Monday, 6 January 2014

History of Savour Foods


ایک شخص کروڑ پتی کیسے بن سکتا ہے؟ 
دنیا کا ایک ایسا شخص جو چاول بیچ کر کروڑ پتی بن گیاہے۔ 
یہ سوال بہت سارے لوگوں سے پوچھا گیا لیکن کسی سے بھی کوئی تسلی بخش جواب نہ ملا۔ مثلا یہ سوال ایک استاد سے پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا کہ مجھے اس سوال کا جواب معلوم ہوتا تو میں آج یونیورسٹی میں پروفیسر کے بجائے کسی بڑی کمپنی کا مالک ہوتا۔ جب یہ سوال ایک ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا گیا تو اس نے جواب میں کہا کہ پاکستان میں تو حلال رزق کمانے کیلئے خود کو ذبح کرنا پڑتا ہے۔ مطلب یہ کہ بینک لوٹنا شروع کر دو اور راتوں رات ارب پتی بن جاؤگے۔ آخر کار اس سوال کے کئی جوابات ملے ہیں مگر کسی نے بھی تسلی بخش جواب نہیں دیا۔ لیکن یہاں ایک ایسے کروڑ پتی کا جواب مطمئن معلوم ہوتا ہے جس کو بیان کرنا میں بہت ضروری ہے کہ ایک کاشتکار نے کیسے ترقی کی ؟
وہ ہیں راولپنڈی اسلام آباد کی جانی پہچانی شخصیت ، جن کا نام محمد نعیم ہے جو کہ سیور فوڈز کے مالک ہیں ۔جب کبھی کوئی بھی شخص خود یا اپنے دوستوں ، رشتہ داروں یا فیملی کیساتھ سیور فوڈز جاتا ہے تو سب کے ذہن میں فوری طور پر سب سے پہلے یہ سوال گردش کرتا ہے کہ آخر کا ر سیور فوڈز کیوں مشہور ہے اور یہ کیسے ترقی کی منازل طے کرتا گیا۔تو سیور فوڈزنے ترقی کیسے کی ہے اور ایک عام آدمی کروڑ پتی کیسے بن سکتا ہے ان سب باتوں کا جواب یہاں دیاجاتا ہے ۔ سیور فوڈزکا نام سنتے ہی دماغ میں مرغ پلاؤ کا تصور ابھرتا اور منہ میں پانی آ جاتا ہے۔ سیور فوڈزکاشمار پنڈی اسلام آ باد کے بڑے ریسٹورنٹس میں ہوتا ہے۔ جڑواں شہروں کے باسیوں میں سیور فوڈزخصوصی طور پر مقبول ہے۔ بلکہ اب تو یہ ثقافت کا حصہ بن چکا ہے۔ سیور فوڈزکی شہرت کی وجہ مرغ پلاؤ ہے۔ سیور فوڈزکی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام آباد کی سیر کے لیے آئے ہوئے لوگ جب تک سیورنہ کھائیں تو سیر نامکمل سمجھی جاتی ہے۔ سیور فوڈزپر دستیاب مرغ پلاؤ ذائقے میں منفرد اور حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔ یہاں پر چکن روسٹ، کرپسو برگر، چکن ہاٹ شاٹ ، ونگز، فرنچ فرائز، آئس کریم اور دیگر آئٹم بھی تیار کی جاتی ہیں۔ بنیادی طور پر محمد نعیم راولپنڈی کے رہنے والے ہیں اور ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔کاروبار شروع کرنے سے پہلے محمد نعیم نے اپنے گھروالوں کیساتھ مل کر سوچا کہ کونسا کاروبار شروع کیاجائے جس میں سرمایہ کم خرچ ہو۔ آخر کر بہت سوچ بچار کے بعد انہوں نے مرغ پلاؤ کا کاروبار کرنے پر اتفاق کیا۔ کیونکہ اس کیلئے سرمایہ بھی کم مقدار میں درکار تھا اور اس کے پکانے کا طریقہ بھی آسان تھا۔ انہوں نے چالیس ہزار روپے سے راولپنڈی کالج روڈ پر اپنے کاروبار کا آغاز کیا تھا۔ اور آج ان کا یہ کاروبار کروڑ پتی بن چکا ہے۔