ماں کی خدمت کے حوالے سے
دنیا کا ایک انوکھا مقدمہ

ہوا یوں کہ حیزان الفہیدی اپنی ماں کا بڑا بیٹا تھا۔ یہ سارا وقت ماں کی خدمت میں صرف کرتا تھا حیزان کی ماں ضعیف العمر اور مجبور عورت تھی۔ ماں کی کل ملکیت پیتل کی ایک انگوٹھی تھی لیکن اس کے باوجود یہ دونوں ماں بیٹا ہنسی خوشی رہ رہے تھے۔ اسی دوران جب ایک دن جھوٹے بھائی نے شہر سے آ کر بڑے بھائی سے مطالبہ کیا کہ وہ ماں کو اپنے ساتھ شہر لے کر جانا چاہتا ہے۔ بڑے بھائی کو یہ مطالبہ پسند نہ آیا اور اس نے چھوٹے بھائی کو سختی سے منع کیا کہ وہ اسے کبھی بھی ایسا نہیں کرنے دے گا۔ ابھی اس میں اتنی ہمت اور استطاعت کہ وہ ماں کی خدمت اور دیکھ بھال کر سکے۔ چھوٹا بھائی ضد پر آگیا اس نے بھی فیصلہ سنا دیا کہ وہ ماں کو ہر صورت ساتھ لے کر شہر جائے گا۔ تو تو میں میں بڑھی ،تو چھوٹا بھائی عدالت پہنچ گیا اس نے بڑے بھائی کے خلاف عدالت میں پرچہ کٹوا دیا۔ عدالت نے پہلے دونوں بھائیوں کو بلایا اور دونوں کے درمیان معاملے کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرنے کا کہا لیکن دونوں اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ چنانچہ عدالت کو ان کی ماں کو طلب کرنا پڑا۔ ماں بھی کوئی فیصلہ نہ کرسکی تو عدالت نے چھوٹے بھائی کی مالی پوزیشن دیکھتے ہوئے اس کے حق میں فیصلہ سنا دیا کہ وہ ماں کو زیادہ خوش رکھ سکے گا۔ اس فیصلے کا سننا تھا تو حیزان نے بھری عدالت میں دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا۔ اس کو جج سے گلہ تھا بھائی سے شکوہ تھا اور نہ ہی ماں سے کوئی شکایت تھی بلکہ اس کو توصرف اپنے مقدر پر اعتراض تھا۔ وہ چیخ رہا تھا کہ آخر میں اپنی ماں کی خدمت کرنے پے قادر کیوں نہیں؟؟۔ آخر وہ کون سی خوشی ہے جو میں ماں کو نہیں دے سکتا لیکن بھری عدالت میں کوئی شخص بھی اس کے اس سوال کا جواب نہ دے سکا۔ ہر ایک کی آنکھیں بیٹے کی ماں سے محبت پر تر تھیں۔ ہر حلق میں محبت پھندا بن کر اٹکی تھی۔ اوربڑے بھائی کے کلیجے سے نکلتی آہیں عرش کو ہلا رہی تھیں اور فرش والوں کو جھنجھور رہی تھیں۔
No comments:
Post a Comment