Thursday, 30 January 2014

Lipstick History in Urdu


لپ سٹک کی تاریخ 
دنیا بھر میں خواتین میک اپ میں لپ سٹک کو خاص اہمیت دیتی ہیں تاہم اس کی موجودہ شکل کو پہلی مرتبہ قریباً ایک سو برس پہلے متعارف کروایا گیا تھا۔ تب سے لپ اسٹک نے نہ صرف عورت کی ظاہری شکل کو تبدیل کیا ہے بلکہ اس کے معاشرتی کردار پر بھی اثر انداز ہوئی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ ملک غریب ہو یا امیر، دنیا بھر میں خواتین میک اپ میں لپ اسٹک کو خاص اہمیت دیتی ہے اور یہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والا میک اپ کا آئٹم ہے۔ 
1884ء میں یورپی ملک فرانس کے دارلحکومت پیرس میں پہلی مرتبہ لپ سٹک کو میک اپ کے ایک اہم جزو کے طور پر کمرشل انداز میں متعارف کروایا گیا تھا۔ شروع میں اس کو مشکوک نظروں سے دیکھا گیا اور اس کا استعمال صرف تھیٹر یکل اداکارائیں کرتی تھیں۔ جبکہ 1983ء میں پہلی مرتبہ لپ اسٹک کی موجودہ شکل کو ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم میں ہونے والی ایک عالمی نمائش میں متعارف کروایا گیا ایمسٹر ڈم کی نمائش کے چند ماہ بعد لپ سٹک کی تجارتی بنیاد پر دریافت میں پیرس کے خوشبو ساز ادارے کے دو ماہرین کا سمیٹک شامل تھے۔ ایمسٹر ڈم میں انیسویں صدی کی فرنچ اداکارا بیر نارٹSarah Bernhardtبھی موجو د تھیں۔ اور انہوں نے لپ سٹک والے پین کو محبت کا قلم قرار دیا۔ ابتدا ء میں لپ اسٹک نہ صرف مہنگی بلکہ ایک لگژری آئٹم تھی۔ عوامی سطع پر اس کو پذیرائی گزشتہ صدی میں بیس کی دہائی میں خاموش فلموں کے دور میں ملی۔ عام طور پر ایک لپ اسٹک کا 60فیصد حصہ موم اور تیس فیصد مختلف آئلز پر مشتمل ہوتا ہے اس کے علاوہ اس میں مختلف خوشبوئیں اور رنگ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ 1912ء میں امریکا کی فیشن ایبل خواتین نے لپ اسٹک کو قبول کر لیا تھا ۔ یورپی فیشن ایبل خواتین نے امریکی خواتین کے لپ سٹک استعمال کرنے کے نو سال بعد اسے اپنا نا شروع کیا تھا۔ 1921ء میں ایک ایسا سال تھا جب اس وقت کے تجارتی اور سیاسی منظر پراجارا داری کے حامل ملک Great Britian کے دارلحکومت لندن کی خواتین نے اسے پسند کرنا شروع کیا اور یہی اس کی عام مقبولیت کا باعث بنا۔ انیسویں صدی کی پہلی چوتھائی کے دوران لندن فیشن کا گھر خیال کیا جاتا تھا۔ جب کہ ہزاروں سال پہلے قدیمی مصری تہذیب میں فرعین کی ملکائیں بھی ہونٹوں پر سرخ رنگ کا استعمال کرتی تھیں۔ ان میں قلوہ پطرہ اور نفرا اتیتی بھی شامل ہیں۔ اس وقت سرخ رنگ کو چھوٹی چھوٹی ڈبیوں میں محفوظ رکھا جاتا تھا اور انگلی یا پھر برش کی مدد سے ہونٹوں پر لگایا جاتا تھا۔ اس وقت یہ عقیدہ تھا کہ ہونٹوں پر رنگ لگانے سے شیطانی قوتیں انسان کے جسم میں نہیں گھس سکتین۔ سولہویں صدی میں انگلستان میں سفید پاؤڈر سے چہرے کو سفید اور سرخ رنگ سے ہونٹ رنگنا اشرافیہ طبقے کا معروف فیشن تھا۔ 

Tuesday, 28 January 2014

بنی اسرائیل کی ناشکری اور بغاوت کا بیان


بنی اسرائیل کی ناشکری اور بغاوت کا بیان

فرعون کی قبطی قوم اپنی سرکشی کے باعث ہلاک ہوئی۔ مگر قوم بنی اسرائیل بھی طویل غلامی کی زندگی گزارنے کے باعث اخلاقی طور پر بہت گر چکی تھی۔ اس کے جرائم بھی کم نہ تھے۔ ایک طرف تو موسٰی علیہ السلام کی برکت سے ان پر طرح طرح کے انعام ہوئے جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔
ا۔ فرعون کی ذلت آمیز غلامی سے انہیں نجات ملی۔ ۲۔ سمندر پار کرنے کے لیے ان کے واسطے خشک راستے نمودار ہوئے۔ ۳۔ صحرائے سینا میں دھوپ سے بچاؤ کے لیے انہیں بادلوں کا سایہ ملا۔۴۔ پھر ان کے لیے علیحدہ علیحدہ پانی کے بارہ چشمے جاری کیئے گئے ۔۵۔ کھانے کے لیے آسمان سے ان کے لیے من اورسلویٰ اتارا گیا۔
چاہیے تو یہ تھا کہ ان انعامات کا شکر ادا کرتے اور دل و جان سے موسٰی علیہ السلام کی رہنمائی میں اللہ کی بندگی اور اطاعت میں لگے رہتے مگر انہوں نے قدم قدم پر نافرمانی کی اور بعض اوقات گستاخی کی آخری حد کو پہنچ گئے ۔ مثلا جب موسٰی ٰ علیہ السلام کو ہ طور پر آسمانی کتاب توراۃ لینے کے لیے گئے او ر پیچھے اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو قوم کی نگرانی سپرد کر گئے تو قوم نے بچھڑ ے کی عبادت کرنا شروع کر دی۔ موسٰی علیہ السلام تختیوں پہ لکھی توراۃ لے کر واپس آئے تو غصے میں بھائی کو سرکے بالوں سے پکڑا اور کہا جب قوم گمراہ ہو رہی تھی تو آپ نے ان کو روکا کیوں نہیں ۔ انہوں نے کہا میں نے انہیں بہت سمجھایا کہ تمہارا رب رحمن ہے میری بات مانو اور اسی کی بندگی کرو مگر وہ نہ مانے اور کہنے لگے ہم توموسٰی کے واپس آنے تک اسی بچھڑے کی بندگی میں لگے رہیں گے۔ اور ہارون علیہ السلام کو قتل کرنے کو بھی آمادہ ہو گئے تھے۔ ہارون علیہ السلام نے یہ بھی عذر پیش کیا کہ میں قوم کو تقسیم نہیں کرنا چاہتا تھا۔اس پر موسٰی علیہ السلام نے بھائی کو چھوڑ کر جادو گر سامری کو سختی سے پوچھا تو نے یہ بچھڑا بنا کر قوم کو اس کی بندگی پر کیوں لگایا؟ آخر کیوں ؟ اس نے کہامیں نے جبرائیل علیہ السلام کے گھوڑے کے سموں کے نشان سے مٹی اٹھا کر سونے سے گھڑے بچھڑے کے اندر ڈالی تو اس مٹی کی برکت سے بچھڑا بیل کی آواز نکالنے لگاسو اس تدبیر سے جو مجھے سوجھی تھی قوم کو میں نے اس طرف لگایا۔موسٰی علیہ السلام نے اس بچھڑے کو اللہ کے حکم سے جلا کر اس کی راکھ دریا میں بہا دی ۔ اور کہا تم سب کا ایک اللہ ہی معبود ہے اس کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں۔ 
پھر اللہ کے حکم سے موسٰی علیہ السلام قوم کے ستر سرداروں کو معافی مانگنے کے لیے طور پر لے گئے۔ وہاں انہوں نے پھر گستاخی سے کہا ہم تو اللہ کو سامنے دیکھ کر مانیں گے۔ اللہ نے ان سب کو ایک بجلی کی کڑک سے ہلاک کر دیا۔موسٰی علیہ السلام کی دعا سے ان کوپھر زندہ کیا اور سختی سے توراۃ کتاب کی آیات کے مطابق عمل کرنے کا ان سے عہد لیا۔ 
مگر نافرمانی اور گستاخی سے قوم پھر بھی باز نہ آئی ۔ ایک دفعہ انہوں نے شکایت کی ہم ایک قسم کے کھانے من و سلویٰ سے اکتا گئے ہیں ہمیں زمینی پیدا وار از قسم ترکاری، ککڑی ، گہیوں ، مسور اور پیاز وغیرہ دیں۔ اللہ نے حکم دیا کہ پھر کسی شہر میں جاؤ ۔ وہاں یہ چیزیں ملیں گی۔ اور سجدہ کر تے ہوئے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے شہر میں داخل ہو نا ۔مگر وہ جھکنے کی بجائے اکڑ کر یا پھسل کر اور شکر کا کلمہ ادا کرنے کی بجائے گیہوں کہتے ہوئے شہر میں داخل ہوئے اس پر اللہ نے اس حکم عدولی کی سزا کے طورپر آسمان سے ان پر عذاب نازل کیا جس کی تفسیر یوں بیان کی گئی ہے کہ ان پر طاعون بیماری کاحملہ ہوا اوردنوں میں ان کے ستر ہزار افراد ہلاک ہو گئے۔ 
پھر اللہ پاک نے ان کو ایک برکت والے علاقے پر تسلط کی بشارت دیتے ہوئے حکم دیا کہ فلاں شہر سے جہاد شروع کرو تو انہوں نے موسٰی علیہ السلام سے کہا وہاں تو بڑے جنگجو بہاد ر لوگوں سے واسطہ پڑے گا۔ آپ خود جائیں آپ اور آپ کا رب لڑیں ،ان جنگجوؤں کو شکست دے کر شہر سے نکالیں پھر ہم اس شہر میں داخل ہوں گے۔ اس پر اللہ نے ان پر شہر کی متمدن رہائش حرام کر دی اور چالیس سال تک اسی صحرائے سینا میں بھٹکتے رہے ۔ یہاں تک کہ اس وقت کے تمام بالغ افراد ان چالیس سالوں میں مر گئے۔ موسٰی علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام بھی وفات پا گئے۔ پھر ان کے خلیفہ حضرت یوشع علیہ السلام کی رہنمائی میں بنی اسرائیل کی نئی نسل نے بڑوں کی غلطیوں سے سبق حاصل کر کے خلوصِ نیت کے ساتھ جہاد قتال کے احکام کی تعلیم کی اور اللہ نے پھر ان پر حکومت کا دروازہ کھولا اور پھر وہ شہر بہ شہر فتح کرتے گئے۔ ان کا آخری معرکہ جالوت بادشاہ سے ہوا جو داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں ما را گیا اور اس کی وسیع سلطنت پر بنی اسرائیل کا قبضہ ہو گیا۔ بنی ا سرائیل کی نبوت اور حکومت کا شاندار سنہری دور وہی تھا جب داؤد علیہ السلام اور ان کے صاحبزادے سلیما ن علیہ السلام کی عادلانہ سلطنت نے تمام دنیا سے خراج تحسین وصول کیا۔ 

سرد موسم اور ہماری غذا



سرد موسم اور ہماری غذا

سردیوں میں سوپ کا استعمال بہت اچھا ہے مختلف نوعیت کے سوپ گھر پر بھی بنائے جاسکتے ہیں جیسے سبزیوں کا سوپ، مکئی کا سوپ، نوڈلز کا سوپ جو بچے بہت شوق سے پیتے ہیں۔ سوپ ہمارے جسم کو گرمائش دیتا ہے۔ اس میں موجود چکن اور انڈا پروٹین کی کمی کو دور کرتے ہیں۔ پروٹین بچوں کی نشو و نما میں مدد کرتا ہے۔ اور کھانسی عام سی بات ہے۔ سردیوں میں زیادہ سے زیادہ پھلوں اور سبزیوں کا استعمال کریں جیسے مسمی، کینو، گریپ فروٹ، امرود، سیب وغیرہ ان پھلوں کو ناشتے میں بھی استعمال کھایا جا سکتا ہے اور شام کے وقت بھی۔ سبزیوں کوسلاد کی شکل میں کھائیں یا اس سبزی کا سالن بنا لیں یا سوپ بنا لیں۔ پھلوں اور سبزیوں میں ایسے غذائی اجزاء ہوتے ہیں جو ہماری قوت مدافعت بڑھاتے ہیں۔ یہ ہماری جلد ا چھی کرتے ہیں اور ہمیں ترو تازہ رکھتے ہیں۔ اس میں حرارے کم اور غذائیت زیادہ ہے۔ جو لوگ وزن کم کرنا چاہتے ہیں وہ بھی پھلوں اور سبزیوں کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں ۔ نزلہ کیلئے گرم دودھ میں شہد کے ساتھ اگر بادام ڈال لیں تو اس سے صحت اچھی ہوتی ہے۔ 
سردیوں کے موسم میں اکثر لوگوں کی جلد میں خشکی ہو جاتی ہے جس کے لئے وہ پریشان رہتے ہیں اس کے لیے بہتر ہے کہ وہ سبز قہوہ کا استعمال کریں ۔ اس سے ان کی جلد اچھی اور تروتازہ بھی ہو جائے گی۔ 
سردیوں میں ہم اکثر پانی کو نظر انداز کرتے ہیں حالانکہ ہمارا دماغ 80فیصد پانی ہے ۔ اگر ہمارے جسم میں پانی کی کمی ہو تو سب سے پہلی علامت یہ ہے کہ ہمیں فکر یا پریشانی ہوتی ہے ۔ اس لیے سردیو ں میں پانی کی مقدار کا خاص خیال رکھیں۔ اور روزانہ 8سے 10گلاس پانی ضرور پیءں۔ اس سے ہمارے سر میں درد نہیں ہوتا اور ہم چست رہیں گے اور تروتازہ محسوس کریں گے۔ 
کھانا کھانے سے آدھا گھنٹہ پہلے اگر دو گلاس پانی لیں تو یہ ہمارے معدے کی صحت کے لیے بہت اچھا ہے۔ اس سے ہم کھانا بھی کم کھائیں گے اورہمارا وزن بھی کم ہو گا۔ سردیوں میں غذا کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے کیونکہ قدرتی طور پر ہماری بھوک بڑ ھ جاتی ہے ۔ ہم زیادہ کھانا کھاتے ہیں جو کہ وزن کی زیادتی کا باعث بنتا ہے کھانا آہستہ آہستہ کھانا چاہیے۔ ہمارے معدے کو 20منٹ لگتے ہیں دماغ کو یہ پیغام پہنچانے میں کہ پیٹ بھر گیا ہے لہذا کھانا چبا چبا کر آہستہ سے کھانا چاہیے دوران کھانا پانی نہیں پینا چاہیے۔ کھانے کے آخر میں پانی پینا تو زہر کھانے کے برابر ہو جاتا ہے۔ 
سردیوں کے موسم میں کشمیری چائے کا استعمال بہت پسند کیا جاتا ہے۔ دودھ کم چکنائی والا ہو اور چینی کی بجائے شکر استعمال کرنا چاہیے۔ شکر میں ایسے غذائی اجزا ہوتے ہیں جو ہمارے جسم میں انسولین کی کارکردگی کو بہتر کرتے ہیں اور ہمیں ذیا بیطس سے بچاتے ہیں۔

