Monday, 6 January 2014

To Be Great Man


ترقی کیسے کریں 
کامیابی کے چند سنہری اصول
یہ اصول بار بار کے تجربے سے کامیاب ثابت ہو چکے ہیں۔ جن پر عمل کر کے لوگ کامیاب اور خوشحال انسان بن گئے ہیں۔
سب سے پہلے یہ کہ آپ کو جو کام دیاجائے اس کے بارے میں جملہ معلومات حاصل کریں۔ اس کامطلب یہ ہے کہ اس کام کے سلسلے میں کوئی ایسی بات آپ کے علم میں آنے سے نہ رہ جائے جو آپ کو جاننے چاہیے مگر آپ نہ جانتے ہوں۔ اس اصول کی وضاحت یہ ہے کہ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی ادارے میں ملازمت کرتے ہیں تو یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ وہ اس ادارے کی بڑی مشین کا ایک پرزہ ہیں اور ان کا کام صرف یہ ہے کہ جب انہیں حرکت دی جائے تو حرکت میں آ جائیں ورنہ ساکن رہیں۔ چنانچہ وہ مشین کی مجموعی حرکت سے کوئی تعلق پیدا نہیں کرتے۔ ایسے لوگ اس کام کی اہمیت سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں جو انہیں سونپا جاتا ہے۔ ان کا خیال یہی ہوتا ہے کہ انہیں روزانہ جو کچھ کرنے کا حکم دیاجائے اسے انجام دے کر اپنے افسر کے حکم کی تعمیل کر دیں۔ وہ اس کے علاوہ اور کچھ جاننے یا سمجھنے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ 
یہاں ایک واقعہ پیش خدمت ہے جو امریکہ میں بہت عرصے سے مشہور چلا آ رہا ہے کہ دو مزدور کسی عمارت کی تعمیر میں مصروف تھے۔ اور وہ دونوں ساتھ ساتھ کام کر رہے تھے۔ کسی نے پوچھا کہ تم یہ کیا کر رہے ہو ۔ ایک مزدور نے جواب دیا کہ میں اینٹیں لگا رہاہوں مگر دوسرا بولا میں عمارت بنا رہا ہوں۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں کے جوابات میں زمین آسمان کا فرق تو تھا۔ اسی لیے کام کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرنے سے اس کام کو انجام دینے کا شوق بڑھتا ہے۔ 
امریکہ کے ہی ایک سابق صدرفرینکلن کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کو بچپن میں صابن سازی کے ایک کارخانے میں لگا دیا گیا تھا۔ جو کام ملا وہ بہت گندہ اور میلا تھا۔ اور جس کوٹھڑی میں اس کو کام کرنا پڑتا تھا اس میں بدبو بلکہ تعفن بھی تھا مگر فرینکلن نے ان باتوں کی ذرا بھی پروا نہ کی اور وہاں رہ کر صابن سازی کے سارے گرسیکھ لیئے۔ انہیں یہ تسلی تھی کہ ماحول تکلیف رہ اور ناخوشگوار ہے توہوا کرے، مجھے یہاں صابن سازی کے طریقے معلوم ہو رہے ہیں۔ 
اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم کسی چیز کے بارے میں جتنا زیادہ جانتے ہوں گے اتنے ہی زیادہ اعتماد اور گرم جوشی سے گفتگو کریں گے۔ چنانچہ اگر آپ کو اپنے کام سے لگاؤ نہیں ہے تو اس عدم دلچسپی کی وجہ تلاش کیجیے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ وجہ یہی ہو کہ آپ کو اپنے کام کے بارے میں پوری معلومات حاصل نہ ہوں۔ 
اپنا ایک مقصدیا مدعا اپنے سامنے رکھیں اور اس پر قائم رہیں۔ کوئی شخص جس مقصد کے حصول کے لیے کوشش کر رہا ہو اس کے بارے میں اسے معلوم ہو جائے تو اس کے حصول کے لیے وہ اس پرشکرے کی طرح جھپٹنا چاہیے ۔ ایسا شخص ناکامیوں اور رکاوٹوں سے بددل نہیں ہوا کرتا۔ اس کا حوصلہ ہر حال میں بلند رہتا ہے۔ ایک عظیم کامیاب شخصیت لائڈ جارج نے ایک جگہ لکھا ہے کہ اگر تمہیں ترقی کرنی ہے تو پہلے یہ فیصلہ کرو کہ کیا کرناہے؟ پھر اس کو ا نجام دینے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دو۔ اپنے ذہن میں اپنے مقاصد اور ارادوں کی وضاحت کیجیے اور ناممکن کامیابیوں کے خواب دیکھنے کے بجائے معین اور واضح مقصد کے حصول کے لیے بھر پور جدوجہد کیجیے۔ 
