حضرت ابراہیم علیہ السلام
حضرت صالح علیہ السلام کے بعد ایک عرصہ طویل گزر گیا ۔ اس دور ان آپ کی نجات پانے والے نیکو کار ساتھیوں کی اولاد نے اس زمین کو خوب آباد کیا۔اللہ نے ان کو خوشحالی دی اور دجلہ فرات کی خوبصورت زمین بھی ان کے قبضے میں آئی۔ پھر تکبرّ اور مستی نے سر اٹھایا اور قوم شرک اور بت پرستی کی راہ پر چل پڑی۔ اس پر اللہ نے ان کی ہدایت کے لیے ان میں سے ایک بت گر آزر کے بیٹے ابراہیم کو مبعوث فرمایا۔ پیغمبروں کی تعلیم چونکہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اس لیے ابراہیم طبعاً بت پرستی سے بیزار تھے اور ایک اللہ واحد کی یکسوئی کے ساتھ بندگی کرنے والے تھے ۔ انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم کو سمجھانے کی کوشش کی۔ کہا ’’بتوں کو کیوں پکارتے ہو جو نہ سن سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں نہ کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان ۔ اپنے منہ پر بیٹھی مکھی کو بھی نہیں ہٹا سکتے۔ ان کے سامنے جو کھانے کی چیزیں پجاریوں نے رکھی ہیں ان میں سے مکھی کچھ اچک کر لے جائے تو وہ اس سے واپس نہیں لے سکتے۔‘‘ بت اس قدر بے اختیار تھے مگر اس بات کی سمجھ نہ ان کی قوم کوآ ئی نہ ان کے باپ کو۔انہوں نے اپنے باپ دادا کو جیسے دیکھا تھا ان کی پیروی میں بتوں ہی کی عبادت کرتے اور انہی سے مرادیں مانگتے رہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مختلف مجلسوں میں ا پنے باپ اور قوم کے دیگر بڑوں چھوٹو ں کو مضبوط دلیلیں دے کر سمجھایا کہ عبادت کے لائق صرف ایک اللہ کی ذات ہے جس کے سوا کوئی اور بندگی کے لائق نہیں۔ اللہ رب ہے ، خالق ہے ، مالک ہے، رازق ہے، زندگی ا ور موت اسی کے اختیار میں ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ، نہ ذات میں ، نہ صفات میں اور نہ ہی اختیارات میں ۔وہ ہر چیز پر قادر ہے، وہ شاہوں کو گدا کر دے ، گدا کو بادشاہ کر دے، اشارہ اس کا کافی ہے گھٹانے میں ، بڑھانے میں ، وہی تو واحدِ بے مثل ہے سارے زمانے میں۔
ایک دفعہ کا فر بادشاہ نمرود کے دربار میں ان کی پیشی ہوئی۔ بادشاہ اپنے آپ کو سلطنت کے غرور میں سجدہ کراتا تھا۔ ابراہیم علیہ السلام نے سجدہ نہ کیا۔ نمرود نے دریافت کیا تو فرمایا میں اپنے رب کے سوا کسی کو سجد ہ نہیں کرتا۔ اس نے کہا رب تو میں ہوں۔ انہوں نے جواب دیا حاکم رب نہیں ہوتا۔ رب وہ ہوتا ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے۔ نمرود نے دو قیدی منگوا کر بے قصور کو مار ڈالا۔اور قصوروار کو چھوڑ دیا اور کہا دیکھا میں جس کو چاہوں مار ڈالتا ہوں اور جس کو چاہوں زندہ رکھتا ہوں۔ اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ میرا رب سورج کو مشرق سے لاتا ہے تو اس کو مغرب کی طرف سے لاکر دکھا ۔ اس پر نمرود حیران ہو کر لاجواب ہو گیا۔