Monday, 27 January 2014

Arab & Israel War 1967


عرب اور اسرائیل جنگ 1967ء
کرہ ارض پر وقتاً فوقتاً بہت سی قومیں بنیں اور مٹ بھی گئیں ، متعدد حکومتوں نے جنم لیا۔ فتح و نصرت کے ڈنکے بجائے اور تاریخ کے صفحات پر اپنا نام چھوڑ گئیں۔ جس قوم نے اپنے عروج میں جیسا کام کیا ویسا ہی اس کو نتیجہ مل گیا۔ جب ہم دنیا کی بڑی بڑی قوموں پر نظر ڈالتے ہیں تو تاریخ کے صفحات پر اسرائیل کی داستان بھی نظر آتی ہے مگر وہ ایک خونچگاں داستان ہے جس میں ظلم و ستم کے خنجر ، خود غرضی اور مطلب پرستی کی شمشیریں نظر آتی ہیں ۔ یہ وہی قوم ہے جس کی ہدایت کے لیے اللہ تعالی نے بے شمار نبی اور رسول بھیجے لیکن اس کے باوجود ان کی اصلاح نہ ہو سکی۔ اس قوم نے اپنی ابتداء ہی میں باپ کا دل دکھایا ، بھائی کو کنویں میں گرا کر اس کو بازار مصر میں غلاموں کی طرح بکوایا۔ 
آج ایک چھوٹے سے ملک اسرائیل کو اس قدر جرات ہو گئی ہے کہ اس نے تمام عرب ممالک پر جارحانہ حملہ کر دیا ۔ کیا اس میں ایسا کرنے کی جرات تھی یا اس کو بیرونی طاقتوں نے اس کے لیے ابھارا۔ کمزور ہونے کے باعث ہماری نظریں بڑی طاقتوں پر لگی رہتی ہیں اور ہم بآسانی اس خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ مصیبت کے وقت کوئی طاقت ہماری مدد کو پہنچ جائے گی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جنگ چھڑ جاتی ہے ، خوبصورت شہر آگ نظر ہو جاتے ہیں ، آسمان سے آگ اور لوہا برسنے لگتا ہے، مگر دوسری طرف محض اجلاس ہی ہوتے ہیں یہاں تک کہ کوئی فیصلہ بھی نہیں ہو پاتا کہ متحارب ممالک کی لڑائی کا نتیجہ بھی سامنے آ جاتا ہے ۔ یہ صرف اور صرف مسلمان ممالک کی آپس کی نااتفاقی کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ اگر مسلمان ممالک آپس میں اتحاد کر لیں اور کسی فارمولے کے تحت مشترکہ دفاع اور مشترکہ ٹیکنالوجی کے اصول پر اتفاق کر لیں تو پھر دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ 
مغربی قوتیں اگرچہ آزاد جہاز رانی کے نام پر خلیح عقبہ کو کھلا سمندر قرار دینا چاہتی تھیں مگر ان کا مقصد یہ تھا کہ افریقہ اور ایشیائی ممالک کو مال بھیج کر ان ممالک سے خام مال اور تیل حاصل کیاجائے ۔ جس کی اقتصادی اور فوجی ضروریات کی وجہ سے اسرائیل کو سخت ضرورت تھی۔ ان کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ ایلات کی بندرگاہ کو چوڑا کر دیاجائے تاکہ ان کے جنگی جہاز اور آبدوزیں یہاں اڈہ بنا سکیں اور عربوں کے سر پر ایک مستقل خطرہ رہے ۔ ان کا تیسرا بڑا مقصد یہ تھا کہ تیل کی پائپ لائنوں کو خلیج عقبہ سے توسیع دے کر مقبوضہ فلسطین کو بحرہ روم میں بندرگاہوں تک لے جایا جائے تاکہ متحدہ عرب جمہوریہ کو نہر سویز میں سے گزرنے والے تیل بردار جہازوں پر سے محصول جونگی کی جو آمدنی ہوتی تھی اسے ختم کیاجا سکے۔ 
اسرائیل نے اس سے پہلے بھی فرانس اور برطانیہ کی شہ پر نہر سویز پر پوری طاقت سے جارحانہ حملہ کر دیا تھا اور عرب جمہوریہ پر آسمان سے گولے برسنے لگے تھے۔ بات صرف اتنی تھی کہ صدر ناصر نے نہر سویز کو قومیانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ غورطلب بات یہ ہے کہ کیا نہر سویز مصر کے بجائے برطانیہ میں واقع تھی یا اس کی کھدائی کا کام یورپ کے مزدوروں نے انجام دیا تھا ، کیا یہاں اہل یورپ کے بزرگوں کو ہڈیاں دفن تھیں؟ نہیں ہر گز نہیں۔ نہر سویز مصر کا ایک حصہ ہے اور اس کی کھدائی میں مصری مزدوروں نے کام کیا تھا ۔ جن یورپی ممالک نے اس کی تعمیر کے سلسلے میں رقم لگائی تھی سال ہا سال تک اس سے فائدہ اٹھا چکے تھے اور مصری قوم نے اپنا یہ قرض سود در سود ادا کر کے چکایا تھا۔ نہر سویز پر اب صرف اور صرف مصریوں کا حق تھا ، صدر ناصر نے اس نہر کو قومیانے کے لیے جو جرات مندانہ اقدام اٹھایا تھا وہ مصریوں کے بہترین مفاد میں تھا۔ 
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہر سویز کو قومیانے کا اعلان گولہ بن کر گرا اور تمام یورپ میں کھلبلی مچ گئی۔ اب وہی صورت خلیج عقبہ کی تھی ، عقبہ اردن کے علاقے میں واقع ہے ۔ جوں ہی اس کی ناکہ بندی کا اعلان ہوا، برطانیہ ، امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے خلیح عقبہ کی ناکہ بندی توڑنے کی دھمکی دی گئیں ۔ آبنائے طیران مشرق وسطیٰ کے عربوں کے علاقے میں واقع ہے چنانچہ عربوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس کو کھلا رکھیں یا اس کی ناکہ بندی کریں۔ 
اس آبی شاہراہ سے کام لینے کی کئی اور بھی شکلیں ہو سکتی تھیں ۔ معاہدے ہو سکتے تھے ، گفتگو کے ذریعے سے اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ عربوں کو ڈرانے اور دھمکانے کا سلسلہ شروع کر دیاتھا۔ نتیجہ کچھ بھی نہ نکل سکا۔ عربوں نے اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے سر سے کفن باندھ کر نکلنا قبول کر لیا۔ صدر ناصر نے اپنے اس موقف سے ہٹنے سے انکار کر دیا اور واشگاف الفاظ میں کہا کہ عقبہ اور آبنائے طیران کی ناکہ بندی قائم رکھیں گے۔ اردن کو اس میں اپنے بحری جہاز چلانے اور گزارنے کا پورا حق ہے۔ اس حق سے عربوں کو کوئی بھی طاقت محروم نہیں کر سکتی۔ صدر ناصر کی یہ دوسری شاندار فتح تھی۔ عرب اس پر جتنا بھی ناز کریں کم ہو گا۔ 

