کچھ فرق نہ آئے گا۔ 
حضرت موسیؑ نے کہا۔ گڈریے! تیرا کلام بڑا گستاخانہ ہے تو خدا سے ایسی باتیں کر رہا ہے۔ وہ تو سب کا رازق ہے اسے کسی کھانے کی محتاجی نہیں ہے۔ نہ وہ تھکتا ہے اور نہ اسے نیند آتی ہے۔ تو اس کے پاؤں کیا دبائے گا تو کیا سمجھا کہ اس کا تیرے جیسا جسم ہے؟ جان لے اور یقین کر لے کہ اس کا کوئی جسم نہیں ہے۔ اس کے تیرے جیسے ہاتھ پاؤں نہیں ہیں وہ سب چیزوں سے بے نیاز ہے وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وہی سب کا حاجت روا ہے۔ وہ تیرے پاس کمبل پر بیٹھ کر تیری بکریوں کا دودھ نہیں پی سکتا۔ بس ا یسے بے ادبانہ کلام سے توبہ کر ۔ حضرت موسیؑ نے اس غریب گڈریے کو اس قدر دبایا کہ وہ بالکل سہم گیا اور کہنے لگا اے موسیؑ تو نے تو میری زبان بند کر دی ہے ۔ میرا منہ سی دیا ہے اور پشمانی پیدا کر کے میرا دل جلا دیا۔ پس وہ چیخ مار کر اوراپنے کپڑے پھاڑ کر ایک طرف جنگل کو نکل گیا اور نبی وقت کا حکم سن کر اس نے اللہ سے اپنی شوق بھری ہمکلامی چھوڑ دی اور اپنا ارمان دل ہی دل میں دبا کر بیٹھ گیا۔ وہ گڈریا پڑھا لکھا آدمی تو نہ تھا کہ سوچ سمجھ کر شائستہ بات کرتا ہاں اس کے دل میں خدا کی محبت ضرور تھی اور وہ کمال شوق سے اسی کا اظہار کر رہا تھا خدا کو اس کی یہ ذوق و شوق کی باتیں پیاری لگتی تھیں۔ جب وہ ان سے رک گیا تو اللہ تعالی کو ناگوار معلوم ہوا ۔ فوراً اللہ تعالیٰ نے اپنے کلیم (حضرت موسیؑ ) کی طرف وحی بھیجی کہ تو نے میرے ایک محب کو مجھ سے جدا کر دیا ہے۔ اے موسیؑ ہم نے تجھے اس لیے نبی بنایا تھا کہ تو بندوں کو ہم سے ملائے مگر تو نے تو اپنے فرض منصبی کو چھوڑ کر اور راہ اختیار کر لی ۔ اے موسی ؑ ہم نیتوں کو دیکھتے ہیں عملوں کو نہیں دیکھتے۔ ہماری نظر حال پر ہے قال پر نہیں۔ ہمیں دلی سوز کی قدر ہے لفظوں کا خیال نہیں ۔ جا اور ہم سے جدا کردہ بندے کو پھر اپنے شغل میں لگا کہ ہم کو وہی محبوب ہے۔ 
حضرت موسیؑ یہ حکم الہیٰ سن کر فوراً واپس جنگل میں آئے اور بعد از تلاش بسیار کے بعد اس گڈریے کو ڈھونڈ ا اور کہا بھائی اپنی مناجات میں لگے رہو اور جو میں نے تمہیں روکا تھا اس کا کچھ خیال نہ کرو۔ تمہاری محبت اور سوز میں ڈوبی ہوئی باتیں اللہ تعالیٰ پیاری لگتی ہیں۔ اپنے شغل میں مصروف رہو اور مجھے معاف کر دو۔ میں تمہارے وظیفہ میں خلل انداز ہوا۔ اللہ تعالی نیتوں کو دیکھتا ہے ظاہری اعمال پر اس کی نظر نہیں۔ 

No comments:

Post a Comment