Monday, 6 January 2014

Malala Yousafzai


ملالہ یوسف زئی کون ہے؟
ملالہ جولائی 1997میں سوات کے ایک پشتون گھرانے میں پیدا ہوئی۔ بچپن میں اسے سوات کے ہی ایک مقامی سکول میں داخل کروایا گیا۔ جب وہ بارہ برس کی ہوئی تو اس کی زندگی میں ایک ناقابل فراموش واقعہ پیش آیا۔ 2009ء میں سوات میں طالبان کی کاروائیاں زور وں پر تھیں۔ طالبان سوات میں لڑکیوں کے سکول جلا رہے تھے۔ ان حالات میں BBC کو سوات کی کسی مقامی لڑکی سے ڈائری لکھوانا تھی جس میں وہ طالبان کے خلاف اور لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں کچھ باتیں نارمل انداز میں کر سکے۔ اس مشن کی تکمیل کے لیے BBCکے ایک مقامی رپورٹر جن کا تعلق بھی اسی قبیلے سے تھا اس نے یہ ذمہ داری لی اور اس کی ملاقات سوات میں لڑکیوں کا سکول چلانے والے ضیاء اللہ نامی ایک شخص سے ہوئی۔ رپورٹر نے ان کے سامنے اپنا مسئلہ بیان کیا۔ تو انہوں نے کہا یہ کام میری بیٹی کر سکتی ہے۔ دونوں کے درمیان یہ طے پایا کہ رپورٹر ملالہ سے ملاقات کرے گا اس سے باتیں کرے گا اور وہ اسے ڈائری کے طور پر لکھ کر BBCکو بھیجے گا۔ رپورٹر ملالہ کی ڈائری لکھنے مینگورہ جاتا، ملالہ سے باتیں پوچھی جاتیں اور انہیں تحریر میں لا کر (گل مکئی) کے نام سے BBCمیں شائع کیا جاتا۔ ان ڈائریوں میں طالبان کے خلاف زہر اگلا جاتا جس پر طالبان سیخ پا تھے چنانچے انہوں نے ملالہ کو ٹھکانے لگانے کا فیصلہ کر لیا۔ 9اکتوبر 2012کو طالبان نے ملالہ کی سکول وین پر فائرنگ کی۔ جس کے نتیجے میں ایک گولی ملالہ کے سر میں لگی جبکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کی دیگر دو کلاس فیلو بھی زخمی ہوئیں۔ ملالہ کو نازک حالت میں ہسپتال داخل کروایا گیا کئی روز تک ملالہ کو ہوش نہ آیا بعد میں صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری کی درخواست پر متحدہ عرب امارات کی حکومت نے خصوصی ایمبولینس بھجوائی اور اسے برطانیہ کے ملکہ الزبتھ ہسپتال برمنگھم میں منتقل کر دیا گیا۔ جہاں وہ موت و حیات کی کشمکش میں رہنے کے بعد دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ آئی۔ 

برطانیہ منتقلی کے بعد ملالہ کی ذمہ داری مختلف مغربی اداروں نے سنبھال لی جسے Malala Inc. کا نام دیا گیا۔ ملالہ کی تشہیر کی ذمہ داری ایڈلمان نے لے لی۔ جس کی مدد سے اخباری خبریں تواتر سے مغربی ابلاغ میں شائع ہوتی رہیں۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان میں ملالہ کے بارے میں متضاد آراء پائی جاتی ہین۔ ایک طبقہ ملالہ کو جرات و بہادی کی علامت قرار دیتا ہے وہ طبقہ جو خواتین کی آزادی اور تعلیم کے حق میں ہے وہ اسے اپنا ہیرو مانتا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ملالہ معصوم ہے علم حاصل کرنا ہر مرد و عورت پر فرض ہے۔ یہ اس کا بنیادی حق ہے۔ ملالہ نے طالبان کے خلاف علم بلند کر کے طالبان کے بھیانک روپ کو دنیا پر اجاگر کیا۔ ملالہ خواتین کی علمبردار ہے وہ انسانی حقوق کی Championہے ۔ مگر اس کے باوجود دوسرے طبقے کے لوگوں کا خیال ہے کہ ملالہ ایک من پسند کردار ہے۔ اسے ایک خاص مقصد کے تحت اتنی اہمیت دی جا رہی ہے۔ یہ مغربی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ ناقدین ملالہ کے نظریات کو بنیاد بنا کر اسے مغربی ایجنٹ قرار دے رہے ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب وزیر اعظم پاکستان کو امریکی صدر سے ملاقات نہیں مل پاتا ایسے وقت میں باراک اوباما ملالہ یوسفزئی کو 35منٹ کا وقت دے دیتا ہے۔ آخر اس کے پیچھے کیا عوامل ہیں۔ ملالہ کو اقوام متحدہ میں خطاب کا موقع مل جاتا ہے ، نوبل انعام کیلئے نامزدگی ہو جاتی ہے ، عالمی اعزاز امن برائے اطفال پاکستان قومی اعزاز براہے امن، سکاٹ لینڈ کی ایڈن برگ یونیورسٹی سے اعزازی ماسٹر کی ڈگری اسے اعزازی شہریت مل جاتی ہے یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر بننے والی لڑکی اب وزیر اعظم پاکستان بننے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ یہ سب بیرونی ایجنڈے کے ذریعے ہو رہا ہے۔ بہر حال ان سب نظریات کا فیصلہ تاریخ ہی کرے گی کہ کیا آیا ملالہ یوسفزئی کو جان بوجھ کر متنازع بنایا جا رہا ہے یا پھر واقعی اس کے پیچھے مغربی ہاتھ ہے۔

No comments:

Post a Comment