Sunday, 26 January 2014

موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام


موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام 
یوسف علیہ السلام کے بعد آپ کی اولاد میں آگے چل کر یہیں مصر میں موسٰی علیہ السلام کو اللہ پاک نے فرعون کافر کی طرف مبعوث فرمایا جو حد سے بڑ ھ کر سرکش ہو گیا تھا یہاں تک کہ دعویٰ کرنے لگا کہ سب سے بڑا رب تو میں ہوں، یہ موسیٰ کس کا بھیجا ہوا آیا ہے۔ 
یوسف علیہ السلام جو پیغمبر زادہ تھے خود پیغمبر تھے آپ کے دادا اور پڑدادا بھی پیغمبر تھے اور ان کے گیارہ بھائی پیغمبر زادہ تھے ،ظاہر ہے ایسے صالح ماحول کا نہ صرف ان کی اپنی اولاد پر اچھا اثر قائم رہا بلکہ مصر کے مقامی لوگ بھی دینِ توحید اور پیغمبر انہ خلق سے متاثر ہوئے اور عرصہ دراز تک وہاں کے لوگ روحانی اور مادی فیض کے مزے لوٹتے رہے ۔ مگر خوشحالی کے سبب ان میں بعدہٗ اخلاقی برائیاں پیدا ہوئیں اور وہ بنی اسرائیل جو پیغمبروں کی ا ولاد تھے اللہ کی یاد سے غافل ہو گئے اور سفلی خواہشات کی پیروی کرنے لگے۔ ایسے میں اللہ نے اپنی سنتّ کے مطابق اپنے انعامات سلب کر کے ان کو مصائب میں مبتلا کر دیا۔ حکومت بھی چھن گئی اور ظالم قبطیوں کی ذلّت آمیز غلامی میں ساری قوم جکڑی گئی۔ جس وقت موسٰی علیہ السلام کو ا للہ پاک نے قبطی قوم کے کافر بادشاہ فرعون کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا اس وقت فرعون کا ظلم انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ بنی اسرائیل کے بیٹوں کو تو ذبح کر دیا جاتا تھا۔ مگر ان کی بیٹیوں کو ہر طرح کی خدمت کے لیے زندہ رکھا جاتا اور اس میں ان کی بڑی ذلت بھی تھی اور سخت آزمائش بھی تھی۔
موسٰی ٰ علیہ السلام کی پیدائش کے وقت بھی یہی ظلم روا تھا اور اللہ پاک نے خفیہ طریقے سے موسٰی علیہ السلام کی ماں کو بتایا کہ جب فرعون کے سپاہیوں کے آنے کا خطرہ محسوس ہو تو اپنے بچے کو ایک صندوق میں ڈال کر دریا میں بہا دینا۔ انہوں نے ایسے ہی کیا ۔ صندوق بہتا بہتا اس نہر کی طرف مڑ گیا جو فرعون کے محل میں جاتی تھی۔ اتفاق سے فرعون اور اس کی دیندار بیوی آسیہ اس وقت نہر کے کنارے بغرض تفریح بیٹھے تھے جب کھلا صندوق بہتا ہوا ان کے سامنے آیاتوبیوی نے صندوق میں بچے کو دیکھا تو اسے اٹھا لیا ۔ فرعون اپنے حکم کے مطابق اس کو قتل کرانے لگا مگر بیوی نے کہا یہ تو آنکھوں کی ٹھنڈک ہے میرے لیے بھی اور تیرے لیے بھی۔ اس کو مت مارو، کچھ بعید نہیں جویہ ہمارے کام آئے یا اس کو ہم جو بے اولاد ہیں اپنا بیٹا بنا لیں۔ اس نومولود بچے پر اللہ نے ماں کے علاوہ کسی اور عورت کا دودھ حرام کر دیا۔ پس باطنی طریقے سے اللہ نے اس بچے کے دودھ پلانے کے لیے اس کی حقیقی والدہ ہی کا بندوبست کر دیا وہ اس طرح کہ جب اس بچے نے کسی اور عورت کا دودھ نہ لیا اور بھوک سے بلبلانے لگا تو اس کی بہن کی تجویز پرظاہر کیئے بغیر اس کی ماں ہی کو بلایا گیا اور اس کا دودھ بچے نے شوق سے قبول کیا اور اس کو شاہی خدمت میں بھی رکھ لیاگیا ۔ 
پھر جب موسیٰ علیہ السلام جوان ہوئے تو اللہ نے ان کو حکمت اور سمجھ عطا فرمائی۔ پھر ایک روز وہ محل سے نکل کر شہر کے اندر گئے ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بنی اسرائیلی اور ایک قبطی آپس میں لڑ رہے ہیں اسرائیلی نے موسیٰ علیہ السلام سے مدد مانگی ۔ انہوں نے قبطی کو ایک مکا مارا اور قضاء الہی سے وہ مر گیا۔ موسیٰ علیہ السلام ڈر گئے اور انہوں نے اپنے ہاتھوں اس غیر ارادی قتل پر نادم ہو کر اللہ سے معافی مانگی ۔ اللہ نے انہیں معاف فرما دیا۔
پھر وہ شہر میں اگلی رات بھی رہ گئے ۔ مگر ڈر بھی رہے تھے کہ کل کے قتل کا جرم ثابت ہو گیاتو ان کے ساتھ کیا سلوک ہو گا ۔ پھر دوسرے روز بھی اس کل والے اسرائیلی نے ایک دوسرے شخص کے ساتھ لڑائی میں موسیٰ سے مدد مانگی۔ انہوں نے اسے ڈانٹا کہ تو ہر روز ظالموں سے الجھتا ہے اور مجھ کو لڑواتا ہے۔ زبان سے تو وہ اسرائیلی کو ڈانٹ رہے تھے مگر ہاتھ ڈالنا چاہا ظالم دشمن پر ۔ وہ بول اٹھا کیاجس طرح تو نے کل ایک آدمی کو قتل کیا تھا آج مجھے بھی قتل کرو گے۔ بھلے آدمی ، تو صلح کرانے والا کیوں نہیں بنتا۔ اتنے میں اللہ کے حکم سے ایک باخبر آدمی دوڑتا ہوا آیا اور اس نے موسیٰ کو بتایا کہ دربار میں تیرے قتل کے مشورے ہو رہے ہیں تو اس شہر سے نکل جا۔
چنانچہ موسی ٰ علیہ السلام وہاں سے نکل پڑے۔ راستے سے واقف نہ تھے اس لیے اللہ سے رہنمائی چاہی ۔اللہ نے ان کو مدین کی سیدھی راہ پر ڈال دیا۔ پھر جب موسٰی علیہ السلام مدین پہنچے ( جو مصر سے آٹھ دس دن کی راہ تھا) بھوکے پیاسے تھے ۔ دیکھا ایک کنویں پر لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے اور دو لڑکیوں کو دیکھا کہ حیا کی وجہ سے کنارے کھڑی اپنی بکریوں کو روکے ہوئے تھیں۔ موسٰی علیہ السلام نے ان سے پوچھا آپ کیوں پیچھے کھڑی ہیں ۔ انہوں نے کہا ہم بکریوں کو اس وقت پانی پلائیں گی جب دوسرے چرواہے اپنے جانوروں کو پانی پلا کر پھیر لے جائیں گے۔ ہمارا باپ بوڑھا ہے، یہ کا م ہمیں کرنا پڑتا ہے۔ موسٰی علیہ السلام نے آگے بڑھ کر ان کی بکریوں کو پانی پلا کر لڑکیوں کو جلد ی سے فارغ کر دیا اور خود ہٹ کر ایک درخت کی چھاؤں میں جا کھڑے ہوئے ۔اور اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ جو اچھی خیر آپ میرے لیے بھیجیں، میں اس کا محتاج ہوں۔ پھر اس کے پاس انہی لڑکیوں میں سے ایک شرم کے ساتھ چلتی ہوئی آئی اور کہا کہ میرا باپ آپ کو بلاتا ہے تاکہ جو آپ نے ہمارے جانوروں کو پانی پلا کر خدمت کی ہے اس کا اجر آپ کو دے۔
پس جب موسٰی علیہ السلام لڑکیوں کے باپ کے پاس پہنچے اور اپنے ادھر آ نکلنے کا ان کو حال سنایا تو انہوں نے جو مدین کے علاقے میں اللہ کی طرف سے پیغمبری کے فرائض ادا فرما رہے تھے فرمایا کہ اے جوان !تم اب ڈرو مت، اس بے انصاف قوم سے تم بچ آئے ہو۔ ساتھ ہی لڑکیوں میں سے ایک نے کہا بابا! اس کو نوکر رکھ لو۔ بہتر نوکرہے جس کو آپ رکھنا چاہیں گے وہ یہی ہے جو زور آور بھی ہے، اور اور دیانتدار بھی ۔یہ سن کر شعیب علیہ السلام نے نوجوان موسٰی علیہ السلام سے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کو تجھ سے بیا ہ دوں اس شرط پر کہ تو میری آٹھ برس نوکری کرے اور اگر تو دس برس پورے کردے تو وہ تیری طرف سے ہے اور یہ بھی کہا کہ میں تجھ پر تکلیف یا سختی نہیں ڈالوں گا اور اللہ نے چاہا تو تم مجھ کو نیک بختوں میں سے پاؤ گے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا ٹھیک ہے مجھے منظور ہے۔ یہ وعدہ میرے اور آپ کے درمیان ہو چکا۔ جو بھی مدت میں پوری کروں سو مجھ پر زیادتی نہ کی جا ئے اور اللہ ہمارے اس اقرار نامے پر وکیل یعنی بھروسے والی ہستی ہے۔ 
پھر جب موسٰی علیہ السلام نے وہ مدت پوری کرلی اور اپنی بیوی کو لے کر وہاں سے روانہ ہو اتو اس نے راستے میں طور پہاڑ کی طرف ایک آگ دیکھی اور بیوی سے کہا کہ میں وہاں سے راستے کی کچھ خبر لاتا ہوں یا تاپنے کے لیے ایک انگار لاتا ہوں۔ تم یہاں ٹھہرو۔ جب موسٰی علیہ السلام وہاں پہنچے تو ان کے پاس برکت والے تختہ میں ایک درخت سے آواز آئی کہ اے موسٰی یہ طویٰ کا پاک میدان ہے۔ تو اپنی جوتیاں اتار ڈال، میں تیرا رب ہوں اور میں نے تمہیں پسند کر لیا ہے، پس تو جو حکم ہو سنتا رہ۔ پہلا حکم یہ ہے کہ میں اللہ ہوں، میرے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں۔ پس تو میری بندگی کر اور میری یادگار کو نماز قائم کر اور جان لے کہ قیامت بیشک آنے والی ہے مگر میں اس کے آنے کا وقت سب سے چھپانا چاہتا ہوں اور قیامت کا آنا اس لیے ضروری ہے کہ ہرشخص کو اس کے اچھے برے عمل کا بدلہ ملے ۔ پھر پوچھا اے موسٰی! تیرے سیدھے ہاتھ میں کیا ہے۔ اللہ کو معلو م تھا اس کے ہاتھ میں کیا ہے مگر پوچھا اس لیے کہ اس کو اچھی طرح یاد رہے کہ وہ لاٹھی ہی ہے جو معجزہ کے طور پر تھوڑی دیر بعد اژدھا بننے والی تھی۔ سو، جب موسٰی علیہ السلام نے کہا کہ میرے ہاتھ میں میری لاٹھی ہے جس پر میں ٹیک لگاتا ہوں اور اس سے میں پتے جھاڑتا ہوں اپنی بکریوں کے لیے اور اس سے کچھ اور کام بھی میں لیتا ہوں۔ پھر اللہ نے حکم دیا کہ اس کو زمین پر ڈال دو۔ جب اس کو ڈال دیا تو اسی وقت لاٹھی کی جگہ ایک اژدھا نظر آیا جو پتلے سانپ کی طرح تیزی سے دوڑ رہا تھا۔ موسٰی یہ تبدیلی دیکھ کر ڈر گیا ۔ اللہ نے کہا ڈرو مت اسے پکڑو ہم اس کو ابھی پہلی حالت میں پھیر دیں گے، یعنی لاٹھی پھر لاٹھی بن جائے گی۔ اور دوسرا یہ حکم دیا کہ اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر اور بغل سے ملا کر باہر نکالو۔ پھر دیکھنا ہاتھ نہایت سفید چمکتا ہوا نکلے گا اور یہ سفیدی برص کی بیماری والی نہ ہو گی۔ان دو معجزوں کے ساتھ اللہ نے موسٰی کو پیغمبری کی سند عطا کر کے فرعون بادشاہ کی طرف جس نے بہت سر اٹھالیا تھا ہدایت کے لیے بھیجا۔ وہ اپنے آپ کو ربِّ اعلی کہتا تھا۔ بچو! آپ کو پتہ ہے کہ ہم سجدے کی حالت میں سبحان ربی الا علی کہتے ہیں۔اوررب اعلی اللہ ہی ہے کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ موسٰی علیہ السلام نے دعا کی اے میرے رب ایک تو میرا سینہ کشادہ کر اور دوسرا میرا کام آسان کر تیسراکام یہ کہ میری لکنت دور کر کے میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات جلدی سمجھ لیں اور چوتھی درخواست یہ کی کہ میرے بھائی ہارون کو میرا مدد گار بناتا کہ ہم دونوں مل کر پیغمبری کا فریضہ ادا کریں اور تیری پاک ذات کا کثرت سے بیان کریں اور آپ کو کثرت سے یاد کریں اور تو ہمارے حال سے خوب واقف ہے اور جو دعائیں میں مانگ رہا ہوں وہ قبول ہوں گی تو اس فریضہ کی انجام دہی میں جو آپ نے ہمیں سونپا ہے کس قدر مفید اور مدد گار ہوں گی۔ اللہ نے جواب دیا کہ جو کچھ تم نے مانگاہے سب منظور ۔ پس اب تم دونوں سرکش فرعون کی طرف جاؤ۔ اس سے بات نرمی سے کرو شاید وہ سوچے اور ڈرے اور فرمانبرداری کی طرف جھک پڑے۔ مگر وہ دونوں بولے کہ ہم ڈرتے ہیں کہیں ہماری پوری بات سنے بغیر وہ ہم پربھبک پڑے یا جوش میں آ کر بپھر جائے اور اللہ کی شان میں زیادہ گستاخی کرنے لگے یا ہم پر دست درازی کرے جس سے اصل مقصدہی فوت ہو جائے گا۔ اس پر اللہ نے ان کو حوصلہ دیا اور کہا ڈرو مت میں تم دونوں کے ساتھ ہوں گا۔ سنتا ہوں گا دیکھتا ہوں گا۔ تم اس کے پاس جاؤ اور کہو ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے آئے ہیں۔ تم بنی اسرائیل کو ( جن کو تم نے ذلّت آمیز غلامی میں جکڑ رکھا ہے۔) آزاد کر کے ہمار ے ساتھ بھیج دو اور ان پر ظلم و ستم نہ کرو۔ 
فرعون ان سے بحث مباحثہ کرنے لگا۔ پھر موسی ٰ علیہ السلام نے ان کے سامنے لاٹھی کے اژدھا بننے کا ایک معجزہ دکھایا اور بغل سے ملا کر ہاتھ نکال کر دکھلایا جو سفید ہو کر نکلا ۔یہ دوسرا معجزہ تھا مگر اس نے پیغمبری کی ان نشانی والے معجزوں کو نہ مانا بلکہ ان کو محض جادو گری کا کرشمہ بتایا اور اپنے جادو گروں سے مقابلے کا چیلنج دیا۔ موسی ٰ علیہ السلام تو اللہ کے سچے پیغمبر تھے کوئی دنیاوی لالچ نہ رکھتے تھے ۔ فرعون کے ماہر جادو گر دنیا کے لالچ میں فرعون کی عزت کی قسم کھا کر مقابلے کے لیے میدان میں اترے ۔ انہوں نے اپنی لاٹھیاں اور رسیاں زمین پر پھینکی ۔وہ جادو کے اثر سے لوگوں کو دوڑتے ہوئے سانپسنپولیوں کی شکل میں نظر آئے۔ پہلے تو موسیٰ علیہ السلام ڈرے مگر اللہ نے تسلی دی کہ ڈرو مت۔ تو بھی اپنی لاٹھی پھینک پھر دیکھ کیا ہوتا ہے۔ انہوں نے لاٹھی پھینکی۔ وہ سچ مچ کا اژدھا بن گیا او ر اس نے ان دوڑتے ہوئے سانپوں کو فورا نگل لیا اور جادو گروں کی لاٹھیوں اور رسیوں کا وجود باقی نہ رہا ۔جادو گر جو اپنے فن کی حقیقت سے واقف تھے وہ سمجھ گئے کہ موسیٰ علیہ السلام کا اژدھا سچ مچ کا اژدھا تھا جو ہماری لاٹھیوں اور رسیوں کو نگل گیا ہے محض نظر کا دھوکہ نہیں اور اسے اللہ کا معجزہ تسلیم کر کے سب سجدہ میں گر گئے۔ اور اقرار کیا کہ ہم موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لاتے ہیں۔ فرعون نے دھمکی دی کہ میں تم سب کو ایک طرف سے ٹانگ کاٹ کر دوسری طرف سے ہاتھ کاٹ کر کھجور کے تنوں پر سولی دے دوں گا۔ انہوں نے جواب دیا تو کر گزر جو تجھ کو کرنا ہے۔ تیرے بس میں یہی زندگی ختم کرنے کا عذاب ہے۔سو ہم اس کی پروا نہیں کرتے ۔ہم تو اپنے رب پر ایمان لے آئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے گناہ بخش دے خاص طور پر وہ گناہ جو تم نے ہم سے موسٰی علیہ السلام سے مقابلہ کرا کے سرزد کرایا ہے۔ ہم تو اس پائیدار اجر کو جو اللہ مومنوں کو دیتا ہے بہتر سمجھتے ہیں اس انعام و اکرام سے جو تم ہم کو غالب ہونے کی صورت میں دیتا ۔ بیشک بات یہ ہے کہ جو گناہ لے کر رب کے پاس جائے گا اس کے لیے دوزخ ہے۔ نہ مرے اس میں نہ جیئے اور جو ایمان اور نیکیاں لے کر حاضر ہو گا اس کے لیے بلند درجے ہیں یعنی اسے خوش منظر جنت میں ٹھکانہ ملے گا،جہاں نہریں ہوں گی، جنت کی تمام نعمتوں کے ساتھ ۔
اس کے بعد اللہ نے موسٰی علیہ السلام کو حکم دیا کہ تو ایک رات اپنی قوم کو چپکے سے سمند ر (بحر قلزم) کی طرف لے چل۔ جب و ہ سب لوگ کنارے پر پہنچے تو پیچھے سے فرعون بھی اپنا لشکر لیئے آتا دکھائی دیا۔ اصحاب موسٰی علیہ السلام نے شکایت کی ہم تو پکڑے گئے آگے سمندر ہے پیچھے ظالم فرعون کا لشکر ہے ۔ 
موسٰی علیہ السلام نے کہا کہ ہرگز نہیں،میرے ساتھ میرا رب ہے وہ مجھ کو بچنے کی را ہ بتلائے گا۔ پس اللہ نے موسٰی علیہ السلام کو حکم بھیجا کہ تو اپنی لاٹھی سے سمندر کو مار۔ پھر کیا ہوا، پانی پھٹ گیا۔بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کے لیے جو ایک نظم میں موسٰی علیہ السلام کی قیادت میں چلے آ رہے تھے ان کے آگے بارہ جگہ سے سمندر پھٹ کر خشک راستے چھوڑ گیا اور بیچ میں پانی کے پہاڑ کھڑے رہے۔ پھر جب موسٰی علیہ السلام کی قوم دوسرے کنارے کے قریب پہنچنے والی تھی تو فرعون کا لشکر بھی پہنچ گیا۔ انہوں نے خشک راستے دیکھے تو وہ بھی سمندر میں اتر گئے۔ جب ان کا سارا لشکر سمندر کے اندر چلا گیا اور موسٰی علیہ السلام کی پوری قوم سمندر پار کر کے آگے خشک زمین پر اتر گئی تو اللہ نے پانیوں کو مل جانے کا حکم دیا اور فرعون کا سارالشکر ڈوب گیا۔ فرعون جب ڈوبنے لگا تو پکاراٹھا کہ میں نے یقین کر لیا ہے کہ کوئی معبود نہیں سوائے اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں بھی فرمانبردار وں میں ہوں۔ اللہ نے کہا کہ اب اقرار کرتا ہے جبکہ تو اس سے پہلے نافرمانی کرتا رہا اور فساد ہی بر پا کر تا رہا۔ پس آج ہم تمہارے بدن کو بچائے دیتے ہیں تاکہ تو اپنے پچھلوں کے واسطے عبرت کی نشانی بنا رہے ۔ بیشک بہت لوگ ہماری قدرتوں پر توجہ نہیں کر تے۔ اس ہلاکت سے پہلے اللہ نے جو فرعون کی قوم کو لاٹھی کے اژدھا بننے اور ہاتھ کی سفیدی والے معجزوں کے علاوہ بھی چند چھوٹے عذابوں سے ڈرایا تاکہ وہ موسٰی علیہ السلام کی بتائی توحید کی سیدھی راہ پر آ جائیں مگر اس ضدی قوم نے سرکشی کی وجہ سے حق کی مخالفت نہ چھوڑی ۔ ان عذابوں کی تفصیل قرآن میں اس طرح آئی ہے۔ا۔ بارش اور سیلاب کا طوفان ۔ ۲۔ طاعون کی وباء سے اموات، ۳۔ چیچڑیوں کا عذاب جودودھ دینے والی گایوں بکریوں کے تھنوں سے چمٹ کر دودھ کو روک دیتی تھیں۔۴۔ خون کا عذاب، اس طرح کہ پانی پینے لگتے تو وہ خون بن جاتا ۔۵۔ جوؤں کا عذاب جو انسان کے جسم اور کپڑوں میں پڑ کر تکلیف پہنچاتی تھیں ۔ ۶۔ مینڈکوں کا عذاب جو کھانے کی رکابیوں میں پھدک پھدک کر آ پڑتے تھے ۔ ۷۔ گھن یا کیڑا جو اناج میں پڑتا اور اسے بالکل خراب کر دیتا تھا۔ یوں پہلی دو بڑی نشانیوں کو ملا کر نو قسم کی نشانیاں لے کر موسٰی علیہ السلام فرعون کی قوم کے پاس گئے۔ قوم نے زچ ہو کر موسٰی علیہ السلام سے کہا کہ اپنے رب سے درخواست کرکہ یہ سب عذاب ہم سے ٹال دے ہم ضرور ہدایت کی راہ اختیار کر لیں گے۔ مگر جب اللہ نے عذاب ٹال دیئے تو وہ شرک کی راہ پر ہی رہے۔ فرعون نے اپنی کامیاب تدبیروں کا ڈھنڈورا پیٹا۔موسٰی علیہ السلام کا تمسخر اڑایا۔ قوم جو فاسق تھی اس نے فرعون کی ہی اطاعت کی ،موسی ٰ علیہ السلام کی ہدایت کو ٹھکرا دیا۔ فرعون کی کامیاب تدبیروں کا ڈھنڈورا پیٹنے کی تفصیل یہ ہے ۔اس نے دریائے نیل سے نکالی نہروں کے ذریعے جو زرعی پیداوار کی فراوانی حاصل کی تھی اس کا اور اپنے یہاں کی عمدہ معیشت کا فخریہ اعلان کر کے وہ احسان جتلاتا تھا۔ موسٰی علیہ السلام کا تمسخریوں اڑاتا تھا کہ لکنت کی وجہ سے یہ موسٰی تو صاف بات بھی نہیں کر سکتا تھا جبکہ وہ خود اچھا مقرر تھا ۔اور وہ یہ بھی بتاتا تھا کہ میں جس کو کسی ملک میں سفیر بنا کر بھیجتا ہوں تو اس کو سونے کے کنگن پہناتا ہوں، اس کے ساتھ خوب آراستہ فوجی دستہ بھیجتا ہون۔ یہ موسیٰ علیہ السلام اگر اللہ کا سفیر یا پیغامبر بن کر ہمار ے یہاں آیا ہے تو اس کے ساتھ اللہ نے فرشتوں کا دستہ کیوں نہیں بھیجا ۔اس کو سونے کے کنگن کیوں نہیں پہنائے ۔اس کے اس طرح کے پراپیگنڈے سے اس کی قوم متاثر ہو کر اسی کی ا طاعت میں لگی رہی اور موسیٰ علیہ السلام کی ہمیشہ کی بھلائی اور برکتوں والی دعوت کو ماننے کی طرف مائل نہ ہوئی جس نے ا للہ کو غصہ دلایا اور انتقام لے کر اللہ نے اس ساری قوم کو سمندر میں ڈبو کر ہلا ک کر دیا اور بعد میں آنے والوں کے لیے فرعون کواور اس کی قوم کو عبرت کا نشان بنادیا۔ ان بیوقوفوں نے اللہ کے پیغمبر کو دنیا کے حقیر اور فانی عیش کے پیمانے سے جانچا جبکہ ان کی یہ ساری شان و شوکت ان ایمان والوں کی آنکھوں کے سامنے پل بھر میں فنا کر دی گئی۔نتیجہ کے طورپر اللہ نے اس ساری قوم کو فاسقوں یعنی نافرمانوں کی قوم قرار دیا۔

Saturday, 25 January 2014

History of Basant (Kiting)


