شعیب علیہ السلام
حضرت شعیب علیہ السلام کو اللہ نے مدین والوں کی طرف مبعوث فرمایا۔ ان کو ایکہ والے، جنگل والے بھی کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ ایک درخت ایکہ کی پوجا کرتے تھے۔ علاوہ شرک کے ان میں کم تولنے ناپنے کا بھی مرض تھا۔ چنانچہ حضرت شعیب علیہ السلام نے علاوہ توحید وغیرہ کی عام دعوت کے خاص معاشری معاملات کی اصلاح اور بندوں کے حقوق کی حفاظت کی طرف بڑے زور سے توجہ دلائی۔ لوگوں کو ناپ تول میں کمی کر کے نقصان پہنچانے سے سختی سے منع فرمایا۔ راستوں میں گھات لگا کر بیٹھنے اور مسافروں کا مال لوٹنے سے بھی منع فرمایا اور اس کفر و شرک اور ناحق لوٹ مار اور کم تول کر نقصان پہنچانے کو فسا د قرار دیا اور ان ساری باتوں سے نہایت حکمت سے منع فرماتے رہے۔مگرقوم کے متکبر سردار باز نہ آئے اور انہوں نے یہ طعنہ بھی دیا کہ کیا تمہاری نماز ہمیں اپنے مالوں میں اپنے کاروبار میں اپنی مرضی کرنے سے روکتی ہے اور ان کی بندگی کرنے سے بھی روکتی ہے جن کی بندگی ہمارے باپ دادا کرتے تھے۔اور پھر دھمکی دی کہ اگر آپ آئے دن کی نصیحتوں اور منع کرنے سے باز نہ آئے تو ہم آپ کو اور آ پ کے ایمان لانے والے ساتھیوں کو اپنی بستی سے ضرور نکال باہر کریں گے۔ اس پر شعیب علیہ السلام نے دعا کی ۔ اے ہمارے رب! آپ ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیں۔آپ ہی سب سے بہتر انصاف کرنے والے ہیں۔ پس اللہ کے حکم سے اس گستاخ مجرم قوم کو زلزلے نے آ پکڑا اور وہ ا پنے گھروں کے اندر اوندھے پڑے رہ گئے۔ وہ ایسے فناء ہوئے جیسے کبھی بسے ہی نہ تھے ۔ اپنے پیغمبر اور اس کے ساتھیوں کو بستی سے نکالنے کی دھمکی دے رہے تھے مگر خود ہی نہ رہے نہ ان کی بستیاں رہیں اور وہ جوکہتے تھے کہ شعیب علیہ السلام کے اتباع کرنے والے خراب ہوں گے۔ سو خود وہی خراب اور خاسر ہو کر رہے۔
قوم کی ہلاکت کے بعد شعیب علیہ السلام نے کہا اے میری قوم! میں تم کو اپنے رب کا پیغام پہنچا کر تمہاری خیر خواہی کر چکا تھا مگر تم نے پروا نہ کی۔ اب میں تم کافروں پر کیا افسوس کروں۔
(نوٹ: ۔ کہتے ہیں زلزلے سے پہلے سائبان کی طرح ابر آیا، اس میں سے آگ برسی ، پھر نیچے سے زمین کو بھونچال آیا اور سخت ہولناک آواز آئی ، اس طرح شعیب علیہ السلام کی قوم تباہ ہو کر اپنے انجام کو پہنچی)۔
No comments:
Post a Comment