یعقوب علیہ السلام اور یوسف علیہ السلام
یعقوب علیہ السلام ،حضرت اسحق علیہ السلام کے بیٹے اور حضرت ابرہیم علیہ السلام کے پوتے تھے۔ اسحق علیہ السلام کی ولادت کے ساتھ اس پوتے یعقوب کی بشارت بھی ان فرشتوں نے دی تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے گھراجنبی مہمانوں کی صورت میں وارد ہوئے تھے۔یوسف علیہ السلام انہی یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹوں میں سے ایک ہیں جن کو اللہ نے پیغمبری کے لیے چنا۔ یوسف علیہ السلام کے قصے کو جب اللہ پاک نے قرآن پاک میں بیان کیا تو اسے بہت اچھا قصہ (احسن القصص) قرار دیا ہے۔ یہ قصہ نہایت تفصیل کے ساتھ سورہ یوسف میں بیان ہوا ہے۔ اور واقعی اس انداز سے بیان ہوا ہے کہ سننے پڑھنے والے کی پوری توجہ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ اس کی ابتداء اس خواب کے بیان سے ہوئی جو یوسف نے بچپن میں دیکھا اور اپنے باپ کو سنایا۔ کہا میں نے گیارہ ستاروں کو اور سورج اور چاند کو اپنے واسطے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ باپ پیغمبر زادہ تھا سمجھ گیا کہ گیارہ ستارے کنایہ ہیں گیارہ بھائیوں کا اور سورج اور چاند باپ اور ماں کا کنایہ ہے اور تعبیر اس خواب کی یہ ہے کہ لڑکا بڑا ہو کر اس قدر بلند مقام کو پہنچے گا کہ اس کے بھائی اور باپ اور ماں سب اس کی تعظیم کو اس کے سامنے سجدہ کریں گے۔ اس وقت کی شریعت میں سجدہ تعظیمی جائز تھا اب ہمیشہ کیلئے حرام کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے محسوس کیا کہ اس خواب کا اگر بھائیوں کو علم ہو گیا تو وہ حسد کی وجہ سے اور شیطان کے ورغلانے سے اس چھوٹے بھائی کے ساتھ کچھ فریب کریں گے۔ پس انہوں نے بیٹے کو نصیحت کی کہ یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سنانا۔ یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے، دس پہلی بیویوں سے تھے اور دو بیٹے یوسف اور بنیا مین چھوٹی بیوی سے تھے جو جلدی فوت ہو گئی تھی اور چھوٹے دونوں بیٹے با پ کی محبت کا زیادہ حصہ پانے لگے تھے۔ خاص طور پر باپ یوسف پر زیادہ مہربان تھا کیونکہ اس بیٹے میں ان کو نبوت پانے کے آثار نظر آتے تھے ۔دوسرے دس بیٹے اپنی طرف باپ کی توجہ کم پاتے تھے۔ جس کی وجہ سے ان کے دل میں حسد پیدا ہوا ۔وہ کہتے کہ ہم جو قوت والے ہیں (سو کام کرتے ہیں ) ہمیں تو باپ پیار نہیں دیتا اور یوسف جو ناتواں ہے وہ باپ کو زیادہ پیارا ہے ۔چنانچہ انہوں نے منصوبہ بنایا کہ وہ یوسف کو ہلاک کر دیں یا کسی حیلے سے دوسرے ملک بھجوا دیں تاکہ باپ کی تمام تر توجہ ان کو مل جائے اور سوچا کہ بعد میں توبہ کر کے ہم خوب نیک بن جائیں گے۔ چنانچہ ایک روز اپنے باپ کے پاس حاضر ہو کر انہوں نے عرض کی’’ اے ہمارے باپ !آپ یوسف کے معاملے میں ہم پر اعتبار کریں اور اسے ہمارے ساتھ سیرو تفریح کے لیے بھیجیں ، خوب کھائے گا اور کھیلے گا ، ہم اس کی پوری حفاظت کریں گے۔‘‘ با پ نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ اس کو تم لے جاؤ اور اس کو کوئی بھیڑیا کھاجائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو ۔ انہوں نے کہا کہ ہم طاقتور جماعت کے ہوتے ہوئے بھیڑیا اگر اس کو کھا جائے تو ہم نے سب کچھ گنوا دیا (ایسے کمزور اور بیوقوف ہمیں نہ سمجھیں )۔پس وہ باپ کی اجازت سے یوسف کو لے گئے اور ویرانے میں جا کر اس کو ایک گمنام کنویں میں ڈالنے پر متفق ہو گئے۔ اس پر اللہ نے وحی کے ذریعے یوسف کو بتا دیا کہ گھبراؤ نہیں ایک وقت آئے گا جب یہ سب کاروائیاں تم ان کو یا د دلاؤ گے اور وہ تم کو پہچان نہ سکیں گے ، اس وجہ سے کہ اس وقت تمہارا مقام خاصا بلند ہو گاجس کا انہیں گمان نہیں ہو گا۔ یوسف کو بھائی کنویں میں ڈال تو آ ئے مگر سر جوڑ کر بھائیوں نے باپ کو بتانے کے لیے یہ کہانی بنائی کہ ہم سب بڑے بھائی سبقت لے جانے کیلئے بھاگے اور اپنے سامان کے پاس چھوٹے یوسف کو بٹھا گئے اور ہمارے واپس آنے سے پہلے یوسف کو بھیڑیا کھا گیا اور یوسف کی قمیض پر جھوٹا خون (کسی بکری یا بھیڑکا) لگا کر رات روتے ہوئے باپ کے پاس آ کر وہ کہانی سنا دی اور یہ بھی کہا کہ چاہے ہم سچے ہوں آپ ہماری بات کو صحیح نہیں مانیں گے۔ باپ نے کہا کہ یہ کہانی تمہاری گھڑی ہوئی ہے اور اس بات پر جو تم ظاہر کرتے ہو میں اللہ ہی کی مدد مانگتا ہوں اور میرے لیے صبر ہی بہتر ہے یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں کی جھوٹی کہانی کو سمجھ گئے تھے کیونکہ یوسف کی خون آلود قمیض سالم کی سالم ان کے لیے بھیڑیا کیوں چھوڑ جاتا ۔اگر کچھ حصہ قمیض کا بچ بھی جاتا تو وہ بھیڑیے کے دانتوں سے تار تار ہو گیا ہوتا ۔ سچ ہے کہ جھوٹے شخص کا حافظہ نہیں ہوتا۔ وہ جھوٹے بھائی یوسف کا صحیح سالم کرتہ اتار کر باپ کو خون آلود کر کے دکھانے کے لیے لے گئے اور یوسف کو ننگے بدن کنویں میں ڈال گئے تھے۔
کہتے ہیں تین روز یوسف کنویں میں پڑا رہا۔ بڑا بھائی یہودا رحمدل تھا وہ ہر روز اس کو کھانا پہنچا آتا۔ اسی نے دوسرے بھائیوں کو قتل کرنے سے بھی روکا تھا اور اس کو گمنام کنویں میں ڈال دینے کا مشورہ دیا تھا ۔ پھر ایک قافلہ اس راہ سے گزرا ۔انہوں نے کنویں میں ڈول ڈالا تو اس میں بیٹھ کر یوسف باہر آ گیا۔ ڈول ڈالنے والوں نے اس کو مال تجارت سمجھا ۔ کیونکہ اس زمانے میں لاوارث بچوں کو لوگ غلام ظاہر کر کے بیچ دیتے تھے ۔ بھائیوں کو خبر ہوئی کہ قافلے والے یوسف کو نکال کر لے چلے ہیں تو انہوں نے وہاں پہنچ کر ظاہر کیا کہ یہ ہمارا غلام ہے جو بھاگ آیا ہے ۔اس کو بھاگنے کی عادت ہے۔ اس لیے قافلے والوں کے ساتھ سودا کر کے اس کو معمولی قیمت میں یعنی اٹھارہ درہم میں بیچ دیا جو نو بھائیوں نے دو دو درہم آپس میں بانٹ لیے، دسویں بھائی یہودا نے کچھ نہ لیا۔
قافلے نے مصر پہنچ کر جلدی سے یوسف کو بیچ دیا۔ عزیزِ مصر جو وہاں کا بڑا وزیر تھا اس کی بولی پر معاملہ ختم ہوا۔ اس نے اپنی عورت زلیخا سے کہا کہ نہایت پیارا قبول صورت او رہو نہارلڑکا معلوم ہوتا ہے۔ اس کو پوری عزت و آبرو کے ساتھ رکھو ۔ غلاموں کا معاملہ نہ کرنا۔ شاید بڑا ہو کر ہمارے کام آئے یا جب ہمارے یہاں اولاد نہیں ہوئی تو اسی کو بیٹا بنا لیں گے۔