پتنگ بازی کی تاریخ 
تاریخ عالم میں پتنگ اڑانے کا اولین تحریری حوالہ 200قبل مسیح میں ملتا ہے جب چین میں سپہ سالار ہان سینگ نے دشمن کے ایک شہر کے باہر پڑاؤ ڈال رکھا تھا لیکن وہ براہ راست حملے کا خطرہ مول لینے کی بجائے ایک سرنگ کھود کر شہر میں داخل ہونا چاہتا تھا ۔ لیکن سوال یہ تھا کہ کتنی لمبی سرنگ کھودنی پڑے گی؟ اپنے پڑاؤ کے مقام سے شہر کی فصیل تک کا فاصلہ ناپنے کے لیے چینی سپہ سالار نے ایک پتنگ اڑائی اور ڈور کو ناپ کر فاصلہ معلوم کر لیا۔ چین سے پتنگ سازی کا یہ فن کوریا پہنچا ۔ وہاں بھی ایک جرنیل کی کہانی ملتی ہے جس کی فوج نے آسمان پر ایک تارا ٹوٹتے دیکھا اور اسے براشگون سمجھ کر میدان جنگ سے منہ موڑ لیا۔ 
چینی فوچ کے بعد یہ کارگر نسخہ بودھ راہبوں کے ہاتھ لگا جو بدروحوں کو بھگانے کے لیے عرصہ دراز تک پتنگوں کا استعمال کرتے رہے ۔ جرنیل نے اپنی فوج کا وہم دور کرنے کے لیے سپاہیوں کو بہت سمجھایا لیکن وہ نہ مانے۔ آخر جرنیل نے ایک ترکیب سوچی ۔ اس نے ایک بڑی سی سیاہ پتنگ تیار کی اور اس کی دم سے ایک شعلہ باندھ کر رات کے اندھیرے میں اوپر آسمان کی طرف اسے اڑا دیا تو فوج کو یقین آگیا کہ آسمان سے جو تارا ٹوٹا تھا وہ واپس آسمان کی طرف لوٹ گیا ہے اور اس طرح محض ایک پتنگ کے زور پر جرنیل نے اپنی فوج کا حوصلہ اتنا بلند کر دیا کہ وہ لرائی جیت گئی۔ پتنگ بازی کا یہ فن جب چین اور کوریا سے ہوتا ہوا ، جاپان پہنچا تو عوام میں اتنا مقبول ہو ا کہ دن رات اسی میں مشغول نظر آنے لگے ۔ چنانچے اس زمانے میں جاپان میں ایک سخت قانون نافذ ہو گیا جس کے تحت صرف شاہی خاندان کے افراد ، اعلیٰ سول اور فوجی افسران اور چند مراعات یافتہ معزز شہریوں کو پتنگ اڑانے کی اجازت دی گئی۔ اس کے بعد مشرق بعید سے پتنگ بازی کا مشغلہ کب اور کس طرح ہندوستان پہنچا ، اس بارے میں تاریخ کوئی واضح اشارہ نہیں دیتی البتہ اس ملک میں پتنگ باوی کی اولین دستاویزی شہادتیں مغل بادشاہوں کے دور کی مصوری میں دکھائی دیتی ہیں۔ سولھویں صدی کی ان تصویروں میں اکثر یہ منظر دیکھا جا سکتا ہے کہ عاشق زار اپنے دل کا احوال کاغذ پر لکھ کر پتنگ سے باندھتا ہے ، پھر یہ پتنگ ہوا کے دوش پر سوار ہو کر کوچہ، محبوب کی فضاؤں میں پہنچتی ہے اور معشوقہ ء دلنواز کی چھت پر منڈلانے لگتی ہے ۔ اہل یورپ نے پتنگوں کا احوال پہلی مرتبہ تیرھویں صدری میں مارکو پولو کے سفر کے ناموں میں پڑھا ۔ اس کے بعد سترھویں صدی میں جاپان سے لوٹنے والے یورپی سیاحوں نے بھی پتنگ بازی کے رنگین قصے بیان کئے۔ ایشیا کے برعکس یورپ اور امریکہ میں بیسویں صدی کے آغاز تک پتنگوں کا استعمال تفریح کی بجائے موسمیاتی تحقیق اور جنگی جاسوسی کے لیے ہوتا رہا ، البتہ پچھلے بیس سے پچیس برس کے دوران مغربی ملکوں میں اسے تفریح کے طور پر بھی اپنایا گیا ہے اور امریکہ میں تو اب پتنگ بازوں کی ایک قومی انجمن بھی بن چکی ہے۔ 
پاکستان میں پتنگ بازی کی تفریح ایک صنعت کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ پاکستان میں صرف صوبہ پنجاب میں لاکھوں افراد کا روزگار گڈی کاغذ ، بانس ، دھاگے اور مانجھے سے وابستہ ہے اور لاہور شہر اس وقت دنیا بھر میں بسنت کی تقریبات کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ لاہور کی نائٹ بسنت ، ایک عجوبہ روزگار چیز بن چکی ہے جب سرچ لائٹوں کی روشنی میں شہر کا آسمان میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی ۔ 
پاکستان میں موسم بہار کی آمد پر بسنت کا تہوار بڑے جوش و خروش سے منایاجاتا ہے۔ پاکستان کے کونے اور بیرون ملک سے شائقین بسنت کا تہوار منانے لاہور کا رخ کرتے ہیں ۔ بچے ، بوڑھے، جوان ، خواتین بلکہ معاشرے کے ہرطبقے کے لوگ بڑی گرم جوشی سے اس میں حصہ لیتے ہیں۔ میدانوں اور گھروں کی چھتوں پر بیٹھ کر پتنگ بازی کی جاتی ہے دعوتیں ہوتی ہیں ۔ پارکوں میں لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ ہوٹلز بک کروائے جاتے ہیں ۔ عیاشیاں ہوتی ہیں۔ اربوں روپے بیدردی سے اڑائے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت سارے حادثات بھی ہوتے ہیں ۔ کئی بچے اور جوان پتنگ بازی کرتے ہوئے گھروں کی چھتوں سے گر کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ، پتنگ اڑانے کے لیے جو دھاتی تار استعمال کی جاتی ہے اکثر بجلی کے تاروں سے ٹکراتی ہے جس میں کرنٹ آنے سے بہت سارے پتنگ باز اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ بعض اوقا ت کوئی راہ گیر اس دھاتی تار کی زد میں آجاتا ہے جس سے اس تیز دھاری تار سے اس کا گلا کٹ جاتا ہے ۔ یا زخمی ہو کر ہسپتال پہنچا جاتا ہے۔ ایسے بہت سارے ہنستے مسکراتے چہرے اچانک موت کی نذر ہو جاتے ہیں یا کسی دوسرے حادثے کا شکار ہو کر نقصان اٹھاتے ہیں۔ 
ہمیں یاد ہونا چاہیے کہ پاکستان ایک مسلم ملک ہے۔ یہ ملک دو قومی نظریے کے تحت معرض وجود میں آیا تھا۔ اس ملک کے تقریبا 40فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں کروڑوں افراد کیلئے پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ بے شمار لوگ علاج معالجے کی سہولت سے محروم ہیں ہمارے اس ملک کی سڑکوں ، بازاروں اور چوراہوں پر تقریبا 25لاکھ افراد بھیک مانگ رہے ہیں۔ بہت سارے نوجوان ڈگریاں لیکر بھی روزگار سے محروم ہیں۔ معاشرے کے ایک بہت بڑے حصے کے ساتھ تعلیم کے حصول کے لیے وسائل نہیں ۔ ایسے حالات میں راتوں رات بسنت نامی تہوار پر تقریبا اربوں روپے اڑانا بیوقوفی ہے۔ یہ فضول خرچی ہے۔ کیوں نہ یہ روپے کسی پراجیکٹ پر خرچ کئے جائیں تو اس ملک کے غریب عوام کا کس قدر فائدہ ہوتا ہے۔ ان سے بہت ننگے لوگوں کو تن ڈھانپنے کیلئے کپڑا فراہم کیا جا سکتا ہے غریب طالب علموں کی مدد کی جاسکتی ہے۔ بے آسرا لوگوں کے علاج معالجے میں مدد کی جا سکتی ہے۔ بہت سارے غریب گھرانوں کی زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔ بہت سارے غریب گھرانوں کی بچیوں کی شادیاں کی جاسکتی ہیں۔ بسنت کے علاوہ اور بھی بہت ساری خود ساختہ تہوار اور ہندوانہ رسوم و رواج ہیں جن پر ہماری قوم ہر سال اربوں روپے فضول میں اڑا دیتی ہے۔ ان فضول رسوم میں پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے لیکن کسی کو احساس نہیں ہوتا۔ حالانکہ ان مذموم رسوم کا اسلام میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ یہ رسوم غیر اسلامی اور ہندوانہ ہیں۔ 
لہذا پاکستانی عوام میں شعور اجاگر کیا جائے کہ بسنت کے تہوار پر خرچ ہونے والی رقم کو معاشرے اور ملک کی فلاح کیلئے خرچ کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ آج کل بسنت موسمی ، تہوار کی بجائے فضول خرچی اور اسراف کا سامان زیادہ فراہم کر رہا ہے۔ 

Friday, 24 January 2014

شعیب علیہ السلام


شعیب علیہ السلام 

حضرت شعیب علیہ السلام کو اللہ نے مدین والوں کی طرف مبعوث فرمایا۔ ان کو ایکہ والے، جنگل والے بھی کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ ایک درخت ایکہ کی پوجا کرتے تھے۔ علاوہ شرک کے ان میں کم تولنے ناپنے کا بھی مرض تھا۔ چنانچہ حضرت شعیب علیہ السلام نے علاوہ توحید وغیرہ کی عام دعوت کے خاص معاشری معاملات کی اصلاح اور بندوں کے حقوق کی حفاظت کی طرف بڑے زور سے توجہ دلائی۔ لوگوں کو ناپ تول میں کمی کر کے نقصان پہنچانے سے سختی سے منع فرمایا۔ راستوں میں گھات لگا کر بیٹھنے اور مسافروں کا مال لوٹنے سے بھی منع فرمایا اور اس کفر و شرک اور ناحق لوٹ مار اور کم تول کر نقصان پہنچانے کو فسا د قرار دیا اور ان ساری باتوں سے نہایت حکمت سے منع فرماتے رہے۔مگرقوم کے متکبر سردار باز نہ آئے اور انہوں نے یہ طعنہ بھی دیا کہ کیا تمہاری نماز ہمیں اپنے مالوں میں اپنے کاروبار میں اپنی مرضی کرنے سے روکتی ہے اور ان کی بندگی کرنے سے بھی روکتی ہے جن کی بندگی ہمارے باپ دادا کرتے تھے۔اور پھر دھمکی دی کہ اگر آپ آئے دن کی نصیحتوں اور منع کرنے سے باز نہ آئے تو ہم آپ کو اور آ پ کے ایمان لانے والے ساتھیوں کو اپنی بستی سے ضرور نکال باہر کریں گے۔ اس پر شعیب علیہ السلام نے دعا کی ۔ اے ہمارے رب! آپ ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیں۔آپ ہی سب سے بہتر انصاف کرنے والے ہیں۔ پس اللہ کے حکم سے اس گستاخ مجرم قوم کو زلزلے نے آ پکڑا اور وہ ا پنے گھروں کے اندر اوندھے پڑے رہ گئے۔ وہ ایسے فناء ہوئے جیسے کبھی بسے ہی نہ تھے ۔ اپنے پیغمبر اور اس کے ساتھیوں کو بستی سے نکالنے کی دھمکی دے رہے تھے مگر خود ہی نہ رہے نہ ان کی بستیاں رہیں اور وہ جوکہتے تھے کہ شعیب علیہ السلام کے اتباع کرنے والے خراب ہوں گے۔ سو خود وہی خراب اور خاسر ہو کر رہے۔ 
قوم کی ہلاکت کے بعد شعیب علیہ السلام نے کہا اے میری قوم! میں تم کو اپنے رب کا پیغام پہنچا کر تمہاری خیر خواہی کر چکا تھا مگر تم نے پروا نہ کی۔ اب میں تم کافروں پر کیا افسوس کروں۔ 
(نوٹ: ۔ کہتے ہیں زلزلے سے پہلے سائبان کی طرح ابر آیا، اس میں سے آگ برسی ، پھر نیچے سے زمین کو بھونچال آیا اور سخت ہولناک آواز آئی ، اس طرح شعیب علیہ السلام کی قوم تباہ ہو کر اپنے انجام کو پہنچی)۔

