Tuesday, 28 January 2014

بنی اسرائیل کی ناشکری اور بغاوت کا بیان


بنی اسرائیل کی ناشکری اور بغاوت کا بیان

فرعون کی قبطی قوم اپنی سرکشی کے باعث ہلاک ہوئی۔ مگر قوم بنی اسرائیل بھی طویل غلامی کی زندگی گزارنے کے باعث اخلاقی طور پر بہت گر چکی تھی۔ اس کے جرائم بھی کم نہ تھے۔ ایک طرف تو موسٰی علیہ السلام کی برکت سے ان پر طرح طرح کے انعام ہوئے جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔
ا۔ فرعون کی ذلت آمیز غلامی سے انہیں نجات ملی۔ ۲۔ سمندر پار کرنے کے لیے ان کے واسطے خشک راستے نمودار ہوئے۔ ۳۔ صحرائے سینا میں دھوپ سے بچاؤ کے لیے انہیں بادلوں کا سایہ ملا۔۴۔ پھر ان کے لیے علیحدہ علیحدہ پانی کے بارہ چشمے جاری کیئے گئے ۔۵۔ کھانے کے لیے آسمان سے ان کے لیے من اورسلویٰ اتارا گیا۔
چاہیے تو یہ تھا کہ ان انعامات کا شکر ادا کرتے اور دل و جان سے موسٰی علیہ السلام کی رہنمائی میں اللہ کی بندگی اور اطاعت میں لگے رہتے مگر انہوں نے قدم قدم پر نافرمانی کی اور بعض اوقات گستاخی کی آخری حد کو پہنچ گئے ۔ مثلا جب موسٰی ٰ علیہ السلام کو ہ طور پر آسمانی کتاب توراۃ لینے کے لیے گئے او ر پیچھے اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو قوم کی نگرانی سپرد کر گئے تو قوم نے بچھڑ ے کی عبادت کرنا شروع کر دی۔ موسٰی علیہ السلام تختیوں پہ لکھی توراۃ لے کر واپس آئے تو غصے میں بھائی کو سرکے بالوں سے پکڑا اور کہا جب قوم گمراہ ہو رہی تھی تو آپ نے ان کو روکا کیوں نہیں ۔ انہوں نے کہا میں نے انہیں بہت سمجھایا کہ تمہارا رب رحمن ہے میری بات مانو اور اسی کی بندگی کرو مگر وہ نہ مانے اور کہنے لگے ہم توموسٰی کے واپس آنے تک اسی بچھڑے کی بندگی میں لگے رہیں گے۔ اور ہارون علیہ السلام کو قتل کرنے کو بھی آمادہ ہو گئے تھے۔ ہارون علیہ السلام نے یہ بھی عذر پیش کیا کہ میں قوم کو تقسیم نہیں کرنا چاہتا تھا۔اس پر موسٰی علیہ السلام نے بھائی کو چھوڑ کر جادو گر سامری کو سختی سے پوچھا تو نے یہ بچھڑا بنا کر قوم کو اس کی بندگی پر کیوں لگایا؟ آخر کیوں ؟ اس نے کہامیں نے جبرائیل علیہ السلام کے گھوڑے کے سموں کے نشان سے مٹی اٹھا کر سونے سے گھڑے بچھڑے کے اندر ڈالی تو اس مٹی کی برکت سے بچھڑا بیل کی آواز نکالنے لگاسو اس تدبیر سے جو مجھے سوجھی تھی قوم کو میں نے اس طرف لگایا۔موسٰی علیہ السلام نے اس بچھڑے کو اللہ کے حکم سے جلا کر اس کی راکھ دریا میں بہا دی ۔ اور کہا تم سب کا ایک اللہ ہی معبود ہے اس کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں۔ 
پھر اللہ کے حکم سے موسٰی علیہ السلام قوم کے ستر سرداروں کو معافی مانگنے کے لیے طور پر لے گئے۔ وہاں انہوں نے پھر گستاخی سے کہا ہم تو اللہ کو سامنے دیکھ کر مانیں گے۔ اللہ نے ان سب کو ایک بجلی کی کڑک سے ہلاک کر دیا۔موسٰی علیہ السلام کی دعا سے ان کوپھر زندہ کیا اور سختی سے توراۃ کتاب کی آیات کے مطابق عمل کرنے کا ان سے عہد لیا۔ 
مگر نافرمانی اور گستاخی سے قوم پھر بھی باز نہ آئی ۔ ایک دفعہ انہوں نے شکایت کی ہم ایک قسم کے کھانے من و سلویٰ سے اکتا گئے ہیں ہمیں زمینی پیدا وار از قسم ترکاری، ککڑی ، گہیوں ، مسور اور پیاز وغیرہ دیں۔ اللہ نے حکم دیا کہ پھر کسی شہر میں جاؤ ۔ وہاں یہ چیزیں ملیں گی۔ اور سجدہ کر تے ہوئے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے شہر میں داخل ہو نا ۔مگر وہ جھکنے کی بجائے اکڑ کر یا پھسل کر اور شکر کا کلمہ ادا کرنے کی بجائے گیہوں کہتے ہوئے شہر میں داخل ہوئے اس پر اللہ نے اس حکم عدولی کی سزا کے طورپر آسمان سے ان پر عذاب نازل کیا جس کی تفسیر یوں بیان کی گئی ہے کہ ان پر طاعون بیماری کاحملہ ہوا اوردنوں میں ان کے ستر ہزار افراد ہلاک ہو گئے۔ 
پھر اللہ پاک نے ان کو ایک برکت والے علاقے پر تسلط کی بشارت دیتے ہوئے حکم دیا کہ فلاں شہر سے جہاد شروع کرو تو انہوں نے موسٰی علیہ السلام سے کہا وہاں تو بڑے جنگجو بہاد ر لوگوں سے واسطہ پڑے گا۔ آپ خود جائیں آپ اور آپ کا رب لڑیں ،ان جنگجوؤں کو شکست دے کر شہر سے نکالیں پھر ہم اس شہر میں داخل ہوں گے۔ اس پر اللہ نے ان پر شہر کی متمدن رہائش حرام کر دی اور چالیس سال تک اسی صحرائے سینا میں بھٹکتے رہے ۔ یہاں تک کہ اس وقت کے تمام بالغ افراد ان چالیس سالوں میں مر گئے۔ موسٰی علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام بھی وفات پا گئے۔ پھر ان کے خلیفہ حضرت یوشع علیہ السلام کی رہنمائی میں بنی اسرائیل کی نئی نسل نے بڑوں کی غلطیوں سے سبق حاصل کر کے خلوصِ نیت کے ساتھ جہاد قتال کے احکام کی تعلیم کی اور اللہ نے پھر ان پر حکومت کا دروازہ کھولا اور پھر وہ شہر بہ شہر فتح کرتے گئے۔ ان کا آخری معرکہ جالوت بادشاہ سے ہوا جو داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں ما را گیا اور اس کی وسیع سلطنت پر بنی اسرائیل کا قبضہ ہو گیا۔ بنی ا سرائیل کی نبوت اور حکومت کا شاندار سنہری دور وہی تھا جب داؤد علیہ السلام اور ان کے صاحبزادے سلیما ن علیہ السلام کی عادلانہ سلطنت نے تمام دنیا سے خراج تحسین وصول کیا۔ 

No comments:

Post a Comment