سوانح حیات۔ سید معراج علی
سب سچ
یہ کہانی سید معراج علی 75سے یا اس سے زائد سالہ زندگی اور چند سچے واقعات کا احاطہ کرتی ہے۔
فراغت کی موجودہ زندگی میں چند دوستوں نے مجبور کر دیا کہ میں ان75سالوں کے تجربات قلمبند کر دوں۔
میرے آباؤ اجداد:۔
سید فدا علی اپنے تینوں شادی شدہ بیٹوں سید شوکت علی، سید شرافت علی اور سید محمد علی کو کاروبار کی غرض سے رجب پور سے لے کر مراد آباد آ گئے۔یہ وہی شہر ہے جس کی شہرت جگرمراد آبادی، سجاد حیدر یلدرم اور قرۃ العین وغیرہ کے دم سے ہے۔اگر عبیداللہ بیگ (کسوٹی فیم) کا نام بھی شامل کر لیں تو بے جا نہ ہو گا۔ مراد آبادکے نقش و نگار والے تانبے اور پیتل کے برتن بھی مشہور ہیں۔ اس کاروبار پر مسلمانوں کی اجارہ داری عرصہ دراز سے چلی آ رہی ہے۔ یہ کوئی 1925کے قریب کی بات ہے کہ یہاں آ کرفدا علی نے ریلوے روڈ پر ایک قطعہ اراضی خریدا جو 5کنال تھا اس کے آدھے حصے میں تین مکان آگے پیچھے تھے۔ شوکت علی کو کاروباری لحاظ سے سوجھ بوجھ اور عمر میں سب سے بڑا ہونے کی وجہ سے لب سڑک والا مکان دے دیاگیا، اس کی نچلی منزل پر تین دکانیں تھیں اور اوپر کی منزل میں رہائش۔ مکان کے پچھلی طرف کے دو مکانوں میں محمد علی اور شرافت علی مع اہل و عیال رہنے لگے، دکانوں میں سے ایک میں ہندو قصائی کی دکان تھی جو بکرے کا گوشت کھلے عام اور کبھی کبھار مسلمانوں کے لیے چوری چھپے گائے بھی ذبح کر لیتا تھا۔ کیونکہ ہندوؤں کے لیے یہ ایک مقدس جانور تھااور ہے اس لیے اس کے ذبح کرنے پرہندو بہت ناراض ہوتے تھے اور کبھی کبھار ایسے قصائی کے چھرا بھی گھونپ دیتے تھے۔ ایک دکان میں دو تین چمار جوتوں کی مرمت کرتے تھے ۔ تیسری دکان میں ایک برہمن بکری کے گردے کلیجی بھونتا تھا جس کی فروخت مغرب کے بعد شروع ہوتی تھی ہر شرابی یہاں سے خریداری کر کے شراب کی ہٹی پر پہنچتا تھا۔
سید فدا علی نے قطعہ اراضی کے نصف حصہ میں لکڑی کا کاروبار کر لیا جسے عرف عام میں ٹال کہتے ہیں۔ چار ملازموں میں سے کلو پدھان اور گچھن تھے جو انتہائی محنت سے لکڑیاں پھاڑ پھاڑ کر ڈھیر لگاتے، ایک مزدور آنے والے گاہکوں کی لکڑیاں تول کر اسے پیسے بتاتا جو رام لال کے حوالے کرتا اور وہ فدا علی کو دے دیتا۔ رام لال کی ایمانداری کی وجہ سے اسے رقم وصولی کا کام سونپا گیا تھا۔ خود فدا علی کی نظر کمزور تھی لہذا نوٹ شناخت کرنے میں انہیں مشکل پیش آتی تھی۔ ان کے سب سے چھوٹے بیٹے محمد علی کا کام رات کے اندھیرے میں ٹال کی نگرانی کرنا تھا جو کبھی کبھار آنکھ بچا کر چار پائی پر آرام بھی کرلیتے تھے۔ بھاگ دوڑ کے بعد ریلوے اسٹیشن پر شرافت علی کو تانگہ اسٹینڈ کا ٹھیکہ مل گیا ۔ ٹال چونکہ گنجان آباد علاقے میں تھی اس لیے لکڑی کا کاروبار تیز ی سے چمک اٹھا ۔ اس ٹال کے برابر میں ایک اور ٹال تھی۔ اس کے بعد سڑک کے دونوں طرف کمہار، کنجڑے روئی دھننے والے اور مزدوروں کے چھوٹے چھوٹے لاتعداد گھر تھے۔ اس کے بعد ایک دو سینما اور اس کے بعد مراد آباد کا ریلوے اسٹیشن تھا جس پر پلیٹ فارم کے علاوہ کم و بیش دس بارہ اور ریلوے لائنیں تھیں۔ ریلوے اسٹیشن سے کچھ پہلے سڑک کے دونوں طرف آموں کے درخت تھے۔ ٹال کے عقب میں مراد آباد کی جیل تھی جس کی چار دیواری کے ساتھ ساتھ دس بارہ فٹ چوڑا اور انتہائی گہرا نالہ گزر رہا تھا جس کے پانی کی رفتا ردیکھ کر خوف آتا تھا مگر جب بھی اس طرف قیدیوں کی گھاس کاٹنے کی ڈیوٹی لگتی تھی تو اکا دکا نامی گرامی بدمعاش ، لٹیرے، نڈر اچکے آٹھ فٹ اونچی دیوار پھاند کر نالے میں غوطہ لگا کر بھاگ جاتے تھے۔ ڈیوٹی کے بعد نگران کو معلوم ہوتا کہ چند ایک قیدی بھاگ گئے ہیں لہذا ساری فضا سائرن اور سیٹیوں کی آواز سے گونج اٹھتی ۔ جیل میں کبھی کبھارکسی لاش کا پوسٹ مارٹم کیاجاتا تو ہوا کے ساتھ ساتھ ٹال میں ایک ناگوار بو پھیل جاتی اور فدا علی چائے بنوا کر اپنے مگ میں دیسی گھی کے دو چمچ ڈال کر اس چکنے ،دائروں والی چائے سے لطف اندوز ہوتے اور اپنی آرام دہ کرسی پر لیٹ جاتے تھے۔ ٹال کے ایک طرف شراب کی ہٹی تھی ۔ رات ہوتے ہی یہاں شرابی جمع ہو جاتے ۔ برہمن کی دکان سے خریدی ہوئی چٹ پٹی روکھی کلیجی اور گردے کھاتے اور ہٹی سے ٹھرا خرید کر ایک دو گھونٹ بھرتے اور گالیاں بکتے ہوئے کنجری سرائے میں کسی کوٹھڑی کا رخ کرتے جہاں ایک سے ایک بڑھ کر کنجری کچے گھروں کے درمیان رات کے وقت بناؤ سنگھار کر کے کھڑی ہو جاتی ۔جن میں بمبئی سے بھاگ کر آنے والی چھمیابھی تھی جوسب کے مقابلے میں زیادہ جوان، زیادہ پرکشش اور گوری بھی تھی۔ ان سب کا کاروبار خوب چمک رہا تھا۔ گاہکوں میں زیادہ تر شرابی ہوتے۔ ٹال کے سامنے پیارے لال کی پنساری کی دکان تھی جس پر روزمرہ کی چیزیں مثلاً چاول، دال، آٹا، گڑ اور مصالحہ جات وغیرہ جیسی بہت سی چیزیں ملتی تھیں۔ اس دکان کے برابر سڑک کا ڈھال کچھ فاصلے پر ایک مسجد کے پاس سے گزر کر کہیں شہر کے بازاروں میں جا ملتا تھا۔ اس مسجد میں زیادہ رونق رمضان میں ہوتی جب مسلمانوں کے بچے خوانچے والوں سے دال ئسیو خرید کر اذان کے انتظار میں رہتے جس کی آواز کے ساتھ ہی ان میں دوڑ لگ جاتی کہ کون اپنے گھر پہلے پہنچ کر روزہ کھلنے کی خوشخبری سنائے گا۔ غلامی کے اس دور میں کچھ نڈر مسلمان مسجدوں کو آباد کئے ہوئے تھے تاہم قرآن کی تلاوت گھروں میں کرتے۔ مسلمانوں کے ہر گھر میں قرآن موجود تھا جن کا یہ ایمان تھا کہ وہ انہیں ہندو اور انگریز دونوں کے ظلم سے بچائے گا۔ وقت تیزی سے گزرتا رہا اور 1940ء جب آیا تو سڑکوں پرمسلمانوں کے یہ نعرے بھی سننے میں آنے لگے ۔
سینے پہ گولی کھائیں گے پاکستان بنائیں گے
مسلمانوں کے جلوس ہندوؤں کو ایک آنکھ نہ بھاتے تھے لہذا وہ چوری چھپے رات کے اندھیرے میں مسلمانوں کو قتل کرنے لگے۔ 1936میں فدا علی نے کاروباری منافع سے شوکت علی کی دوسری شادی جمیلہ نامی خاتون سے کر دی۔ جس کے لیے انہوں نے گاؤں کی بیوی سے اجازت بھی لی جو غالباً بانجھ تھیں اور ان کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی۔ یوں جمیلہ خاتون نے تین دکانوں کے اوپر کی منزل کو آباد کر دیا جو برسوں سے عورت کے بغیر کاٹ کھانے کو دوڑتی تھی۔ شادی کے اگلے دن دھوم دھام سے ولیمہ ہوا جس میں شوکت علی کے چند ہندو دوستوں نے بھی شرکت کی۔ ارد گرد کمیونٹی میں فدا علی بڑے میر صاحب اور شوکت علی چھوٹے میر صاحب کہلانے لگے۔ شام کو بڑے میر صاحب اپنی بہو جمیلہ خاتون کو نیچے کے دو مکانوں میں لائے اور سب کا تعارف کروایا۔ جن میں ان کی ساس بھی شامل تھیں جو قد آور، طاقت ور اور گوری چٹی خاتون تھیں۔ ان کے سرخ سپید رخساروں پر ایک مسا بھی تھا۔