Wednesday, 22 January 2014

یعقوب علیہ السلام اور یوسف علیہ السلام


یعقوب علیہ السلام اور یوسف علیہ السلام 
یعقوب علیہ السلام ،حضرت اسحق علیہ السلام کے بیٹے اور حضرت ابرہیم علیہ السلام کے پوتے تھے۔ اسحق علیہ السلام کی ولادت کے ساتھ اس پوتے یعقوب کی بشارت بھی ان فرشتوں نے دی تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے گھراجنبی مہمانوں کی صورت میں وارد ہوئے تھے۔یوسف علیہ السلام انہی یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹوں میں سے ایک ہیں جن کو اللہ نے پیغمبری کے لیے چنا۔ یوسف علیہ السلام کے قصے کو جب اللہ پاک نے قرآن پاک میں بیان کیا تو اسے بہت اچھا قصہ (احسن القصص) قرار دیا ہے۔ یہ قصہ نہایت تفصیل کے ساتھ سورہ یوسف میں بیان ہوا ہے۔ اور واقعی اس انداز سے بیان ہوا ہے کہ سننے پڑھنے والے کی پوری توجہ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ اس کی ابتداء اس خواب کے بیان سے ہوئی جو یوسف نے بچپن میں دیکھا اور اپنے باپ کو سنایا۔ کہا میں نے گیارہ ستاروں کو اور سورج اور چاند کو اپنے واسطے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ باپ پیغمبر زادہ تھا سمجھ گیا کہ گیارہ ستارے کنایہ ہیں گیارہ بھائیوں کا اور سورج اور چاند باپ اور ماں کا کنایہ ہے اور تعبیر اس خواب کی یہ ہے کہ لڑکا بڑا ہو کر اس قدر بلند مقام کو پہنچے گا کہ اس کے بھائی اور باپ اور ماں سب اس کی تعظیم کو اس کے سامنے سجدہ کریں گے۔ اس وقت کی شریعت میں سجدہ تعظیمی جائز تھا اب ہمیشہ کیلئے حرام کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے محسوس کیا کہ اس خواب کا اگر بھائیوں کو علم ہو گیا تو وہ حسد کی وجہ سے اور شیطان کے ورغلانے سے اس چھوٹے بھائی کے ساتھ کچھ فریب کریں گے۔ پس انہوں نے بیٹے کو نصیحت کی کہ یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سنانا۔ 
یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے، دس پہلی بیویوں سے تھے اور دو بیٹے یوسف اور بنیا مین چھوٹی بیوی سے تھے جو جلدی فوت ہو گئی تھی اور چھوٹے دونوں بیٹے با پ کی محبت کا زیادہ حصہ پانے لگے تھے۔ خاص طور پر باپ یوسف پر زیادہ مہربان تھا کیونکہ اس بیٹے میں ان کو نبوت پانے کے آثار نظر آتے تھے ۔دوسرے دس بیٹے اپنی طرف باپ کی توجہ کم پاتے تھے۔ جس کی وجہ سے ان کے دل میں حسد پیدا ہوا ۔وہ کہتے کہ ہم جو قوت والے ہیں (سو کام کرتے ہیں ) ہمیں تو باپ پیار نہیں دیتا اور یوسف جو ناتواں ہے وہ باپ کو زیادہ پیارا ہے ۔چنانچہ انہوں نے منصوبہ بنایا کہ وہ یوسف کو ہلاک کر دیں یا کسی حیلے سے دوسرے ملک بھجوا دیں تاکہ باپ کی تمام تر توجہ ان کو مل جائے اور سوچا کہ بعد میں توبہ کر کے ہم خوب نیک بن جائیں گے۔ چنانچہ ایک روز اپنے باپ کے پاس حاضر ہو کر انہوں نے عرض کی’’ اے ہمارے باپ !آپ یوسف کے معاملے میں ہم پر اعتبار کریں اور اسے ہمارے ساتھ سیرو تفریح کے لیے بھیجیں ، خوب کھائے گا اور کھیلے گا ، ہم اس کی پوری حفاظت کریں گے۔‘‘ با پ نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ اس کو تم لے جاؤ اور اس کو کوئی بھیڑیا کھاجائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو ۔ انہوں نے کہا کہ ہم طاقتور جماعت کے ہوتے ہوئے بھیڑیا اگر اس کو کھا جائے تو ہم نے سب کچھ گنوا دیا (ایسے کمزور اور بیوقوف ہمیں نہ سمجھیں )۔پس وہ باپ کی اجازت سے یوسف کو لے گئے اور ویرانے میں جا کر اس کو ایک گمنام کنویں میں ڈالنے پر متفق ہو گئے۔ اس پر اللہ نے وحی کے ذریعے یوسف کو بتا دیا کہ گھبراؤ نہیں ایک وقت آئے گا جب یہ سب کاروائیاں تم ان کو یا د دلاؤ گے اور وہ تم کو پہچان نہ سکیں گے ، اس وجہ سے کہ اس وقت تمہارا مقام خاصا بلند ہو گاجس کا انہیں گمان نہیں ہو گا۔ یوسف کو بھائی کنویں میں ڈال تو آ ئے مگر سر جوڑ کر بھائیوں نے باپ کو بتانے کے لیے یہ کہانی بنائی کہ ہم سب بڑے بھائی سبقت لے جانے کیلئے بھاگے اور اپنے سامان کے پاس چھوٹے یوسف کو بٹھا گئے اور ہمارے واپس آنے سے پہلے یوسف کو بھیڑیا کھا گیا اور یوسف کی قمیض پر جھوٹا خون (کسی بکری یا بھیڑکا) لگا کر رات روتے ہوئے باپ کے پاس آ کر وہ کہانی سنا دی اور یہ بھی کہا کہ چاہے ہم سچے ہوں آپ ہماری بات کو صحیح نہیں مانیں گے۔ باپ نے کہا کہ یہ کہانی تمہاری گھڑی ہوئی ہے اور اس بات پر جو تم ظاہر کرتے ہو میں اللہ ہی کی مدد مانگتا ہوں اور میرے لیے صبر ہی بہتر ہے یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں کی جھوٹی کہانی کو سمجھ گئے تھے کیونکہ یوسف کی خون آلود قمیض سالم کی سالم ان کے لیے بھیڑیا کیوں چھوڑ جاتا ۔اگر کچھ حصہ قمیض کا بچ بھی جاتا تو وہ بھیڑیے کے دانتوں سے تار تار ہو گیا ہوتا ۔ سچ ہے کہ جھوٹے شخص کا حافظہ نہیں ہوتا۔ وہ جھوٹے بھائی یوسف کا صحیح سالم کرتہ اتار کر باپ کو خون آلود کر کے دکھانے کے لیے لے گئے اور یوسف کو ننگے بدن کنویں میں ڈال گئے تھے۔ 
کہتے ہیں تین روز یوسف کنویں میں پڑا رہا۔ بڑا بھائی یہودا رحمدل تھا وہ ہر روز اس کو کھانا پہنچا آتا۔ اسی نے دوسرے بھائیوں کو قتل کرنے سے بھی روکا تھا اور اس کو گمنام کنویں میں ڈال دینے کا مشورہ دیا تھا ۔ پھر ایک قافلہ اس راہ سے گزرا ۔انہوں نے کنویں میں ڈول ڈالا تو اس میں بیٹھ کر یوسف باہر آ گیا۔ ڈول ڈالنے والوں نے اس کو مال تجارت سمجھا ۔ کیونکہ اس زمانے میں لاوارث بچوں کو لوگ غلام ظاہر کر کے بیچ دیتے تھے ۔ بھائیوں کو خبر ہوئی کہ قافلے والے یوسف کو نکال کر لے چلے ہیں تو انہوں نے وہاں پہنچ کر ظاہر کیا کہ یہ ہمارا غلام ہے جو بھاگ آیا ہے ۔اس کو بھاگنے کی عادت ہے۔ اس لیے قافلے والوں کے ساتھ سودا کر کے اس کو معمولی قیمت میں یعنی اٹھارہ درہم میں بیچ دیا جو نو بھائیوں نے دو دو درہم آپس میں بانٹ لیے، دسویں بھائی یہودا نے کچھ نہ لیا۔ 
قافلے نے مصر پہنچ کر جلدی سے یوسف کو بیچ دیا۔ عزیزِ مصر جو وہاں کا بڑا وزیر تھا اس کی بولی پر معاملہ ختم ہوا۔ اس نے اپنی عورت زلیخا سے کہا کہ نہایت پیارا قبول صورت او رہو نہارلڑکا معلوم ہوتا ہے۔ اس کو پوری عزت و آبرو کے ساتھ رکھو ۔ غلاموں کا معاملہ نہ کرنا۔ شاید بڑا ہو کر ہمارے کام آئے یا جب ہمارے یہاں اولاد نہیں ہوئی تو اسی کو بیٹا بنا لیں گے۔ 
نوٹ : ۔ بھائی یوسف کوبے وطن کرنا چاہتے تھے، قافلے والے اسے بیچ کر دام وصول کرنے کا اراد ہ کر رہے تھے اور اللہ تعالی خزائن مصر کا یوسف کو مالک بنانا چاہتے تھے ۔ اگر وہ چاہتے تو ان ساری کاروائیوں کو ایک حکم سے یکدم روک دیتے مگر اللہ تعالی بالآخر یوسف کو خزائن مصر کا مالک بنانا چاہتے تھے سو اللہ کا ارادہ پورا ہو کر رہا جیسا کہ قصہ کے اختتام پر معلوم ہو گا۔ دراصل یہ ساری کاروائیاں اللہ کے ارادے کی تکمیل کے لیے عمل پذیر ہوئیں اور اللہ اپنے ارادے کو پورا کرنے کی طاقت اور قدرت رکھتا ہے۔ کوئی اس کے ارادے کو پورا ہونے سے روک نہیں سکتا۔
یہ سب اللہ کے اس ارادے کی تکمیل کے لیے تھا کہ عزیز مصر کے محل میں رہ کر یوسف کو سرداروں کی صحبت میں سلطنت کے امور سمجھنے کا اور باتوں کو ٹھکانے پر بٹھانے کا کامل سلیقہ اور تجربہ حاصل ہوتاکہ جب وہ خزائن مصر کے مالک کا عہدہ سنبھالیں تو یہ باطنی طور پر تدبیر کردہ ٹریننگ ان کی صحیح رہنمائی کر سکے۔ 
پھر ایک آزمائش یوسف علیہ السلام کو پیش آئی۔ وہ یوں کہ جب یوسف جوان ہو گئے ان کے تمام قویٰ حدِّ کمال کو پہنچ گئے اور خداکے یہاں سے علم و حکمت کا فیض بھی ان کو پہنچا ۔مگر دوسری طرف عزیزِ مصر کی بیوی زلیخا حضرت یوسف کے حسن و جمال پر مفتون ہو گئی اور دلکشی کے سارے سامان جمع کر کے اس نے چاہا کہ یوسف کے دل کو ان کے قابو سے باہر کر کے اللہ کی نافرمانی پر آمادہ کرے ۔مگر اللہ اپنے مخلص بندوں سے برائی اور بے حیائی کو ہٹاتا رہتا ہے۔ پس یوسف دامن چھڑا کر بند کمرے سے باہر آ گئے جبکہ عزیزِ مصر کی بیوی زلیخا اس کے پیچھے پیچھے تھی۔ جونہی وہ کمرے سے باہر آئے سامنے عزیزِ مصر کھڑے تھے ۔زلیخا نے فوراً بات بنائی اور خاوند سے کہا کہ جو شخص تیرے گھر والی سے برائی کا ارادہ کر ے اس کی سزا یہی ہے ناں کہ اسے قید میں ڈالا جائے یا دردناک عذاب دیاجائے۔ مگر یوسف علیہ السلام نے کہا میں نہیں بلکہ خاتونِ خانہ قصور وار ہے۔چنانچہ جب دیکھا کہ یوسف کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہے تو عزیزِ مصر نے بیوی سے کہا کہ یہ تم عورتوں کا مکر ہے۔ تمہارا فریب بہت بڑا ہے پس تم اپنا گناہ بخشواؤ کیونکہ تو ہی گنہگار ہے اور یوسف علیہ السلام سے کہا آپ اس ذکر کو جانے دیں۔ عزیزِ مصر کی بیوی زلیخا کے اس مکر کا جب دیگر خواتین نے سنا تو اس پر طعن کرنے لگیں۔ اس پر زلیخا نے تما م امراء کی عورتوں کی دعوت کی اور ان کے سامنے دیگر کھانے کے برتنوں اور ضروری کٹلری کے ساتھ پھل کاٹنے کے لیے چھریاں بھی رکھیں۔ اور یوسف علیہ السلام کو سروس کے لیے بلایا۔ جب ان عورتوں نے یوسف کے حسین پیکر کو دیکھا تو اس قدر حیران و ششدرہ ہو گئیں کہ پھل کاٹتے کاٹتے انہوں نے اپنی انگلیاں کاٹ لیں اور کہنے لگیں کہ یہ بشر نہیں بلکہ کوئی بزرگ فرشتہ ہے۔ اس پر زلیخا نے کہا کہ یہ وہی ہے جس کے واسطے تم نے مجھ کو طعنہ دیا تھا۔ اس طرح اس نے اپنی انا کی تسکین بھی حاصل کی اور طعنہ دینے والیوں سے بدلہ بھی لیا۔ اور پھر اس نے یوسف علیہ السلام کو حکم نہ ماننے کی بناپر قید کروا دینے کی دھمکی دی۔ اس پر یوسف علیہ السلام نے دعا کی کہ اے میرے رب !مجھے جس طرف یہ عورتیں بلاتی ہیں اس کے مقابلے میں مجھے قید پسند ہے۔ اللہ پاک نے ان کی دعا قبول فرمائی اور یوں بڑوں نے فیصلہ کیاکہ یوسف علیہ السلام کو باوجود ان کی بے قصوری کے ایک مدت تک قید میں رکھا جائے تاکہ لوگ یوسف علیہ السلام کو ہی قصور وار سمجھیں اوربلند مرتبہ عورت کی بدنامی بھی نہ ہو اور اس نے جو قید کروانے کی دھمکی دی تھی وہ بھی پوری ہو جائے۔ 
جس روز یوسف علیہ السلام قید خانے میں داخل ہوئے اس روز دو اور نوجوان بھی قید خانے میں داخل ہوئے ۔ ان میں سے ایک نے خواب میں اپنے آپ کو شراب نچوڑ تے دیکھا اور دوسرے نے دیکھا کہ وہ اپنے سر پر روٹی اٹھائے ہے اور جانور اس میں سے کھا رہے ہیں ۔ انہوں نے یوسف علیہ السلام سے کہا کہ ہم آپ کو نیکو کار شخص سمجھتے ہیں آپ ہمیں ہمارے خوابوں کی تعبیر بتائیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم کوکھانا جو ملتا ہے اس کے آنے سے پہلے میں تم کو خوابوں کی تعبیر بتاؤں گا اور یہ بھی بتایا کہ یہ علم مجھے میرے رب نے عطا کیا ہے اور یہ کہ میں نے ان لوگوں کی ملت کو چھوڑرکھا ہے جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور میں نے اپنے آباء ابراہیم ، اسحق اور یعقوب کے دین کو پکڑا ہے اور یہ کہ ہمارا کام نہیں کہ اللہ کا کسی چیز کو شریک ٹھہرائیں اور یہ محض اللہ کا فضل ہے۔ اور یہ بھی کہا کہ اے قید کے ساتھیو! بھلا کئی معبود جدا جدا بہتر ہیں یا اکیلا اللہ جو زبر دست ہے سارے جہاں کے سارے کام سنوارتا ہے ۔ آپ لوگ تو یونہی بے سند کے چند ناموں کو پوجتے ہو۔ حقیقتاً اللہ کے سوا کسی کی حکومت نہیں اور یہ اللہ کا حکم ہے کہ اس کے سوا کسی کی پوجا نہ کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے۔ اس طرح توحید کی تبلیغ کے بعد انہوں نے خوابوں کی تعبیر یہ بتائی کہ پہلا شخص رہا ہو کر اپنے بادشاہ کو شراب پلائے گا اور دوسرا جو ہے وہ سولی دیاجائیگا پھر اس کے سر میں سے پرندے کھائیں گے۔ پھر آپ نے جس کے بری ہونے کا یقین تھا اس سے کہا کہ اپنے بادشاہ سے میرا ذکر کرنا کہ کس طرح ایک بے قصور شخص قید میں سختیاں جھیل رہا ہے۔ مگر شیطان نے چھوٹنے والے قیدی کو اپنے بادشاہ کے سامنے یوسف علیہ السلام کاذکرنا بھلا دیا اورو ہ کئی برس قید خانے کی سختیاں جھلیتے رہے۔ یہ یوسف علیہ السلام کے لیے تنبیہ بھی تھی کہ انہوں نے کیوں غیر اللہ کی سفارش پر بھروسہ کیا۔
پھر اللہ کی مخفی تدبیر ملاحظہ ہو کہ بادشاہ خواب میں سات موٹی گائیں دیکھتا ہے جن کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات ہری بالیں دیکھتا ہے انا ج کی اور دوسری سات سوکھی بالیں بھی دیکھتا ہے اور اس کی تعبیر دربار والوں سے پوچھتا ہے جو بتا نہیں سکتے ۔اس وقت وہ قیدی جو قید خانے سے رہا ہو کر بادشاہ کی ساقی گری کر رہا تھا اس کو یوسف علیہ السلام کی یاد آئی جن کی بتائی تعبیر کے مطابق وہ قید سے رہا ہوا تھا۔ اس نے کہا کہ مجھے یوسف علیہ السلام کے پاس بھیجیں ۔ میں ان سے تعبیر معلوم کرکے آتا ہوں ۔یوسف علیہ السلام نے یہ تعبیر بتائی کہ ملک میں سات سال جم کر کھیتی اگاؤ اور جو فصل کاٹو اس میں تھوڑا سا کھا کر باقی بالیوں میں جمع کر تے جا ؤ۔ پھر سات سختی والے سال آئیں گے اور وہ جمع کیا ہوا اناج کچھ تو لوگ کھائیں اور کچھ بیج کے واسطے روک لیں۔ اس کے بعد ایک سال آئے گا جس میں خوب مینہ برسے گا اور اس سال لوگ خوب انگور وغیرہ کا رس نچوڑیں گے۔ بادشاہ سن کر بہت خوش ہوا کہ بتانے والے نے تعبیر ہی نہیں بتائی، تدبیر بھی بتائی کہ سختی کے سالوں کے لیے غلہ کیسے محفوظ کرنا ہے اور بشارت بھی دی کہ بعد میں ایک سال سیرابی کا آئے گا جب غلہ اور پھل کثرت سے پیدا ہوں گے ۔ پس اس نے حکم دیا کہ اس شخص کو ہمارے سامنے لایاجائے تاکہ اس کے مرتبہ اور قابلیت کے موافق اس کو عزت کا مقام دیاجائے۔بچو! غور کرنے کی بات ہے کہ یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب طے شدہ مدت تک یوسف کو قید خانہ کی سختیاں جھیل کر صبر کے ساتھ اللہ کی رضا پر راضی رہنا سیکھ لیا۔ مگر جب قاصد یوسف علیہ السلام کے پاس گیا تو انہوں نے فرمایا کہ پہلے بادشاہ سے پوچھیں کہ جن عورتوں نے عزیزِ مصر کی بیگم زلیخا کی دعوت میں ہاتھ کاٹ لیے تھے جن کے فریب کا حال میرا رب تو جانتا ہی ہے مگر بادشا ہ بھی ان سے تفتیش کر کے حقیقت حال معلوم کرے کہ قصور وار کون تھا۔بچو! دیکھیں یوسف علیہ السلام نے صبر سے کام لیا اور جلدی سے بادشاہ کے بلاوے پر باہر نہ آئے بلکہ معاملے کی تحقیق کرانا ضروری سمجھا۔ چنانچہ بادشاہ نے جب تفتیش کی تو دعوت میں شریک عورتوں نے اقرار کیا کہ حاشَ لِلہ ہم نے یوسف علیہ السلام میں کوئی برائی نہیں دیکھی اور عزیزِ مصر کی بیوی نے بھی کہا کہ اب جو بات کھل گئی ہے تو میں اقرار کرتی ہوں کہ قصور وار میں ہی ہوں، یوسف علیہ السلام سچے ہیں۔ یوسف علیہ السلام نے یہ تحقیق اس لیے کروائی کہ پیغمبر انہ عصمت و دیانت بالکل ظاہر ہو جا ئے اور لوگ معلو م کر لیں کہ دغا بازوں کا فریب اللہ چلنے نہیں دیتا ۔ اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں پاک صاف رہنے میں اپنے نفس پر بھروسہ نہیں کرتا ہوں۔ یہ محض خدا کی رحمت ہی ہے جو کسی کو برائی سے بچاتی ہے۔ 
اس کے بعد بادشاہ نے یوسف علیہ السلام کو انٹر ویو کے بعد اپنا خصوصی معاون بنا کر شعبہ مالیات کا وزیر بنا دیا۔ بلکہ یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ میں قوی اور امین ہوں، خزانے کی چابیاں میرے حوالے کر دیں۔ پھر جب سخت قحط سالی کا زمانہ آیا جیسا کہ بادشاہ کے خواب کی تعبیر کے موافق اللہ کی طرف سے مقدر تھا تو کنعان میں یعقوب علیہ السلام کا گھرانہ بھی اس کی لپیٹ میں آ گیا۔ مصر میں قحط سالی کی پیش بندی کی ہوئی تھی، وہاں غلہ وافر موجود تھا مگر وہ پردیسی کو ایک اونٹ بوجھ سے زیادہ نہ دیتے تھے۔ حسن انتظام ان کا ایسا تھا کہ قحط سالی کے باوجود قیمت زیادہ نہیں لیتے تھے ۔اس لیے یعقوب علیہ السلام کے دس بیٹے غلہ حاصل کرنے کے لیے مصر گئے ۔ یوسف علیہ السلام نے ان بھائیوں کو پہچان لیا اور اپنی پہچان کرائے بغیرگھر والوں کا عام حال تفیصل سے معلوم کیا۔ ان کو غلہ بھی پورا دیا اور جو پونجی غلے کے عوض حاصل کی تھی وہ ان کے اسباب میں خفیہ طور پر رکھوا دی تاکہ گھر پہنچ کر جب اسباب کھولیں، غلہ کے ساتھ پونجی واپس آئی دیکھیں تو دوبارہ ان کو ادھر آنے کی مزید ترغیب ہو۔ یوسف علیہ السلام نے اپنے آپ کو ظاہر کیئے بغیر ان کو اپنے چھوٹے علاقی بھائی کو بھی اگلی دفعہ لانے کو کہا اور یہ بھی کہا کہ اس کو ساتھ نہیں لاؤ گے تو آپ کو غلہ نہیں دیاجائے گا۔ اصل میں بھائیوں نے اس چھوٹے بھائی کے لیے بھی ا یک اونٹ غلہ اور مانگا تھا جو بوڑھے باپ کی خدمت کے لیے ان کے ساتھ مصرنہیں گیا تھا ،لیکن قاعدے کے موافق چونکہ غائب کے نام پر غلہ نہیں دیا جاتا تھا اس لیے اصرار کر کے ان کو کہا کہ اس بھائی کو اگلی دفعہ ضرور ساتھ لانا، ورنہ سمجھا جائے گا کہ جھوٹ بول کر اس کے حصے کا غلہ مانگا گیا تھا۔
اگلی دفعہ بھائی اپنے چھوٹے بھائی کو بھی باپ سے پکا وعدہ کر کے لے آ ئے۔ جب سب بھائی جیسے باپ نے نصیحت کی تھی شہر میں داخل ہو کر یوسف علیہ السلام کو ملے تو انہوں نے چھوٹے بھائی کو اپنے پاس رکھا اور اس کو بتایا کہ میں تمہارا حقیقی بھائی یوسف ہوں اور بتایا کہ جو بدسلوکی بھائیوں نے کی ہے اس پر غمگین نہ ہو ۔ پھر جب بھائیوں کی وا پسی ہونے لگی تو بادشاہ کے پینے کا پیالہ بھائی کے اسباب میں خفیہ طور پر رکھوا دیا۔ پھر جب بھائیوں کا قافلہ واپس جانے کے لیے چل پڑا تو ایک پکارنے والے نے کہا اے قافلے والو ! رک جاؤ۔ تم تو چور ہو۔ انہوں نے کہا ہم چور نہیں اور نہ ہی فساد کرنے والے ہیں۔مگر تم بتاؤ کیا چیز تمہاری گم ہو ئی ہے۔ اس نے کہا کہ بادشاہ کا خاص پیالہ، اور جو کوئی وہ پیالہ لا حاضر کرے گا اس کو ایک بوجھ اونٹ غلہ اور دیا جائے کا ۔ بھائیوں نے کہا ہم چور نہیں۔پکارنے والے نے کہا کہ اگر تمہاری بات جھوٹ ثابت ہوئی تو پھر کیا سزا ہو گی چور کی۔ انہوں نے کہا جس کے اسباب میں سے پیالہ نکلے وہی اس کے بدلے میں ایک سال کے لیے غلام بنا کر باندھ لیاجائے۔ یہ ابراہیمی شریعت کا حکم تھا۔ پھر جب بنیا مین کی خرجی میں سے پیالہ نکلا تو لازماً اس کو ایک سال کے لیے بادشاہ کا بندہ بن کر وہیں رہنا تھا۔ یہ داؤ بھی اللہ نے یوسف علیہ السلام کو خاص طور پر سجھایا ورنہ وہاں کے قانون میں 
بنیا مین کو روکا نہیں جا سکتا تھا۔ جب یہ صورت پیدا ہوئی تو بھائیوں نے الزام کو رد کرنے کی کوئی کوشش نہ کی بلکہ فوراً یہ کہا کہ اس بنیا مین نے اگر چوری کی ہے تو اس کے ایک بھائی نے بھی چوری کی تھی۔ اس پر یوسف علیہ السلام نے ان کو جتائے بغیر دل میں کہا کہ تم زیادہ برے ہو اور اللہ خوب جانتا ہے جو تم بیان کرتے ہو۔ خود ان بھائیوں کی چوری تو بہت بڑی تھی۔ انہوں نے پہلے یوسف بھائی کو باپ سے چرا کر چند سکوں کے بدلے بیچ ڈالا تھا اور ابھی تھوڑی دیر پہلے کہہ رہے تھے ہم چور نہیں مگر اب ایک غیر حاضر بھائی کو بھی چور کہہ دیا۔ گویا چوری کرنا ان کا خاندانی پیشہ ہے۔ (العیاذ با اللہ)
اپنے ہی بتائے ہوئے قانون کے مطابق جب چھوٹا بھائی بنیا مین چوری کے جرم میں بادشاہ کی غلامی میں باندھ لیا گیا تو بھائی پریشان ہوئے کہ باپ کو کیا جواب دیں گے جس نے ان سے پکا وعدہ لیاتھا کہ ضروراس کو غلے کے ساتھ واپس لائیں گے ۔چنانچہ انہوں نے پیشکش کی کہ اس بنیا مین کی بجائے ہم میں سے کسی ایک کو غلام بنا کر رکھ لو اور اس کو آزاد کر دو کیونکہ اس کا بوڑھا باپ اس کی جدائی برداشت نہ کر سکے گا۔ اور منت بھی کی کہ آپ احسان کرنے والے ہیں ہم پر یہ احسان کریں۔ جواب ملا کہ ہم مجرم کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو پکڑیں اللہ ہمیں اس سے پناہ دے ۔ آحر مایوس ہو کر سب بھائیوں نے مشورہ کیا۔ بڑے بھائی یہودا نے کہا کہ پہلے یوسف کے معاملے میں بھی ہم قصور کر چکے ہیں، پس میں تو جب تک اپنے با پ کی اجازت نہ ملے یا اللہ میرا قضیہ نہ چکا دے ہر گز اس زمین سے نہیں نکلوں گا۔ آپ سب باپ کے پاس جائیں انہیں بتائیں آپ کے بیٹے نے چوری کی اور غلام بنا کر باندھ لیا گیاہے ہم نے جو عہد دیا تھا وہ اپنے علم کے مطابق تھا ۔ہمیں کیا پتہ تھا کہ چوری کرے گا اور ہم اس کو واپس نہ لا سکیں گے۔ اور کہنا مزیدتسلی کے لیے آپ قافلے والوں سے پوچھ لیں ۔وہ ہماری سچائی کی ضرورگواہی دیں گے۔ 
اس طرح کی وضاحت پر بھی باپ نے یہی کہا کہ تم نے اپنے دل سے بات بنائی ہے۔ میرے لیے اب صبر ہی بہتر ہے۔ شاید اللہ ان سب کو میرے پاس لے آئے کہ وہی خبر دار اور حکمت والا ہے۔ نیا زخم کھا کر ان کا پرانا یوسف کی جدائی والا زخم بھی ہرا ہو گیا۔ اولاد نے قسم کھا کر کہا بابا! تو یوسف کی یاد کو نہیں چھوڑ ے گا جب تک گھل جائے یا ہلاک ہو جا ئے۔ یعقوب علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں اپنا اضطراب اور غم اللہ کے سامنے کھولتاہوں اور اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ۔ اور بچوں کو حکم دیا کہ جاؤ تلاش کرو یوسف کو اور اس کے بھائی کو اوراللہ کے فیض سے ناامید مت ہو۔ بیشک اللہ کے فیض سے سوائے کافروں کے کوئی ناامید نہیں ہوتا۔ 
پس جب ان کے گھر پر مزید سختی آئی تو یعقوب علیہ السلام کے بیٹے تیسری دفعہ پھر ناقص پونجی کے ساتھ مصر پہنچے اور درخواست کی کہ ہم پر خیرات کریں۔ غلے کی پوری بھرتی دیں۔ اللہ خیرات کرنے والوں کو اچھا بدلہ دیتا ہے۔ جب وہ وزیر خزانہ یوسف علیہ السلام کے سامنے پیش ہوئے تو انہوں نے پوچھا کہ تم کو خبر ہے کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟ جبکہ تم کو سمجھ نہ تھی۔ اس پر وہ چونکے اور بول پڑے کیا سچ آپ ہی یوسف ہیں۔ انہوں نے کہا ہاں میں یوسف ہوں اور یہ بنیا مین میرا بھائی ہے (ماں جایا)۔ اللہ نے ہم پراحسان کیا ہے۔ ا نہوں نے اقرار کیا کہ واقعی اللہ نے آپ کو ہم میں سے پسند کیا اور ہم خطا کارتھے۔ یوسف علیہ السلام نے کہا آج تم پر کوئی الزام نہیں۔ اللہ تم سب کو بخشے، وہ سب مہربانوں سے بڑا مہربان ہے۔ اور کہا یہ میری قمیض لے جاؤ اور با پ کے چہرے پر ڈالیے ،ان کی بصارت لوٹ آئے گی۔ اور پھر تم سب گھر والوں کو لے کرمیرے پاس ادھر آ جاؤ۔ جو نہی قافلہ مصر سے نکلا باپ نے جو بچوں کی جدائی میں رو رو کر اندھے ہو چکے تھے کہا کہ مجھے یوسف کی خوشبو آ رہی ہے۔ بچوں نے کہا کہ بابا! قسم اللہ کی، آپ اسی پرانی بھول میں ہیں۔ مگر جب بشارت دینے والے نے آ کر وہ کرتہ ان کے منہ پر ڈالا تو وہ خوب دیکھنے والے ہو گئے۔ ان کی بینائی واپس آ گئی۔ اس پر انہوں نے کہا کہ میں نہ کہتا تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے تھے۔ پھر بچوں نے باپ سے مغفرت کی دعا کی درخواست کی جو انہوں نے قبول فرمائی۔ بچو! آپ نے دیکھا باپ بچوں کی جدائی میں کیسے رو رو کے بینائی کھو بیٹھا پھر قصور وار بچوں کو معاف کر کے ان کی مغفرت کی دعا کی۔ پس ماں باپ کی خدمت کرنا، ان کی عزت کرنا بچوں پر سب سے بڑا فرض ہے اور یہ حق خوشی سے ادا کرنا چاہیے۔
آخر جب یعقوب علیہ السلام اور ان کا سارا کنبہ کنعان سے کوچ کر کے یوسف علیہ السلام کے پاس مصر پہنچے تو انہوں نے اپنے ماں باپ کو اونچی جگہ تخت پر بٹھایا مگر اس وقت کے دستور کے مطابق ماں باپ اور سب بھا ئی یوسف علیہ السلام کے آگے سجدہ میں گر پڑے۔ اس وقت یوسف علیہ السلام نے کہا’’ اے میرے باپ! یہ بیان ہے میرے اس بچپن کے خواب کا۔ اس کو میرے اللہ نے سچا کر دیا ہے۔ اور ا للہ نے مجھ پر انعام کیا جب مجھ کو قید خانہ سے نکالا اور آپ سب کو گاؤں سے ادھر لے آیا بعد اس کے کہ شیطان ہم بھائیوں کے درمیان جھگڑا ڈال چکا تھا۔ بیشک میرااللہ جو چاہتا ہے تدبیر سے پورا کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ 
یوسف علیہ السلام کا قصہ واقعی اس انداز سے اللہ پاک نے بیان کیا کہ یہ سننے پڑھنے والے کی پوری توجہ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ مگر اللہ پاک کا مقصد صرف قصہ خوانی نہیں۔ بلکہ کئی مفید اغراض ہیں۔ اول یہ کہ اس میں یہودیوں کے اس سوال کا جواب ہے کہ یعقوب علیہ السلام کی اولاد بنی اسرائیل مصر میں کیسے پہنچی۔ دوئم یہ کہ اس میں یوسف علیہ السلام کو جو اذیتیں اپنے سوتیلے بھائیوں کی طرف سے پہنچیں اور اس کے بعد جو اللہ پاک نے ان کو نبوت اور حکومت کا بلند مقام عطا فرمایا اور بھائیوں کو بالآ خر یوسف علیہ السلام کی عظمت کے سامنے شرمندہ ہو کر جھکنا پڑا اور یوسف علیہ السلام کی عالی ظرفی کے سبب ان کے جرائم کی معافی کا جو تذکرہ ہے ان کا حضور ﷺ کی زندگی سے مماثلت کے سبب آپ کو تسلی دینا مقصود تھا۔ آپ کو بھی مکہ کے قریشی بھائیوں نے سخت اذّیتیں دیں، مجبوراََ آپ کو مدینے کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔ آپ کو اللہ نے نبوّت کے ساتھ حکومت سے بھی سرفراز کیا۔ آپ آٹھ سال بعد مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اور قریش کے تمام دشمن سردار شرمندہ ہو کر حضورﷺ کے سامنے ہاتھ باندھے جھک کر پیش ہوئے اور آپ نے بھی اپنے بھائی یوسف علیہ السلام کی طرح ان کے سب قصور معاف فرمادئیے ۔ یوں یہ قصہ آپ کے حق میں تنگی کے وقت ایک طرح سے بشارت تھی کہ حبیب! ،غم نہ کر، تجھے بھی بالآ خر عظمت کا بہت بلند مقام ملے گا اور یہ دشمن شرمندہ ہو کر تیرے سامنے جھک کر معافی مانگیں گے۔ 
تیسرے نمبر پر یہ قصہ یہ بھی بتاتا ہے کہ اللہ جب کسی ہستی کو نبوّت اور حکومت سے سرفراز کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اپنے ارادے کی تکمیل پر قادر ہو تا ہے کوئی رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔ چوتھے اس میں یہ سبق ہے کہ یعقوب علیہ السلام کی طرح بندہ ہر مصیبت صبر سے برداشت کرے اور اللہ کے فیض کی امید رکھے۔ لوگوں کے سامنے اپنا دکھڑا بیان نہ کرے، اپنا اضطراب اور غم بیان کرے تو صرف اللہ کے سامنے بیان کرے۔ 
اس قصے میں پانچویں نصیحت یہ ہے کہ جس طرح یوسف علیہ السلام نے قید خانے میں اپنے قیدی ساتھیوں کو توحید کی تعلیم دی، بندۂ مومن خود بھی صرف اللہ واحد کی عبادت کرے اور دوسروں کو بھی موقع بہ موقع یہی نصیحت کر ے کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اپنی مرادوں کے لیے صرف اسی کو پکاریں۔

