Sunday, 26 January 2014

موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام


موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام 
یوسف علیہ السلام کے بعد آپ کی اولاد میں آگے چل کر یہیں مصر میں موسٰی علیہ السلام کو اللہ پاک نے فرعون کافر کی طرف مبعوث فرمایا جو حد سے بڑ ھ کر سرکش ہو گیا تھا یہاں تک کہ دعویٰ کرنے لگا کہ سب سے بڑا رب تو میں ہوں، یہ موسیٰ کس کا بھیجا ہوا آیا ہے۔ 
یوسف علیہ السلام جو پیغمبر زادہ تھے خود پیغمبر تھے آپ کے دادا اور پڑدادا بھی پیغمبر تھے اور ان کے گیارہ بھائی پیغمبر زادہ تھے ،ظاہر ہے ایسے صالح ماحول کا نہ صرف ان کی اپنی اولاد پر اچھا اثر قائم رہا بلکہ مصر کے مقامی لوگ بھی دینِ توحید اور پیغمبر انہ خلق سے متاثر ہوئے اور عرصہ دراز تک وہاں کے لوگ روحانی اور مادی فیض کے مزے لوٹتے رہے ۔ مگر خوشحالی کے سبب ان میں بعدہٗ اخلاقی برائیاں پیدا ہوئیں اور وہ بنی اسرائیل جو پیغمبروں کی ا ولاد تھے اللہ کی یاد سے غافل ہو گئے اور سفلی خواہشات کی پیروی کرنے لگے۔ ایسے میں اللہ نے اپنی سنتّ کے مطابق اپنے انعامات سلب کر کے ان کو مصائب میں مبتلا کر دیا۔ حکومت بھی چھن گئی اور ظالم قبطیوں کی ذلّت آمیز غلامی میں ساری قوم جکڑی گئی۔ جس وقت موسٰی علیہ السلام کو ا للہ پاک نے قبطی قوم کے کافر بادشاہ فرعون کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا اس وقت فرعون کا ظلم انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ بنی اسرائیل کے بیٹوں کو تو ذبح کر دیا جاتا تھا۔ مگر ان کی بیٹیوں کو ہر طرح کی خدمت کے لیے زندہ رکھا جاتا اور اس میں ان کی بڑی ذلت بھی تھی اور سخت آزمائش بھی تھی۔
موسٰی ٰ علیہ السلام کی پیدائش کے وقت بھی یہی ظلم روا تھا اور اللہ پاک نے خفیہ طریقے سے موسٰی علیہ السلام کی ماں کو بتایا کہ جب فرعون کے سپاہیوں کے آنے کا خطرہ محسوس ہو تو اپنے بچے کو ایک صندوق میں ڈال کر دریا میں بہا دینا۔ انہوں نے ایسے ہی کیا ۔ صندوق بہتا بہتا اس نہر کی طرف مڑ گیا جو فرعون کے محل میں جاتی تھی۔ اتفاق سے فرعون اور اس کی دیندار بیوی آسیہ اس وقت نہر کے کنارے بغرض تفریح بیٹھے تھے جب کھلا صندوق بہتا ہوا ان کے سامنے آیاتوبیوی نے صندوق میں بچے کو دیکھا تو اسے اٹھا لیا ۔ فرعون اپنے حکم کے مطابق اس کو قتل کرانے لگا مگر بیوی نے کہا یہ تو آنکھوں کی ٹھنڈک ہے میرے لیے بھی اور تیرے لیے بھی۔ اس کو مت مارو، کچھ بعید نہیں جویہ ہمارے کام آئے یا اس کو ہم جو بے اولاد ہیں اپنا بیٹا بنا لیں۔ اس نومولود بچے پر اللہ نے ماں کے علاوہ کسی اور عورت کا دودھ حرام کر دیا۔ پس باطنی طریقے سے اللہ نے اس بچے کے دودھ پلانے کے لیے اس کی حقیقی والدہ ہی کا بندوبست کر دیا وہ اس طرح کہ جب اس بچے نے کسی اور عورت کا دودھ نہ لیا اور بھوک سے بلبلانے لگا تو اس کی بہن کی تجویز پرظاہر کیئے بغیر اس کی ماں ہی کو بلایا گیا اور اس کا دودھ بچے نے شوق سے قبول کیا اور اس کو شاہی خدمت میں بھی رکھ لیاگیا ۔ 
