بیویوں کے شکوے ، شکایتیں
سوال یہ ہے کہ آخر شوہر اپنی بیویوں سے کیوں تنگ آ تے ہیں۔ دنیا کے تمام معاشروں میں ایسے شوہروں کی کمی نہیں کہ جو اپنی بیویوں کے ستائے ہوئے نہ ہو۔ ایک لطیفہ مشہور ہے۔ بیوی۔ میں نے کہا جی تم مجھ سے کتنی محبت کرتے ہو؟ ۔شوہر۔ خوشی سے اتنی محبت کرتا ہوں کہ جتنی شاہ جہاں کو ممتاز سے تھی۔ بیوی (خوشی سے)اوہ سچی۔ تو کیا تم میرے مرنے کے بعد میری یاد میں تاج محل بنواؤ گے۔ شوہر۔ میری جان میں نے تو پلاٹ بھی خرید لیا ہے ۔ بس اب تمہاری طرف سے ہی دیر ہے۔
اگرچہ یہ لطیفہ ہے مگر ایسی بیویوں کی کوئی کمی نہیں ہے جن کے شوہر ان سے تنگ آ جاتے ہیں ۔ایسا صرف پاکستانی معاشر ے میں ہی نہیں ہوتا بلکہ دنیا کے ہر معاشرے میں ایسے شوہروں کی کمی نہیں ہے جو اپنی بیویوں کے ستائے ہوئے نہ ہوں۔ بھارت میں اس حوالے سے کئی غیر سرکاری NGOs بھی بن گئی ہیں جو بیویوں کے ستائے ہوئے شوہروں کی فلاح و بہبود کیلئے کام کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک شوہر نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کی نوعیت بیان کرتے ہوئے بتایا کہ میری بیوی بہت ہی اچھی تھی بلکہ محبت کرنے والی تھی مگر اس میں ایک خامی تھی کہ جب بھی گھر جاتا تو وہ ایک نیا ڈرامہ ضرور کرتی تھی ۔ کسی بچے کی کوئی بات شروع کر کے یا کسی ہمسائی کی بات سے یا کسی عزیز و اقارب کی بات کو لے کر وہ ایسا چیختی کہ بس خدا کی پناہ۔ آج پھر ہمسایوں سے تو تو میں ہوئی ہے۔ میں کہتی ہوں کہ کیوں نہ ہم یہ مکان بدل لیں۔اس محلے میں رہنا ہی عذاب ہے۔ اسی طرح ایک اور شوہر کا کہنا تھا کہ جب میں دفتر سے لیٹ ہو جاتا تو میری بیوی مجھ پر شک کرتی کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔جب میں بولتا تو جواب میں کہتی کہ تم جھوٹ بو ل رہا ہو۔ ایسے موقعوں پر وہ الٹے سیدھے سوالوں سے پریشان کرنے کا موقع کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیتی۔ چیخ و پکا ر ڈال دیتی کہ اس وقت گھر آنے کی کیا ضرورت تھی۔ جہاں اتنی رات گزاری ہے وہیں سو رہتے۔ میری تو اس گھر میں آنے سے قسمت ہی پھوٹ گئی ہے۔ جہاں شوہر ہی وقت پر نہ آئے۔ ایسے گھر میں کیا رہنا۔ جب سے سے شادی ہوئی تھی غارت ہو وہ نامراد جس نے آپ کا دل بیوی بچوں سے پھیر دیا ہے اور اتنی اتنی دیر دفتر کا بہانا کہہ کر باہر گزار دیتے ہو۔ یہ دن دیکھنے سے پہلے مجھے موت آ جاتی تو اچھاتھا اس دوران اگر دیر سے آنے کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ سننے سے انکار کر دیتی ہے۔
ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ میں بیوی کا رشتہ سب سے پکا ، سب سے کچا، سب سے لطیف اور بعض اوقات سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اس رشتے کو تکلیف دہ بنانے میں اگرچہ مردوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ مگر عورتیں اس کی زیادہ ذمہ دار ہیں ۔ اس تحقیق میں خواتین کی ان خامیوں کا بھی ذکر ہے جس سے ایک اچھا بھلا گھرانہ اجڑ جاتا ہے۔ اگرہمارے معاشر ے میں بیویاں اپنی ان خامیوں پر کنٹرول پا لیں تو نہ صرف گھر آباد ہونگے بلکہ خوشحال بھی ہونگے۔ بیویوں کی بہت سی عادات ایسی ہیں کہ جن سے ان کے خاوند بہت جلد تنگ پڑ جاتے ہیں جیسے کہ وہ اپنے ماضی کو لے کر بیٹھی رہتی ہیں کہ میرے ماں باپ مجھے پھولوں کی طرح رکھتے تھے، مجھے زندگی تمام سہولیات فراہم کرتے تھے اور میں خوش باش رہتی تھی اپنی مرضی سے زندگی گزارتی تھی۔ اور آج میں تمہارے گھر میں نوکرانیوں کی طرح زندگی گزار رہی ہوں۔ کبھی تمہاری اور کبھی تمہارے بچے کی دیکھ بھال میں وقت گزار دیتی ہوں ایسی بیویوں کی کوئی کمی نہیں کہ جن کے شکوے کبھی ختم نہیں ہوتے۔ بعض اوقات خواتین کی دن بدن بڑھتی ہوئی خواہشات کی تکمیل نہیں ہو پاتی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے وہ اپنے خاوند کی جیب کو بھی نہیں دیکھتیں بس یہی دیکھتی ہیں کہ ان کی دوست نے ایسے لباس زیب تن کیا ہے۔ میری ہمسائی کے گھر میں زیادہ سہولیات ہیں اور میں ان کے سامنے کچھ بھی نہیں وغیرہ وغیرہ ۔ کچھ بیویاں ایسی ہوتی ہیں جو اپنا زیادہ تر وقت اپنے دوستوں اور مشاغل میں گزار دیتی ہیں اپنے شوہروں اور فیملی کو وقت نہیں دیتی۔ جن سے شوہر چڑ جاتے ہیں۔ ہر کام میں اپنی من مانی کرنا ، کبھی اپنے شوہر کی نہ سننا اور اپنے فیصلے زبردستی اپنے شوہر پر تھوپتے رہنا ، وغیرہ اگر شوہر تھکا ہارا کام سے آتا ہے تو آتے ہی بیویاں شروع ہو جاتی ہیں کہ تمہاری بہن نے یہ کیا ،تمہاری ماں نے مجھے اس بات کا طعنہ دیا یا پھر ہمسائیوں کی باتیں لے کر بیٹھ جاتی ہیں جن سے شوہروں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستانی معاشر ے میں اکثر گھروں میں جائنٹ فیملی سسٹم ہے لیکن کچھ بیویاں اس ماحول میں ا یڈجسٹ نہیں ہو پاتیں او روہ فیملی سے ساتھ بیٹھ کر کھانا تک کھانا پسند نہیں کرتیں۔ اور ان کی اکثر کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے شوہرکے ساتھ اپنے بیڈروم میں بیٹھ کر کھانا کھائے اور اگر فیملی کے ساتھ کھانا کھانے کی ہامی بھر لیتی ہے تو ایسے عجیب اور بیزاری والے انداز سے کھاتی ہیں کہ سب کو پتا چل رہا ہوتا ہے کہ کتنی مشکل سے کھانا کھا رہی ہے اور کبھی تھوڑا سا کھا کر اٹھ جاتی ہیں اور مختلف رویوں سے گھر والوں کو احساس دلانے کی کوشش کرتی ہیں کہ وہ یہاں خوش نہیں ہے۔ کئی بیویاں اپنی ساس کو وہ مقام نہیں دیتی جو کہ دینا چاہیے ساس کو ماں سمجھنے کی بجائے دشمن سمجھتی ہیں ۔ اپنے شوہر کے بہن بھائی کو بھی اپنے بہن بھائیوں کی طرح نہیں سمجھتی بلکہ ان کی بھی برائیاں کرنے میں مصروف رہتی ہیں۔ جو کہ شوہروں کو بہت ناگوار گزرتی ہے۔ گھر میں اگر شوہر کے رشتہ داروں میں سے کوئی آ جاتا ہے تو بیویوں کا فوراً موڈ خراب ہو جاتا ہے۔ وہ جگہ جگہ بڑبڑاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ پہلے اس کو سنبھالوں، پھر اس کے گھر کو اور اب اس کے رشتہ داروں کو سنبھالوں۔ میں انسان ہوں کوئی جانور تو نہیں جو کہ ہر وقت کام کرتی رہتی ہوں۔ ایسی بیویوں کی بھی کوئی کمی نہیں کہ جو ذرا سی بات کو لے کر کئی دن تک اپنے شوہروں سے بات تک نہیں کرتیں ان سے ناراض رہتی ہیں اور اگر ناراضی کے دوران شوہر کسی کھانے کی فرمائش کر دیتے ہیں تو بیویاں اپنے غصے نکالنے کیلئے تیار بیٹھی ہوتی ہیں۔ طرح طرح کے طعنے دے کرشوہر کو بولنے کا موقع ہی نہیں دیتیں۔ ایک تحقیق سروے کے مطابق اگرمیاں بیوی کے رشتے کو دنیا بھر میں سب سے قریبی رشتہ سمجھا جاتا ہے لیکن وہ ایک دوسرے کے اچھی طرح سمجھ نہیں پاتے اس طرح ان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ میاں بیوی دونوں جاب ہولڈر ہوتے ہیں اگر بیوی کی تنخواہ اپنے شوہر سے زیادہ ہو تو شوہر کے لیے یہ بات بہت تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اور شوہر اس سے بھی تنگ آ جاتے ہیں اس سے ان میں خود غرضی کا احساس پیدا ہو جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے پر یقین نہیں کرتے جس سے مسائل اور بھی کشیدہ ہو جاتے ہیں۔ دنیا کے مختلف معاشروں میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح اگرچہ مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں مگر ان میں سب سے اہم وجہ صبر و تحمل کی کمی ہے۔
اگرچہ میاں بیوی کے مسائل تاقیامت تک حل ہونے والے نہیں لیکن کچھ باتوں پر عمل کر کے ہم ا پنی ازدواجی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ صبر و تحمل سے کام لیں ، توکوئی نامناسب بات نہ ہو گی۔ چونکہ ہر کسی کا اپنا ایک سلیقہ اور عقیدہ ہوتا ہے یہ نہیں کرنا چاہیے کہاپنی بات پر اڑے رہو من مانی کرو بلکہ ایک دوسرے کو سمجھ کر اور احساسات اور جذبات کی قدر کرتے ہوئے ایک دوسر ے کے ساتھ چلنے کی کوشش کرو۔ جن باتوں پر اختلاف ہوتے ہیں ان کو آ پس میں بات چیت کے ذریعے حل کیاجا ئے پھر اس حوالے سے کچھ شرائط و ضوابط بنا لیے جائیں اور آئندہ ان باتوں کو نہ دہرایاجائے ۔ا پنے شوہروں کو اس کی غلطیوں کا احساس دلانے کے لیے اسے تنقید کا نشانہ نہ بنایاجائے بلکہ بہت آرام سے پیار ومحبت سے اپنی بات شوہر تک پہنچائیں ۔ زیادہ سے زیادہ اپنے شوہر کی باتوں کی طرف توجہ کریں۔ اپنے شوہر، اپنے بچوں کا اور اپنے شوہر کے گھر کا خیال رکھیں۔ تاکہ زندگی خوش و خرم انداز سے گزاری جا سکے۔ فضول خرچی، مقابلہ بازی، اور دیگر وہ تمام امور کو نظر انداز کر نے کی کوشش کریں تاکہ گھر خوشحال ہو سکے۔
No comments:
Post a Comment