Tuesday, 21 January 2014

اسمٰعیل علیہ السلام اور اسحق علیہ السلام


اسمٰعیل علیہ السلام اور اسحق علیہ السلام 
بچو! آپ حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کی ولادت ، ان کے ذبح ہونے کو تیار ہونے کا قصہ، نیز ان کا اپنے باپ کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی تعمیرکرنے کا حال پڑھ چکے ہیں۔آپ صادق الوعد یعنی وعدے کے سچے تھے، رسول تھے، نبی تھے اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوۃ کی ادائیگی کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کے یہاں پسندیدہ تھے ۔آپ جو عرب حجاز کے مورثِ اعلیٰ تھے اور ہمارے پیغمبر علیہ السلام کے اجداد میں سے تھے حجاز میں رسالت کے فرائض ابراہیمی شریعت کے مطابق ادا کرتے رہے، اسحق علیہ السلام نبوت کے فرائض شام و فلسطین کے مرکز میں ادا کرتے رہے۔
نوٹ :۔ بعض رسولوں کا اللہ پاک نے قرآن مین قصہ بیان کیا ہے اور بعض کا بالکل ذکر نہیں کیا۔ پھر بعض کا قصہ مختلف سورتوں میں کہیں مختصر الفاظ میں اور کہیں خاصی طوالت کے ساتھ کیا ہے اور بعض کا محض نام لیا ہے یا صرف ایک دو جملوں سے ذکر کیا ہے۔ ان میں سے پانچ رسولوں کا قصہ کھول کر بھی بیان کیا ہے اور ان کو بڑی عزیمت والے رسول کہا ہے ۔یہ ہیں حضرت نوح، حضرت ابراہیم،حضرت موسیٰ ، حضرت عیسٰی اور سیدّ المرسلین حضرت محمد مصطفی ﷺ ۔ ان میں سے دو بڑی عزیمت والے رسولوں نوح علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام کا مفصل حال بیان ہو چکا ہے ۔ باقی تین کاحال اپنے اپنے زمانے کی ترتیب سے بعد میں بیان کیاجائے گا انشآء اللہ۔ اس وقت آنے والے صفحات میں دوسرے پیغمبر جن کا قرآن میں ذکر آیا ہے ان میں زیادہ مشہور پیغمبروں کا قصہ ترتیب واربیان کیاجاتا ہے۔

Wednesday, 15 January 2014

Live Long By Exercises



لمبی پانے کا راز
فرض کریں کہ کوئی ایسی دوا جو آپ کو عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ مضبوط اور مستعد رکھتی ہے اور ساتھ ہی آپ کے دل اور ہڈیوں کی حفاظت بھی کرتی ہے ۔ آپ کی نیند، یاد داشت اور موڈ کو بہتر بناتی ہے اور آپ کو کینسر جیسے موذی مرض سے بھی محفوظ رکھتی ہے اور وقت سے پہلے آنے والی موت کے خطر ے کو کم کر دیتی ہے تو کیا آپ اسے استعمال نہیں کریں گے ؟ جی ہاں کیوں نہیں۔ یورپین تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ورزش میں یہ تمام فوائد موجود ہیں۔ حتیٰ کہ ان لوگوں کو بھی ورزش سے بہت فائدہ حاصل ہوتا ہے جو اسے زندگی میں دیر سے اپناتے ہیں۔ حال ہی میں جاپانی جڑواں بہنوں نے اپنی 105ویں سالگرہ پودے لگا کر اور پہلی گالف کھیل کر منائی۔ انہوں نے نے بتایا کہ ان کی لمبی عمر کا راز کسی نہ کسی مشغلے کو اپنائے رکھنا ہے۔ اس عمر میں بھی روزانہ دو گھنٹے پیدل چلتی ہیں ۔ماہرین صحت کے مطابق 1960کے ابتدائی عشرے میں بہت زیادہ ورزش 50سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ لیکن 1980کی تحقیق نے اس کو بالکل غلط ثابت کر دیا ۔ ورزش سے موت کا تناسب اتنا ہی کم ہو جاتا ہے کہ جتنا کیلوریز کو کوئی ہر ہفتہ خرچ اور استعمال کردے۔ یاد رکھیں مختلف مشاغل کے مختلف فائدے ہوتے ہیں اب تو ہر کوئی اس بات پر متفق ہے کہ arobic exerciseآپ کے دل ، پھیپھڑوں اور دماغ کی حفاظت کرتی ہے۔ حالیہ تحقیق کے مطابق وزن اٹھانے کی ورزش ایک ادھیڑ عمر ، نازک شخص کو بھی اتنا ہی فائدہ دیتی ہے جتنا کہ ایک نوجوان کو۔ 

Damages of Fast Food


فاسٹ فوڈ کا استعمال جگر کا نقصان 
فاسٹ فوڈز کا استعمال ہماری زندگی میں اس حد تک بڑ ھ چکا ہے کہ شاید ہی کوئی فرد ہو جو اس کا شوقین نہ ہو لیکن یہ بات ضرور یاد رکھیں کہ فاسٹ فوڈ جیسے برگر، تلی ہوئی مرغی اور پیزا وغیرہ کا مسلسل استعمال ہمارے جگر کیلئے انتہائی نقصان دہ ہے۔ یہ بات امریکہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی ہے۔ تحقیق کے مطابق فاسٹ فوڈ ز کے استعمال سے لوگوں کی صحت پر کئی اقسام کے مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ فاسٹ فوڈز میں شامل چربی اور فیٹنس وغیرہ جگر کیلئے اسی طرح نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں جیسے ہیپاٹائٹس ۔ تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ مسلسل فاسٹ فوڈز کے استعمال سے جگر میں اہم تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ جبکہ جسم میں کولیسٹرول کی سطح اور موٹاپا بھی بڑھ جاتا ہے اور اس وجہ سے جگر میں ایسی کیمیائی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں جو ہیپاٹائٹس سے ہونے والے نقصانات سے ملتی جلتی ہیں اور اس میں اضافے سے جگر فیل ہونے کا خطرہ بڑ ھ جاتا ہے ۔ سب سے زیادہ خطرناک فرنچ فرائز ہیں جن میں تیل، نمک اور چربی کا اتنا زیادہ استعمال ہوتا ہے کہ وہ 
جگر کو نقصان پہنچانے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں 


Important Newton's Laws


نیوٹن کے وہ قوانین جن کو لکھنا وہ بھول گیا تھا۔ 

۔ اگر کسی جگہ ایک سے زیادہ انتظاری قطاریں ہونے کی صورت میں آپ ایک قطار چھوڑ کر دوسری میں جا کر کھڑے ہو ں تو پہلی والی قطار تیزی سے چلنا شروع ہو جائے گی۔

۔کو ئی مشین مرمت کرتے ہوئے جب آپ کے ہاتھ تیل یا گریس سے بھر جائیں تو آپ کی ناک پریقیناًکھجلی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ 

۔ جب کبھی بھی رانگ نمبر ڈائل ہو جاتا ہے تووہ کبھی مصروف نہیں ملتا۔ 

۔ اگر آپ نے ایک سے زیادہ چیزیں ہاتھ میں اٹھا رکھی ہوں تو ہمیشہ قیمتی اور نازک چیز ہی زمین پر پہلے گرے گی۔ 

۔ اگر آپ دفتردیر سے پہنچنے پر اپنے باس کو گاڑی کا ٹائر پنکچرہو جانے کا بہانہ بنا کے مطمئن کریں تو اگلے دو سے تین دن کے اندر لازمی طور پر ٹائر پنکچر ہو جاتا ہے۔ 

