Monday, 27 January 2014

Arab & Israel War 1967


عرب اور اسرائیل جنگ 1967ء
کرہ ارض پر وقتاً فوقتاً بہت سی قومیں بنیں اور مٹ بھی گئیں ، متعدد حکومتوں نے جنم لیا۔ فتح و نصرت کے ڈنکے بجائے اور تاریخ کے صفحات پر اپنا نام چھوڑ گئیں۔ جس قوم نے اپنے عروج میں جیسا کام کیا ویسا ہی اس کو نتیجہ مل گیا۔ جب ہم دنیا کی بڑی بڑی قوموں پر نظر ڈالتے ہیں تو تاریخ کے صفحات پر اسرائیل کی داستان بھی نظر آتی ہے مگر وہ ایک خونچگاں داستان ہے جس میں ظلم و ستم کے خنجر ، خود غرضی اور مطلب پرستی کی شمشیریں نظر آتی ہیں ۔ یہ وہی قوم ہے جس کی ہدایت کے لیے اللہ تعالی نے بے شمار نبی اور رسول بھیجے لیکن اس کے باوجود ان کی اصلاح نہ ہو سکی۔ اس قوم نے اپنی ابتداء ہی میں باپ کا دل دکھایا ، بھائی کو کنویں میں گرا کر اس کو بازار مصر میں غلاموں کی طرح بکوایا۔ 
آج ایک چھوٹے سے ملک اسرائیل کو اس قدر جرات ہو گئی ہے کہ اس نے تمام عرب ممالک پر جارحانہ حملہ کر دیا ۔ کیا اس میں ایسا کرنے کی جرات تھی یا اس کو بیرونی طاقتوں نے اس کے لیے ابھارا۔ کمزور ہونے کے باعث ہماری نظریں بڑی طاقتوں پر لگی رہتی ہیں اور ہم بآسانی اس خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ مصیبت کے وقت کوئی طاقت ہماری مدد کو پہنچ جائے گی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جنگ چھڑ جاتی ہے ، خوبصورت شہر آگ نظر ہو جاتے ہیں ، آسمان سے آگ اور لوہا برسنے لگتا ہے، مگر دوسری طرف محض اجلاس ہی ہوتے ہیں یہاں تک کہ کوئی فیصلہ بھی نہیں ہو پاتا کہ متحارب ممالک کی لڑائی کا نتیجہ بھی سامنے آ جاتا ہے ۔ یہ صرف اور صرف مسلمان ممالک کی آپس کی نااتفاقی کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ اگر مسلمان ممالک آپس میں اتحاد کر لیں اور کسی فارمولے کے تحت مشترکہ دفاع اور مشترکہ ٹیکنالوجی کے اصول پر اتفاق کر لیں تو پھر دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ 
مغربی قوتیں اگرچہ آزاد جہاز رانی کے نام پر خلیح عقبہ کو کھلا سمندر قرار دینا چاہتی تھیں مگر ان کا مقصد یہ تھا کہ افریقہ اور ایشیائی ممالک کو مال بھیج کر ان ممالک سے خام مال اور تیل حاصل کیاجائے ۔ جس کی اقتصادی اور فوجی ضروریات کی وجہ سے اسرائیل کو سخت ضرورت تھی۔ ان کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ ایلات کی بندرگاہ کو چوڑا کر دیاجائے تاکہ ان کے جنگی جہاز اور آبدوزیں یہاں اڈہ بنا سکیں اور عربوں کے سر پر ایک مستقل خطرہ رہے ۔ ان کا تیسرا بڑا مقصد یہ تھا کہ تیل کی پائپ لائنوں کو خلیج عقبہ سے توسیع دے کر مقبوضہ فلسطین کو بحرہ روم میں بندرگاہوں تک لے جایا جائے تاکہ متحدہ عرب جمہوریہ کو نہر سویز میں سے گزرنے والے تیل بردار جہازوں پر سے محصول جونگی کی جو آمدنی ہوتی تھی اسے ختم کیاجا سکے۔ 
اسرائیل نے اس سے پہلے بھی فرانس اور برطانیہ کی شہ پر نہر سویز پر پوری طاقت سے جارحانہ حملہ کر دیا تھا اور عرب جمہوریہ پر آسمان سے گولے برسنے لگے تھے۔ بات صرف اتنی تھی کہ صدر ناصر نے نہر سویز کو قومیانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ غورطلب بات یہ ہے کہ کیا نہر سویز مصر کے بجائے برطانیہ میں واقع تھی یا اس کی کھدائی کا کام یورپ کے مزدوروں نے انجام دیا تھا ، کیا یہاں اہل یورپ کے بزرگوں کو ہڈیاں دفن تھیں؟ نہیں ہر گز نہیں۔ نہر سویز مصر کا ایک حصہ ہے اور اس کی کھدائی میں مصری مزدوروں نے کام کیا تھا ۔ جن یورپی ممالک نے اس کی تعمیر کے سلسلے میں رقم لگائی تھی سال ہا سال تک اس سے فائدہ اٹھا چکے تھے اور مصری قوم نے اپنا یہ قرض سود در سود ادا کر کے چکایا تھا۔ نہر سویز پر اب صرف اور صرف مصریوں کا حق تھا ، صدر ناصر نے اس نہر کو قومیانے کے لیے جو جرات مندانہ اقدام اٹھایا تھا وہ مصریوں کے بہترین مفاد میں تھا۔ 
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہر سویز کو قومیانے کا اعلان گولہ بن کر گرا اور تمام یورپ میں کھلبلی مچ گئی۔ اب وہی صورت خلیج عقبہ کی تھی ، عقبہ اردن کے علاقے میں واقع ہے ۔ جوں ہی اس کی ناکہ بندی کا اعلان ہوا، برطانیہ ، امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے خلیح عقبہ کی ناکہ بندی توڑنے کی دھمکی دی گئیں ۔ آبنائے طیران مشرق وسطیٰ کے عربوں کے علاقے میں واقع ہے چنانچہ عربوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس کو کھلا رکھیں یا اس کی ناکہ بندی کریں۔ 
اس آبی شاہراہ سے کام لینے کی کئی اور بھی شکلیں ہو سکتی تھیں ۔ معاہدے ہو سکتے تھے ، گفتگو کے ذریعے سے اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ عربوں کو ڈرانے اور دھمکانے کا سلسلہ شروع کر دیاتھا۔ نتیجہ کچھ بھی نہ نکل سکا۔ عربوں نے اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے سر سے کفن باندھ کر نکلنا قبول کر لیا۔ صدر ناصر نے اپنے اس موقف سے ہٹنے سے انکار کر دیا اور واشگاف الفاظ میں کہا کہ عقبہ اور آبنائے طیران کی ناکہ بندی قائم رکھیں گے۔ اردن کو اس میں اپنے بحری جہاز چلانے اور گزارنے کا پورا حق ہے۔ اس حق سے عربوں کو کوئی بھی طاقت محروم نہیں کر سکتی۔ صدر ناصر کی یہ دوسری شاندار فتح تھی۔ عرب اس پر جتنا بھی ناز کریں کم ہو گا۔ 

No comments:

Post a Comment