نوٹ : ۔ بھائی یوسف کوبے وطن کرنا چاہتے تھے، قافلے والے اسے بیچ کر دام وصول کرنے کا اراد ہ کر رہے تھے اور اللہ تعالی خزائن مصر کا یوسف کو مالک بنانا چاہتے تھے ۔ اگر وہ چاہتے تو ان ساری کاروائیوں کو ایک حکم سے یکدم روک دیتے مگر اللہ تعالی بالآخر یوسف کو خزائن مصر کا مالک بنانا چاہتے تھے سو اللہ کا ارادہ پورا ہو کر رہا جیسا کہ قصہ کے اختتام پر معلوم ہو گا۔ دراصل یہ ساری کاروائیاں اللہ کے ارادے کی تکمیل کے لیے عمل پذیر ہوئیں اور اللہ اپنے ارادے کو پورا کرنے کی طاقت اور قدرت رکھتا ہے۔ کوئی اس کے ارادے کو پورا ہونے سے روک نہیں سکتا۔
یہ سب اللہ کے اس ارادے کی تکمیل کے لیے تھا کہ عزیز مصر کے محل میں رہ کر یوسف کو سرداروں کی صحبت میں سلطنت کے امور سمجھنے کا اور باتوں کو ٹھکانے پر بٹھانے کا کامل سلیقہ اور تجربہ حاصل ہوتاکہ جب وہ خزائن مصر کے مالک کا عہدہ سنبھالیں تو یہ باطنی طور پر تدبیر کردہ ٹریننگ ان کی صحیح رہنمائی کر سکے۔
پھر ایک آزمائش یوسف علیہ السلام کو پیش آئی۔ وہ یوں کہ جب یوسف جوان ہو گئے ان کے تمام قویٰ حدِّ کمال کو پہنچ گئے اور خداکے یہاں سے علم و حکمت کا فیض بھی ان کو پہنچا ۔مگر دوسری طرف عزیزِ مصر کی بیوی زلیخا حضرت یوسف کے حسن و جمال پر مفتون ہو گئی اور دلکشی کے سارے سامان جمع کر کے اس نے چاہا کہ یوسف کے دل کو ان کے قابو سے باہر کر کے اللہ کی نافرمانی پر آمادہ کرے ۔مگر اللہ اپنے مخلص بندوں سے برائی اور بے حیائی کو ہٹاتا رہتا ہے۔ پس یوسف دامن چھڑا کر بند کمرے سے باہر آ گئے جبکہ عزیزِ مصر کی بیوی زلیخا اس کے پیچھے پیچھے تھی۔ جونہی وہ کمرے سے باہر آئے سامنے عزیزِ مصر کھڑے تھے ۔زلیخا نے فوراً بات بنائی اور خاوند سے کہا کہ جو شخص تیرے گھر والی سے برائی کا ارادہ کر ے اس کی سزا یہی ہے ناں کہ اسے قید میں ڈالا جائے یا دردناک عذاب دیاجائے۔ مگر یوسف علیہ السلام نے کہا میں نہیں بلکہ خاتونِ خانہ قصور وار ہے۔چنانچہ جب دیکھا کہ یوسف کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہے تو عزیزِ مصر نے بیوی سے کہا کہ یہ تم عورتوں کا مکر ہے۔ تمہارا فریب بہت بڑا ہے پس تم اپنا گناہ بخشواؤ کیونکہ تو ہی گنہگار ہے اور یوسف علیہ السلام سے کہا آپ اس ذکر کو جانے دیں۔ عزیزِ مصر کی بیوی زلیخا کے اس مکر کا جب دیگر خواتین نے سنا تو اس پر طعن کرنے لگیں۔ اس پر زلیخا نے تما م امراء کی عورتوں کی دعوت کی اور ان کے سامنے دیگر کھانے کے برتنوں اور ضروری کٹلری کے ساتھ پھل کاٹنے کے لیے چھریاں بھی رکھیں۔ اور یوسف علیہ السلام کو سروس کے لیے بلایا۔ جب ان عورتوں نے یوسف کے حسین پیکر کو دیکھا تو اس قدر حیران و ششدرہ ہو گئیں کہ پھل کاٹتے کاٹتے انہوں نے اپنی انگلیاں کاٹ لیں اور کہنے لگیں کہ یہ بشر نہیں بلکہ کوئی بزرگ فرشتہ ہے۔ اس پر زلیخا نے کہا کہ یہ وہی ہے جس کے واسطے تم نے مجھ کو طعنہ دیا تھا۔ اس طرح اس نے اپنی انا کی تسکین بھی حاصل کی اور طعنہ دینے والیوں سے بدلہ بھی لیا۔ اور پھر اس نے یوسف علیہ السلام کو حکم نہ ماننے کی بناپر قید کروا دینے کی دھمکی دی۔ اس پر یوسف علیہ السلام نے دعا کی کہ اے میرے رب !مجھے جس طرف یہ عورتیں بلاتی ہیں اس کے مقابلے میں مجھے قید پسند ہے۔ اللہ پاک نے ان کی دعا قبول فرمائی اور یوں بڑوں نے فیصلہ کیاکہ یوسف علیہ السلام کو باوجود ان کی بے قصوری کے ایک مدت تک قید میں رکھا جائے تاکہ لوگ یوسف علیہ السلام کو ہی قصور وار سمجھیں اوربلند مرتبہ عورت کی بدنامی بھی نہ ہو اور اس نے جو قید کروانے کی دھمکی دی تھی وہ بھی پوری ہو جائے۔