یہ1938تھا جب شوکت علی کے ہاں ایک سانوالہ سا بیٹا پیدا ہوا۔(یعنی میں) وارث کے پیدا ہونے کی وجہ سے جمیلہ خاتون کی مناسب دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ غذا اور دواؤں کا بھی خیال رکھا گیا ۔ محمد علی اور شرافت علی کی پہلے ہی دو دو تین تین اولادیں تھیں مگر اس خوشی میں سب برابر کے شریک تھے اور باری باری سب نئی نویلی سانولی دلہن کی خدمت کرتے رہے۔
دو سال بعد اس سانولے بچے کی ختنہ( سنتیں )کرا دی گئیں ۔ اس بچے کے گاؤں والے ماموں سید اشتیاق علی آفریدی جو مراد آباد میں ایک راشن ڈپو کے انچارج تھے اور بیکری والوں کو چینی کبھی کبھار کوٹے سے زیادہ بھی دے دیتے تھے ان میں سے ایک بیکری کے مالک نے پانچ پونڈ کا انتہائی لذیذ کیک آفریدی صاحب کو بنا کردے دیا جووہ میرے لیے لے کر آئے تو میں نے کئی دن تک مزے لے لے کر کھایا کیونکہ نمک مرچ کے کھانے پر پابندی تھی۔ شوکت علی نے اپنے بیٹے کا نام معراج علی رکھا مگر گاؤں والی سوتیلی ماں اسے پیار سے ابن کہنے لگیں اس زمانے میں مسلمان بچوں کے نام اس وزن پر رکھنے کا عام رواج تھا مثلاً جمن ، کلن، چھکن ، امن ، نبن ، چھدن اور ببن وغیرہ۔فدا علی جب اس فرض سے فارغ ہوئے تو شوکت علی عمارتی لکڑی کے کاروبار میں کثیر منافع کما چکے تھے چنانچے باپ کے مشورے سے انہوں نے ایک نیا ٹرک خرید لیا۔جسے شہر کے ہندو بھی یک نظر ضرور دیکھتے تھے۔ یہ شیور لیٹ یا بیڈ فورڈ تھا۔ آہستہ آہستہ اس ٹرک کی باڈی انتہائی قیمتی لکڑی سے تیار ہوتی رہی ۔ جب یہ کام مکمل ہوا تو معرا ج علی بھی اپنی ماں کے ساتھ ٹال میں اس پر سلیٹی رنگ ہوتا ہوا دیکھنے زینے سے ٹال میں آگیا ۔اس دوران ایک بڑی سی کالے اور سفید رنگ کی پتنگ جسے چپَ کہتے تھے کہیں سے کٹی ہوئی آئی تو ٹال کے مزدور کام چھوڑ کر اس کی طرف لپکے ۔ ایک دو مزدور وں نے سڑک کی طرف سے آنے والے لونڈوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر بھگا دیا۔ لوٹی ہوئی یہ پتنگ جب میرے حوالے کی گئی تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ میں اسے حفاظت سے لے کر کوٹھے پر آ گیا اور پلنگ کے سرہانے کھڑا کر دیا۔ اس کے ساتھ جو چند گز ڈور تھی اس کی ایک مزدور نے اٹیا بنا دی جو شاید بچپن میں پتنگ بازی کرتا رہاتھااور پتنگوں کے کئی نام اسے زبانی یاد تھے۔ ان میں سے کچھ مجھے بھی رٹوا دیئے۔ مثلاً چوباق، لنگوٹ، ادھا ،ڈھپال اورکنکوا وغیرہ۔اٹیا دراصل انگریزی کے ہندسے 8کی طرح بنائی جاتی ہے جسے پتنگ لوٹنے والا دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور چنگلیا کی مدد سے ڈور سمیٹنے کیلئے بناتا ہے۔ میرے والد نے جب اکثر مجھے آسمان پر اڑ تی پتنگوں کو تکتے دیکھاتو میرے نیچے اترنے اور پتنگ اڑانے پر پابندی لگا دی اور اپنی بیوی کو بھی سختی سے تاکید کر دی۔ میں سہم کر رہ گیا کیونکہ میرے والد میری کڑی نگرانی کرتے اور ذرا ذرا سی غلطی پر میری پٹائی کرتے۔ یوں مجھے وہ برے لگنے لگے۔ جب وہ گھر پر نہ ہوتے تو میں اکثر شام کو صحن میں کھڑے ہو کر آسمان پر اڑتی ہوئی رنگ برنگی پتنگوں کو حسرت بھری نگاہوں سے گھنٹوں تکتا رہتا۔ ایک دن میرے والد کاروبار کے سلسلے میں عمارتی لکڑی لینے دارجلنگ چلے گئے تو ماں کے لاکھ منع کرنے کے باوجود جب وہ غسل خانے میں گئیں تو میں پتنگ لے کر دبے پاؤں نیچے آیا اور مزدور سے اٹیا کھولنے کے لیے کہا تو میری پتنگ کے ساتھ مجھے دس بارہ گز ڈور مل گئی اور میں اسے اڑانے لگا مگر ابھی سیکھنے کا عمل تھا لہذا میری پتنگ اوپر اٹھتے ہی نیچے آ جاتی۔ کافی دیر کے بعد جب میں کوٹھے پر آیا تو میری خوب درگت بنی ۔ اب مجھے ماں بھی بری لگنے لگی۔وہ سمجھتی تھیں کہ میں جوان ہو کر پتنگ اور ڈور کا کاروبار کروں گا اور ان پڑھ ہی رہوں گا۔ جب میں نے پانچویں برس میں قدم رکھا تو میرے والدین میں میری تعلیم پر طویل بحث ہونے لگی والد کہتے تھے کہ یہ کاروبار سنبھالے گا لہذا سے پڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں جبکہ میری والدہ کی رٹ تھی کہ وہ اسکول میں داخل کروائیں گی۔ اس دوران میری بہن پیدا ہوئی مگر زندگی نے چند ماہ سے زیادہ وفا نہ کی ایک بار پھر سب کی توجہ میری طرف ہو گئی۔ سب سے زیادہ مجھے اپنی پتنگ پیاری لگنے لگی۔ والد کی غیرحاضری میں اسے صحن میں اڑاتا۔ ایک دن ہوا تیز تھی تو میری پتنگ اوپر اٹھی تو مجھے بہت مزہ آیا میں نے اسے ڈھیل دی تو وہ اوراونچی ہونے لگی مگر جب اس نے غوطہ لگایا تو وہ سامنے کے بجلی کے تاروں میں الجھ کر رہ گئی اور کئی بل کھانے کے بعد تاروں میں ہی جھولنے لگی۔ میں نے بہت زور لگایا مگر وہ تاروں کی گرفت سے نہ نکل سکی اسی کوشش میں ڈور ٹوٹ گئی اور صرف دو تین گز کا ٹکڑا میرے ہاتھ میں رہ گیا۔ جسے میں نے صحن میں ہی پھینک دیا۔ والدہ نے جب صحن میں جھاڑو دی تو یہ ڈور کا ٹکڑا ان کی جھاڑو سے بار بار لپٹ کر انہیں تنگ کرنے لگا جب انہوں نے غصے میں جھاڑو میری ٹانگوں پر دو تین بار لگائی تو میں بھاگ کر نیچے آیا اور دادی کے پاس رونے لگا تو انہوں نے مجھے گود میں اٹھا لیا اور میری تسلی کے لیے میری والدہ کو گھور کر دیکھا۔ اسی طرح جب والد مجھے مارنے کو دوڑتے تو میں بھاگ کر دادی کی گود میں آ جاتا جو مجھے اپنے دوپٹے کے نیچے چھپا لیتیں۔ وہ ڈانٹ کر کہتیں شوکت! ۔ خبر دار جوتو نے میرے معصوم بچے کو ہاتھ بھی لگایا۔ میں تیرے ہاتھ توڑ دوں گی۔ میرے والد یہ کہہ کر واپس چلے جاتے کہ اماں آپ اسے بگاڑ دیں گی تو وہ جواب دیتیں ۔ بچہ ہے خود سمجھ جائے گا۔پھر ایک دن میری ماں کو میری پٹائی کا ایک اورموقع ہاتھ آ گیا۔ ہوا یوں کہ مجھے بہت بھوک لگی تو میں نے والدہ سے میٹھا پراٹھا پکانے کی فرمائش کر دی ،نہ جانے کون سی نیک گھڑی تھی کہ انہوں نے بخوشی میٹھا پراٹھا بنا دیا۔ میں گرم گرم پراٹھا پلیٹ میں لے کر کمرے میں آ گیا۔ اس کمرے کا ایک دروازہ پچھلی طرف کھلتا تھا یہاں سے زینہ نیچے اتر کر دونوں مکانوں میں جاتا تھا جن میں میرے چچا رہتے تھے۔ یہ زینہ ہنگامی صورت میں بڑوں کے استعمال کے لیے تھا اورمجھ جیسے بچوں کے لیے انتہائی خطر ناک تھا کیونکہ سیڑھیوں کے دونوں طرف سہارے کے لیے کوئی دیوار یاریلنگ نہ تھی۔ ابھی پراٹھا ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ مجھے سخت پیاس لگی اور میں پانی لینے کے لیے صحن میں آیا۔ واپس جا کر تخت پر دیکھا تو خالی پلیٹ میرا منہ چڑا رہی تھی۔ میں رونہار ہو گیا اور بھوک نے مجھے ڈرتے ڈرتے باورچی خانے میں پھر پہنچا دیا۔ میں نے روتے ہوئے کہا میرا پراٹھا کسی نے کھا لیا ہے تو جواب میں انہوں نے کہا کہ اتنی جلدی تم نے پراٹھا کیسے کھا لیا اس کے علاوہ کہنے لگیں تو پیٹو کب سے ہو گیا میں نے بڑا یقین دلایا مگر انہوں نے میری ایک نہ سنی اور پھنکنی ہاتھ میں لے کر گھسیٹتی ہوئی مجھے کمرے میں لے آئیں وہ سمجھیں کہ میں بھوک کی شدت سے لاچار ہو کر بڑے بڑے نوالے لے کرٹھونستا آناً فاناً حبشیوں کی طرح پراٹھا کھا گیا ہوں، یا میں نے پراٹھا کہیں چھپا دیا ہے یا زیادہ بھوک نے مجھے دوسرا پراٹھا مانگنے پر مجبور کیا ہے۔ مگر ہر گز ایسا کچھ نہ تھا۔ انہوں نے دروازے سے گردن باہر نکال کر جب اپنے بائیں جانب دیکھا تو ایک بندر چچا کے مکان کی چھت پر بیٹھا گرم گرم پراٹھا بڑے شوق سے کھا رہا تھا۔ چنانچہ بے بس ہو کر انہوں نے میرے لیے دوسرا پراٹھا پکانے کی حامی بھر لی۔ ان کے جاتے ہی میں نے ایک کواڑ کا سہارا لے کر باہر جھانکا تو بندر کو پراٹھا کھاتے پایاتو دل ہی دل میں اسے کوسنے لگا۔ دراصل دونوں مکانوں کے پیچھے جو ایک بڑی ٹال تھی اس میں املی کا درخت تھا جس کی چند شاخیں پھیل کر چھت سے منڈیرکی طرف آ نکلی تھیں۔ جب بندروں کو بھوک لگتی تو وہ اس درخت پر املی کھانے کے لیے آ جاتے۔ بندر میرا پراٹھا ختم کر کے فوراً چھت سے منڈیر کے سہارے دبے قدموں دروازے کی طرف آتا دکھائی دیا تو ڈر کے مارے میں نے دروازہ بند کر دیا۔
رات کے وقت جب میں ماں کے پاس لیٹتا تو بہت سے سوال کرنے کو جی چاہتا مگر ماں کا خوف آڑے آ جاتا۔ ایک دن والد گھر پر نہ تھے تو میں نے والدہ سے پوچھا کہ میری بہن کہاں چلی گئی۔تو وہ کہنے لگی کہ اللہ کے پاس چلی گئی۔ جب میں نے یہ کہا کہ وہ آئی کہاں سے تھی تو جواب ملا کہ روشندان میں سے اللہ میاں نے مجھے آواز دے کر تمہاری بہن دے دی۔ میرا حوصلہ بڑھا تو ایک اور سوال کر دیا اور میں کہاں سے آیا ہوں؟ تو ان کا جواب تھا کہ بہت بولنے لگے ہو خاموش ہو کر سوجاؤ رات بہت ہو گئی ہے۔
میں اب انگلی پکڑ کر والدہ کے ساتھ ساتھ تیز قدموں سے چلنے لگا تھا۔مگر گھر کے سامنے بڑی سڑک پا ر کر کے پیارے لال کی دکان سے روزمرہ کی چیزیں لانے کی اجازت نہ تھی۔ اتفاق سے انہیں دنوں ایک فوجی سکھ دوست بڑے میر صاحب سے ملنے آیا اسے کتے پالنے کا بہت شوق تھا شاید اس پر انگریزوں کے طرز زندگی کا گہرا اثر تھا ، میر صاحب نے اپنی بہو کا مسئلہ اس کے سامنے رکھ دیا تو اس نے چند دن بعد ایک نسلی کتا مع ٹرینر کے بھیج دیا جس نے میر صاحب کے مشور سے اس کا نام موتی رکھ دیا اور دو تین دن میں اسے سدھا کر تیا رکر دیا جو زینے کے دروازے کے پاس بیٹھا رہتا ۔ اماں جی جب اسے زینے کے قریب سے موتی کہہ کر پکارتیں تو وہ فوراً لپک کر سڑھیاں پھلانگتا ہوا اوپر آجاتا اور سیڑھیوں سے نیچے اترنے اور چڑھنے کے لیے اوپر آنے والے راستہ میں چھوٹے سے دروازے کے کواڑ پر اگلی دونوں ٹانگیں رکھ کر ہلکا سا بھونکتا جس کی آواز پر اماں جی اس کے گلے میں ایک تھیلا اور سودے کا پرچہ باندھ دیتیں ۔ موتی دوڑتا ہوا بڑی ہوشیاری سے سڑک کی ٹریفک سے نکل کر پیارے لال کی دکان کے تھڑے پر ایک بار پھر اپنی اگلی ٹانگوں پر کھڑا ہو جاتا۔ پیارے لال سودا تھیلے میں ڈال کر موتی کی گردن کے ارد گرد لپیٹ دیتا جو سیدھا گھر کا زینہ چڑھ کر بھونک لگاتا۔ اما ں جی اس کی گردن سے تھیلا کھول لیتیں اور موتی نیچے اتر کر پھر اپنی جگہ پر آ بیٹھتا ۔ ابا جی کا آمنا سامنا جب پہلی مرتبہ موتی سے ہوا تو وہ بھونکنے لگا مگر بڑے میر صاحب نے نہ جانے اس پر کیا جادو کیا کہ میرے والد نے جب اسے دودھ پلایا تو وہ دم ہلانے لگا اور جلد ہی گھر والوں اور مہمانوں میں تمیز کرنے لگا۔ میرے والد نے سکھ کا سانس لیا کہ ان کے والد نے نوکر رکھنے کے مسئلہ کو موتی کے ذریعہ حل کر دیا تھا۔