جو کہ اب ایک برانڈ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔چوہدری محمد امین اور ان کے بیٹے محمد نعیم کا خاندانی پیشہ کاشتکاری تھا۔ چوہدری محمد امین کاشتکار ی سے اپنا اور اپنے بال بال بچوں کا پیٹ پال کر گھر کا سارا نظام چلاتے تھے۔ محمد نعیم اپنے والدمحمد امین صاحب کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔محمد نعیم نے ٹوبہ ٹیک سنگ کی تحصیل گوجرہ سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعداپنے والد صاحب کے ساتھ مل کر سنہ 1989ء کاروبار کا آغاز کیا۔ اس کاروبارکو سیور فوڈز رکا نام دیا گیا تھا۔ شرو ع میں مالی حالات بھی اچھے نہیں تھے۔ راولپنڈی کالج روڈ پر باپ بیٹے نے مل کر ایک دکان کرایہ پر لی ۔ جہاں پر آج پورا پلازہ سیور فوڈز کی ملکیت ہے۔ محمد نعیم کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر ہمارا مقصد لوگوں کو صاف شفاف ، معیاری اور سستی خوراک فراہم کرنا تھا۔ جسے لوگوں نے پسندکرنا شروع کردیا۔ سیور فوڈز کا نام رکھنے کیلئے بہت سے الفاظ ڈھونڈے گئے لیکن کوئی بھی اچھا نام نہ ملا ۔ آخر کار Savour کا لفظ منتخب کیا گیا جس کا معنی ہے لذیذ اور چٹخارے دار کھانا ۔ شروع میں جتنا بھی منافع ہوتا تھا وہ کاروبار میں لگا یاجاتا تھا۔ اور اس طرح یہ بزنس بڑھتا گیا۔ کالج روڈ، اس کے بعد میلوڈی فوڈ مارکیٹ اور پھر بلیو ایریا اور پنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں بھی اس کاروبار کی شاخیں بنتی گئیں۔ جنہیں بہت زیادہ شرف اور پذیرائی حاصل ہوئی۔ 
محمد نعیم نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ کسی بھی قسم کے کاروبار میں شروع میں تو کچھ مشکلات پیش آتی ہیں ۔ حتی ٰ کہ یہ فکر بھی لگی رہتی ہے کہ کہیں سرمایہ ڈوب نہ جائے۔ اس کے علاوہ مارکیٹ میں جگہ اور گاہک بھی بنانا پڑتے ہیں۔ محمد نعیم کے مطابق شروع میں تو سیور فوڈز کی سیل بہت کم تھی اس لیے بھی ہمیں خطرہ رہتا تھا کہ کہیں سرمایہ ڈوب نہ جائے ۔ آخر کا ر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ لوگوں نے سیور فوڈ ز کو پسند کرنا شروع کیا اور ہماری یہ دکان پہلے چھوٹی سی تھی اور ہمارے گاہک بڑھتے گئے اور ہمیں مزید جگہ درکار تھی لیکن ہمارے پاس پیسے نہیں تھے۔ اور ساتھ ساتھ ملازمین کا مسئلہ بھی رہتا تھا۔بزنس کو چلانے کے لیے ہر طرح کے خطرات کا سامنا ہمیشہ رہتا ہے لیکن اگر ان خطرات کا مقابلہ کیاجائے تو پھر کامیابی آپ کی منتظر ہوتی ہے میں سب کاروباری لوگوں سے کہوں گا کہ خطرات سے ہر گز نہ ڈریں وقت کے ساتھ ساتھ آپ یہ چیزیں سیکھتے رہتے ہیں۔ یہ ایک معزز پیشہ ہے اس میں دولت بھی ہے اور عزت بھی۔ آخر کار الحمد اللہ ہم نے ان سب مشکلات پر احسن طریقے سے قابو پا لیااس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کے ہم بہت شکر گزار ہیں کہ اس نے ہماری کڑے وقت میں مدد کی۔کاروباری لحاظ سے یا کسی بھی کام کے سلسلے میں اگر انسان کی نیت صاف ہو تو اللہ تعالی ٰ بھی انسان کی مدد کرتا ہے۔ 
