Saturday, 25 January 2014

History of Basant (Kiting)


پتنگ بازی کی تاریخ 
تاریخ عالم میں پتنگ اڑانے کا اولین تحریری حوالہ 200قبل مسیح میں ملتا ہے جب چین میں سپہ سالار ہان سینگ نے دشمن کے ایک شہر کے باہر پڑاؤ ڈال رکھا تھا لیکن وہ براہ راست حملے کا خطرہ مول لینے کی بجائے ایک سرنگ کھود کر شہر میں داخل ہونا چاہتا تھا ۔ لیکن سوال یہ تھا کہ کتنی لمبی سرنگ کھودنی پڑے گی؟ اپنے پڑاؤ کے مقام سے شہر کی فصیل تک کا فاصلہ ناپنے کے لیے چینی سپہ سالار نے ایک پتنگ اڑائی اور ڈور کو ناپ کر فاصلہ معلوم کر لیا۔ چین سے پتنگ سازی کا یہ فن کوریا پہنچا ۔ وہاں بھی ایک جرنیل کی کہانی ملتی ہے جس کی فوج نے آسمان پر ایک تارا ٹوٹتے دیکھا اور اسے براشگون سمجھ کر میدان جنگ سے منہ موڑ لیا۔ 
چینی فوچ کے بعد یہ کارگر نسخہ بودھ راہبوں کے ہاتھ لگا جو بدروحوں کو بھگانے کے لیے عرصہ دراز تک پتنگوں کا استعمال کرتے رہے ۔ جرنیل نے اپنی فوج کا وہم دور کرنے کے لیے سپاہیوں کو بہت سمجھایا لیکن وہ نہ مانے۔ آخر جرنیل نے ایک ترکیب سوچی ۔ اس نے ایک بڑی سی سیاہ پتنگ تیار کی اور اس کی دم سے ایک شعلہ باندھ کر رات کے اندھیرے میں اوپر آسمان کی طرف اسے اڑا دیا تو فوج کو یقین آگیا کہ آسمان سے جو تارا ٹوٹا تھا وہ واپس آسمان کی طرف لوٹ گیا ہے اور اس طرح محض ایک پتنگ کے زور پر جرنیل نے اپنی فوج کا حوصلہ اتنا بلند کر دیا کہ وہ لرائی جیت گئی۔ پتنگ بازی کا یہ فن جب چین اور کوریا سے ہوتا ہوا ، جاپان پہنچا تو عوام میں اتنا مقبول ہو ا کہ دن رات اسی میں مشغول نظر آنے لگے ۔ چنانچے اس زمانے میں جاپان میں ایک سخت قانون نافذ ہو گیا جس کے تحت صرف شاہی خاندان کے افراد ، اعلیٰ سول اور فوجی افسران اور چند مراعات یافتہ معزز شہریوں کو پتنگ اڑانے کی اجازت دی گئی۔ اس کے بعد مشرق بعید سے پتنگ بازی کا مشغلہ کب اور کس طرح ہندوستان پہنچا ، اس بارے میں تاریخ کوئی واضح اشارہ نہیں دیتی البتہ اس ملک میں پتنگ باوی کی اولین دستاویزی شہادتیں مغل بادشاہوں کے دور کی مصوری میں دکھائی دیتی ہیں۔ سولھویں صدی کی ان تصویروں میں اکثر یہ منظر دیکھا جا سکتا ہے کہ عاشق زار اپنے دل کا احوال کاغذ پر لکھ کر پتنگ سے باندھتا ہے ، پھر یہ پتنگ ہوا کے دوش پر سوار ہو کر کوچہ، محبوب کی فضاؤں میں پہنچتی ہے اور معشوقہ ء دلنواز کی چھت پر منڈلانے لگتی ہے ۔ اہل یورپ نے پتنگوں کا احوال پہلی مرتبہ تیرھویں صدری میں مارکو پولو کے سفر کے ناموں میں پڑھا ۔ اس کے بعد سترھویں صدی میں جاپان سے لوٹنے والے یورپی سیاحوں نے بھی پتنگ بازی کے رنگین قصے بیان کئے۔ ایشیا کے برعکس یورپ اور امریکہ میں بیسویں صدی کے آغاز تک پتنگوں کا استعمال تفریح کی بجائے موسمیاتی تحقیق اور جنگی جاسوسی کے لیے ہوتا رہا ، البتہ پچھلے بیس سے پچیس برس کے دوران مغربی ملکوں میں اسے تفریح کے طور پر بھی اپنایا گیا ہے اور امریکہ میں تو اب پتنگ بازوں کی ایک قومی انجمن بھی بن چکی ہے۔ 
پاکستان میں پتنگ بازی کی تفریح ایک صنعت کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ پاکستان میں صرف صوبہ پنجاب میں لاکھوں افراد کا روزگار گڈی کاغذ ، بانس ، دھاگے اور مانجھے سے وابستہ ہے اور لاہور شہر اس وقت دنیا بھر میں بسنت کی تقریبات کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ لاہور کی نائٹ بسنت ، ایک عجوبہ روزگار چیز بن چکی ہے جب سرچ لائٹوں کی روشنی میں شہر کا آسمان میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی ۔ 