جس روز یوسف علیہ السلام قید خانے میں داخل ہوئے اس روز دو اور نوجوان بھی قید خانے میں داخل ہوئے ۔ ان میں سے ایک نے خواب میں اپنے آپ کو شراب نچوڑ تے دیکھا اور دوسرے نے دیکھا کہ وہ اپنے سر پر روٹی اٹھائے ہے اور جانور اس میں سے کھا رہے ہیں ۔ انہوں نے یوسف علیہ السلام سے کہا کہ ہم آپ کو نیکو کار شخص سمجھتے ہیں آپ ہمیں ہمارے خوابوں کی تعبیر بتائیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم کوکھانا جو ملتا ہے اس کے آنے سے پہلے میں تم کو خوابوں کی تعبیر بتاؤں گا اور یہ بھی بتایا کہ یہ علم مجھے میرے رب نے عطا کیا ہے اور یہ کہ میں نے ان لوگوں کی ملت کو چھوڑرکھا ہے جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور میں نے اپنے آباء ابراہیم ، اسحق اور یعقوب کے دین کو پکڑا ہے اور یہ کہ ہمارا کام نہیں کہ اللہ کا کسی چیز کو شریک ٹھہرائیں اور یہ محض اللہ کا فضل ہے۔ اور یہ بھی کہا کہ اے قید کے ساتھیو! بھلا کئی معبود جدا جدا بہتر ہیں یا اکیلا اللہ جو زبر دست ہے سارے جہاں کے سارے کام سنوارتا ہے ۔ آپ لوگ تو یونہی بے سند کے چند ناموں کو پوجتے ہو۔ حقیقتاً اللہ کے سوا کسی کی حکومت نہیں اور یہ اللہ کا حکم ہے کہ اس کے سوا کسی کی پوجا نہ کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے۔ اس طرح توحید کی تبلیغ کے بعد انہوں نے خوابوں کی تعبیر یہ بتائی کہ پہلا شخص رہا ہو کر اپنے بادشاہ کو شراب پلائے گا اور دوسرا جو ہے وہ سولی دیاجائیگا پھر اس کے سر میں سے پرندے کھائیں گے۔ پھر آپ نے جس کے بری ہونے کا یقین تھا اس سے کہا کہ اپنے بادشاہ سے میرا ذکر کرنا کہ کس طرح ایک بے قصور شخص قید میں سختیاں جھیل رہا ہے۔ مگر شیطان نے چھوٹنے والے قیدی کو اپنے بادشاہ کے سامنے یوسف علیہ السلام کاذکرنا بھلا دیا اورو ہ کئی برس قید خانے کی سختیاں جھلیتے رہے۔ یہ یوسف علیہ السلام کے لیے تنبیہ بھی تھی کہ انہوں نے کیوں غیر اللہ کی سفارش پر بھروسہ کیا۔
پھر اللہ کی مخفی تدبیر ملاحظہ ہو کہ بادشاہ خواب میں سات موٹی گائیں دیکھتا ہے جن کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات ہری بالیں دیکھتا ہے انا ج کی اور دوسری سات سوکھی بالیں بھی دیکھتا ہے اور اس کی تعبیر دربار والوں سے پوچھتا ہے جو بتا نہیں سکتے ۔اس وقت وہ قیدی جو قید خانے سے رہا ہو کر بادشاہ کی ساقی گری کر رہا تھا اس کو یوسف علیہ السلام کی یاد آئی جن کی بتائی تعبیر کے مطابق وہ قید سے رہا ہوا تھا۔ اس نے کہا کہ مجھے یوسف علیہ السلام کے پاس بھیجیں ۔ میں ان سے تعبیر معلوم کرکے آتا ہوں ۔یوسف علیہ السلام نے یہ تعبیر بتائی کہ ملک میں سات سال جم کر کھیتی اگاؤ اور جو فصل کاٹو اس میں تھوڑا سا کھا کر باقی بالیوں میں جمع کر تے جا ؤ۔ پھر سات سختی والے سال آئیں گے اور وہ جمع کیا ہوا اناج کچھ تو لوگ کھائیں اور کچھ بیج کے واسطے روک لیں۔ اس کے بعد ایک سال آئے گا جس میں خوب مینہ برسے گا اور اس سال لوگ خوب انگور وغیرہ کا رس نچوڑیں گے۔ بادشاہ سن کر بہت خوش ہوا کہ بتانے والے نے تعبیر ہی نہیں بتائی، تدبیر بھی بتائی کہ سختی کے سالوں کے لیے غلہ کیسے محفوظ کرنا ہے اور بشارت بھی دی کہ بعد میں ایک سال سیرابی کا آئے گا جب غلہ اور پھل کثرت سے پیدا ہوں گے ۔ پس اس نے حکم دیا کہ اس شخص کو ہمارے سامنے لایاجائے تاکہ اس کے مرتبہ اور قابلیت کے موافق اس کو عزت کا مقام دیاجائے۔بچو! غور کرنے کی بات ہے کہ یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب طے شدہ مدت تک یوسف کو قید خانہ کی سختیاں جھیل کر صبر کے ساتھ اللہ کی رضا پر راضی رہنا سیکھ لیا۔ مگر جب قاصد یوسف علیہ السلام کے پاس گیا تو انہوں نے فرمایا کہ پہلے بادشاہ سے پوچھیں کہ جن عورتوں نے عزیزِ مصر کی بیگم زلیخا کی دعوت میں ہاتھ کاٹ لیے تھے جن کے فریب کا حال میرا رب تو جانتا ہی ہے مگر بادشا ہ بھی ان سے تفتیش کر کے حقیقت حال معلوم کرے کہ قصور وار کون تھا۔بچو! دیکھیں یوسف علیہ السلام نے صبر سے کام لیا اور جلدی سے بادشاہ کے بلاوے پر باہر نہ آئے بلکہ معاملے کی تحقیق کرانا ضروری سمجھا۔ چنانچہ بادشاہ نے جب تفتیش کی تو دعوت میں شریک عورتوں نے اقرار کیا کہ حاشَ لِلہ ہم نے یوسف علیہ السلام میں کوئی برائی نہیں دیکھی اور عزیزِ مصر کی بیوی نے بھی کہا کہ اب جو بات کھل گئی ہے تو میں اقرار کرتی ہوں کہ قصور وار میں ہی ہوں، یوسف علیہ السلام سچے ہیں۔ یوسف علیہ السلام نے یہ تحقیق اس لیے کروائی کہ پیغمبر انہ عصمت و دیانت بالکل ظاہر ہو جا ئے اور لوگ معلو م کر لیں کہ دغا بازوں کا فریب اللہ چلنے نہیں دیتا ۔ اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں پاک صاف رہنے میں اپنے نفس پر بھروسہ نہیں کرتا ہوں۔ یہ محض خدا کی رحمت ہی ہے جو کسی کو برائی سے بچاتی ہے۔
اس کے بعد بادشاہ نے یوسف علیہ السلام کو انٹر ویو کے بعد اپنا خصوصی معاون بنا کر شعبہ مالیات کا وزیر بنا دیا۔ بلکہ یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ میں قوی اور امین ہوں، خزانے کی چابیاں میرے حوالے کر دیں۔ پھر جب سخت قحط سالی کا زمانہ آیا جیسا کہ بادشاہ کے خواب کی تعبیر کے موافق اللہ کی طرف سے مقدر تھا تو کنعان میں یعقوب علیہ السلام کا گھرانہ بھی اس کی لپیٹ میں آ گیا۔ مصر میں قحط سالی کی پیش بندی کی ہوئی تھی، وہاں غلہ وافر موجود تھا مگر وہ پردیسی کو ایک اونٹ بوجھ سے زیادہ نہ دیتے تھے۔ حسن انتظام ان کا ایسا تھا کہ قحط سالی کے باوجود قیمت زیادہ نہیں لیتے تھے ۔اس لیے یعقوب علیہ السلام کے دس بیٹے غلہ حاصل کرنے کے لیے مصر گئے ۔ یوسف علیہ السلام نے ان بھائیوں کو پہچان لیا اور اپنی پہچان کرائے بغیرگھر والوں کا عام حال تفیصل سے معلوم کیا۔ ان کو غلہ بھی پورا دیا اور جو پونجی غلے کے عوض حاصل کی تھی وہ ان کے اسباب میں خفیہ طور پر رکھوا دی تاکہ گھر پہنچ کر جب اسباب کھولیں، غلہ کے ساتھ پونجی واپس آئی دیکھیں تو دوبارہ ان کو ادھر آنے کی مزید ترغیب ہو۔ یوسف علیہ السلام نے اپنے آپ کو ظاہر کیئے بغیر ان کو اپنے چھوٹے علاقی بھائی کو بھی اگلی دفعہ لانے کو کہا اور یہ بھی کہا کہ اس کو ساتھ نہیں لاؤ گے تو آپ کو غلہ نہیں دیاجائے گا۔ اصل میں بھائیوں نے اس چھوٹے بھائی کے لیے بھی ا یک اونٹ غلہ اور مانگا تھا جو بوڑھے باپ کی خدمت کے لیے ان کے ساتھ مصرنہیں گیا تھا ،لیکن قاعدے کے موافق چونکہ غائب کے نام پر غلہ نہیں دیا جاتا تھا اس لیے اصرار کر کے ان کو کہا کہ اس بھائی کو اگلی دفعہ ضرور ساتھ لانا، ورنہ سمجھا جائے گا کہ جھوٹ بول کر اس کے حصے کا غلہ مانگا گیا تھا۔
