Friday, 10 January 2014

حضرت صالح علیہ السلام


حضرت صالح علیہ السلام

حضرت صالح علیہ السلام اپنی قوم شمود کی طرف پیغمبر مقرر ہوئے ۔ اس قوم کا مسکن ملک حجر میں تھا جس کو وادی انقریٰ کہتے ہیں آجکل یہ علاقہ ملک اردن میں ہے۔ھود علیہ السلام کی قوم عاد کے بعد اللہ پاک نے قوم شمود کو خلافت اور سرداری عطا کی۔ یہ لوگ نرم زمین پر خوبصورت محل بناتے تھے اور پہاڑوں کو تراش کر خوبصورت گھر بناتے تھے۔ زراعت کے لیے بھی زمین اچھی تھی۔ اعلی نسل کی کھجوروں کے باغوں اور چشموں سے ان کے ملک میں خوشحالی اور خوب چہل پہل تھی۔ مگرمستی میں آکر یہ لوگ اللہ واحد کی بندگی سے منہ موڑ کر کئی جھوٹے بتوں کو پکارنے لگے۔ وہ قوم عاد کے انجام کو بھول گئے جو اسی طرح کے جرم کی بنا پر تند ہوا کے عذاب سے ہلاک ہوئے تھے۔حضرت صالح علیہ السلام نے ان کو بہت سمجھایا کہ دیکھو اس خیال میں نہ رہنا کہ تم ہمیشہ اسی عیش و آرام اور باغ و بہار کے مزے لوٹو گے۔ پہاڑوں کو تراش کر جو پرتکلف مکان تم نے تیار کئے ہیں ان سے کبھی نہ نکلو گے یا یہ مضبوط اور سنگین عمارتیں تمہیں اللہ کے عذاب سے بچا لیں گی۔ مگر انہوں نے مذاق سمجھا ۔ الٹا کہنے لگے کہ اے صالح تجھ پر تو جادو ہو گیا ہے جو ایسی بے عقلی کی باتیں کرتے ہو۔ ہمیں کو ن عذاب دے سکتا ہے ۔ پھر ہم تو تمہیں اپنے جیسا عام بشر سمجھتے ہیں تمہیں کیا خاص امتیاز حاصل ہے۔اگر واقعی کوئی خدا ہے اور تم ہی اس کے بھیجے ہوئے سفیر ہو تو کوئی نشانی لے آؤ اگر واقعی تم سچے ہو ۔ جب حضرت نے پوچھا کیسی نشانی ،تو کہنے لگے اس پتھر کی چٹان میں سے ایک اونٹنی نکال کر دکھاؤ جو ایسی اور ایسی ہو ۔حضرت صالح علیہ السلام نے دعا فرمائی حق تعالی نے اپنی قدرت کاملہ سے ویسی ہی اونٹنی اس چٹان میں سے نکال ظاہر کی ۔ وہ بہت قد آور اونٹنی تھی۔ وہ ہر جگہ چھُوٹی پھرتی ، جس جنگل میں چرنے یا جس گھاٹ سے پانی پینے جاتی دوسرے سب مویشی بھاگ کر کنارے ہو جاتے۔ تب یوں ٹھہرایا گیا کہ ایک دن وہاں کے پانی کے گھاٹ پر یہ اللہ کی اونٹنی جائے اور ایک دن اور لوگوں کے مویشی جائیں اور اس اللہ کی اونٹنی سے کوئی برائی سے پیش نہ آئے ورنہ بڑی سخت آفت ہو گی۔اس طرح کی پانی کی باری باندھنا قوم کے عام لوگوں کو پسند نہ تھی۔ مگر پیغمبر علیہ السلام کی دھمکی سے بھی ڈرتے تھے اور کوئی اس اونٹنی کو آزار پہنچا کر عذاب کو دعوت دینے کی جرات نہ کرتا۔ آخر ایک بد کار عورت جس کے بہت سے مویشی تھے اس کے اکسانے پر اس کے ایک آشنا نے اللہ کی اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں ۔ اس پر حضرت صالح علیہ السلام نے اللہ کی طر ف سے عذاب کے نازل ہونے میں تین دن کی مہلت دی۔ آخر عذاب الہی نے ایک آسمانی کڑک کی صورت میں آ لیا اور وہ سب کے سب جہاں تہاں تھے، اوندھے منہ گر کر ٹھنڈے ہو گئے۔ کسی میں سکت نہ رہی کہ پچھاڑ کھا کر اٹھ کھڑا ہو تا۔ بدلہ تو وہ کیا لے سکتے تھے وہ اپنی مدد پر کسی کو پکار بھی نہ سکے۔

No comments:

Post a Comment