کاروباری دوروں کے سلسلے میں والد صاحب اکثر گھر سے باہر رہتے تھے چنانچہ ان کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے والدہ مجھے عزیز واقارب کے ہاں لے جانے لگیں ان کی بڑی بہن صداقت انسا عرف صدو گلاب رائے کے باغ والے محلہ میں ایک منزلہ مکان میں اپنے شوہر اور پانچ بیٹیوں کے ساتھ رہتی تھیں۔ ان کے شوہر سید مقبول حسین برتنوں پر نقش و نگار بنانے کا کام کرتے تھے جن کا سارا دن محنت اور مشقت میں گزر جاتا شام کو برتن تیار کر کے دکان دار کو دے آتے اپنی مزدوری لیتے اور اگلے دن کے لیے برتن لے آتے۔ ان پڑھ ہونے کی وجہ سے وہ رات دن مشقت کی چکی میں پس رہے تھے مگر بلا کے ذہن عقل مند اور چالاک ہونے کی وجہ سے اپنے کمزوری کو بڑی خوبی سے نبھارہے تھے۔ ان کی بیٹی افسر جہاں نہ صرف اپنے والد کا ہاتھ بٹاتی بلکہ مجھے بھی یہ ہنر سکھانے کی سرتوڑ کوشش کرتی مگر بے سود کیونکہ والدہ کی گھورتی نگاہیں، مجھےکچا چبانے کی فکر میں رہتیں۔ میں ان کے خوف، رعب اور دبدبے کے سامنے دونوں باپ بیٹی کی صحبت میں بت بنا بیٹھا رہتا ۔ اکتاہٹ سے چور ہو کر میں واپس جانے کا تقاضہ کرتا تو خالہ جان میری والدہ کو جمیلہ کہہ کر دو تین دن گزارنے کے لیے روکتیں ۔ اگلے دن خالہ کی پانچ بیٹیاں میری والدہ کو پڑوس میں لے گئیں۔ میں موقع غنیمت جان کر رونی شکل بنا کر خالہ سے کہنے لگا ہمیں جانے دیں تو انہوں نے میرا دھیان پلٹنے کے لیے میری پسندکے بارے میں پوچھا تو میں نے کہا مجھے پتنگ اڑانا بہت اچھا لگتا ہے۔ آپ کے گھر تو دو دو کو ٹھے ہیں تو وہ کہنے لگیں تو فکر نہ کر اگلی مرتبہ جب آئے گا تو میں تیرے لیے پتنگ اور ڈور منگا کر رکھوں گی ۔ میں تیری ماں کو کمرے میں لے جا کر باتوں میں لگا لوں گی اور تو زینہ سے چڑھ کر کوٹھے پر پتنگ اڑانا۔ میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا ۔گھر واپس آتے ہی میں بے چین رہنے لگا خدا خدا کر کے تین دن گزرے تو میں نے خالہ کے ہاں جانے کے لیے کہا تو کہنے لگیں پاگل ہو گیا ہے روز روز کسی کے گھر نہیں جاتے۔ کل ہم دونوں سول لائین چلیں گے پرسوں تیرا باپ آ جائے گا۔ وہاں ایک بڑی کوٹھی ہے۔ جس میں ایک بہت قابل عزیز سید ظفر حسین واسطی بار ایٹ لا رہتے ہیں۔ جو سڑک کے پارکچہری میں کام کرتے ہیں۔ خدا خدا کر کے رات گزری تو ناشتہ کے بعد والدہ نے تانگہ منگوایا اور برقع اوڑھ کر میرا ہاتھ پکڑکے نیچے آ گئیں ہم دونوں تانگے میں پچھلی نشست پر آرام سے بیٹھ گئے کوچوان نے تانگے کے پچھلی طرف چھت کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک صاف ستھری چادر تان دی ، ہم دونوں سب کی نگاہوں سے محفوظ ہو گئے۔ پندرہ بیس منٹ بعد تانگہ نے ایک وسیع و عریض کوٹھی کے ارد گرد میدان میں ہمیں اتار دیا۔ تانگہ بان نے کہا کہ وہ کرایہ بڑے میر صاحب سے لے لے گا۔ میری والدہ کے اندر داخل ہوتے ہی ایک شور مچا جمیلہ پھپھو آ گئیں۔ واسطی صاحب اپنی اہلیہ، چار بیٹیوں اور دو بیٹوں کے ہمراہ یہاں مقیم تھے۔ کوٹھی کے کمرے اس قدر بڑے تھے کہ بعض کمروں سے دوسرے کمروں میں اکیلے جانے سے ڈر لگتا تھا۔ ہر کمرے میں دیواروں پر ہلکے سبز رنگ کا روغن بڑی مہارت سے کیا گیا تھا۔ ہال کمرہ جسے مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اس میں ایک بیضوی شکل کی میز کے گرد دس بارہ کرسیاں لگی تھیں کوٹھی کا حصہ چار پانچ فٹ اونچے چبوترے پر تعمیر کیا گیا تھا جس کی وسیع چھت کے لیے یہ مشہور تھا کہ یہاں سانپ رہتے ہیں لہذا کوئی نہ جاتا تھا۔ کمروں سے ملحقہ ایک بہت لمبا برآمدہ تھا۔ یہاں سے چار پانچ سیڑھیاں اتر کر کوٹھی کے دالان میں آ جاتے تھے۔ دائیں طرف کی دیوار کا دروازہ باہر کھلتا تھا جس کے پاس ہینڈ پمپ لگا تھا اس کے قریب ہی امرود کا درخت تھا جسے سب سفری کہتے تھے۔ اس میں سفید اور سرخ دونوں رنگ کے بہت لذیذ اور میٹھے امروڈ کثرت سے آتے تھے۔ سامنے کی طرف ایک کوٹھڑی تھی جہاں ان گنت ہر عمر کی مرغیاں رہتی تھیں۔ ایک کونے میں کوئلہ کا ڈھیر تھا جو ضرورت کے وقت کام آتا تھا۔ برابر میں لمبا چوڑا باورچی خانہ تھا جہاں کم و بیش چار پانچ قسم کے کھانے پکتے تھے۔ اس سے ذرا فاصلے پر ایک بہت لمبا بیت الخلاء تھا جس میں افراد کی تعداد سے دوگنے قدمچے تھے ہر فرد کا قدمچہ الگ الگ تھا جس کے غلط استعمال پر باز پرس ہوتی۔ واسطی صاحب کی پسندیدہ ڈش ایک ڈیڑھ کلو کی مرغی یا مرغا تھا۔ گرم گرم پھلکوں کے ساتھ اس کا مزہ دوبالا ہو جاتا تھا۔
بازار کی خرید و فروخت اور اوپر کے کام کاج کے لیے دو بڑے وفادار ملازم تھے جن میں سے ایک کو ملا جی اور دوسرے کو اللہ دیا پکارتے تھے۔ یہ ملازم جب واسطی صاحب سے تنخواہ مانگتے تو وہ کہتے جلدی کیا ہے۔ جو چیز ضرورت ہے وہ بتا دے۔ غرض ان کی ہر ضرورت پوری ہوتی تھی اور وہ دونوں گھر کے افراد میں شامل کئے جاتے تھے۔ وہ یہاں بہت خوش تھے کیونکہ ہر طرح کا آرام میسر تھا۔ یہاں بھینس کا خالص دودھ پیالوں میں ملتا تھا۔ جن کے کناروں پر مختلف رنگ کی دھاریاں تھیں۔ دالان کے ایک کمرے میں بھینس بھی پل رہی تھی مگر اس کا دروازہ کوٹھی سے باہر کھلتا تھا۔ اور اس کی دیکھ بھال کے لیے بھی ایک نوکر رکھ لیا گیا تھا۔
واسطی صاحب کثرتی جسم کے مالک تھے۔کلف لگا ہوا سفید کرتا۔ چوڑی دار پاجامہ ، پاؤں میں سیاہ گابی اور سرپر کالی ٹوپی ( جو جناح کیپ سے قدرے مختلف تھی) پہن کر کوٹھی سے باہر نکلتے تو ہر شخص کی نگاہ ان کی طرف اٹھ جاتی ۔ میری والدہ کے ہاتھ میں بلا کا ذائقہ تھا کڑھی اور چنے کی دال کریلے، اس قدر لذیذ پکاتی تھیں کہ سب کوٹھی والوں کی فرمائش ہوتی چنانچہ اکثر یہ ڈش بنا کر میں اور میری والدہ کوٹھی پر آنے جانے لگے۔ ہمارے اور واسطی طاحب کے خاندان کے تعلقات استوار ہوتے گئے۔
محلہ کسرول۔