پھر جب موسیٰ علیہ السلام جوان ہوئے تو اللہ نے ان کو حکمت اور سمجھ عطا فرمائی۔ پھر ایک روز وہ محل سے نکل کر شہر کے اندر گئے ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بنی اسرائیلی اور ایک قبطی آپس میں لڑ رہے ہیں اسرائیلی نے موسیٰ علیہ السلام سے مدد مانگی ۔ انہوں نے قبطی کو ایک مکا مارا اور قضاء الہی سے وہ مر گیا۔ موسیٰ علیہ السلام ڈر گئے اور انہوں نے اپنے ہاتھوں اس غیر ارادی قتل پر نادم ہو کر اللہ سے معافی مانگی ۔ اللہ نے انہیں معاف فرما دیا۔
پھر وہ شہر میں اگلی رات بھی رہ گئے ۔ مگر ڈر بھی رہے تھے کہ کل کے قتل کا جرم ثابت ہو گیاتو ان کے ساتھ کیا سلوک ہو گا ۔ پھر دوسرے روز بھی اس کل والے اسرائیلی نے ایک دوسرے شخص کے ساتھ لڑائی میں موسیٰ سے مدد مانگی۔ انہوں نے اسے ڈانٹا کہ تو ہر روز ظالموں سے الجھتا ہے اور مجھ کو لڑواتا ہے۔ زبان سے تو وہ اسرائیلی کو ڈانٹ رہے تھے مگر ہاتھ ڈالنا چاہا ظالم دشمن پر ۔ وہ بول اٹھا کیاجس طرح تو نے کل ایک آدمی کو قتل کیا تھا آج مجھے بھی قتل کرو گے۔ بھلے آدمی ، تو صلح کرانے والا کیوں نہیں بنتا۔ اتنے میں اللہ کے حکم سے ایک باخبر آدمی دوڑتا ہوا آیا اور اس نے موسیٰ کو بتایا کہ دربار میں تیرے قتل کے مشورے ہو رہے ہیں تو اس شہر سے نکل جا۔
چنانچہ موسی ٰ علیہ السلام وہاں سے نکل پڑے۔ راستے سے واقف نہ تھے اس لیے اللہ سے رہنمائی چاہی ۔اللہ نے ان کو مدین کی سیدھی راہ پر ڈال دیا۔ پھر جب موسٰی علیہ السلام مدین پہنچے ( جو مصر سے آٹھ دس دن کی راہ تھا) بھوکے پیاسے تھے ۔ دیکھا ایک کنویں پر لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے اور دو لڑکیوں کو دیکھا کہ حیا کی وجہ سے کنارے کھڑی اپنی بکریوں کو روکے ہوئے تھیں۔ موسٰی علیہ السلام نے ان سے پوچھا آپ کیوں پیچھے کھڑی ہیں ۔ انہوں نے کہا ہم بکریوں کو اس وقت پانی پلائیں گی جب دوسرے چرواہے اپنے جانوروں کو پانی پلا کر پھیر لے جائیں گے۔ ہمارا باپ بوڑھا ہے، یہ کا م ہمیں کرنا پڑتا ہے۔ موسٰی علیہ السلام نے آگے بڑھ کر ان کی بکریوں کو پانی پلا کر لڑکیوں کو جلد ی سے فارغ کر دیا اور خود ہٹ کر ایک درخت کی چھاؤں میں جا کھڑے ہوئے ۔اور اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ جو اچھی خیر آپ میرے لیے بھیجیں، میں اس کا محتاج ہوں۔ پھر اس کے پاس انہی لڑکیوں میں سے ایک شرم کے ساتھ چلتی ہوئی آئی اور کہا کہ میرا باپ آپ کو بلاتا ہے تاکہ جو آپ نے ہمارے جانوروں کو پانی پلا کر خدمت کی ہے اس کا اجر آپ کو دے۔