پھر ایک روز جب کسی سالانہ تہوار پر جو شہر سے باہر منایا جاتا تھاسب لوگ اس میلے میں شرکت کے لیے چلے گئے تو ابراہیم علیہ السلام نے بڑے بت خانے میں داخل ہو کر بتوں سے کہا کہ یہ چڑھاوے کی اتنی کھانے کی چیزیں تمہارے سامنے پڑی ہیں تم کھاتے کیو ں نہیں ۔ تم بولتے کیوں نہیں ہو۔ پھر انہوں نے کلہاڑا لے کر سب چھوٹے بتوں کولولا لنگڑا کر دیا ۔ کسی کا بازو کاٹا کسی کی ٹانگ کاٹی ، کسی کا کان کاٹا، کسی کی ناک کاٹی اور کلہاڑا بڑے بت کے کاندھے پر رکھ دیا۔
جب شہر کے لوگ میلے سے واپس آئے اور انہوں نے بت خانے میں اپنی مورتیوں کو شکستہ حالت میں دیکھا اور کلہاڑا بڑے بت کے کندھے پر لٹکا دیکھا تو ان کو اس گستاخانہ حرکت کرنے والے پر سخت غصہ آیا۔ تفتیش سے ان کو معلوم ہو گیا کہ یہ حرکت ابراہیم نے کی ہے۔ ان کو پکڑ کر لوگوں کے سامنے لایا گیا۔انہوں نے پوچھا۔ ابراہیم ! یہ ہمارے معبودوں کے ساتھ گستاخانہ حرکت تم نے کی ہے۔ انہوں نے کہا نہیں۔ پر یہ ان کے اس بڑے بت نے کی ہے، اس سے پوچھیں ۔پھر وہ سوچ میں پڑ گئے کہ واقعی ہم ہی بے انصاف ہیں جو ان بے جان بے اختیار بتوں کو پوجتے ہیں، مگر پھر شرمندگی مٹانے کے لیے بول پڑے کہ ابراہیم تو جانتا ہے کہ یہ بولتے نہیں ۔ اس بڑے بت سے کیا پوچھیں۔ اس پرابراہیم نے کہا کہ جب یہ تمہارا بھلا کر سکتے نہ برا ، نہ تمہاری پکار سن سکتے ہیں نہ جواب دے سکتے ہیں، نہ اپنی ہی حفاظت کر سکتے ہیں تو پھر ان کی پوجا کیوں کرتے ہو۔ میں تو ان سے بیزار ہوں۔ کیاتم کو سمجھ نہیں آتی ۔ اس پروہ روایتی غیرت کی وجہ سے اپنے معبودوں کی مدد یوں کرتے ہیں کہ اپنے بادشاہ نمرود سے شکایت کر کے ابراہیم کو آگ میں جلانے کا پروانہ حاصل کرتے ہیں ۔ پھر انہوں نے ایک بھیانک چتا جلا کر اس کے اندر ابراہیم کو پھینک دیا۔ مگر اللہ نے جو ہر شے پر قادر ہے آگ کو حکم دیا کہ ہمارے خلیل ابراہیم پر ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی والی بھی ہو جا یعنی اتنی زیادہ ٹھنڈی نہ ہونا جس سے ابراہیم کوتکلیف پہنچے۔
جب نمرود بادشاہ اور اس کی کافر رعایا کی تمام تدبیریں ابراہیم کے خلاف ناکام ہو گئیں تو ان کو جلا وطن کر دیا گیا۔ اللہ پاک کی مشیّت بھی یہی تھی کہ اس ناقدر شناس قوم کو کفر کے اندھیروں میں چھوڑ دیا جا ئے اور شام فلسطین کی مبارک زمین پر ابراہیم کے ذریعے توحید کا چراغ روشن کر کے وہاں کے لوگوں کو کفر کے اندھیروں سے نکالا جائے ۔ چنانچہ ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی سارہ اور بارہ تیرہ سالہ بھتیجے لوط کو لے کر اللہ کے حکم سے شام کی طرف روانہ ہو گئے۔ یہ ہجرت کا نہایت کٹھن اور طویل سفر ایک صنف نازک بیوی اور ناتوان بھتیجے کے ساتھ انہوں نے اس زمانے میں کیسے طے کیا ۔ اللہ ہی کی خصوصی مدد اور رہنمائی سے ممکن ہوا۔ سچ ہے عشق انسان سے وہ کام بھی کروا دیتا ہے جو عقلاً محال ہو تے ہیں۔ ابراہیم اپنے رب کے سچے عاشق تھے جن کو اللہ نے اپنا خلیل قرار دے کر رسولوں میں بلند مقام عطا کیا۔ شام میں کنعان نامی بستی میں ابراہیم علیہ السلام نے دعوت الی اللہ کا مرکز کھولا اور توحید کا پیغام لوگوں میں پھیلانا شروع کیا۔ جب بھتیجا لوط آپ کی شاگردی میں خوب سمجھ دار ہو گیا تو اس کو آپ نے خلیج عقبہ سے ملحق علاقے میں دعوت کا مرکز کھولنے کے لیے روانہ کر دیا اور خود اپنی زوجہ کو ساتھ لے کر مصر کا سفر اختیار کیا۔ وہاں کے بادشاہ کو دعوت الی اللہ کا پیغام دیا۔ اس نے آپ کی خوب تعظیم کی اور بہت سے تحائف دے کر رخصت کیا۔ آپ کی زوجہ حضرت بی بی سارہ کو ایک نہایت بلند مرتبہ حسین و فطین لڑکی جس کا نام ہاجرہ بی بی تھا بطور کنیز ہدیہ کی۔ واپس آ کر کنعان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تبلیغ کاکام اور زیادہ محنت سے شروع کیا۔ آپ حد درجہ مہمان نواز تھے۔ جب تک کوئی مہمان نہ ملتا خود کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھاتے تھے۔ آپ کے حسن خلق سے لوگ آپ کی دعوت پر لبیک کہنے لگے۔ مگر جہاں آپ کو رسالت کا فریضہ احسن طریقہ سے ادا کرتے ہوئے روحانی خوشی ہوتی تھی وہاں میاں بیوی کو اولاد سے محرومی کا غم بھی تھا۔ اگر چہ پیغمبر اپنے مولیٰ کی رضاپہ راضی ہوتے ہیں اور زبان پہ حرفِ شکایت نہیں لاتے تا ہم آپ کی زوجہ حضرت بی بی سارہ اولاد سے محرومی کی وجہ سے مغموم رہتی۔ پھر انہوں نے اپنی باندی ہاجرہ بی بی کو آزاد کر کے اس کو اپنے شوہر ابراہیم کے نکاح میں دے دیا اور اولاد کے لیے اللہ سے گڑ گڑا کر دعا کی۔ اللہ نے اپنے پیاروں کی دعاقبول فرمائی اور ان کے گھر اسمٰعیل بیٹے کی ولادت سے رونق بخشی ۔ مگر پھر اللہ کا ابراہیم کو حکم ہوا کہ اپنی بیوی ہاجرہ اور بیٹے اسمٰعیل کو مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ آؤ ، وہی وادی جہاں اللہ کا پہلا گھر بنا تھا۔ مگر گزری صدیوں میں زمین پر جو حادثے آئے تھے ان کے سبب سے ڈھے گیاتھا۔ یو ں حضرت بی بی سارہ کا گھر پھر بے رونق ہو گیا۔
ادھرجس بی بی ہاجرہ اور بچے اسمٰعیل کو مکہ کی وادی میں چھوڑا گیا تھا ان کا حال سنیں ۔ جب کھانے پینے کا سامان جو حضرت ابراہیم علیہ السلام بی بی ہاجرہ کے پاس چھوڑ گئے تھے ختم ہو گیا ستوؤں کاتھیلا خالی ہوگیا پانی کی چھاگل بھی خشک ہو گئی تو فاقوں کی نوبت آئی۔ ہاں ایک صرف اللہ تعالی کا مضبوط سہارا رہ گیاتھا جس کے بھروسے پر ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی اور بچے کو چھوڑ گئے تھے ۔ہاجرہ بی بی نے صبر سے کام لیا اور اللہ سے مدد مانگی ۔ مگرجب فاقے کی وجہ سے چھاتی کا دودھ سوکھ گیا اور بچہ بھوک سے بلبلا نے لگا تو ماں بے چین ہو کر پانی کی تلاش میں ادھر ادھر بھاگی ۔ پہلے ہاجرہ بی بی دائیں طرف صفا پہاڑی کی چوٹی تک گئیں، چاروں طرف نگا ہ کی مگر مایوسی ہوئی۔ پھر ادھر سے اتر کر بائیں طرف کی مروہ پہاڑی کی چوٹی پر جا کر ہر طرف دیکھا کہیں پانی نظر نہ آیا۔ پھر واپس صفا پہاڑی کی طرف گئیں ۔