Monday, 6 January 2014

HAZRAT ADAM ALYEH SALAM


حضرت آدم علیہ السلام
آپ سب کو معلوم ہے اللہ سب سے بڑا ہے۔ اس نے ہم سب کو پیدا کیا اور وہی ہماری ضرورتیں پوری کرتا ہے۔اسے کسی شے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جب ہم نہیں تھے بلکہ جب کچھ بھی نہیں تھا، اللہ اس وقت بھی موجود تھا۔ پھر اللہ نے فرشتوں کو نور سے پیدا کیا ۔ ان کو کھانے پینے کی حاجت نہیں۔ وہ صرف اللہ کی حمد بیان کرتے رہتے ہیں، یہی ان کی روحانی غذا ہے ۔ وہ اللہ کاہر حکم مانتے ہیں اور کبھی نافرمانی نہیں کرتے۔ فرشتے بڑی زبر دست طاقت رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالی کے احکامات پر عمل کرتے ہیں ۔ ان میں بعض کے ذمیّ بعض خاص کام ہیں۔ بعض فرشتے بعض دوسرے فرشتوں کے ماتحت ہیں۔ ان کے چار سردار ہیں ان سردار فرشتوں میں جبرائیل سب سے اونچا مقام رکھتے ہیں کیونکہ وہ اللہ کے حکم (وحی) کو اس کے نبیوں پیغمبروں تک پہنچانے والے اور دیگر اہم مہمات پر مامور ہیں۔ 
پھر اللہ پاک نے جن پیدا کیئے ۔ ان کو آگ سے پید ا کیا گیا۔ اسی وجہ سے ان کی طبعیت میں سرکشی زیادہ ہے۔ لیکن نیکی کا مادہ ان میں بھی ہے۔ چنانچہ اس نسل کا ایک ابلیس نامی جن فرمانبرداری کے بہت بلند مقام پر پہنچ گیا۔ اس پر اللہ نے اسے فرشتوں کی مجلس میں شامل کر لیا ۔ 
اس کے بعد اللہ پاک نے ایک اور قسم کی مخلوق کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا وہ کہاں رہے گی، اس کی غذا کیا ہو گی اور وہ غذا یا خوراک کہاں سے آئے گی، اس کابھی بندوبست کیا۔ دو دن میں اللہ نے ہماری اس زمین کو پیدا کیا ۔ اللہ کے ہاں ایک دن کا پیمانہ ہمارے چوبیس گھنٹوں والے دن کے ایک ہزار سال کے برابر ہے ۔ اس طرح دو دن سے مراد ہمار ے چار ہزار سال ہے ۔ یہ جتنا بڑا کارنامہ تھا اتنا ہی وقت اس کے لیے درکار تھا۔ مزید دو دن میں زمین پر پہاڑ کھڑے کر کے اس کے اندر آنے والی نئی مخلوق کی خوراکیں رکھ دیں ۔ پھر مزید دو دن میں آسمان کے سات طبقے پیدا کیئے اور ہر آسمان کے کاموں کا پروگرام اس کو دے دیا۔ ہماری دنیا کے آسمان کو چاند ستاروں سے سجا دیا۔ دن کے اجالے کے لیے اور ضروری حرارت کے لیے روشن سورج پیدا کر دیا۔ آدم علیہ السلام کو اپنا نائب بنا کر ہماری اس زمین پر اتارنے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ فرشتوں نے عرض کیا کہ کیا ہم آپ کی حمد اور عبادت کے لیے کافی نہیں؟ مگر اللہ نے مختصر سا جواب دیا کہ جو ہم جانتے ہیں تم نہیں جانتے۔ پھر بھی ان کے اطمینان کے لیے ان کے سامنے آدم علیہ السلام کی خوبیوں کا امتحان کرادیا۔ وہ یوں ہوا کہ اللہ تعالی نے فرشتوں سے کچھ چیزوں کے نام پوچھے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو نہیں جانتے ۔ پھر آدم علیہ السلام کو بلوایا جسے اللہ نے مٹی سے پیدا کر کے اس میں اپنی روح پھونکی تھی اور کل چیزوں کے نام سکھائے تھے اور اس سے کہا کہ تم ان چیزوں کے نام بتاؤ ۔ اس نے ان سب چیزوں کے نام بتا دیئے ۔ یوں فرشتوں پر آدم علیہ السلام کی علمی فضلیت ثابت ہو گئی۔ اللہ نے پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم علیہ السلام کے سامنے جھک جاؤ۔ سب فرشتوں نے اللہ کا حکم مان کر آدم علیہ السلام کو سجد ہ کیا۔ مگر ابلیس نے سجدہ نہ کیا ۔ وہ کہنے لگا کہ میں آگ سے پیدا ہوا ہوں جبکہ آدم مٹی سے بنایا گیا ہے ۔ میرا مقام بلند ہے جبکہ آدم کی حیثیت معمولی ہے۔ میں اس کے سامنے کیوں سجدہ کروں۔ یہ جملہ غرور کا تھا۔ اس غرور والے جملے پر اللہ نے اس کو دھتکار دیا اور فرشتوں کی مجلس سے نکل جانے کا حکم دیا۔ اس کے بعد اللہ نے آدم علیہ السلام کا ساتھ دینے کے لیے ان کی بیوی حواّ کو پیدا کیا اور جنت میں رہنے کا حق دیا۔ ہر قسم کے پھل ان کی غذا تھے۔ ان کے علاوہ ہزار نعمت تھی۔مگر آدم علیہ السلام کی فطرت میں جو اللہ پاک نے خیر اور شر کا مادہ رکھا تھا اس کی آزمائش کی خاطر یہ بھی حکم دیا کہ صرف ایک فلاں پیڑ ایسا ہے جس کا پھل کھانامنع ہے ۔