پس جب موسٰی علیہ السلام لڑکیوں کے باپ کے پاس پہنچے اور اپنے ادھر آ نکلنے کا ان کو حال سنایا تو انہوں نے جو مدین کے علاقے میں اللہ کی طرف سے پیغمبری کے فرائض ادا فرما رہے تھے فرمایا کہ اے جوان !تم اب ڈرو مت، اس بے انصاف قوم سے تم بچ آئے ہو۔ ساتھ ہی لڑکیوں میں سے ایک نے کہا بابا! اس کو نوکر رکھ لو۔ بہتر نوکرہے جس کو آپ رکھنا چاہیں گے وہ یہی ہے جو زور آور بھی ہے، اور اور دیانتدار بھی ۔یہ سن کر شعیب علیہ السلام نے نوجوان موسٰی علیہ السلام سے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کو تجھ سے بیا ہ دوں اس شرط پر کہ تو میری آٹھ برس نوکری کرے اور اگر تو دس برس پورے کردے تو وہ تیری طرف سے ہے اور یہ بھی کہا کہ میں تجھ پر تکلیف یا سختی نہیں ڈالوں گا اور اللہ نے چاہا تو تم مجھ کو نیک بختوں میں سے پاؤ گے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا ٹھیک ہے مجھے منظور ہے۔ یہ وعدہ میرے اور آپ کے درمیان ہو چکا۔ جو بھی مدت میں پوری کروں سو مجھ پر زیادتی نہ کی جا ئے اور اللہ ہمارے اس اقرار نامے پر وکیل یعنی بھروسے والی ہستی ہے۔ 
پھر جب موسٰی علیہ السلام نے وہ مدت پوری کرلی اور اپنی بیوی کو لے کر وہاں سے روانہ ہو اتو اس نے راستے میں طور پہاڑ کی طرف ایک آگ دیکھی اور بیوی سے کہا کہ میں وہاں سے راستے کی کچھ خبر لاتا ہوں یا تاپنے کے لیے ایک انگار لاتا ہوں۔ تم یہاں ٹھہرو۔ جب موسٰی علیہ السلام وہاں پہنچے تو ان کے پاس برکت والے تختہ میں ایک درخت سے آواز آئی کہ اے موسٰی یہ طویٰ کا پاک میدان ہے۔ تو اپنی جوتیاں اتار ڈال، میں تیرا رب ہوں اور میں نے تمہیں پسند کر لیا ہے، پس تو جو حکم ہو سنتا رہ۔ پہلا حکم یہ ہے کہ میں اللہ ہوں، میرے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں۔ پس تو میری بندگی کر اور میری یادگار کو نماز قائم کر اور جان لے کہ قیامت بیشک آنے والی ہے مگر میں اس کے آنے کا وقت سب سے چھپانا چاہتا ہوں اور قیامت کا آنا اس لیے ضروری ہے کہ ہرشخص کو اس کے اچھے برے عمل کا بدلہ ملے ۔ پھر پوچھا اے موسٰی! تیرے سیدھے ہاتھ میں کیا ہے۔ اللہ کو معلو م تھا اس کے ہاتھ میں کیا ہے مگر پوچھا اس لیے کہ اس کو اچھی طرح یاد رہے کہ وہ لاٹھی ہی ہے جو معجزہ کے طور پر تھوڑی دیر بعد اژدھا بننے والی تھی۔ سو، جب موسٰی علیہ السلام نے کہا کہ میرے ہاتھ میں میری لاٹھی ہے جس پر میں ٹیک لگاتا ہوں اور اس سے میں پتے جھاڑتا ہوں اپنی بکریوں کے لیے اور اس سے کچھ اور کام بھی میں لیتا ہوں۔ پھر اللہ نے حکم دیا کہ اس کو زمین پر ڈال دو۔ جب اس کو ڈال دیا تو اسی وقت لاٹھی کی جگہ ایک اژدھا نظر آیا جو پتلے سانپ کی طرح تیزی سے دوڑ رہا تھا۔ موسٰی یہ تبدیلی دیکھ کر ڈر گیا ۔ اللہ نے کہا ڈرو مت اسے پکڑو ہم اس کو ابھی پہلی حالت میں پھیر دیں گے، یعنی لاٹھی پھر لاٹھی بن جائے گی۔ اور دوسرا یہ حکم دیا کہ اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر اور بغل سے ملا کر باہر نکالو۔ پھر دیکھنا ہاتھ نہایت سفید چمکتا ہوا نکلے گا اور یہ سفیدی برص کی بیماری والی نہ ہو گی۔ان دو معجزوں کے ساتھ اللہ نے موسٰی کو پیغمبری کی سند عطا کر کے فرعون بادشاہ کی طرف جس نے بہت سر اٹھالیا تھا ہدایت کے لیے بھیجا۔ وہ اپنے آپ کو ربِّ اعلی کہتا تھا۔ بچو! آپ کو پتہ ہے کہ ہم سجدے کی حالت میں سبحان ربی الا علی کہتے ہیں۔