اس محلے میں میرے خالو (سید عتیق حسین واسطی ) ریلوے گارڈ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ واسطی صاحب علی گڑھ کے گریجویٹ تھے۔ سفید لمبی داڑھی ، ان کی لچسم شیم شخصیت میں شان دار اضافہ کئے ہوئے تھی۔ ان کی بیگم کو سب اولاد یں \"باجی\" کہتی تھیں لہذا مں بھی انہیں باجی کہنے لگا۔ وہ ہماری بہت خاطر تواضع کرتی تھیں۔ واسطی صاحب کی سب سے بڑی اولاد سید محمد علی اور ان سے چھوٹے صاحبزادے سید علی سعید واسطی تھے۔ میرے ان کے درمیان چھ سات ماہ کا فرق تھا۔ ان سے چھوٹے بھائی سید کبیر واسطی (مسلم لیگ ہم خیال گروپ) کے حوالے سے مشہور ہو گئے۔ سید عتیق حسین واسطی دراصل سید ظفر حسین واسطی کے حقیقی بھائی تھے جو بار ایٹ لا تھے۔ اس محلے سے ذرا آگے چوڑی سڑک ایک گھر میں سڑک کے رخ پر بہت بڑا گھڑیال آویزاں تھا جس میں محلے کے اکثر لوگ آتے جاتے وقت دیکھتے تھے ۔ اس گھڑیال کو لوئے کی گرل سے محفوظ کر دیا گیا تھا تاکہ چوری سے بچا رہے۔
میرٹھ کی سیر۔
والد کاروبار کی غرض سے اکثر دہلی، دارجلنگ، شملہ اور نینی تال عمارتی لکڑی خریدنے کی غرض سے جاتے رہتے تھے۔ چنانچہ ہم دونوں مان بیٹے کو سیر سپاٹے کا موقع مل جاتا۔ اس بہانے سے عزیزوں سے بھی ملاقات ہوجاتی۔ میرے پھپھا مختار صاحب اس شہر کے کوتوال تھے۔ اس عہد ے کی وجہ سے انہیں ایک کشادہ کوٹھی ملی تھی مگر یہ چاروں طرف سے نچلے درجے کے ہندوں سے گھری ہوئی تھی۔ کوتوال صاحب بڑی نہس مکھ اور شاندار شخصیت کے مالک تھے عمر 60سال سے کم تھی۔ بیگم کا انتقال ہو چکا تھا۔ اولاد کی نعمت سے محروم تھے۔ بس ایک وفادار ملازم دین ممحد ان کا سب کام کر دیتا تھا جسے وہ اکثر پیار سے دینو کہہ کر بلاتے تھے۔ جب ہم دونوں ان کی کوٹھی میں داخل ہوئے تو صحن میں حقہ رکھا تھا جس کے نزدیک دو چار مونڈھے اور ا یک میز تھی ۔ کوتوال صاحب خود امرود کے درختوں پر پانی چھڑک رہے تھے کیونکہ کئی دن سے بارش نہ ہوئی تھی اور درخت گرد و غبار سے اٹ گئے تھے۔ جیسے ہی ان کی نظر ہم پرپڑی انہوں نے بے ساختہ کہا آؤ جمیلہ آؤ۔ یہ تمہارا بیٹا ہے۔ تعارف کے بعد ہم مونڈھوں پر بیٹھ گئے۔ کوتوال صاحب حقہ کے کش لینے لگے۔ اور ادھر ادھر کی باتیں میری والدہ سے کرنے لگے۔ کوٹھی کا گیٹ تھوڑا سا کھلا تھا چنانچہ اس میں سے ایک مرغی داخل ہوئی اور صحن میں ادھر ادھر چکر لگانے لگی۔ ایک جوان عاق مزاج مرغ اس کا پیچھا کر رہا تھا کوتوال صاحب نے للچائی ہوئی نظروں سے دونوں کو دیکھا اس دوران میری والدہ باتھ روم میں چلی گئیں۔ کوتوال صاحب بڑی پھرتی سے گیٹ کے پاس پہنچے تو مرغی بھاگ کر باہر نکل گئی مگر مرغا نکلنے سے پہلے کوتوال صاحب نے گیٹ بند کر دیا۔ جب انہوں نے اس کا تعاقب کیا تو قریبی جھاڑیوں میں پھنس کر رہ گیا۔ مرغا بہت تڑپا ، چیخا چلایا بھی مگر کوتوال صاحب مونڈھے کے نیچے ڈال کر خود اس پر بیٹھ کر آواز لگائی دینو ارے دینو ذرا تیز والی چھری لانا میں جمیلہ کے بیٹے کو امرود کاٹ کر کھلاؤں گا۔ ملازم چھری دے کر چلا گیا تو انہوں نے مجھ سے کہا تم صحن کا چکر لگاکر دیکھو کون سے درخت کے امرود پسند ہیں۔ جو ہی میں ذرا آگے گیاانہوں نے پھری سے مرغ نکال کر چھری پھیر دی۔ اسے مونڈھے کے نیچے ڈالا اور خود اس پر اطمینان سے بیٹھ کر تازہ اخبار پڑھنے لگے۔ اتنے میں گیٹ پر شور ہوا تو کوتوال صاحب نے دینو کو زور سے آواز دے کر پلیٹ اور کالی مرچ نمک منگوایا اور کہا ذرا گیٹ پر دیکھو کیسا شور ہے ۔ ملازم نے بتایا کچھ ہندو اندر آنا چاہتے ہیں کوتوال صاحب نے لاپرواہی سے کہا انہیں اندر بلا لاؤ۔ سب نے سہمے انداز سے کہا راج کمار کا مرغا یہاں آیا ہے۔ انہوں نے اخبار سے نظر ہٹا ئے بغیر کہا بھائی کوٹھی حاضر ہے تلاش کر لو۔
No comments:
Post a Comment