Wednesday, 8 January 2014

حضرت نوح علیہ السلام


حضرت نوح علیہ السلام
اللہ جو سب سے بڑا ہے ، ہمارا مالک ہے خالق ہے۔ ہماری ہر ضرورت پوری کرتا ہے ۔ مشکل کے وقت ہم اسی کو پکارتے ہیں، اسی کی عبادت کرتے ہیں اس کے سوا کوئی اور ہستی کوئی اوربت عبادت کے لائق نہیں ۔ مگر ادریس علیہ السلام کے بعد شیطان کے ورغلانے سے اکثر لوگ اللہ کو چھوڑ کر اوروں کی عبادت کرنے لگے ۔ اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرانا بہت بڑا گناہ ہے۔ جب اللہ کی زمین شرک اور دوسرے گناہوں سے بھر گئی تو اللہ پاک نے نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی ہدایت کیلئے مقرر فرمایا۔ انہوں نے اپنی قوم کو برے اعمال کے نتائج سے ڈرایا۔ پچاس سال کی عمر سے انہوں نے تبلیغ شروع کی اور ساڑھے نوس سو سال تک ان کو سمجھایا کہ صرف اللہ کی عبادت کرو۔ اسی سے ڈرو اور کہ میرا کہنا مانوتا کہ اللہ تمہارے گناہ بخشے اور تمہیں ڈھیل دے یعنی تم عمر طبعی تک زندہ رہو اور کفر و شرارت کی وجہ سے جو عذاب آنا مقدر تھا ایمان لانے کی صورت میں وہ نہ آئے۔ مگر انہوں نے نہ مانا۔ بالآ خر نوح علیہ السلام نے اللہ پاک کے سامنے عرض کی کہ اے مولیٰ میں نے اپنی قوم کو دن رات تیری طرف بلایا مگر وہ دور بھاگتے رہے۔ میں نے ان کو برملا بھی سمجھایا چھپ کر چپکے سے بھی سمجھایا اور یہی کہتا رہا کہ اپنے رب سے معافی مانگو وہ تمہارے گناہ بھی بخش دے گا ااور آسمان سے مینہ بھی برسائے گا، مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد بھی کرے گا۔ تمہارے باغ پھلیں پھولیں گے ، نہریں جاری ہوں گی۔آپ کی دیگر عنایات کا جتلا کر ان کو شکر گزاری کی راہ پر لانا چاہا مگر انہوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں ،میری نصیحت کو انہوں نے پسِ پشت ڈال دیا اور مغرور ہو گئے۔اور جھوٹے معبودوں کی پیروی کرتے رہے جو ان کو مال اور اولاد نہیں دے سکتے تھے۔ مگر وہ پھر بھی اپنے جھوٹے معبودوں ودّ ،سُواع ،یَغوث ،یَعوق اورنَسر کو چھوڑنے کو تیار نہ ہوئے بلکہ اس حد تک گستاخ ہوئے کہ آپ کو دھمکی دی کہ اے نوح بس اب ہم کو اپنی نصیحت سے معاف رکھو ۔اگر اس روش سے تم باز نہ آئے تو تمہیں سنگسار کر دیاجائے گا۔ اس پر نوح علیہ السلام نے دعا کی کہ یا رب زمین پر ان منکروں کا ایک گھر بسنے والا نہ رہنے دے کیونکہ اگر یہ باقی رہے تو یہ تیرے بندوں کو بہکائیں گے اور ان کی اولادیں بھی انہی کی طرح منکر ہوں گی۔اور آخر میں دعا مانگی کہ یا رب! مجھ کو معاف کر دے اور میرے ماں باپ کو بھی اور ان کو بھی جو میرے ساتھ ایماندار ہو کر آئے اور سب مومن مردوں اور عورتوں کو بخش دے اور گنہگاروں پر یہی برباد ہونا بڑھاتا جا۔
پھر اس قوم کی عبر تناک بربادی یوں ہوئی کہ ا للہ پاک نے نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ تم خشکی پر ایک کشتی بنانا شروع کرو۔ جب کافر ان کو کشتی بناتے دیکھتے تو ان کا مذاق اڑاتے ۔وہ فرماتے یہ پانی پر چلنے والی سواری ہو گی۔ آج تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو کل ہم تمہارا مذاق اڑائیں گے۔ پھر اللہ نے حکم دیا کہ جو اسیّ بیاسیّ آدمی تمہارے ساتھ ایمان لائے ہیں ان کو اور ہر قسم کے جانوروں کے دو دو جوڑے اسی کشتی پر سوا ر کر لو۔ ادھر اللہ نے آسمان کے دہانے کھول دیئے اور پانی ٹوٹ کر برسنے لگا اور زمین سے بھی چشمے بہا دیئے اور نیچے اوپر کا پانی مل گیا۔ جب نوح علیہ السلام کشتی میں سوار پانی پر تیر رہے تھے تو انہوں نے اپنے کافر بیٹے کو پانی پر ہاتھ پاؤں مارتے دیکھا تواسے کہا کہ ایمان لاکر ہماری کشتی میں سوار ہو جاؤ۔ وہ کہنے لگا تیر کر اس پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا ۔ نوح علیہ السلام نے فرمایا آج اس طوفان سے کوئی بچاؤ نہیں ہو گا۔ بچے گا وہی جس پر اللہ رحم فرمائے اور اتنے میں ایک بڑی موج ان کے درمیان حائل ہوئی اور کافر بیٹا ڈوب مرا۔ نوح علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا کہ میرا بیٹا میرے اہل سے تھا اور اہل کے بچاؤ کا وعدہ آ پ کا سچا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ اے نوح وہ تیرے گھر والوں میں نہیں کیونکہ اس کے اعمال نیک نہیں۔ لہذا نوح علیہ السلام نے اس پر نادم ہو کر اللہ پاک سے معافی مانگی۔ 
اب اس طوفان کا حال سنیں۔ زمین سے اتنا پانی ابلا اور آسمان سے اتنا پانی برسا کہ جودی کا برف پوش پہاڑ بھی اس میں ڈوب گیا پھر جب اللہ پاک نے آسمان کے پانی کو تھم جانے کا حکم دیا اور زمین کو سینے پر کھڑے پانی کو نگل لینے کا حکم دیا تو چھ ماہ بعد نوح علیہ السلام کی کشتی پہاڑ کی چوٹی پر آ کر ٹھہری۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ پانی کی سطح ہموار زمین پر اتری اور خشک زمین پر معمول کی زندگی دوبارہ شروع ہو گئی۔ پھر انہیں اسی بیاسی ایمان والے انسانی جوڑوں سے نسل آگے چلی۔ اسی واسطے نوخ علیہ السلام کو آدمِ ثانی کہتے ہیں۔ اور یہ اتنا ہولناک واقعہ تھا کہ دنیا کے تمام حصوں میں یہ قصہ لوگوں کو سینہ بہ سینہ یاد ہے اور ہر ملک کی زبان یا لٹریچر میں یہ قصہ بطور مثال مانا ہوا ہے۔ 

No comments:

Post a Comment