اس طرح انہوں نے دونوں پہاڑیوں کے درمیان سات چکر لگائے ۔ چکر کاٹتے ہوئے وہ دھیان اپنے بچے اسمٰعیل کی طرف رکھتیں کہ کہیں کوئی جانور اس کو نقصان نہ پہنچائے ۔ ساتویں چکر میں جب انہوں نے بچے کی طرف دیکھا تو انہیں چمکتا پانی نظر آیا۔ بھاگ کر پہنچیں تو دیکھا جہاں بچہ زمین پر ایڑیاں رگڑ رہا تھا وہیں سے پانی کاچشمہ ابل پڑا۔ آپ نے ادھر ادھر سے مٹی اکٹھی کر کے پانی کے گرد ایک منڈیر سی بنا ئی تاکہ پانی ادھر ادھر پھیل کر ضائع نہ ہو جائے۔ اور ساتھ ہی پانی کو حکم دیا زم زم یعنی رک جا۔ پانی منڈیر کے اندر رکتا رہا اوربجائے پھیلنے کے نیچے گہرائی میں کنویں کی صورت میں جمع ہوتا رہا اور اس روز سے آج تک یہ زم زم کا کنواں لاکھوں انسانوں کی ضرورت پوری کر رہا ہے۔ جوں جوں ضرورتمند انسانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے تو ں توں پانی کی مقدار بھی بڑھ رہی ہے اور اس کے اندر اتنے منرل ہیں کہ یہ نہ صرف پیاس بجھا تا ہے بلکہ غذا کا کام دے کر بھوک بھی مٹاتا ہے۔ اور دوا کا کام دے کر شفا بھی دیتا ہے۔ پس اللہ کا جتنا شکر کیا جا ئے کم ہے۔
اس زم زم کے کنویں کا دوسرا فائدہ یہ ہو اکہ تجارتی قافلے جو اس راستے سے گرمیوں میں شام کی طرف اور سردیوں میں یمن کی طرف جاتے ہوئے، قیام کیئے بغیر گزر جاتے تھے اب یہاں دو چار دن کے لیے رک جاتے ۔ جانوروں کو خوب پانی پلاتے ،خود ضرورت کے مطابق پانی استعمال میں لاتے اور کچھ راستے کے لیے ساتھ لے جاتے ۔ کچھ عرصہ کے بعد قبیلہ بنوجرھم کے سردار نے حضرت بی بی ہاجرہ سے اجازت لے کر چند گھرانوں کو وہاں آباد کر دیا ۔ یوں مکہ کی چھوٹی سی بستی وجود میں آئی۔ پھر اسی قبیلے کی ایک لڑکی حضرت اسمٰعیل جب جوان ہوئے تو ان کے نکاح میں آئی۔
ادھر حضرت ابراہیم علیہ السلام چند برس بعد اللہ کے حکم سے اپنی بیوی حضرت ہاجرہ اور بچے اسمٰعیل کا حال معلوم کرنے کے لیے شام سے چل کر مکہ کی اسی وادی میں پہنچے جہاں ان کو چھوڑ گئے تھے ۔وہاں پہنچ کر بیوی اور بچے کو اچھے حال میں دیکھ کر خوش ہوئے ۔ زم زم کے کنویں کی وجہ سے جو وہاں بنو جرھم کے چند گھروں کی آبادی سے چھوٹی سی بستی وجود میں آ گئی تھی اس کو دیکھ کر ان کو اور زیادہ خوشی ہوئی اور چند روز وہیں رک گئے۔ جب بیٹا اسمٰعیل باپ کے ساتھ دوڑنے اور چھوٹے موٹے کاموں میں مدد دینے کے قابل ہو گیا تو اللہ پاک نے ابرہیم کاامتحان لینے کے لیے ان کو ایک خواب میں اپنے اس بیٹے کو ذبح کرنے کاحکم دیا اور یہ خواب انہوں نے تین شب متواتر دیکھا۔حضرت ابرہیم علیہ السلام اپنے طور پر حکم ماننے کو فوراً تیار ہو گئے اور پھر اپنا خواب بیٹے کو سنایا یہ معلوم کرنے کو کہ آیا خوشی سے آمادہ ہوتا یا زبر دستی کرنی پڑے گی۔ بیٹے نے بلا تکلف قبول کیا اور کہا ابا جان جو مالک کا حکم ہو کر ڈالیئے ۔ میں انشاء اللہ صبر کرنے والا ہو ں گا۔ پس جب باپ بیٹا دونوں نے اللہ کا حکم خوشی سے مان لیا او ربیٹے کو ماتھے کے بل ذبح کرنے کے لیے لٹایا۔ (ماتھے کے بل اس لیے تاکہ بیٹے کا چہرہ سامنے نہ ہو مباد ا محبتِ پِدری جوش مارنے لگے۔ کہتے ہیں یہ بات بھی بیٹے نے باپ کو سکھلائی ۔) اس وقت اللہ نے پکارا اے ابراہیم !بس بس، رہنے دے، تو نے خواب سچا کر دکھایاہے۔ مقصود بیٹے کو ذبح کرانا نہیں تھا محض تیرا امتحان منظور تھا سو اس میں تم پوری طرح کامیاب ہوئے ہو۔ بیٹے کے بدلے میں اللہ پاک نے بہشت سے بڑے درجے کا نہایت قیمتی جانور لاکر حضرت ابراہیم کے ہاتھوں ذبح کرایا۔اور پھر یہی قربانی کی رسم اسمٰعیل علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد گار کے طور پر مسلم امت میں ہمیشہ کے لیے قائم کر دی گئی۔
کہتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی کے ہمراہ اپنے بیٹے اسمعٰیل کو ذبح کرنے کے لئے لے جارہے تھے تو شیطان نے پہلے باپ سے کہا کہ بیوقوف نہ بن خواب خواب ہوتا ہے۔اپنے لاڈلے بیٹے کو جو تمہیں بڑھاپے میں ملا اس کو ذبح نہ کر۔ آپ نے اس کی بات نہ مانی اور کنکر مار کر اسے بھگا دیا۔ پھر اس نے بی بی ہاجرہ سے کہا کہ تو کیسی ماں ہے تیرے بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے لے جا رہا ہے تیرا شوہر پاگل پن میں ،تو احتجاج بھی نہیں کرتی۔ اس بی بی نے بھی اس کی بات نہ مانی اور اس کو کنکری مار کر بھگا دیا۔ پھر شیطان نے بیٹے کو بھڑکا یا کہ ظالم باپ کے سامنے ذبح ہونے سے انکار کر دے۔ اس فرزندِ ارجمند نے بھی شیطان کو کنکری مار کر بھگا دیا کہ جا خبیث ، ہم باپ بیٹا اللہ کا حکم خوشی سے مان رہے ہیں۔ ان تینوں کی اطاعت گزاری میں استقامت کی اللہ پاک نے ایسی قدر کی کہ حاجیوں پر شیطان کے تین جمعرات پر سات سات کنکریاں مارنا واجب قرار دے دیا۔جس کے بغیر حج مقبول نہیں ہوتا۔ اسی طرح بی بی ہاجرہ کے پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ پہاڑیوں کے درمیان دوڑ کے سات چکروں کی یوں قدر فرمائی کہ حج اور عمرہ ادا کرنے والوں پر صفا اور مروہ پہاڑیوں کے درمیان سات چکر لگانا فرض قرار دیا اور دونوں پہاڑیوں کو شعائر اللہ کا درجہ عطا فرمایا۔ پس ابراہیم، آپ کی زوجہ ہاجرہ بی بی اور بیٹے اسمٰعیل پر سلام ہو اور رحمتیں ہوں۔
اس امتحان میں کامیابی کے بعد ابراہیم علیہ السلام واپس کنعان چلے جاتے ہیں جہاں ان کی فرمانبردار بیوی سارہ ان کا شدت سے انتظار کر رہی تھی۔ پھر ایک روز اچانک دس نوجوان آپ کے گھر وارد ہوئے ۔ان کو وارد ہونے والے نوجوان اجنبی معلوم ہوئے ۔تاہم چونکہ آ پ حد درجہ مہمان نواز تھے اس لیے علیک سلیک کے بعد فوراً ان کی مہمانی کا اہتمام کیا اور ایک بھُنا ہوا بچھڑا لے آئے اور کھانے کے لیے پیش کیا۔ مہمانوں نے ہاتھ نہ بڑھایا تو ابراہیم ان کے ڈر سے گھبرائے کیونکہ اجنبی مہمان کھانا نہ کھائے تو اس سے دشمنی کا اندیشہ ہوتا ہے۔ مگر مہمانوں نے کہا آپ ڈریں مت ہم تو فرشتے ہیں اور ایک ہوشیار لڑکے کی آمد کی ان کو خوشخبری دی۔ ان کی عورت بی بی سارہ ایک گوشہ میں کھڑی سن رہی تھیں ، بشارت سن کر چلائیں تعجب سے پیشانی پر ہاتھ مارکر کہنے لگیں کہ کیا خوب ! ایک بڑھیا بانجھ جس کے جوانی میں اولاد نہ ہوئی اب بڑھاپے میں ایک بیٹے کو جنم دے گی؟فرشتوں نے جواب دیا’’ ہم اپنی طرف سے نہیں کہہ رہے بلکہ تیرے رب نے ایسا ہی فرمایا ہے۔ وہی جانتا ہے کس کوکس وقت کیا چیز دینی ہے۔ پھر آپ نبوت کے گھرانے والے ہو کر اس بشارت پر تعجب کرتی ہیں۔ یہ لڑکااسحق علیہ السلام ہیں جن کی بشارت ماں باپ دونوں کو دی گئی۔ یوں اللہ پاک نے اس نبوت والے گھر میں پھر بہار کھلا دی۔حضرت بی بی سارہ کی دلجوئی بھی ہو گئی اور ان کو اسحق کے بعد پوتے یعقوب کی بھی بشارت دی گئی جن کا لقب اسرائیل یعنی اللہ کا بندہ تھا۔ اور اس پوتے کی اولاد بارہ بیٹوں سے آگے بنی اسرائیل کے بیشمار نبی حضرت عیسٰی علیہ السلام تک آئے ۔ان میں سے بعض نبیوں کا قصہ آگے زمانی ترتیب سے بیان کیا جائے گا۔اس وقت ابرہیم علیہ السلام کے مکہ کی وادی کے آخری سفر کا حال بیان کیاجاتا ہے۔ آپ نے اسمٰعیل کے ذبح کے واقعہ کے بعد تین اور سفر اس وادی کے اپنی بیوی ہاجرہ اور بیٹے اسمٰعیل کے احوال معلوم کرنے کی غرض سے اختیار کیئے۔ آخری سفر میں جب حضرت اسمعٰیل پوری طرح جوا ن ہو چکے تھے تو اللہ پاک نے ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ میر ے سب سے پہلے گھر کی بنیادوں پر باپ بیٹا مل کر نئی تعمیر کرو۔ سو باپ بیٹا بیت اللہ یعنی خانہ کعبہ کی تعمیر میں لگ گئے اور ساتھ ساتھ دعا کرنے لگے کہ اے ہمارے پرودرگار ہم کو اپنا حکم برداربنا اور ہماری اولاد میں بھی ایک جماعت اپنی فرمانبرد اربنا، ہمیں حج کے قاعدے بھی بتا اور ہماری خطائیں بھی معاف فرما۔ اور اس امت میں انہیں میں سے ایک رسول اٹھا جو ان کو آپ کی آیتیں یعنی احکام پڑھ کر سنائے، ان کو کتاب یعنی قرآن کے علوم سکھائے ، حکمت کی باتیں سکھائے اور کفر کی پلیدگی سے نکال کر ایمان کی پاکیزگی سے انہیں سنوارے۔
جب کعبہ کی تعمیر مکمل ہو گئی تو اللہ پاک نے ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ اب تو لوگوں کو حج کے لیے پکار۔ اس حکم کی تعمیل میں آپ نے اذان دی اور اللہ کے حکم سے قیامت تک حج کی سعادت حاصل کرنے کے لیے آنے والوں کی روحوں نے یہ اذان دل کے کانوں سے سنی اور اپنے اپنے وقت پر حج کی ادائیگی کے لیے آتے رہے ہیں اور آتے رہیں گے۔ اور دنیا اور آخرت کی بھلائیاں اللہ کے گھر میں حاضر ہو کر مانگتے رہیں گے اور فیضیاب ہوتے رہیں گے ۔ فالحمد اللہ رب العالمین۔
نوٹ: ۔ابراہیم علیہ السلام نے جس پتھر پر کھڑے ہو کر اذان دی تھی اس پر اللہ کے حکم سے ان کے پیروں کے نقش جم گئے اور وہ پتھر آج بھی بیت اللہ میں موجود ہے اسی جگہ پر امام صاحب کھڑے ہو کر نماز پڑھاتے اور طواف کے خاتمے پر ہر حاجی اسی جگہ دو نفل ادا کرتا ہے۔
No comments:
Post a Comment