اگلی دفعہ بھائی اپنے چھوٹے بھائی کو بھی باپ سے پکا وعدہ کر کے لے آ ئے۔ جب سب بھائی جیسے باپ نے نصیحت کی تھی شہر میں داخل ہو کر یوسف علیہ السلام کو ملے تو انہوں نے چھوٹے بھائی کو اپنے پاس رکھا اور اس کو بتایا کہ میں تمہارا حقیقی بھائی یوسف ہوں اور بتایا کہ جو بدسلوکی بھائیوں نے کی ہے اس پر غمگین نہ ہو ۔ پھر جب بھائیوں کی وا پسی ہونے لگی تو بادشاہ کے پینے کا پیالہ بھائی کے اسباب میں خفیہ طور پر رکھوا دیا۔ پھر جب بھائیوں کا قافلہ واپس جانے کے لیے چل پڑا تو ایک پکارنے والے نے کہا اے قافلے والو ! رک جاؤ۔ تم تو چور ہو۔ انہوں نے کہا ہم چور نہیں اور نہ ہی فساد کرنے والے ہیں۔مگر تم بتاؤ کیا چیز تمہاری گم ہو ئی ہے۔ اس نے کہا کہ بادشاہ کا خاص پیالہ، اور جو کوئی وہ پیالہ لا حاضر کرے گا اس کو ایک بوجھ اونٹ غلہ اور دیا جائے کا ۔ بھائیوں نے کہا ہم چور نہیں۔پکارنے والے نے کہا کہ اگر تمہاری بات جھوٹ ثابت ہوئی تو پھر کیا سزا ہو گی چور کی۔ انہوں نے کہا جس کے اسباب میں سے پیالہ نکلے وہی اس کے بدلے میں ایک سال کے لیے غلام بنا کر باندھ لیاجائے۔ یہ ابراہیمی شریعت کا حکم تھا۔ پھر جب بنیا مین کی خرجی میں سے پیالہ نکلا تو لازماً اس کو ایک سال کے لیے بادشاہ کا بندہ بن کر وہیں رہنا تھا۔ یہ داؤ بھی اللہ نے یوسف علیہ السلام کو خاص طور پر سجھایا ورنہ وہاں کے قانون میں
بنیا مین کو روکا نہیں جا سکتا تھا۔ جب یہ صورت پیدا ہوئی تو بھائیوں نے الزام کو رد کرنے کی کوئی کوشش نہ کی بلکہ فوراً یہ کہا کہ اس بنیا مین نے اگر چوری کی ہے تو اس کے ایک بھائی نے بھی چوری کی تھی۔ اس پر یوسف علیہ السلام نے ان کو جتائے بغیر دل میں کہا کہ تم زیادہ برے ہو اور اللہ خوب جانتا ہے جو تم بیان کرتے ہو۔ خود ان بھائیوں کی چوری تو بہت بڑی تھی۔ انہوں نے پہلے یوسف بھائی کو باپ سے چرا کر چند سکوں کے بدلے بیچ ڈالا تھا اور ابھی تھوڑی دیر پہلے کہہ رہے تھے ہم چور نہیں مگر اب ایک غیر حاضر بھائی کو بھی چور کہہ دیا۔ گویا چوری کرنا ان کا خاندانی پیشہ ہے۔ (العیاذ با اللہ)
اپنے ہی بتائے ہوئے قانون کے مطابق جب چھوٹا بھائی بنیا مین چوری کے جرم میں بادشاہ کی غلامی میں باندھ لیا گیا تو بھائی پریشان ہوئے کہ باپ کو کیا جواب دیں گے جس نے ان سے پکا وعدہ لیاتھا کہ ضروراس کو غلے کے ساتھ واپس لائیں گے ۔چنانچہ انہوں نے پیشکش کی کہ اس بنیا مین کی بجائے ہم میں سے کسی ایک کو غلام بنا کر رکھ لو اور اس کو آزاد کر دو کیونکہ اس کا بوڑھا باپ اس کی جدائی برداشت نہ کر سکے گا۔ اور منت بھی کی کہ آپ احسان کرنے والے ہیں ہم پر یہ احسان کریں۔ جواب ملا کہ ہم مجرم کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو پکڑیں اللہ ہمیں اس سے پناہ دے ۔ آحر مایوس ہو کر سب بھائیوں نے مشورہ کیا۔ بڑے بھائی یہودا نے کہا کہ پہلے یوسف کے معاملے میں بھی ہم قصور کر چکے ہیں، پس میں تو جب تک اپنے با پ کی اجازت نہ ملے یا اللہ میرا قضیہ نہ چکا دے ہر گز اس زمین سے نہیں نکلوں گا۔ آپ سب باپ کے پاس جائیں انہیں بتائیں آپ کے بیٹے نے چوری کی اور غلام بنا کر باندھ لیا گیاہے ہم نے جو عہد دیا تھا وہ اپنے علم کے مطابق تھا ۔ہمیں کیا پتہ تھا کہ چوری کرے گا اور ہم اس کو واپس نہ لا سکیں گے۔ اور کہنا مزیدتسلی کے لیے آپ قافلے والوں سے پوچھ لیں ۔وہ ہماری سچائی کی ضرورگواہی دیں گے۔
اس طرح کی وضاحت پر بھی باپ نے یہی کہا کہ تم نے اپنے دل سے بات بنائی ہے۔ میرے لیے اب صبر ہی بہتر ہے۔ شاید اللہ ان سب کو میرے پاس لے آئے کہ وہی خبر دار اور حکمت والا ہے۔ نیا زخم کھا کر ان کا پرانا یوسف کی جدائی والا زخم بھی ہرا ہو گیا۔ اولاد نے قسم کھا کر کہا بابا! تو یوسف کی یاد کو نہیں چھوڑ ے گا جب تک گھل جائے یا ہلاک ہو جا ئے۔ یعقوب علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں اپنا اضطراب اور غم اللہ کے سامنے کھولتاہوں اور اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ۔ اور بچوں کو حکم دیا کہ جاؤ تلاش کرو یوسف کو اور اس کے بھائی کو اوراللہ کے فیض سے ناامید مت ہو۔ بیشک اللہ کے فیض سے سوائے کافروں کے کوئی ناامید نہیں ہوتا۔
پس جب ان کے گھر پر مزید سختی آئی تو یعقوب علیہ السلام کے بیٹے تیسری دفعہ پھر ناقص پونجی کے ساتھ مصر پہنچے اور درخواست کی کہ ہم پر خیرات کریں۔ غلے کی پوری بھرتی دیں۔ اللہ خیرات کرنے والوں کو اچھا بدلہ دیتا ہے۔ جب وہ وزیر خزانہ یوسف علیہ السلام کے سامنے پیش ہوئے تو انہوں نے پوچھا کہ تم کو خبر ہے کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟ جبکہ تم کو سمجھ نہ تھی۔ اس پر وہ چونکے اور بول پڑے کیا سچ آپ ہی یوسف ہیں۔ انہوں نے کہا ہاں میں یوسف ہوں اور یہ بنیا مین میرا بھائی ہے (ماں جایا)۔ اللہ نے ہم پراحسان کیا ہے۔ ا نہوں نے اقرار کیا کہ واقعی اللہ نے آپ کو ہم میں سے پسند کیا اور ہم خطا کارتھے۔ یوسف علیہ السلام نے کہا آج تم پر کوئی الزام نہیں۔ اللہ تم سب کو بخشے، وہ سب مہربانوں سے بڑا مہربان ہے۔ اور کہا یہ میری قمیض لے جاؤ اور با پ کے چہرے پر ڈالیے ،ان کی بصارت لوٹ آئے گی۔ اور پھر تم سب گھر والوں کو لے کرمیرے پاس ادھر آ جاؤ۔ جو نہی قافلہ مصر سے نکلا باپ نے جو بچوں کی جدائی میں رو رو کر اندھے ہو چکے تھے کہا کہ مجھے یوسف کی خوشبو آ رہی ہے۔ بچوں نے کہا کہ بابا! قسم اللہ کی، آپ اسی پرانی بھول میں ہیں۔ مگر جب بشارت دینے والے نے آ کر وہ کرتہ ان کے منہ پر ڈالا تو وہ خوب دیکھنے والے ہو گئے۔ ان کی بینائی واپس آ گئی۔ اس پر انہوں نے کہا کہ میں نہ کہتا تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے تھے۔ پھر بچوں نے باپ سے مغفرت کی دعا کی درخواست کی جو انہوں نے قبول فرمائی۔ بچو! آپ نے دیکھا باپ بچوں کی جدائی میں کیسے رو رو کے بینائی کھو بیٹھا پھر قصور وار بچوں کو معاف کر کے ان کی مغفرت کی دعا کی۔ پس ماں باپ کی خدمت کرنا، ان کی عزت کرنا بچوں پر سب سے بڑا فرض ہے اور یہ حق خوشی سے ادا کرنا چاہیے۔