ابلیس جسے عرف عام میں شیطان کہتے ہیں اس کے دل میںآدم کا حسد تھا ۔ جب آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے دھتکار ا گیا تو اس نے چیلنج دیاکہ میں بھی اس آدم کو اور اس کی اولاد کو ا للہ کا نافرمان بنا کر چھوڑوں گا۔ پس اس نے آدم اور حواّ کو قسمیں کھا کر یقین دلایا کہ جس پیڑ سے آپ کومنع کیا گیا اسے کھا لو گے تو تم ہمیشہ جنت میں رہ کر عیش کرو گے۔ وہ دونوں اس کے ورغلانے میں آگئے ،یہ بھول گئے کہ اس پیڑ کا پھل کھانے سے اللہ نے منع فرمایا تھا ۔ انہوں نے وہی ممنوعہ پھل کھا لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا جنتّی لباس اپنے آپ اتر گیا۔ قدرتی حیا کی وجہ سے وہ دونوں اپنے جسم کے ننگے پن کو چھپانے کے لیے درختوں کے چوڑے پتوں سے بدن ڈھانپنے لگے۔ وہ شرمندہ بھی بہت ہوئے کہ ہم ناحق شیطان کے ورغلانے میں آ کر اللہ پاک کی نافرمانی کر بیٹھے۔ انہوں نے رو رو کر توبہ کی۔ ایک مدت دراز تک روتے رہے ۔پھر اللہ ہی سے توبہ کی دعا سیکھ کر اپنے گناہ کا اقرار کر کے بخشش مانگنے لگے۔ اللہ پاک نے ان کی توبہ کی دعا قبول کی اور معافی دے دی۔ اللہ تعالی نے انہیں ہدایت کی راہ دکھا کر ان کو پھر اپنی رحمت کے لیے چن لیا۔ مگر ساتھ ہی حکم دیا کہ تم سب (آدم اور ان کی زوجہ اور لعنتی ابلیس) زمین پر اتر جاؤ۔ تم ایک دوسرے کے دشمن بن کر رہو گے ۔ یعنی ابلیس دشمنی سے آدم اور اس کی اولاد کو ورغلا کر ان سے اللہ کی نافرمانی کرائے گا اور آدم اور اس کی اولاد دشمن کے وار سے بچ کر اللہ کی اطاعت پہ قائم رہنے کی کوشش کریں گے۔ بچو! دشمنی، نفرت، غصہ ، حسد اور ظلم و زبردستی شیطان کے اعمال ہیں ، ان سے بچنا چاہیے۔
زمین پر اتارتے وقت اللہ پاک نے آدم اور حواّ کو تسلی دی کہ جسمانی غذا تم کو زمین سے ملے گی۔روح کی غذا ہم آسمان سے ہدایت کی صورت میں اتارتے رہیں گے۔ اور اسی ہدایت کا نام پیغمبری ہے۔اور اس معنی میں آدم علیہ السلام جو ہم سب انسانوں کے بڑے باپ یعنی جدامجد ہیں اور وہ پہلے پیغمبر بھی ہیں ۔تما م پیغمبروں کا (پہلے سے لے کر آخر تک )پیغام یہی ہے کہ اللہ پاک کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، کوئی اس کی خدائی میں شریک نہیں ، نہ ذات میں، نہ صفات میں اور نہ اختیارات میں ، کوئی نہیں، کوئی نہیں،ذرہ برابر بھی نہیں۔ دوسرے درجے پریہ پیغام ہے کہ اس دنیامیں تمہارا ٹھکانہ عارضی ہے ۔پھر مرنے کے بعد تم سب کو دوبارہ زندہ کیا جا ئے گا، اور انصاف کے دن یعنی قیامت کے روز تم سب کو اللہ احکم الحکمین کے سامنے پیش ہو کر دنیا کی زندگی کا حساب دینا ہو گا۔ کس نے اللہ کے عطا کردہ اختیارات کو، اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو اللہ کی اطاعت میں اس کی رضا کے کاموں میں استعمال کیا اور کس نے شیطان کے ورغلانے سے عیاشی ، لذت، غروراور آرام طلبی ایسی خواہشوں کی پیروی میں استعمال کیا۔ سب انسانوں کے کئے ہوئے سب کام لکھے جاتے ہیں جو دنیا میں انسان کے ساتھ مقرر کیئے گئے فرشتوں نے ساتھ ساتھ تیار کیئے ہوں گے یہ لکھی ہوئی تحریر اعمال نامہ کہلائے گی۔ ان اعمال ناموں کا قیامت کے روز وزن ہو گا۔ جن کی نیکیوں والے دفتر کا تول بھاری ہو گا ان کو اپنے آبائی گھر جنت میں عزت کے ساتھ ٹھکانہ نصیب ہو گا اور جن کے نیکیوں کے تول ہلکے ہوں گے ان کے لیے جہنم کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ 