۔ جب آپ کسی خفیہ ملاقات میں ہیں تو کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی جاننے والا ضرور آپ کو دیکھ لیتا ہے۔ 

۵۔ دوران کام اگر آپ کا دل گرم گرم چائے یا کافی کو چاہا رہا ہے اور گرم گرم کافی / چائے آپ کی ٹیبل پر پڑی ہو تو آپ کا باس عین اسی وقت آپ کو بلوائے گاک یا ٹیلیفون کرے گا تاوقتیکہ کافی/ چائے ٹھنڈی ہو جائے ۔ 

۔امتحان کے پرچے کو دیانتداری اور محنت سے حل کرنے پر ہمیشہ نقل شدہ جواب سے کم نمبر آتے ہیں۔ 

Tuesday, 14 January 2014

حضرت ابراہیم علیہ السلام


حضرت ابراہیم علیہ السلام
حضرت صالح علیہ السلام کے بعد ایک عرصہ طویل گزر گیا ۔ اس دور ان آپ کی نجات پانے والے نیکو کار ساتھیوں کی اولاد نے اس زمین کو خوب آباد کیا۔اللہ نے ان کو خوشحالی دی اور دجلہ فرات کی خوبصورت زمین بھی ان کے قبضے میں آئی۔ پھر تکبرّ اور مستی نے سر اٹھایا اور قوم شرک اور بت پرستی کی راہ پر چل پڑی۔ اس پر اللہ نے ان کی ہدایت کے لیے ان میں سے ایک بت گر آزر کے بیٹے ابراہیم کو مبعوث فرمایا۔ پیغمبروں کی تعلیم چونکہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اس لیے ابراہیم طبعاً بت پرستی سے بیزار تھے اور ایک اللہ واحد کی یکسوئی کے ساتھ بندگی کرنے والے تھے ۔ انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم کو سمجھانے کی کوشش کی۔ کہا ’’بتوں کو کیوں پکارتے ہو جو نہ سن سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں نہ کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان ۔ اپنے منہ پر بیٹھی مکھی کو بھی نہیں ہٹا سکتے۔ ان کے سامنے جو کھانے کی چیزیں پجاریوں نے رکھی ہیں ان میں سے مکھی کچھ اچک کر لے جائے تو وہ اس سے واپس نہیں لے سکتے۔‘‘ بت اس قدر بے اختیار تھے مگر اس بات کی سمجھ نہ ان کی قوم کوآ ئی نہ ان کے باپ کو۔انہوں نے اپنے باپ دادا کو جیسے دیکھا تھا ان کی پیروی میں بتوں ہی کی عبادت کرتے اور انہی سے مرادیں مانگتے رہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مختلف مجلسوں میں ا پنے باپ اور قوم کے دیگر بڑوں چھوٹو ں کو مضبوط دلیلیں دے کر سمجھایا کہ عبادت کے لائق صرف ایک اللہ کی ذات ہے جس کے سوا کوئی اور بندگی کے لائق نہیں۔ اللہ رب ہے ، خالق ہے ، مالک ہے، رازق ہے، زندگی ا ور موت اسی کے اختیار میں ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ، نہ ذات میں ، نہ صفات میں اور نہ ہی اختیارات میں ۔وہ ہر چیز پر قادر ہے، وہ شاہوں کو گدا کر دے ، گدا کو بادشاہ کر دے، اشارہ اس کا کافی ہے گھٹانے میں ، بڑھانے میں ، وہی تو واحدِ بے مثل ہے سارے زمانے میں۔ 
ایک دفعہ کا فر بادشاہ نمرود کے دربار میں ان کی پیشی ہوئی۔ بادشاہ اپنے آپ کو سلطنت کے غرور میں سجدہ کراتا تھا۔ ابراہیم علیہ السلام نے سجدہ نہ کیا۔ نمرود نے دریافت کیا تو فرمایا میں اپنے رب کے سوا کسی کو سجد ہ نہیں کرتا۔ اس نے کہا رب تو میں ہوں۔ انہوں نے جواب دیا حاکم رب نہیں ہوتا۔ رب وہ ہوتا ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے۔ نمرود نے دو قیدی منگوا کر بے قصور کو مار ڈالا۔اور قصوروار کو چھوڑ دیا اور کہا دیکھا میں جس کو چاہوں مار ڈالتا ہوں اور جس کو چاہوں زندہ رکھتا ہوں۔ اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ میرا رب سورج کو مشرق سے لاتا ہے تو اس کو مغرب کی طرف سے لاکر دکھا ۔ اس پر نمرود حیران ہو کر لاجواب ہو گیا۔ 
پھر ایک روز جب کسی سالانہ تہوار پر جو شہر سے باہر منایا جاتا تھاسب لوگ اس میلے میں شرکت کے لیے چلے گئے تو ابراہیم علیہ السلام نے بڑے بت خانے میں داخل ہو کر بتوں سے کہا کہ یہ چڑھاوے کی اتنی کھانے کی چیزیں تمہارے سامنے پڑی ہیں تم کھاتے کیو ں نہیں ۔ تم بولتے کیوں نہیں ہو۔ پھر انہوں نے کلہاڑا لے کر سب چھوٹے بتوں کولولا لنگڑا کر دیا ۔ کسی کا بازو کاٹا کسی کی ٹانگ کاٹی ، کسی کا کان کاٹا، کسی کی ناک کاٹی اور کلہاڑا بڑے بت کے کاندھے پر رکھ دیا۔ 
جب شہر کے لوگ میلے سے واپس آئے اور انہوں نے بت خانے میں اپنی مورتیوں کو شکستہ حالت میں دیکھا اور کلہاڑا بڑے بت کے کندھے پر لٹکا دیکھا تو ان کو اس گستاخانہ حرکت کرنے والے پر سخت غصہ آیا۔ تفتیش سے ان کو معلوم ہو گیا کہ یہ حرکت ابراہیم نے کی ہے۔ ان کو پکڑ کر لوگوں کے سامنے لایا گیا۔انہوں نے پوچھا۔ ابراہیم ! یہ ہمارے معبودوں کے ساتھ گستاخانہ حرکت تم نے کی ہے۔ انہوں نے کہا نہیں۔ پر یہ ان کے اس بڑے بت نے کی ہے، اس سے پوچھیں ۔پھر وہ سوچ میں پڑ گئے کہ واقعی ہم ہی بے انصاف ہیں جو ان بے جان بے اختیار بتوں کو پوجتے ہیں، مگر پھر شرمندگی مٹانے کے لیے بول پڑے کہ ابراہیم تو جانتا ہے کہ یہ بولتے نہیں ۔ اس بڑے بت سے کیا پوچھیں۔ اس پرابراہیم نے کہا کہ جب یہ تمہارا بھلا کر سکتے نہ برا ، نہ تمہاری پکار سن سکتے ہیں نہ جواب دے سکتے ہیں، نہ اپنی ہی حفاظت کر سکتے ہیں تو پھر ان کی پوجا کیوں کرتے ہو۔ میں تو ان سے بیزار ہوں۔ کیاتم کو سمجھ نہیں آتی ۔ اس پروہ روایتی غیرت کی وجہ سے اپنے معبودوں کی مدد یوں کرتے ہیں کہ اپنے بادشاہ نمرود سے شکایت کر کے ابراہیم کو آگ میں جلانے کا پروانہ حاصل کرتے ہیں ۔ پھر انہوں نے ایک بھیانک چتا جلا کر اس کے اندر ابراہیم کو پھینک دیا۔ مگر اللہ نے جو ہر شے پر قادر ہے آگ کو حکم دیا کہ ہمارے خلیل ابراہیم پر ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی والی بھی ہو جا یعنی اتنی زیادہ ٹھنڈی نہ ہونا جس سے ابراہیم کوتکلیف پہنچے۔
جب نمرود بادشاہ اور اس کی کافر رعایا کی تمام تدبیریں ابراہیم کے خلاف ناکام ہو گئیں تو ان کو جلا وطن کر دیا گیا۔ اللہ پاک کی مشیّت بھی یہی تھی کہ اس ناقدر شناس قوم کو کفر کے اندھیروں میں چھوڑ دیا جا ئے اور شام فلسطین کی مبارک زمین پر ابراہیم کے ذریعے توحید کا چراغ روشن کر کے وہاں کے لوگوں کو کفر کے اندھیروں سے نکالا جائے ۔ چنانچہ ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی سارہ اور بارہ تیرہ سالہ بھتیجے لوط کو لے کر اللہ کے حکم سے شام کی طرف روانہ ہو گئے۔ یہ ہجرت کا نہایت کٹھن اور طویل سفر ایک صنف نازک بیوی اور ناتوان بھتیجے کے ساتھ انہوں نے اس زمانے میں کیسے طے کیا ۔ اللہ ہی کی خصوصی مدد اور رہنمائی سے ممکن ہوا۔ سچ ہے عشق انسان سے وہ کام بھی کروا دیتا ہے جو عقلاً محال ہو تے ہیں۔ ابراہیم اپنے رب کے سچے عاشق تھے جن کو اللہ نے اپنا خلیل قرار دے کر رسولوں میں بلند مقام عطا کیا۔ شام میں کنعان نامی بستی میں ابراہیم علیہ السلام نے دعوت الی اللہ کا مرکز کھولا اور توحید کا پیغام لوگوں میں پھیلانا شروع کیا۔ جب بھتیجا لوط آپ کی شاگردی میں خوب سمجھ دار ہو گیا تو اس کو آپ نے خلیج عقبہ سے ملحق علاقے میں دعوت کا مرکز کھولنے کے لیے روانہ کر دیا اور خود اپنی زوجہ کو ساتھ لے کر مصر کا سفر اختیار کیا۔ وہاں کے بادشاہ کو دعوت الی اللہ کا پیغام دیا۔ اس نے آپ کی خوب تعظیم کی اور بہت سے تحائف دے کر رخصت کیا۔ آپ کی زوجہ حضرت بی بی سارہ کو ایک نہایت بلند مرتبہ حسین و فطین لڑکی جس کا نام ہاجرہ بی بی تھا بطور کنیز ہدیہ کی۔ واپس آ کر کنعان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تبلیغ کاکام اور زیادہ محنت سے شروع کیا۔ آپ حد درجہ مہمان نواز تھے۔ جب تک کوئی مہمان نہ ملتا خود کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھاتے تھے۔ آپ کے حسن خلق سے لوگ آپ کی دعوت پر لبیک کہنے لگے۔ مگر جہاں آپ کو رسالت کا فریضہ احسن طریقہ سے ادا کرتے ہوئے روحانی خوشی ہوتی تھی وہاں میاں بیوی کو اولاد سے محرومی کا غم بھی تھا۔ اگر چہ پیغمبر اپنے مولیٰ کی رضاپہ راضی ہوتے ہیں اور زبان پہ حرفِ شکایت نہیں لاتے تا ہم آپ کی زوجہ حضرت بی بی سارہ اولاد سے محرومی کی وجہ سے مغموم رہتی۔ پھر انہوں نے اپنی باندی ہاجرہ بی بی کو آزاد کر کے اس کو اپنے شوہر ابراہیم کے نکاح میں دے دیا اور اولاد کے لیے اللہ سے گڑ گڑا کر دعا کی۔ اللہ نے اپنے پیاروں کی دعاقبول فرمائی اور ان کے گھر اسمٰعیل بیٹے کی ولادت سے رونق بخشی ۔ مگر پھر اللہ کا ابراہیم کو حکم ہوا کہ اپنی بیوی ہاجرہ اور بیٹے اسمٰعیل کو مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ آؤ ، وہی وادی جہاں اللہ کا پہلا گھر بنا تھا۔ مگر گزری صدیوں میں زمین پر جو حادثے آئے تھے ان کے سبب سے ڈھے گیاتھا۔ یو ں حضرت بی بی سارہ کا گھر پھر بے رونق ہو گیا۔
ادھرجس بی بی ہاجرہ اور بچے اسمٰعیل کو مکہ کی وادی میں چھوڑا گیا تھا ان کا حال سنیں ۔ جب کھانے پینے کا سامان جو حضرت ابراہیم علیہ السلام بی بی ہاجرہ کے پاس چھوڑ گئے تھے ختم ہو گیا ستوؤں کاتھیلا خالی ہوگیا پانی کی چھاگل بھی خشک ہو گئی تو فاقوں کی نوبت آئی۔ ہاں ایک صرف اللہ تعالی کا مضبوط سہارا رہ گیاتھا جس کے بھروسے پر ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی اور بچے کو چھوڑ گئے تھے ۔ہاجرہ بی بی نے صبر سے کام لیا اور اللہ سے مدد مانگی ۔ مگرجب فاقے کی وجہ سے چھاتی کا دودھ سوکھ گیا اور بچہ بھوک سے بلبلا نے لگا تو ماں بے چین ہو کر پانی کی تلاش میں ادھر ادھر بھاگی ۔ پہلے ہاجرہ بی بی دائیں طرف صفا پہاڑی کی چوٹی تک گئیں، چاروں طرف نگا ہ کی مگر مایوسی ہوئی۔ پھر ادھر سے اتر کر بائیں طرف کی مروہ پہاڑی کی چوٹی پر جا کر ہر طرف دیکھا کہیں پانی نظر نہ آیا۔ پھر واپس صفا پہاڑی کی طرف گئیں ۔اس طرح انہوں نے دونوں پہاڑیوں کے درمیان سات چکر لگائے ۔ چکر کاٹتے ہوئے وہ دھیان اپنے بچے اسمٰعیل کی طرف رکھتیں کہ کہیں کوئی جانور اس کو نقصان نہ پہنچائے ۔ ساتویں چکر میں جب انہوں نے بچے کی طرف دیکھا تو انہیں چمکتا پانی نظر آیا۔ بھاگ کر پہنچیں تو دیکھا جہاں بچہ زمین پر ایڑیاں رگڑ رہا تھا وہیں سے پانی کاچشمہ ابل پڑا۔ آپ نے ادھر ادھر سے مٹی اکٹھی کر کے پانی کے گرد ایک منڈیر سی بنا ئی تاکہ پانی ادھر ادھر پھیل کر ضائع نہ ہو جائے۔ اور ساتھ ہی پانی کو حکم دیا زم زم یعنی رک جا۔ پانی منڈیر کے اندر رکتا رہا اوربجائے پھیلنے کے نیچے گہرائی میں کنویں کی صورت میں جمع ہوتا رہا اور اس روز سے آج تک یہ زم زم کا کنواں لاکھوں انسانوں کی ضرورت پوری کر رہا ہے۔ جوں جوں ضرورتمند انسانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے تو ں توں پانی کی مقدار بھی بڑھ رہی ہے اور اس کے اندر اتنے منرل ہیں کہ یہ نہ صرف پیاس بجھا تا ہے بلکہ غذا کا کام دے کر بھوک بھی مٹاتا ہے۔ اور دوا کا کام دے کر شفا بھی دیتا ہے۔ پس اللہ کا جتنا شکر کیا جا ئے کم ہے۔ 
اس زم زم کے کنویں کا دوسرا فائدہ یہ ہو اکہ تجارتی قافلے جو اس راستے سے گرمیوں میں شام کی طرف اور سردیوں میں یمن کی طرف جاتے ہوئے، قیام کیئے بغیر گزر جاتے تھے اب یہاں دو چار دن کے لیے رک جاتے ۔ جانوروں کو خوب پانی پلاتے ،خود ضرورت کے مطابق پانی استعمال میں لاتے اور کچھ راستے کے لیے ساتھ لے جاتے ۔ کچھ عرصہ کے بعد قبیلہ بنوجرھم کے سردار نے حضرت بی بی ہاجرہ سے اجازت لے کر چند گھرانوں کو وہاں آباد کر دیا ۔ یوں مکہ کی چھوٹی سی بستی وجود میں آئی۔ پھر اسی قبیلے کی ایک لڑکی حضرت اسمٰعیل جب جوان ہوئے تو ان کے نکاح میں آئی۔ 
ادھر حضرت ابراہیم علیہ السلام چند برس بعد اللہ کے حکم سے اپنی بیوی حضرت ہاجرہ اور بچے اسمٰعیل کا حال معلوم کرنے کے لیے شام سے چل کر مکہ کی اسی وادی میں پہنچے جہاں ان کو چھوڑ گئے تھے ۔وہاں پہنچ کر بیوی اور بچے کو اچھے حال میں دیکھ کر خوش ہوئے ۔ زم زم کے کنویں کی وجہ سے جو وہاں بنو جرھم کے چند گھروں کی آبادی سے چھوٹی سی بستی وجود میں آ گئی تھی اس کو دیکھ کر ان کو اور زیادہ خوشی ہوئی اور چند روز وہیں رک گئے۔ جب بیٹا اسمٰعیل باپ کے ساتھ دوڑنے اور چھوٹے موٹے کاموں میں مدد دینے کے قابل ہو گیا تو اللہ پاک نے ابرہیم کاامتحان لینے کے لیے ان کو ایک خواب میں اپنے اس بیٹے کو ذبح کرنے کاحکم دیا اور یہ خواب انہوں نے تین شب متواتر دیکھا۔حضرت ابرہیم علیہ السلام اپنے طور پر حکم ماننے کو فوراً تیار ہو گئے اور پھر اپنا خواب بیٹے کو سنایا یہ معلوم کرنے کو کہ آیا خوشی سے آمادہ ہوتا یا زبر دستی کرنی پڑے گی۔ بیٹے نے بلا تکلف قبول کیا اور کہا ابا جان جو مالک کا حکم ہو کر ڈالیئے ۔ میں انشاء اللہ صبر کرنے والا ہو ں گا۔ پس جب باپ بیٹا دونوں نے اللہ کا حکم خوشی سے مان لیا او ربیٹے کو ماتھے کے بل ذبح کرنے کے لیے لٹایا۔ (ماتھے کے بل اس لیے تاکہ بیٹے کا چہرہ سامنے نہ ہو مباد ا محبتِ پِدری جوش مارنے لگے۔ کہتے ہیں یہ بات بھی بیٹے نے باپ کو سکھلائی ۔) اس وقت اللہ نے پکارا اے ابراہیم !بس بس، رہنے دے، تو نے خواب سچا کر دکھایاہے۔ مقصود بیٹے کو ذبح کرانا نہیں تھا محض تیرا امتحان منظور تھا سو اس میں تم پوری طرح کامیاب ہوئے ہو۔ بیٹے کے بدلے میں اللہ پاک نے بہشت سے بڑے درجے کا نہایت قیمتی جانور لاکر حضرت ابراہیم کے ہاتھوں ذبح کرایا۔اور پھر یہی قربانی کی رسم اسمٰعیل علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد گار کے طور پر مسلم امت میں ہمیشہ کے لیے قائم کر دی گئی۔ 
کہتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی کے ہمراہ اپنے بیٹے اسمعٰیل کو ذبح کرنے کے لئے لے جارہے تھے تو شیطان نے پہلے باپ سے کہا کہ بیوقوف نہ بن خواب خواب ہوتا ہے۔اپنے لاڈلے بیٹے کو جو تمہیں بڑھاپے میں ملا اس کو ذبح نہ کر۔ آپ نے اس کی بات نہ مانی اور کنکر مار کر اسے بھگا دیا۔ پھر اس نے بی بی ہاجرہ سے کہا کہ تو کیسی ماں ہے تیرے بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے لے جا رہا ہے تیرا شوہر پاگل پن میں ،تو احتجاج بھی نہیں کرتی۔ اس بی بی نے بھی اس کی بات نہ مانی اور اس کو کنکری مار کر بھگا دیا۔ پھر شیطان نے بیٹے کو بھڑکا یا کہ ظالم باپ کے سامنے ذبح ہونے سے انکار کر دے۔ اس فرزندِ ارجمند نے بھی شیطان کو کنکری مار کر بھگا دیا کہ جا خبیث ، ہم باپ بیٹا اللہ کا حکم خوشی سے مان رہے ہیں۔ ان تینوں کی اطاعت گزاری میں استقامت کی اللہ پاک نے ایسی قدر کی کہ حاجیوں پر شیطان کے تین جمعرات پر سات سات کنکریاں مارنا واجب قرار دے دیا۔جس کے بغیر حج مقبول نہیں ہوتا۔ اسی طرح بی بی ہاجرہ کے پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ پہاڑیوں کے درمیان دوڑ کے سات چکروں کی یوں قدر فرمائی کہ حج اور عمرہ ادا کرنے والوں پر صفا اور مروہ پہاڑیوں کے درمیان سات چکر لگانا فرض قرار دیا اور دونوں پہاڑیوں کو شعائر اللہ کا درجہ عطا فرمایا۔ پس ابراہیم، آپ کی زوجہ ہاجرہ بی بی اور بیٹے اسمٰعیل پر سلام ہو اور رحمتیں ہوں۔ 
اس امتحان میں کامیابی کے بعد ابراہیم علیہ السلام واپس کنعان چلے جاتے ہیں جہاں ان کی فرمانبردار بیوی سارہ ان کا شدت سے انتظار کر رہی تھی۔ پھر ایک روز اچانک دس نوجوان آپ کے گھر وارد ہوئے ۔ان کو وارد ہونے والے نوجوان اجنبی معلوم ہوئے ۔تاہم چونکہ آ پ حد درجہ مہمان نواز تھے اس لیے علیک سلیک کے بعد فوراً ان کی مہمانی کا اہتمام کیا اور ایک بھُنا ہوا بچھڑا لے آئے اور کھانے کے لیے پیش کیا۔ مہمانوں نے ہاتھ نہ بڑھایا تو ابراہیم ان کے ڈر سے گھبرائے کیونکہ اجنبی مہمان کھانا نہ کھائے تو اس سے دشمنی کا اندیشہ ہوتا ہے۔ مگر مہمانوں نے کہا آپ ڈریں مت ہم تو فرشتے ہیں اور ایک ہوشیار لڑکے کی آمد کی ان کو خوشخبری دی۔ ان کی عورت بی بی سارہ ایک گوشہ میں کھڑی سن رہی تھیں ، بشارت سن کر چلائیں تعجب سے پیشانی پر ہاتھ مارکر کہنے لگیں کہ کیا خوب ! ایک بڑھیا بانجھ جس کے جوانی میں اولاد نہ ہوئی اب بڑھاپے میں ایک بیٹے کو جنم دے گی؟فرشتوں نے جواب دیا’’ ہم اپنی طرف سے نہیں کہہ رہے بلکہ تیرے رب نے ایسا ہی فرمایا ہے۔ وہی جانتا ہے کس کوکس وقت کیا چیز دینی ہے۔ پھر آپ نبوت کے گھرانے والے ہو کر اس بشارت پر تعجب کرتی ہیں۔ یہ لڑکااسحق علیہ السلام ہیں جن کی بشارت ماں باپ دونوں کو دی گئی۔ یوں اللہ پاک نے اس نبوت والے گھر میں پھر بہار کھلا دی۔حضرت بی بی سارہ کی دلجوئی بھی ہو گئی اور ان کو اسحق کے بعد پوتے یعقوب کی بھی بشارت دی گئی جن کا لقب اسرائیل یعنی اللہ کا بندہ تھا۔ اور اس پوتے کی اولاد بارہ بیٹوں سے آگے بنی اسرائیل کے بیشمار نبی حضرت عیسٰی علیہ السلام تک آئے ۔ان میں سے بعض نبیوں کا قصہ آگے زمانی ترتیب سے بیان کیا جائے گا۔اس وقت ابرہیم علیہ السلام کے مکہ کی وادی کے آخری سفر کا حال بیان کیاجاتا ہے۔ آپ نے اسمٰعیل کے ذبح کے واقعہ کے بعد تین اور سفر اس وادی کے اپنی بیوی ہاجرہ اور بیٹے اسمٰعیل کے احوال معلوم کرنے کی غرض سے اختیار کیئے۔ آخری سفر میں جب حضرت اسمعٰیل پوری طرح جوا ن ہو چکے تھے تو اللہ پاک نے ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ میر ے سب سے پہلے گھر کی بنیادوں پر باپ بیٹا مل کر نئی تعمیر کرو۔ سو باپ بیٹا بیت اللہ یعنی خانہ کعبہ کی تعمیر میں لگ گئے اور ساتھ ساتھ دعا کرنے لگے کہ اے ہمارے پرودرگار ہم کو اپنا حکم برداربنا اور ہماری اولاد میں بھی ایک جماعت اپنی فرمانبرد اربنا، ہمیں حج کے قاعدے بھی بتا اور ہماری خطائیں بھی معاف فرما۔ اور اس امت میں انہیں میں سے ایک رسول اٹھا جو ان کو آپ کی آیتیں یعنی احکام پڑھ کر سنائے، ان کو کتاب یعنی قرآن کے علوم سکھائے ، حکمت کی باتیں سکھائے اور کفر کی پلیدگی سے نکال کر ایمان کی پاکیزگی سے انہیں سنوارے۔ 
جب کعبہ کی تعمیر مکمل ہو گئی تو اللہ پاک نے ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ اب تو لوگوں کو حج کے لیے پکار۔ اس حکم کی تعمیل میں آپ نے اذان دی اور اللہ کے حکم سے قیامت تک حج کی سعادت حاصل کرنے کے لیے آنے والوں کی روحوں نے یہ اذان دل کے کانوں سے سنی اور اپنے اپنے وقت پر حج کی ادائیگی کے لیے آتے رہے ہیں اور آتے رہیں گے۔ اور دنیا اور آخرت کی بھلائیاں اللہ کے گھر میں حاضر ہو کر مانگتے رہیں گے اور فیضیاب ہوتے رہیں گے ۔ فالحمد اللہ رب العالمین۔
نوٹ: ۔ابراہیم علیہ السلام نے جس پتھر پر کھڑے ہو کر اذان دی تھی اس پر اللہ کے حکم سے ان کے پیروں کے نقش جم گئے اور وہ پتھر آج بھی بیت اللہ میں موجود ہے اسی جگہ پر امام صاحب کھڑے ہو کر نماز پڑھاتے اور طواف کے خاتمے پر ہر حاجی اسی جگہ دو نفل ادا کرتا ہے۔