اپنے حالات کے بارے میں روزانہ خود سے باتیں کریں ۔ شاید یہ اصول آپ کو طفلانہ معلوم ہو مگر دنیا کے کے بعض کامیاب ترین افراد اسی پر عمل پیرا رہے ہیں۔ ان کے بیان کے مطابق اس طرح جوش اور ولولے میں اضافہ ہوتا ہے ۔ وہ کسی زمانے میں گھر گھر پھر کر مختلف اشیاء فروحت کیا کرتا تھا ۔ اس نے ایک جگہ لکھا ہے کہ میں روزانہ گشت پر نکلنے سے پہلے خود سے باتیں کرتا ہوں۔ اس خود کلامی سے کئی مسائل بہ آسانی حال ہو جاتے ہیں۔ ہم میں سے بیشتر افراد اس طرح زندگی گزارتے ہیں کہ وہ غفلت کی نیند سوئے رہتے ہیں اس خواب غفلت سے چھٹکارا پانے کا طریقہ یہ ہے کہ ہر روز خود سے باتیں کر کے احساس ذمہ داری سوچنے کو بیدار کیاجائے۔ 
خود کو اس طرح سوچنے کا عادی بنایاجائے کہ مجھے دوسروں کی خدمت کرنی ہے۔ ارسطو نے ایک جگہ لکھا ہے کہ میں ہر انسان کے لیے روشن خیال خود غرضی لازمی سمجھتا ہوں۔ اس قسم کی خودغرضی بڑی ضروری ہے۔ صرف وہی لوگ کام کرنے سے اکتاتے ہیں جو روشن خیال خود غرض نہیں ہوتے بلکہ محض خود غرض ہوتے ہیں انہیں یہ فکر رہتی ہے کہ جو کام ان کے ہاتھ میں ہے اسے جلد سے جلد لپیٹ کر گھر کی جانب بھاگ کھڑے ہوں ۔ ایسے افراد کی ایک آنکھ کام پر ہوتی ہے تو دوسری گھڑی کی سوئیوں پر۔ یہ بڑی غلط ذہنیت ہے ، کارکنوں کو روشن خیال خود غرض ہونا چاہیے۔ یعنی انہیں اپنے مفاد کے ساتھ ساتھ مالکان کے مفاد کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ یہ جذبہ خدمت ہے اس سے کام اچھا اور زیادہ کرنے کی لگن بڑھتی ہے۔ کارکنوں کو تو روشن خیال خود غرضی کے باوجود معاوضہ ملتا ہے ۔ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو معاشرے کی بلا معاوضہ خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنائے ہوئے ہیں۔ انہیں مالی فائدے کی بالکل پروا نہیں۔ حالانکہ وہ خو د غرضی سے کام لیں تو اس خدمت کے معاوضے میں کافی رقم کما سکتے ہیں ۔ خود غرضی حیوانوں کا شیوہ ہے۔ یہ جنگلی پن ہے۔ جنگلی پن کے طور طریقے ایک محدود عرصے تک ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ اس سے آگے نقصان دہ ثابت ہونے لگتے ہیں۔ 
۵۔ شوق اور ولولہ رکھنے والوں انسانوں سے ملنا جلنا چاہیے اور ان سے میل جول بڑھانا چاہیے۔ 
۶۔ ایک انگریزی کی کتاب Five Great Rules of Business(تجارت کے پانچ عظیم اصول ) میں کتاب کے مصنف نے ایک خوبصورت نصیحت کی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ان انسانوں سے دور رہیے جو ہر وقت منہ پھیلائے رہتے ہوں ، دنیا سے بیزار ہوں، زندگی سے مایوس ہوں اور چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرتے رہتے ہوں۔ ان لوگوں کے سینے عمل کی گرمی سے خالی ہوتے ہیں۔ یہ لوگ روزمرہ کے اہم اور ضروری کام بھی وبال سمجھ کر ہی انجام دیتے ہیں۔ 
۷۔ خود کو شوق پیدا کرنے اور ولولے سے کام کرنے پر مجبور کیجیے۔ آپ میں یہ اوصاف پیدا ہو جائیں گے ۔ یہ قول ایک فلسفی کا ہے جس کا نام ولیم جیمز ہے وہ فلسفہ کا مسلمہ استاد ہے اور کہتا ہے کہ اگر آپ چاہتے ہوں کہ آپ میں کوئی خاص جذبہ پیدا ہو تو اس طرح کی حرکتیں شروع کر دیجیے جیسے یہ جذبہ آپ کے دل و دماغ میں پہلے سے موجود ہے۔ اس طرح آپ پر وہ جذبہ لازمی طور پر طاری ہو جائے گا۔ ایک کامیاب تاجر نے بھی اپنے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ خوش رہنا چاہتے ہوں تو مسرت کا جذبہ اپنے اوپر طاری کر لیجیے۔ اسی طرح اگر آپ کی خواہش یہ ہے کہ آپ میں شوق اور ولولہ پیدا ہو تو صاحب شوق اور ولولہ انگیز انسانوں جیسی حرکتیں شروع کر دیجیے۔

No comments:

Post a Comment