Monday, 6 January 2014

Brief History of Nobel Prize

نوبل انعامکیا ہے؟ 




دنیا میں ایسے آدمی بہت کم ملیں کے جن کی ایجادات سے انسانوں کیلئے موت و ہلاکت کے سامانوں میں اضافہ ہوا لیکن جب وہ مرے تو اپنی زندگی کا سب سرمایہ نیک کاموں میں لگا گئے۔ انہیں میں سے عظیم موجود اور نوبل انعام کا بانی الفریڈ برن نوبیل کا نام بھی ہے ۔ وہ ایک عظیم موجد تھا۔ اس نے وصیت کی کہ میری جائیداد کو فروخت کر کے سرمایہ بینک میں جمع کر دیاجائے اور اس کے منافع سے ہر سال پانچ انعامات طبیعات ، کیمسٹری، طبابت ، ادب اور امن کیلئے بہترین خدمات دینے والوں کو دیئے جائیں ۔ وہ سویڈین کا کیمیا دان، انجنئیر، فوجی جنگی سازو سامان تیار کرنے والا اور ڈائنا مائیٹ کا موجد تھا۔نوبیل 21اکتوبر1833میں اسٹاک ہوم ، سویڈن میں پیدا ہوا۔ بعد میں یہ اپنے خاندان کے ساتھ سینٹ پیٹر ز برگ روس چلا گیا۔ اس کے باپ کو آبدوز سرنگوں اور بھک سے اڑ جانے والے مادوں کیساتھ بڑی گہری دلچسپی تھی۔ اس نے ساری عمر انہی تحقیقات میں گزار دی۔ نوبیل کا بھائی بھی مشہور انجنئیر اور سائنس دان تھا۔ جبکہ خود نوبیل پیدائشی کمزور تھا ، عمر بھر بیمار رہا ، خصوصاً سر کے درد سے تو اسے کبھی نجات ہی نہ ملی۔ اپنی ماں سے اس کو بڑی محبت تھی۔ ماں کو یقین تھا کہ ایک دن میرا یہ بیٹا دنیا میں بڑا نام پیدا کرے گا ۔ جب نوبیل بیمار ہو کر پلنگ پر پڑ جاتا تو ماں پاس بیٹھ کر اسے کتابیں سناتی رہتی۔ ہوش سنبھالا تو اسے بھی باپ کی طرح آتش گیر مادوں کی تحقیقات کا شوق پیدا ہو گیا۔ نوبیل کو انجنئیرنگ سے بھی خاصی دلچسپی تھی۔ اسی دوران وہ امریکہ چلا گیا ۔ادھر اس نے سنا کہ ایک شخص نے ایک ایسا انجن ایجاد کیا ہے کہ جو سورج کی گرمی سے چلتا ہے اور اسے ایک کشتی میں لگایا جائے گا نوبیل بھی اس شخص کا دوست بن گیا۔ کشتی تجربہ کرنے کیلئے دریا میں ڈالی گئی تو اچانک طوفان برپا ہوا وہ غرق ہو گئی۔ اس کے ساتھ انجن کے موجد اور نوبیل کی امیدیں بھی ڈوب گئیں۔ اس کے بعد نوبیل نے زندگی کے دو نصب العین مقرر کر لئے ۔ اول یہ کہ آتش گیر مادوں کی ایجاد سے دولت کمائے دوسرا یہ کہ اس دولت کو ایسے کاموں میں لگا دے جن سے سائنس دانوں کو نئے نئے تجربات میں مدد مل سکے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مالی تنگی کی وجہ سے وہ اپنی خداداد جوہروں سے کام نہ لے سکیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں اس نے کئی ایجادات کیں۔ جن میں سے سب سے زیادہ شہرت ڈائنا مائیٹ نے حاصل کی۔ اس نے ڈائنا مائیٹ کو رجسٹرڈ کراکے جگہ جگہ کارخانے قائم کئے اور بڑا سرمایہ پیدا کر لیا۔ اگرچہ بیماری اس کا پیچھا نہ چھوڑتی تھی تاہم وہ اس حالت میں بھی نئے نئے تجربات کرتا رہا۔ اکثر وہ اپنے سر پر پٹی باندھ کر بھی اپنے کاموں میں لگا رہتا تھا۔ مصنوعی تیار کئے گئے عنصر نو بلیئم کا نام بھی اس کے نام پر رکھا گیا ہے۔ پلائی ووڈاس کے والد کی ایجاد تھی۔ اپنے خاندانی کاروبار کے دیوالیہ ہونے کے بعد الفریڈ اپنے والد کے ساتھ سویڈن واپس چلا گیا۔ اور خود کو دھماکہ خیز مواد کے مطالعے کے لیے وقف کر دیا۔ 3ستمبر1864میں ان کی فیکٹری میں بہت بڑا دھماکہ ہوا جس میں اس کے چھوٹے بھائی ایمل سمیت 5لوگ مارے گئے۔ الفریڈ ساری عمر غیر شادی شدہ رہا اپنی زمینوں اور ڈائنا مائیٹ سے کمائی گئی دولت کے باعث 10دسمبر 1896میں اپنے انتقال کے وقت نول کے اکاؤنٹ میں 90لاکھ ڈالرز کی رقم تھی۔ نومبر1895میں الفرید نوبل نے وصیت کے ذریعے اپنی جائیداد کا بیشتر حصہ نوبل انعامات کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اس نے اپنی وصیت میں لکھا کہ اس کی یہ دولت ہر سال ایسے افراد یا اداروں کو انعام کے طور دی جائے جنہوں نے گزشتہ برس کے دوران طبیعات، کیمیا، طب ، ادب اور امن کے میدانوں میں کوئی کارنامہ انجام دیا ہو پس اس وصیت کے تحت فوراً ایک فنڈ قائم کیا گیا جس سے حاصل ہونے والا منافع نوبل انعام کے حق داروں میں تقسیم کیاجانے لگا۔ نوبل انعامات کا سلسلہ1901سے شروع ہوا جو کہ ابھی تک جاری ہے۔
نوبل انعامات کی مقدار میں منافع کی رقم کے مطابق تھوڑی سی کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ عام اندازہ یہ ہے کہ کوئی بھی انعام پاکستانی سکے کے مطابق ڈیڑھ لاکھ سے کم نہیں ہوتا۔ یاد رہے کہ دوسری جنگ عظیم میں تین سال تک 1940تا1942ء تک انعامات کا سلسلہ ملتوی رہا۔ اس طرح آج 112برس گزرنے کے باوجود (نوبل انعام ) دنیا کا سب سے بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں قائم سویڈش اکیڈمی ہر سال طب، طبعیات، کیمیا، ادب اور نوبل انعامات کا اعلان کرتی ہے۔ اکیڈمی کی طرف سے جیتنے والوں کے نام کا فیصلہ اکثریتی ووٹ کی بنیاد کیاجا تا ہے۔ نوبل فنڈ بورڈ کے 6ڈائریکٹرز ہیں جو دو برس کے لیے منتخب کئے جاتے ہیں۔ ان کا تعلق صرف سویڈن یا ناروے سے ہوتا ہے اس کے علاوہ دنیا کے کسی اور ملک سے نہیں ہو سکتا۔ نوبل انعام میں ایک طلائی تمغہ، ایک ڈپلومہ اور 12لاکھ ڈالرزکی رقم شامل ہیں۔دنیا میں آج تک تقریباً 561نوبل پرائز دیئے جا چکے ہیں۔

No comments:

Post a Comment