لپ سٹک کی تاریخ

1884ء میں یورپی ملک فرانس کے دارلحکومت پیرس میں پہلی مرتبہ لپ سٹک کو میک اپ کے ایک اہم جزو کے طور پر کمرشل انداز میں متعارف کروایا گیا تھا۔ شروع میں اس کو مشکوک نظروں سے دیکھا گیا اور اس کا استعمال صرف تھیٹر یکل اداکارائیں کرتی تھیں۔ جبکہ 1983ء میں پہلی مرتبہ لپ اسٹک کی موجودہ شکل کو ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم میں ہونے والی ایک عالمی نمائش میں متعارف کروایا گیا ایمسٹر ڈم کی نمائش کے چند ماہ بعد لپ سٹک کی تجارتی بنیاد پر دریافت میں پیرس کے خوشبو ساز ادارے کے دو ماہرین کا سمیٹک شامل تھے۔ ایمسٹر ڈم میں انیسویں صدی کی فرنچ اداکارا بیر نارٹSarah Bernhardtبھی موجو د تھیں۔ اور انہوں نے لپ سٹک والے پین کو محبت کا قلم قرار دیا۔ ابتدا ء میں لپ اسٹک نہ صرف مہنگی بلکہ ایک لگژری آئٹم تھی۔ عوامی سطع پر اس کو پذیرائی گزشتہ صدی میں بیس کی دہائی میں خاموش فلموں کے دور میں ملی۔ عام طور پر ایک لپ اسٹک کا 60فیصد حصہ موم اور تیس فیصد مختلف آئلز پر مشتمل ہوتا ہے اس کے علاوہ اس میں مختلف خوشبوئیں اور رنگ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ 1912ء میں امریکا کی فیشن ایبل خواتین نے لپ اسٹک کو قبول کر لیا تھا ۔ یورپی فیشن ایبل خواتین نے امریکی خواتین کے لپ سٹک استعمال کرنے کے نو سال بعد اسے اپنا نا شروع کیا تھا۔ 1921ء میں ایک ایسا سال تھا جب اس وقت کے تجارتی اور سیاسی منظر پراجارا داری کے حامل ملک Great Britian کے دارلحکومت لندن کی خواتین نے اسے پسند کرنا شروع کیا اور یہی اس کی عام مقبولیت کا باعث بنا۔ انیسویں صدی کی پہلی چوتھائی کے دوران لندن فیشن کا گھر خیال کیا جاتا تھا۔ جب کہ ہزاروں سال پہلے قدیمی مصری تہذیب میں فرعین کی ملکائیں بھی ہونٹوں پر سرخ رنگ کا استعمال کرتی تھیں۔ ان میں قلوہ پطرہ اور نفرا اتیتی بھی شامل ہیں۔ اس وقت سرخ رنگ کو چھوٹی چھوٹی ڈبیوں میں محفوظ رکھا جاتا تھا اور انگلی یا پھر برش کی مدد سے ہونٹوں پر لگایا جاتا تھا۔ اس وقت یہ عقیدہ تھا کہ ہونٹوں پر رنگ لگانے سے شیطانی قوتیں انسان کے جسم میں نہیں گھس سکتین۔ سولہویں صدی میں انگلستان میں سفید پاؤڈر سے چہرے کو سفید اور سرخ رنگ سے ہونٹ رنگنا اشرافیہ طبقے کا معروف فیشن تھا۔
No comments:
Post a Comment