آدم کے بیٹوں کی قربا نی کی کہانی
آدم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے ہابیل اور قابیل ۔ باپ نے ہابیل کی شادی کرنے کے لیے ایک لڑکی تجویز کی۔ قابیل نے بھی اسی سے شادی کرنا چاہی۔ باپ نے کہا ’’تم دونوں اللہ کے نام کی قربانی دو۔ جس کی قربانی قبول ہو جائے لڑکی اس کے نکاح میں دی جائے گی اور دوسرا بھائی اس آسمانی فیصلے کو مان لے ۔‘‘ اس زمانے میں قربانی کی مقبولیت کی یہ شکل تھی کہ آسمان سے آگ آ کر قربانی کو جلا دیتی تھی۔ہابیل بھیڑ بکریوں والا تھا اس نے ایک خوبصورت پلا ہوا مینڈھا قربانی کے لیے رکھا۔ قابیل کھیتی باڑی والا تھا اس نے گندم کے خوشے جمع کر کے رکھے۔ آسمانی آگ آئی اور اس نے ہابیل کے مینڈھے کو بھسم کر دیا جبکہ قابیل کے گندم کے خوشے ویسے کے ویسے پڑے رہے۔اس پر قابیل حسد سے جل بھن گیا۔اور اس نے اپنے بھائی کو قتل کرنے کی دھمکی دی۔بھائی نے کہا اس میں میرا کیاقصور ہے۔ اللہ تقویٰ والوں کی قربانی قبول کرتا ہے۔ اگر تم مجھے قتل کرو گے تو تم پر اپنے دوسرے گناہوں کے ساتھ ساتھ میرے اس قتل کا گناہ بھی آ جائے گا۔ اور میں تمہیں قتل کرنے کیلئے ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا۔ کیونکہ ایک تو قتل بذات خود بہت بڑا گناہ ہے دوسرے بھائی کا قتل قطع رحمی میں شمار ہوتا ہے۔ قطع رحمی سے مراد ہے کہ اپنے رشتہ داروں،عزیزوں سے ہمدردی نہ کرنا۔بچو! اللہ نے اپنے عزیزوں ،رشتہ داروں کے بڑے حقوق مقرر کیئے ہیں حتی کہ صدقہ خیرات وغیرہ بھی پہلے رشتہ داروں اور غریبوں کو دینے کا حکم دیا ہے مگر اس کامطلب یہ نہیں کہ اپنے عزیزوں ، رشتہ داروں کے لیے ناجائز کام کئے جائیں۔ قطع رحمی ایسا برُا گناہ ہے کہ اس کی سزا توآخرت سے پہلے دنیا میں بھی مل کر رہتی ہے ۔مگر قابیل نے بھائی ہابیل کو حسد کی وجہ سے مار ڈالا ۔ 
اب قابیل اپنے بھائی کو قتل تو کر بیٹھا مگر اس پر شرمندہ بھی ہوا اور پریشان بھی رہنے لگا ۔وہ اس سوچ میں پڑ گیا کہ اب بھائی کی لاش کو کہاں چھپاؤں۔ چونکہ یہ موت دنیا میں آدم علیہ السلام کی نسل میں پہلی موت تھی اس لیے لاش کے دفن کا طریقہ کسی کو معلوم نہیں تھا۔ پس اللہ نے اس کے سامنے اچانک ایک کوّے کا منظر پیش کیا جس نے پنجوں سے زمین کرید کر ایک گڑھا بنایا۔ پھر اس نے اس گڑھے میں دوسرے مرے کوّے کی لاش کو چھپایا ۔ اس پر قابیل نادم ہوااور بولا ’’ہائے افسوس‘‘ مجھ میں اس کوّے جیسی عقل بھی نہ آئی کہ اپنے بھائی کی لاش کو چھپا دیتا۔ اسی وجہ سے اللہ پاک نے بعد میں آسمانی کتاب تورات میں حکم نازل فرمایا کہ جو کوئی اپنے نفس کی خواہش کی پیروی میں کسی کو مار ڈالے تو گویا اس نے تمام دنیا کے لوگوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی کی جان کو بچا لیا گویا اس نے تمام لوگوں کو مرنے سے بچا لیا۔یہ حکم قرآن مجید میں بھی دہرایا گیا ہے۔
نوٹ: ۔ ناحق قتل گناہ کبیرہ ہے ۔ اس سے ضرور بچا جائے۔ اس جرم کے مقدمے کا فیصلہ قیامت کے روز سب سے پہلے کیاجائے گا اورمقتول مسلمان ہو یا کافر قاتل کی سزا ہر صور ت جہنم کا قید خانہ ہے جہاں اسے ہمیشہ رہناہو گا۔

No comments:

Post a Comment