آخر جب یعقوب علیہ السلام اور ان کا سارا کنبہ کنعان سے کوچ کر کے یوسف علیہ السلام کے پاس مصر پہنچے تو انہوں نے اپنے ماں باپ کو اونچی جگہ تخت پر بٹھایا مگر اس وقت کے دستور کے مطابق ماں باپ اور سب بھا ئی یوسف علیہ السلام کے آگے سجدہ میں گر پڑے۔ اس وقت یوسف علیہ السلام نے کہا’’ اے میرے باپ! یہ بیان ہے میرے اس بچپن کے خواب کا۔ اس کو میرے اللہ نے سچا کر دیا ہے۔ اور ا للہ نے مجھ پر انعام کیا جب مجھ کو قید خانہ سے نکالا اور آپ سب کو گاؤں سے ادھر لے آیا بعد اس کے کہ شیطان ہم بھائیوں کے درمیان جھگڑا ڈال چکا تھا۔ بیشک میرااللہ جو چاہتا ہے تدبیر سے پورا کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔
یوسف علیہ السلام کا قصہ واقعی اس انداز سے اللہ پاک نے بیان کیا کہ یہ سننے پڑھنے والے کی پوری توجہ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ مگر اللہ پاک کا مقصد صرف قصہ خوانی نہیں۔ بلکہ کئی مفید اغراض ہیں۔ اول یہ کہ اس میں یہودیوں کے اس سوال کا جواب ہے کہ یعقوب علیہ السلام کی اولاد بنی اسرائیل مصر میں کیسے پہنچی۔ دوئم یہ کہ اس میں یوسف علیہ السلام کو جو اذیتیں اپنے سوتیلے بھائیوں کی طرف سے پہنچیں اور اس کے بعد جو اللہ پاک نے ان کو نبوت اور حکومت کا بلند مقام عطا فرمایا اور بھائیوں کو بالآ خر یوسف علیہ السلام کی عظمت کے سامنے شرمندہ ہو کر جھکنا پڑا اور یوسف علیہ السلام کی عالی ظرفی کے سبب ان کے جرائم کی معافی کا جو تذکرہ ہے ان کا حضور ﷺ کی زندگی سے مماثلت کے سبب آپ کو تسلی دینا مقصود تھا۔ آپ کو بھی مکہ کے قریشی بھائیوں نے سخت اذّیتیں دیں، مجبوراََ آپ کو مدینے کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔ آپ کو اللہ نے نبوّت کے ساتھ حکومت سے بھی سرفراز کیا۔ آپ آٹھ سال بعد مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اور قریش کے تمام دشمن سردار شرمندہ ہو کر حضورﷺ کے سامنے ہاتھ باندھے جھک کر پیش ہوئے اور آپ نے بھی اپنے بھائی یوسف علیہ السلام کی طرح ان کے سب قصور معاف فرمادئیے ۔ یوں یہ قصہ آپ کے حق میں تنگی کے وقت ایک طرح سے بشارت تھی کہ حبیب! ،غم نہ کر، تجھے بھی بالآ خر عظمت کا بہت بلند مقام ملے گا اور یہ دشمن شرمندہ ہو کر تیرے سامنے جھک کر معافی مانگیں گے۔
تیسرے نمبر پر یہ قصہ یہ بھی بتاتا ہے کہ اللہ جب کسی ہستی کو نبوّت اور حکومت سے سرفراز کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اپنے ارادے کی تکمیل پر قادر ہو تا ہے کوئی رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔ چوتھے اس میں یہ سبق ہے کہ یعقوب علیہ السلام کی طرح بندہ ہر مصیبت صبر سے برداشت کرے اور اللہ کے فیض کی امید رکھے۔ لوگوں کے سامنے اپنا دکھڑا بیان نہ کرے، اپنا اضطراب اور غم بیان کرے تو صرف اللہ کے سامنے بیان کرے۔
اس قصے میں پانچویں نصیحت یہ ہے کہ جس طرح یوسف علیہ السلام نے قید خانے میں اپنے قیدی ساتھیوں کو توحید کی تعلیم دی، بندۂ مومن خود بھی صرف اللہ واحد کی عبادت کرے اور دوسروں کو بھی موقع بہ موقع یہی نصیحت کر ے کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اپنی مرادوں کے لیے صرف اسی کو پکاریں۔
No comments:
Post a Comment