Monday, 13 January 2014

How to Teach the Children


بچوں کی تربیت کیسے کی جائے؟
بچے معصوم ہوتے ہیں اور وہی کچھ سیکھتے ہیں جو ہم انہیں سکھاتے ہیں۔ غذا ان کے لیے بہت اہم ہے ۔ کھانے میں غذائیت کے ساتھ محبت اور ممتا 
بھی شامل ہو تو بچے جلد پروان چڑھتے ہیں۔ 
بچے کو کھانے کا عادی بنائیں۔ جنک فوڈز سے احتیار کریں بلکہ کے کھانوں میں ذائقہ اور ممتاکی مہک شامل کریں۔ 
مثلاً آج کل کے یہ مسائل اہم ہیں ۔کیا کروں میرا بچہ ٹھیک سے کھانا نہیں کھاتا؟ بس چاکلیٹ اور ٹافیاں ہی کھاتا رہتا ہے ۔ یہ آج کل کے ماؤں کا ایک بڑا مسئلہ ہے کہ ان کا بچہ کچھ کھاتا ہی نہیں ۔ اپنے بچے کے ہاتھوں بہت پریشان رہتی ہیں کہ نہ تو ان کے بچے وقت پر کھاتے ہیں نہ ہی غذائیت سے بھر پور غذا لیتے ہیں ۔ یا د رکھیں اس میں بچے سے زیادہ قصور آپ کا اپنا ہے۔ 
بہت سی مائیں اپنے بچوں کو چند مخصوص اشیاء جیسے چپس ، انڈے، سینڈ وچ، برگر وغیرہ تک ہی محدود رکھتی ہیں اور انہیں سبزیوں ، دال ،روٹی اور چاول وغیرہ کی عادت نہیں ڈالتیں۔ بچے کو غذائیت سے بھر پور غذا کھانے کی عادت ڈالنے کے لیے آپ کو بدلنا ہو گا۔ اگر آپ خود ہی سبزیوں اور دالوں سے جان چھڑائیں گی تو بچے پر اس کے منفی اثرات مرتب ہونگے ۔ ایسی ماؤں کے بچے بھی ہر کھانے پے تنقید کرنے لگتے ہیں ۔ بچے کو ابتداء ہی سے تمام چیزیں کھانے کا عادی بنائیں ۔ ماں کو چاہیے کہ وہ دسترخوان پر رکھی چیزیں باری باری چکھے ۔ اپنی پلیٹ صاف کرے اور کھانے کے دوران سلیقہ مندی کا مظاہرہ کرے۔ اس طرح بچے میں نہ صرف کھانے کے آداب پیدا ہونگے بلکہ وہ تمام چیزیں شوق سے کھانے لگیں گے ۔ کھانا آرام سے بیٹھ کر کھانے کی عادت ڈالیں۔ بہت سی مائیں اپنے بچوں کو بھوک لگنے پر بسکٹ یا چاکلیٹ وغیرہ دے دیتی ہیں ایسا کرنے سے بچے غذائیت بخش کھانے کے عادی نہیں ہوتے بلکہ بھوک لگنے پر ایسی اشیاء پر گزارہ کر لیتے ہیں جو ان کے لیے مختلف بیماریاں لے کر آتی ہیں۔ بہت سی مائیں اپنے بچوں کے زیادہ کھانے سے فکر مند رہتی ہیں کہ کہیں وہ موٹاپے کا شکار نہ ہوجائیں ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جب بچے کو بھوک لگے تو اسے غذائیت بخش غذا دی جائے اور کھانے کے درمیان چاکلیٹ، ٹافیاں یا چپس دینے کے بجائے دودھ یا فریش جوسز دیئے جائیں یا پھر کوئی پھل کھلوایا جائے۔ 
ماہرین صحت کا خیال ہے کہ تمام بچوں کی بھوک کا معیار اور ان کی پسند و ناپسند ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے کیوں کہ تمام بچوں کی جسمانی ضروریات علیحدہ ہوتی ہیں ۔ اس لیے اپنے بچے کی عادت سمجھ کر اس کے کھانے کی عادت کو پروان چڑھائیں۔ اکثر مائیں وقت کی کمی یا پھر جدید طرز زندگی اپنانے کی وجہ سے بچوں کو جنک فوڈز کا عادی بنا دیتی ہیں جسکی وجہ سے بچے گھر کا کھانا، کھانے میں رغبت کا مظاہرہ نہیں کرتے اور ان کی صحت بھی بہتر نہیں ہو پاتی۔ بنیادی طور پر جنک فوڈز موٹاپے اور مختلف قسم کی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں ۔ ماضی میں مائیں اپنے بچوں کو گھر میں ہی مزے مزے کے پکوان کھلا کر پالتی تھیں ۔ اس سے نہ صرف بچوں کی صحت قابل رشک ہوتی تھی بلکہ وہ ساری عمر ماں کے ہاتھوں کا ذائقہ کبھی فراموش نہیں کرپاتے تھے۔ آج کل کی زندگی نے جتنی تیزی سے آسانیاں پیدا کی ہیں وہیں بہت سی خوبصورت باتوں کو ماضی کا حصہ بنا دیا ہے۔ جن میں ماں اور بچے کا رشتہ بھی ہے ، جس میں مائیں پہلے بچوں کو کھلانے کے لیے ہزار جتن کرتی تھیں مگر اب ہر چیز ریڈی میڈ ملتی ہے اور ان بازاری چیزوں میں محبت اور پیار بلکل ختم ہو کر رہ گیا ہے یہی وجہ ہے کہ بچے اب کھانے میں دلچسپی نہیں لیتے اور مختلف قسم کی بازاری برانڈڈ اشیاء سے اپنا پیٹ بھر لیتے ہیں۔ 
اسکول کے لنچ بکس میں بھی بہت ہی کم مائیں ہیں جو گھر میں تیار کی گئی چیزیں رکھتی ہیں زیادہ تر بیکری کے آئٹمز یا چپس کے پیکٹ دے کر جان چھڑا لیتی ہیں۔ اس سے بھی بچوں کی بھوک مر جاتی ہے ضروری ہے کہ بچوں کی پسند کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے انہیں کھانا بنا کر کھلائیں اور چند چیزوں پر اکتفا کرنے کے بجائے انہیں ہر چیز کھانے کی عادت ڈالیں۔ اپنے ہاتھ سے بنائے گئے کھانوں سے بچوں کی صحت بھی بہتر رہتی ہے اور ان میں ماں کے لیے محبت بھی بڑھتی ہے اور دونوں ماں بچے کے درمیان ایک مضبوط رشتے کا بھی آغاز ہو جاتا ہے ۔ ممتا کی مہک اور لذت وہ ساری زندگی یاد رکھتے ہیں اور ان میں ماں کے لیے احساس بھی پیدا ہوتا ہے کہ ان کی ماں کتنی محنت اور محبت سے کھانے تیار کرتی ہے۔ 
بچے لازمی طور پر کھانے کے عادی بنیں گے بس آپ کو ذرا سی محنت اور توجہ کرنی پڑے گی۔ اور ابتداء میں بچے کو مختلف کھانے پکا کر کھلانے ہونگے اور جب آپ جان لیں کہ آپ کا بچہ کون سی ڈش شوق سے کھاتا ہے تو آئندہ کے لیے آسانی ہو جائے گی ۔ ایک ماں ہونے کی حیثیت سے یہ آپ کے لیے آسان کام ہے ۔ ایک کوشش یہ بھی کرنی ہو گی کہ بچے کو زیادہ سے زیادہ گھر کے کھانے کی عادت ڈالیں ۔ اس کے لیے آپ کو اپنے ریفریجریٹر میں بہت سی چیزیں بنا کررکھنی ہونگی تاکہ بچے کو بھوک لگنے کی صورت میں فوری دے سکیں۔ اس طرح بچے جنک فوڈز کی عادت سے بھی جان چھڑا پائیں گے اور ان کی صحت میں بھی نمایاں فرق آئے گا۔ بچے کی اچھی صحت کا یہ فرق بھی آپ کووقتاً فوقتاً نظرآتا رہے گا۔ 
یاد رکھیں آج ہم جو کچھ بچے کو دیں گے کل وہ ہمیں وہی لوٹائے گا فیصلہ آپ پر ہے۔ آج کی تھوڑی سی محنت جہاں کی عادتوں اور صحت میں بہتری لائے گی وہیں کل آپ کے لیے بھی ان کا پیار اور خیال بڑھے گا اور انہیں بچپن کی ہر بات یہ یاد دلائے گی کہ آپ نے ان کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ اس رشتے کو اپنی توجہ اور ممتا سے اٹوٹ بنا دیں ۔ آج ہی سے اپنے بچے کی غذائی عادات پر بھر پور توجہ دیں اور انہیں صحت کے معیار کے پر پورا کرنے کی دل سے کوشش کریں۔