محمد نعیم نے بتایا کہ پہلے دن سے ہی ہماری یہی کوشش رہی ہے کہ گاہکوں کو معیاری خوراک فراہم کی جائے۔ ہم اپنے کسٹمرز کو گھر جیسا ماحول فراہم کرتے ہیں۔ جتنے جائز پیسے ہم گاہک سے چارج کرتے ہیں اس کے برابر کھانا بھی کھلایا جاتا ہے اس لیے سیور فوڈز پر کھانے کا کوئی پیمانہ نہیں ہے آپ جتنا مرضی کھا سکتے ہیں۔ کسٹمرکو ایسا ماحول فراہم کیا کہ جہاں پر وہ اپنی عزت افزائی محسوس کرتے ہیں۔ سیور فوڈز کے معیار اور کوالٹی کا یہ اثر ہے کہ آج راولپنڈی اسلام آباد میں کل پانچ برانچیں ہیں جہاں پر روزانہ تقریباً 10ہزار سے بھی زائد کسٹمرز پلاؤ کباب کھانے آتے ہیں۔ سیور فوڈز کی ترقی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کا چاہے رزق بڑھا دیتا ہے اور جس کا چاہے کم کر دیتا ہے اللہ ہی کسٹمرز کے دلوں میں ڈالتا ہے کہ مرغ پلاؤ یا پلاؤ کباب کھانا ہے تو سیور فوڈز سے ہی کھانا ہے باقی کہیں سے بھی نہیں۔ 
ہم بنیادی طور پر تین چیزوں کا خصوصی طور پر خیال رکھتے ہیں۔ معیار، صفائی اور قیمت۔ کیونکہ یہ بنیادی چیزیں ہیں ہمارے ریٹ بھی اتنے مناسب ہوتے ہیں کہ امیر اور غریب دونوں یہاں آتے ہیں۔ جبکہ باقی ریسٹورنٹس دیکھیں امیروں کیلئے الگ ہیں اور غریبوں کیلئے الگ ۔ جبکہ ہمارے ہاں سیور فوڈز پر ایسا نہیں ہے یہاں دونوں طرح کے طبقے اکٹھے ملیں گے۔ اور دونوں طبقوں کیلئے سہولیات بھی ایک جیسی ہیں۔ جو پلیٹ پلاؤ کباب کی آج ہم 150روپے کی بیچ رہے یہ 1989میں ہم 9روپے کی بیچا کرتے تھے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سیور فوڈز کبھی بھی کوالٹی پر کمپرو مائز نہیں کرتا ، چیزوں کو خریدنے سے لے کر بنانے تک ہر چیز ایک خاص عمل سے گزرتی ہے۔ سیور فوڈزکی پانچوں برانچوں میں کھانا بنانے کی ترکیب ایک جیسی ہے اور یہ سارا عمل ایک شخص کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے جہاں بھی سیور کھائیں گے اس کا ذائقہ اور لذت ہمیشہ ایک جیسی ہو گی۔ 
سیور فوڈز کی ہر آئٹم کے لیے الگ الگ منیجر ہوتا ہے ۔ جو مارکیٹ سے خریدار ی کرتا ہے اور سیور فوڈزکے مالک محمد نعیم خود بھی خریداری کے دوران نگرانی کرتے ہیں۔ کچھ آئٹم روزانہ کی بنیاد پر خریدی جاتی ہیں مثلا سبزی، چکن اور بیف وغیرہ اور کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو کو زیادہ دیر تک رکھا جا سکتا ہے۔ جیسے چاول، دالیں، مصالحہ جات وغیرہ ۔ بعض اوقات اکٹھا ہی تین یا چار ماہ کیلئے سٹاک جمع کیا جاتا ہے۔ سیور فوڈزکی مارکیٹنگ کے حوالے محمد نعیم نے بتایا کہ اصل میں ہمارا گاہک ہی ہمارے کاروبار کی مارکیٹنگ ہوتا ہے۔ ہم اپنے گاہک کو اچھی سے اچھی چیز اور خدمات فراہم کرتے ہیں پھر اس کو مناسب دام میں اعلیٰ کوالٹی والی خوراک ملتی ہے ۔ ہم کو شش کرتے ہیں کہ جو پیسے لئے جائیں اس کے مطابق سروس بھی مہیا کی جائے۔ جب ایک بار گاہک سیور فوڈزپر آتا ہے تو پھر وہ ضرور اپنے خاندان اور دوستوں میں ہماری آئٹم کی خود تعریف کرتا ہے اور یہی ہمارے کاروباراصل مارکیٹنگ ہے۔ سیور فوڈزکے ملازمین کے بارے میں محمد نعیم نے بتایا کہ سیور فوڈزپر ہم اپنے ملازمین کا اتنا ہی خیال رکھتے ہیں جتنا اپنے کسٹمرز کا ۔ کیونکہ کاروبار کی کامیابی کا دارومدار انتظامیہ اور ملازمین پر بھی ہوتا ہے۔ اگر وہ صحیح کام کریں گے تو پورے ادار ے کو فائدہ پہنچے گا۔ ملازمین کو اچھی تنخواہیں دیتے ہیں ، تین وقت کا کھانا اور رہائش بھی دی جاتی ہے۔ سیور فوڈز پر لوڈ شیڈنگ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ملازمین کے کپڑے دھونے اور جوتے پالش کرنے اور ہیئر کٹنگ کیلئے بھی خصوصی بندوبست کیا گیا ہے۔ جب تین ماہ بعد ہمارے ملازمین اپنے آبائی گھروں کو جاتے ہیں تو ہم ان کے اہلخانہ کیلئے تحفے بھی بھیجتے ہیںیہی وجہ ہے کہ آج سیور فوڈز کی پانچ برانچوں میں 500کے لگ بھگ ملازمین کام کر رہے ہیں۔ 
سیور فوڈزکے کھانے کے بارے میں محمد نعیم نے بتایا کہ میں لوگوں سے کہوں گا کہ کسی بھی ریسٹورنٹ کا کھانا اس وقت تک کبھی بھی نہ کھائیں جس ریسٹورنٹ کا کھانا مالک خود نہ کھاتا ہو۔ میں خود بھی کھانے کے وقت سیور فوڈز پے ہی ہوتا ہوں۔ اور یہاں سے ہی کھانا کھاتا ہوں۔
سیور فوڈزکے بزنس کو بڑھانے کے بارے میں محمد نعیم صاحب نے بتایا کہ ہم اپنے برانڈ کو بہتر بنانے کیلئے کوشش کر رہے ہیں۔ انشاء اللہ بہت جلد ہم پنڈی اسلام آباد کے علاوہ باقی شہروں میں بھی سیور فوڈز کی برانچز کا آغاز کریں گے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے لاہور میں برانچ کا آغاز کیا جا رہا ہے جہاں پر زمین بھی خرید لی گئی ہے اور اس پر تعمیراتی کام بھی تیزی سے جاری ہے بہت جلد لاہوریوں کیلئے خوشخبری ہو گی۔ 
موجودہ سیور فوڈز کی خوشحالی اور بہتری کے حوالے سے محمد نعیم نے بتایا کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے جتنا اللہ تعالی نے دیا کوشش کر تے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں میں بانٹیں۔ جس طرح اللہ فرماتا ہے ۔ جو میرا حق ہے وہ مجھے دو اور کوئی ہے جو مجھے قرض دے۔ قرآن میں جس جگہ بھی رزق کی بات کی گئی تو ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ غریب اور مستحق لوگوں کا خیال رکھا جائے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر فرض ہے اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو گناہ گار ہوں گے۔ محمد نعیم نے کہا کہ رزق کو اگر جائز طریقے سے حاصل کیاجائے اور سارا کچھ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہو تو ضرور فائدہ بھی ہوتا ہے اگر میں کہوں کہ میرے پاس پیسے آتے جائیں اور میں ڈھیروں جمع کرتا رہوں اور ان پیسوں کی طرف دیکھ کر خوش ہوتا رہوں تو مجھے حقیقی سکون نصیب نہیں ہو گا بلکہ ہر وقت خوف اور ڈر سا لگا رہے گا کیونکہ اس میں دوسرے لوگ شامل نہیں ہونگے ۔ خوشی میں دوسروں کو شامل کریں گے تو یقیناًضرور سکون بھی ملے گا اور راحت بھی۔ 

1 comment:

  1. Good post.Allah always help those who helps them selves.

    ReplyDelete