Monday, 6 January 2014

Decision in Respect of Mother


ماں کی خدمت کے حوالے سے 
دنیا کا ایک انوکھا مقدمہ 

سعودی عدالت کے کٹہرے میں دو بھائی آمنے سامنے کھڑے تھے ، دونوں اپنے اپنے دلائل دے رہے تھے ۔ عدالت کافی دیر تک دونوں بھائیوں اور ان کے وکلاء کے دلائل سنتی رہی جب دلائل کا سلسلہ رکا تو عدالت میں یکدم خاموشی چھا گئی ۔ عدالت میں موجود ہر شحص فیصلہ سننے کے لیے بے تاب تھا۔ ایک ایسا فیصلہ کہ جو شائد ہی تاریخ میں کسی عدالت نے سنایا ہو۔ قاضی چند لمحے خاموش رہا اور اس بعد دھیمے لہجے میں بولا۔ ان کی ماں کو پیش کیا جائے۔ عدالتی ہرکاری آگے بڑھے ،پچھلی نشست پر بیٹھی ایک ڈھانچہ نما بڑھیا کو سہارا دیا اور ججکے سا منے پیش کر دیا۔ جج نے پوچھا ، جی مائی جی۔ آپ کیا کہنا چاہتی ہیں ۔ اماں جی نے ڈرتے ہونٹوں سے عرض کی ۔ جناب جج صاحب۔ یہ دونوں میرے بیٹے ہیں یوں سمجھ لیں کہ اگر ایک میری دائیں آنکھ ہے تودوسرا میری دوسری آنکھ ہے۔ یہ دونوں میرے دل کے ٹکڑے ہیں۔ جناب جج صاحب میں یہ فیصلہ نہیں کر سکتی۔ عدالت جو فیصلہ دے گی وہ مجھے منظور ہو گا۔ جج یہ سن کر گہری سوچ میں پڑھ گیا۔ چند لمحے وقفے کے بعد جج نے دوبارہ دونوں بھائیوں کو بلایا اور دونوں سے ان کی کاروباری اور مالی پوزیشن کا جائزہ لیا۔ جائزہ لینے کے بعدجج اس نتیجے پر پہنچا کہ چھوٹا بھائی بڑے بھائی کے مقابلے میں زیادہ مالدار ہے۔ لہذا فیصلہ اس کے حق میں دیاجائے۔ اور اسطرح جج نے فیصلہ چھوٹے بھائی کے حق میں سنا دیا۔ فیصلہ سننا تھا کہ بڑے بھائی نے عدالت کے احاطے میں آہ و بکاہ شروع کر دی۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اس کی داڑھی آنسوں سے تر ہو گئی۔ عدالت میں موجود ہر شخص کی آنکھ آنسوؤں سے تر تھی۔ یہ کہانی پڑھنے والا سوچ رہا ہو گا کہ کیا آیا دونوں بھائیوں کے درمیان جائیداد کا معاملہ تھا یا گھر اپنے نام کروانا تھا ۔ ماں کی د ولت ہتھیانا تھی یا بیویوں کی لڑائی تھی۔ یا پھر دونوں بھائیوں نے ماں کو برا بھلا کہاتھا۔ نہیں ایسا ہر گز نہیں تھا۔ آخر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بڑا بھائی کیوں رو رہا تھا۔ یہ واقعہ حقیقی ہے اور سعودب عرب کے شہر قصیم کی شرعی عدالت میں پیش آیا۔ 
ہوا یوں کہ حیزان الفہیدی اپنی ماں کا بڑا بیٹا تھا۔ یہ سارا وقت ماں کی خدمت میں صرف کرتا تھا حیزان کی ماں ضعیف العمر اور مجبور عورت تھی۔ ماں کی کل ملکیت پیتل کی ایک انگوٹھی تھی لیکن اس کے باوجود یہ دونوں ماں بیٹا ہنسی خوشی رہ رہے تھے۔ اسی دوران جب ایک دن جھوٹے بھائی نے شہر سے آ کر بڑے بھائی سے مطالبہ کیا کہ وہ ماں کو اپنے ساتھ شہر لے کر جانا چاہتا ہے۔ بڑے بھائی کو یہ مطالبہ پسند نہ آیا اور اس نے چھوٹے بھائی کو سختی سے منع کیا کہ وہ اسے کبھی بھی ایسا نہیں کرنے دے گا۔ ابھی اس میں اتنی ہمت اور استطاعت کہ وہ ماں کی خدمت اور دیکھ بھال کر سکے۔ چھوٹا بھائی ضد پر آگیا اس نے بھی فیصلہ سنا دیا کہ وہ ماں کو ہر صورت ساتھ لے کر شہر جائے گا۔ تو تو میں میں بڑھی ،تو چھوٹا بھائی عدالت پہنچ گیا اس نے بڑے بھائی کے خلاف عدالت میں پرچہ کٹوا دیا۔ عدالت نے پہلے دونوں بھائیوں کو بلایا اور دونوں کے درمیان معاملے کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرنے کا کہا لیکن دونوں اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ چنانچہ عدالت کو ان کی ماں کو طلب کرنا پڑا۔ ماں بھی کوئی فیصلہ نہ کرسکی تو عدالت نے چھوٹے بھائی کی مالی پوزیشن دیکھتے ہوئے اس کے حق میں فیصلہ سنا دیا کہ وہ ماں کو زیادہ خوش رکھ سکے گا۔ اس فیصلے کا سننا تھا تو حیزان نے بھری عدالت میں دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا۔ اس کو جج سے گلہ تھا بھائی سے شکوہ تھا اور نہ ہی ماں سے کوئی شکایت تھی بلکہ اس کو توصرف اپنے مقدر پر اعتراض تھا۔ وہ چیخ رہا تھا کہ آخر میں اپنی ماں کی خدمت کرنے پے قادر کیوں نہیں؟؟۔ آخر وہ کون سی خوشی ہے جو میں ماں کو نہیں دے سکتا لیکن بھری عدالت میں کوئی شخص بھی اس کے اس سوال کا جواب نہ دے سکا۔ ہر ایک کی آنکھیں بیٹے کی ماں سے محبت پر تر تھیں۔ ہر حلق میں محبت پھندا بن کر اٹکی تھی۔ اوربڑے بھائی کے کلیجے سے نکلتی آہیں عرش کو ہلا رہی تھیں اور فرش والوں کو جھنجھور رہی تھیں۔

No comments:

Post a Comment