اوررب اعلی اللہ ہی ہے کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ موسٰی علیہ السلام نے دعا کی اے میرے رب ایک تو میرا سینہ کشادہ کر اور دوسرا میرا کام آسان کر تیسراکام یہ کہ میری لکنت دور کر کے میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات جلدی سمجھ لیں اور چوتھی درخواست یہ کی کہ میرے بھائی ہارون کو میرا مدد گار بناتا کہ ہم دونوں مل کر پیغمبری کا فریضہ ادا کریں اور تیری پاک ذات کا کثرت سے بیان کریں اور آپ کو کثرت سے یاد کریں اور تو ہمارے حال سے خوب واقف ہے اور جو دعائیں میں مانگ رہا ہوں وہ قبول ہوں گی تو اس فریضہ کی انجام دہی میں جو آپ نے ہمیں سونپا ہے کس قدر مفید اور مدد گار ہوں گی۔ اللہ نے جواب دیا کہ جو کچھ تم نے مانگاہے سب منظور ۔ پس اب تم دونوں سرکش فرعون کی طرف جاؤ۔ اس سے بات نرمی سے کرو شاید وہ سوچے اور ڈرے اور فرمانبرداری کی طرف جھک پڑے۔ مگر وہ دونوں بولے کہ ہم ڈرتے ہیں کہیں ہماری پوری بات سنے بغیر وہ ہم پربھبک پڑے یا جوش میں آ کر بپھر جائے اور اللہ کی شان میں زیادہ گستاخی کرنے لگے یا ہم پر دست درازی کرے جس سے اصل مقصدہی فوت ہو جائے گا۔ اس پر اللہ نے ان کو حوصلہ دیا اور کہا ڈرو مت میں تم دونوں کے ساتھ ہوں گا۔ سنتا ہوں گا دیکھتا ہوں گا۔ تم اس کے پاس جاؤ اور کہو ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے آئے ہیں۔ تم بنی اسرائیل کو ( جن کو تم نے ذلّت آمیز غلامی میں جکڑ رکھا ہے۔) آزاد کر کے ہمار ے ساتھ بھیج دو اور ان پر ظلم و ستم نہ کرو۔ 
فرعون ان سے بحث مباحثہ کرنے لگا۔ پھر موسی ٰ علیہ السلام نے ان کے سامنے لاٹھی کے اژدھا بننے کا ایک معجزہ دکھایا اور بغل سے ملا کر ہاتھ نکال کر دکھلایا جو سفید ہو کر نکلا ۔یہ دوسرا معجزہ تھا مگر اس نے پیغمبری کی ان نشانی والے معجزوں کو نہ مانا بلکہ ان کو محض جادو گری کا کرشمہ بتایا اور اپنے جادو گروں سے مقابلے کا چیلنج دیا۔ موسی ٰ علیہ السلام تو اللہ کے سچے پیغمبر تھے کوئی دنیاوی لالچ نہ رکھتے تھے ۔ فرعون کے ماہر جادو گر دنیا کے لالچ میں فرعون کی عزت کی قسم کھا کر مقابلے کے لیے میدان میں اترے ۔ انہوں نے اپنی لاٹھیاں اور رسیاں زمین پر پھینکی ۔وہ جادو کے اثر سے لوگوں کو دوڑتے ہوئے سانپسنپولیوں کی شکل میں نظر آئے۔ پہلے تو موسیٰ علیہ السلام ڈرے مگر اللہ نے تسلی دی کہ ڈرو مت۔ تو بھی اپنی لاٹھی پھینک پھر دیکھ کیا ہوتا ہے۔ انہوں نے لاٹھی پھینکی۔ وہ سچ مچ کا اژدھا بن گیا او ر اس نے ان دوڑتے ہوئے سانپوں کو فورا نگل لیا اور جادو گروں کی لاٹھیوں اور رسیوں کا وجود باقی نہ رہا ۔جادو گر جو اپنے فن کی حقیقت سے واقف تھے وہ سمجھ گئے کہ موسیٰ علیہ السلام کا اژدھا سچ مچ کا اژدھا تھا جو ہماری لاٹھیوں اور رسیوں کو نگل گیا ہے محض نظر کا دھوکہ نہیں اور اسے اللہ کا معجزہ تسلیم کر کے سب سجدہ میں گر گئے۔ اور اقرار کیا کہ ہم موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لاتے ہیں۔ فرعون نے دھمکی دی کہ میں تم سب کو ایک طرف سے ٹانگ کاٹ کر دوسری طرف سے ہاتھ کاٹ کر کھجور کے تنوں پر سولی دے دوں گا۔ انہوں نے جواب دیا تو کر گزر جو تجھ کو کرنا ہے۔ تیرے بس میں یہی زندگی ختم کرنے کا عذاب ہے۔سو ہم اس کی پروا نہیں کرتے ۔ہم تو اپنے رب پر ایمان لے آئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے گناہ بخش دے خاص طور پر وہ گناہ جو تم نے ہم سے موسٰی علیہ السلام سے مقابلہ کرا کے سرزد کرایا ہے۔ ہم تو اس پائیدار اجر کو جو اللہ مومنوں کو دیتا ہے بہتر سمجھتے ہیں اس انعام و اکرام سے جو تم ہم کو غالب ہونے کی صورت میں دیتا ۔ بیشک بات یہ ہے کہ جو گناہ لے کر رب کے پاس جائے گا اس کے لیے دوزخ ہے۔ نہ مرے اس میں نہ جیئے اور جو ایمان اور نیکیاں لے کر حاضر ہو گا اس کے لیے بلند درجے ہیں یعنی اسے خوش منظر جنت میں ٹھکانہ ملے گا،جہاں نہریں ہوں گی، جنت کی تمام نعمتوں کے ساتھ ۔
اس کے بعد اللہ نے موسٰی علیہ السلام کو حکم دیا کہ تو ایک رات اپنی قوم کو چپکے سے سمند ر (بحر قلزم) کی طرف لے چل۔ جب و ہ سب لوگ کنارے پر پہنچے تو پیچھے سے فرعون بھی اپنا لشکر لیئے آتا دکھائی دیا۔ اصحاب موسٰی علیہ السلام نے شکایت کی ہم تو پکڑے گئے آگے سمندر ہے پیچھے ظالم فرعون کا لشکر ہے ۔ 
موسٰی علیہ السلام نے کہا کہ ہرگز نہیں،میرے ساتھ میرا رب ہے وہ مجھ کو بچنے کی را ہ بتلائے گا۔ پس اللہ نے موسٰی علیہ السلام کو حکم بھیجا کہ تو اپنی لاٹھی سے سمندر کو مار۔ پھر کیا ہوا، پانی پھٹ گیا۔بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کے لیے جو ایک نظم میں موسٰی علیہ السلام کی قیادت میں چلے آ رہے تھے ان کے آگے بارہ جگہ سے سمندر پھٹ کر خشک راستے چھوڑ گیا اور بیچ میں پانی کے پہاڑ کھڑے رہے۔ پھر جب موسٰی علیہ السلام کی قوم دوسرے کنارے کے قریب پہنچنے والی تھی تو فرعون کا لشکر بھی پہنچ گیا۔ انہوں نے خشک راستے دیکھے تو وہ بھی سمندر میں اتر گئے۔ جب ان کا سارا لشکر سمندر کے اندر چلا گیا اور موسٰی علیہ السلام کی پوری قوم سمندر پار کر کے آگے خشک زمین پر اتر گئی تو اللہ نے پانیوں کو مل جانے کا حکم دیا اور فرعون کا سارالشکر ڈوب گیا۔ فرعون جب ڈوبنے لگا تو پکاراٹھا کہ میں نے یقین کر لیا ہے کہ کوئی معبود نہیں سوائے اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں بھی فرمانبردار وں میں ہوں۔ اللہ نے کہا کہ اب اقرار کرتا ہے جبکہ تو اس سے پہلے نافرمانی کرتا رہا اور فساد ہی بر پا کر تا رہا۔ پس آج ہم تمہارے بدن کو بچائے دیتے ہیں تاکہ تو اپنے پچھلوں کے واسطے عبرت کی نشانی بنا رہے ۔ بیشک بہت لوگ ہماری قدرتوں پر توجہ نہیں کر تے۔ اس ہلاکت سے پہلے اللہ نے جو فرعون کی قوم کو لاٹھی کے اژدھا بننے اور ہاتھ کی سفیدی والے معجزوں کے علاوہ بھی چند چھوٹے عذابوں سے ڈرایا تاکہ وہ موسٰی علیہ السلام کی بتائی توحید کی سیدھی راہ پر آ جائیں مگر اس ضدی قوم نے سرکشی کی وجہ سے حق کی مخالفت نہ چھوڑی ۔ ان عذابوں کی تفصیل قرآن میں اس طرح آئی ہے۔ا۔ بارش اور سیلاب کا طوفان ۔ ۲۔ طاعون کی وباء سے اموات، ۳۔ چیچڑیوں کا عذاب جودودھ دینے والی گایوں بکریوں کے تھنوں سے چمٹ کر دودھ کو روک دیتی تھیں۔۴۔ خون کا عذاب، اس طرح کہ پانی پینے لگتے تو وہ خون بن جاتا ۔۵۔ جوؤں کا عذاب جو انسان کے جسم اور کپڑوں میں پڑ کر تکلیف پہنچاتی تھیں ۔ ۶۔ مینڈکوں کا عذاب جو کھانے کی رکابیوں میں پھدک پھدک کر آ پڑتے تھے ۔ ۷۔ گھن یا کیڑا جو اناج میں پڑتا اور اسے بالکل خراب کر دیتا تھا۔ یوں پہلی دو بڑی نشانیوں کو ملا کر نو قسم کی نشانیاں لے کر موسٰی علیہ السلام فرعون کی قوم کے پاس گئے۔ قوم نے زچ ہو کر موسٰی علیہ السلام سے کہا کہ اپنے رب سے درخواست کرکہ یہ سب عذاب ہم سے ٹال دے ہم ضرور ہدایت کی راہ اختیار کر لیں گے۔ مگر جب اللہ نے عذاب ٹال دیئے تو وہ شرک کی راہ پر ہی رہے۔ فرعون نے اپنی کامیاب تدبیروں کا ڈھنڈورا پیٹا۔موسٰی علیہ السلام کا تمسخر اڑایا۔ قوم جو فاسق تھی اس نے فرعون کی ہی اطاعت کی ،موسی ٰ علیہ السلام کی ہدایت کو ٹھکرا دیا۔ فرعون کی کامیاب تدبیروں کا ڈھنڈورا پیٹنے کی تفصیل یہ ہے ۔اس نے دریائے نیل سے نکالی نہروں کے ذریعے جو زرعی پیداوار کی فراوانی حاصل کی تھی اس کا اور اپنے یہاں کی عمدہ معیشت کا فخریہ اعلان کر کے وہ احسان جتلاتا تھا۔ موسٰی علیہ السلام کا تمسخریوں اڑاتا تھا کہ لکنت کی وجہ سے یہ موسٰی تو صاف بات بھی نہیں کر سکتا تھا جبکہ وہ خود اچھا مقرر تھا ۔اور وہ یہ بھی بتاتا تھا کہ میں جس کو کسی ملک میں سفیر بنا کر بھیجتا ہوں تو اس کو سونے کے کنگن پہناتا ہوں، اس کے ساتھ خوب آراستہ فوجی دستہ بھیجتا ہون۔ یہ موسیٰ علیہ السلام اگر اللہ کا سفیر یا پیغامبر بن کر ہمار ے یہاں آیا ہے تو اس کے ساتھ اللہ نے فرشتوں کا دستہ کیوں نہیں بھیجا ۔اس کو سونے کے کنگن کیوں نہیں پہنائے ۔اس کے اس طرح کے پراپیگنڈے سے اس کی قوم متاثر ہو کر اسی کی ا طاعت میں لگی رہی اور موسیٰ علیہ السلام کی ہمیشہ کی بھلائی اور برکتوں والی دعوت کو ماننے کی طرف مائل نہ ہوئی جس نے ا للہ کو غصہ دلایا اور انتقام لے کر اللہ نے اس ساری قوم کو سمندر میں ڈبو کر ہلا ک کر دیا اور بعد میں آنے والوں کے لیے فرعون کواور اس کی قوم کو عبرت کا نشان بنادیا۔ ان بیوقوفوں نے اللہ کے پیغمبر کو دنیا کے حقیر اور فانی عیش کے پیمانے سے جانچا جبکہ ان کی یہ ساری شان و شوکت ان ایمان والوں کی آنکھوں کے سامنے پل بھر میں فنا کر دی گئی۔نتیجہ کے طورپر اللہ نے اس ساری قوم کو فاسقوں یعنی نافرمانوں کی قوم قرار دیا۔

1 comment:


  1. ظاہری شکل 24 گھنٹے میں واپس

    Advice to save your marriage and get your Ex Boyfriend/girlfriend back ,contact templeofanswer@hotmail.co.uk or WhatsApp +234 8155425481 for Urgent effective love Spell to get ex lover back or save you marriage fast and his result is 100% guarantee.

    ReplyDelete