پاکستان میں موسم بہار کی آمد پر بسنت کا تہوار بڑے جوش و خروش سے منایاجاتا ہے۔ پاکستان کے کونے اور بیرون ملک سے شائقین بسنت کا تہوار منانے لاہور کا رخ کرتے ہیں ۔ بچے ، بوڑھے، جوان ، خواتین بلکہ معاشرے کے ہرطبقے کے لوگ بڑی گرم جوشی سے اس میں حصہ لیتے ہیں۔ میدانوں اور گھروں کی چھتوں پر بیٹھ کر پتنگ بازی کی جاتی ہے دعوتیں ہوتی ہیں ۔ پارکوں میں لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ ہوٹلز بک کروائے جاتے ہیں ۔ عیاشیاں ہوتی ہیں۔ اربوں روپے بیدردی سے اڑائے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت سارے حادثات بھی ہوتے ہیں ۔ کئی بچے اور جوان پتنگ بازی کرتے ہوئے گھروں کی چھتوں سے گر کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ، پتنگ اڑانے کے لیے جو دھاتی تار استعمال کی جاتی ہے اکثر بجلی کے تاروں سے ٹکراتی ہے جس میں کرنٹ آنے سے بہت سارے پتنگ باز اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ بعض اوقا ت کوئی راہ گیر اس دھاتی تار کی زد میں آجاتا ہے جس سے اس تیز دھاری تار سے اس کا گلا کٹ جاتا ہے ۔ یا زخمی ہو کر ہسپتال پہنچا جاتا ہے۔ ایسے بہت سارے ہنستے مسکراتے چہرے اچانک موت کی نذر ہو جاتے ہیں یا کسی دوسرے حادثے کا شکار ہو کر نقصان اٹھاتے ہیں۔ 
ہمیں یاد ہونا چاہیے کہ پاکستان ایک مسلم ملک ہے۔ یہ ملک دو قومی نظریے کے تحت معرض وجود میں آیا تھا۔ اس ملک کے تقریبا 40فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں کروڑوں افراد کیلئے پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ بے شمار لوگ علاج معالجے کی سہولت سے محروم ہیں ہمارے اس ملک کی سڑکوں ، بازاروں اور چوراہوں پر تقریبا 25لاکھ افراد بھیک مانگ رہے ہیں۔ بہت سارے نوجوان ڈگریاں لیکر بھی روزگار سے محروم ہیں۔ معاشرے کے ایک بہت بڑے حصے کے ساتھ تعلیم کے حصول کے لیے وسائل نہیں ۔ ایسے حالات میں راتوں رات بسنت نامی تہوار پر تقریبا اربوں روپے اڑانا بیوقوفی ہے۔ یہ فضول خرچی ہے۔ کیوں نہ یہ روپے کسی پراجیکٹ پر خرچ کئے جائیں تو اس ملک کے غریب عوام کا کس قدر فائدہ ہوتا ہے۔ ان سے بہت ننگے لوگوں کو تن ڈھانپنے کیلئے کپڑا فراہم کیا جا سکتا ہے غریب طالب علموں کی مدد کی جاسکتی ہے۔ بے آسرا لوگوں کے علاج معالجے میں مدد کی جا سکتی ہے۔ بہت سارے غریب گھرانوں کی زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔ بہت سارے غریب گھرانوں کی بچیوں کی شادیاں کی جاسکتی ہیں۔ بسنت کے علاوہ اور بھی بہت ساری خود ساختہ تہوار اور ہندوانہ رسوم و رواج ہیں جن پر ہماری قوم ہر سال اربوں روپے فضول میں اڑا دیتی ہے۔ ان فضول رسوم میں پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے لیکن کسی کو احساس نہیں ہوتا۔ حالانکہ ان مذموم رسوم کا اسلام میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ یہ رسوم غیر اسلامی اور ہندوانہ ہیں۔ 
لہذا پاکستانی عوام میں شعور اجاگر کیا جائے کہ بسنت کے تہوار پر خرچ ہونے والی رقم کو معاشرے اور ملک کی فلاح کیلئے خرچ کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ آج کل بسنت موسمی ، تہوار کی بجائے فضول خرچی اور اسراف کا سامان زیادہ فراہم کر رہا ہے۔ 

No comments:

Post a Comment